بندہ اس قابل تو نہیں ہے کہ حضرتِ استادِ گرامی مولانا عبدالقدوس خان قارنؒ پر کچھ لکھے، کیونکہ یہ کام تو اس میدان کے بڑے بڑے اصحابِ قلم اور دانشوروں کا ہے۔ بندہ نہ تو مستقل لکھاری ہے اور نہ ہی تحریر کے میدان میں بندہ کو کوئی مہارت حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ استاد زادوں کا پیغام ملا کہ: ”میں حضرت استاد جی کے حوالے سے اپنی یادیں پیش کروں“ تو یہ پیغام میرے لیے کسی حکم سے کم نہیں تھا۔ اس لیے قلم و کاغذ لے کر کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
یہ محض مبالغہ آرائی نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت استاد جی مولانا عبدالقدوس خان قارنؒ کوئی رسمی عالم، مدرس، فقیہ اور محدث نہیں تھے بلکہ حضورِ اقدس ﷺ کی سیرتِ طیبہ کی ایک عملی تصویر تھے، صورت میں بھی اور سیرت میں بھی۔ حضرت استاد جی کی بالکل وہی کیفیت تھی کہ جب دیکھنے والا دور سے اور پہلی بار دیکھتا تو مرعوب ہوتا۔ حضرت استاد جی کے چہرے پر ایسا جلال طاری ہوتا تھا کہ دیکھنے والا مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا، لیکن جب قریب سے دیکھتا اور کچھ شناسائی ہو جاتی تو ایک دوست کی طرح آپ سے بے تکلف ہو جاتا اور ایک قریبی اور بے تکلف دوست کی طرح پاتا۔
حضرت استاد جی کو میں نے پہلی بار سنہ 1991ء میں دیکھا، جب میں دورۂ تفسیر کے لیے مدرسہ نصرۃ العلوم آیا تھا۔ میرا درجہ رابعہ کا سال تھا۔ حضرت استاد جی کی اقتدا میں نمازیں پڑھتا اور فجر کے بعد ان کے درسِ قرآن میں ضرور شریک ہوتا۔ پھر سن 1996ء میں میں نے مدرسہ نصرۃ العلوم میں دورۂ حدیث شریف میں داخلہ لیا تو یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہماری ترمذی شریف مکمل حضرت استاد جی کے پاس تھی اور استاد جی کے سامنے عبارت پڑھنے کا موقع بھی اللہ تعالیٰ نے مرحمت فرمایا۔
حضرت استاد جی کے سامنے عبارت پڑھنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ معمولی سی معمولی غلطی پر بھی حضرت استاد جی تنبیہ بھی فرماتے اور ٹوکتے بھی تھے۔ ترمذی جلدِ ثانی کی عبارت دو چار اور ساتھیوں نے بھی پڑھنے کی کوشش ضرور کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ بالآخر چند دنوں کے بعد ترمذی شریف مکمل کی عبارت پڑھنے کا اللہ تعالیٰ نے موقع دیا۔ دورۂ حدیث والے سال حضرت استاد جی نے کئی مرتبہ کتابوں کی شکل میں انعام سے بھی نوازا۔
حضرت استاد جی: "ان اللہ جعل الحق علی لسان عمر وقلبہ"، ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان و دل پر حق کو جاری فرما دیا ہے“ (ترمذی شریف)، کا عملی مصداق تھے۔ حق ڈنکے کی چوٹ بیان کرتے تھے، چاہے اس حق کی ضد میں کوئی رشتہ دار یا تعلق والا آتا ہو، اِس کی بالکل پرواہ نہیں کرتے تھے۔ حق کے معاملہ میں کسی قسم کا سمجھوتہ قبول نہیں فرماتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے: ”حق کے معاملہ میں کسی قسم کی لچک اور سمجھوتہ کرنا نہ ہمارے دین کا مزاج ہے نہ میرا مزاج ہے“۔
"خافض الطرف، نظرہ الی الارض اطول من نظرہ الی السماء، جل نظرہ الملاحظۃ، یسوق اصحابہ ویبدا من لقی بالسلام" (شمائل ترمذی)
ترجمہ: "آپ ﷺ کی نگاہ نیچی رہتی تھی، آپ کی نظر زمین کی طرف آسمان کی طرف دیکھنے سے زیادہ ہوتی تھی۔ آپ ﷺ کی زیادہ تر نظر غور و فکر اور اعتبار کی نظر ہوتی تھی۔ آپ اپنے اصحاب کو ساتھ لے کر چلتے اور جس سے بھی ملاقات کرتے سبقت کے ساتھ سلام میں ابتدا فرماتے تھے۔"
اس کا بھی عملی مصداق تھے۔ ہمیشہ ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوتیں۔ میں نے کبھی ان کو سر اٹھائے ہوئے اور نظریں بلند کیے ہوئے چلتے نہیں دیکھا۔ چاہے وہ مسجد میں نماز پڑھانے کے لیے مصلے پر جا رہے ہوں یا راستہ چل رہے ہوں، ہمیشہ ان کی نظر زمین پر ٹکی ہوتی تھی۔ عاجزی، انکساری اور سادگی حضرت استاد جی کی زندگی میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور یقیناً یہ ایسی خوبیاں اور صفات تھیں کہ رشک آتا تھا۔
ایک دفعہ ایک سفر کے دوران حافظ آباد (مولانا نعمت اللہ صاحب دامت برکاتہم، مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم) کے کسی عزیز کے جنازے پر جا رہے تھے۔ مولانا ڈاکٹر خالد محمود لاہوری، فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم، ہمارے ڈرائیور تھے۔ راستے میں گاڑی کا پٹرول ختم ہوا۔ پٹرول پمپ کچھ فاصلے پر تھا۔ ہم نے استاد جی سے کہا: ”حضرت! آپ گاڑی میں تشریف رکھیں، گرمی ہے، ہم گاڑی کو دھکا لگاتے ہیں۔“ لیکن حضرت استاد جی نہیں مانے۔ فرمایا: ”میں آپ لوگوں سے کمزور ہوں، پہلے میں گاڑی کو دھکا لگاؤں گا۔“ پھر پٹرول پمپ تک برابر استاد جی ہمارے ساتھ گاڑی کو دھکا لگاتے رہے۔
واپسی پر استاد جی نے فرمایا: ”راستے میں ہمارے ایک شاگرد کسی مسجد میں امام ہیں، ان سے ملاقات کر کے جاتے ہیں۔“ جب ان کی ملاقات کو پہنچے تو مولوی صاحب استاد جی کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کہنے لگے: ”استاد جی! آپ؟“ مولوی صاحب استاد جی کی آمد پر خوش بھی ہو رہے تھے، خوشی کے آنسو بھی تھے اور افسوس بھی کر رہے تھے کہ: ”استاد جی! آپ نے پہلے بتایا نہیں۔“ استاد جی نے مسکرا کر مزاحاً فرمایا: ”مولوی صاحب! نہ ہم آپ کے پاس کھانا کھائیں گے اور نہ رات کو ٹھہریں گے۔ مجھے پتہ ہے مولوی حضرات بیویوں سے ڈرتے ہیں۔ ہم صرف آپ سے ملاقات کے لیے آئے ہیں۔ ہم نے نماز پڑھنی ہے، نماز پڑھ کر ہم نے فوراً چلے جانا ہے۔“ اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، استاد جی نے مولوی صاحب کی کچھ خدمت بھی فرمائی، رخصت لیتے وقت ان کی مٹھی میں کچھ پیسے پکڑائے کہ: ”بچوں کے لیے کچھ لے کر جانا، میں خالی ہاتھ آیا ہوں، کچھ ساتھ نہیں لایا ہوں۔“ یہ دیکھ کر اور سن کر ہماری بھی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ ایک استاد کی اپنے شاگرد کے ساتھ اتنی بھی محبت ہو سکتی ہے۔
حضرت استاد جی جب ”حادی الارواح“ کے ترجمہ سے فارغ ہو گئے تو عصر اور مغرب کے بعد مجھے اپنے ساتھ بٹھاتے تھے۔ اردو ترجمہ کی پروف ریڈنگ بھی ہوا کرتی تھی۔ استاد جی اصل عربی کتاب ”حادی الارواح“ بھی سامنے رکھتے تھے کہ کسی لفظ کا ترجمہ رہ نہ جائے۔ اور ساتھ مجھے فرماتے تھے: ”اگر کسی لفظ کا ترجمہ رہ جائے یا ترجمہ میں کوئی دوسرا لفظ آپ کو زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہو تو مجھے بتا دیا کریں۔“ اپنے شاگردوں پر استاد جی اتنا اعتماد فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی موقع پر میں نے کہہ دیا: ”استاد جی! یہاں پر یہ لفظ مجھے زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔“ تو اکثر وہ لفظ تجویز فرماتے۔ یہاں تک کہ جب کتاب کا نام تجویز فرمانے لگے تو فرمایا: ”یہ دو نام ہیں، کون سا زیادہ اچھا اور مناسب ہوگا؟“ پھر احقر کی تجویز پر کتاب کا نام: ”جنت کے نظارے“ رکھ دیا۔
حضرت استاد جی اپنے شاگردوں کے ساتھ مذاق اور دل لگی بھی فرمایا کرتے تھے۔ دورۂ حدیث والے سال ہمارے ایک ساتھی، جس کا نام گل ولی تھا، مغرب کی نماز کے بعد ہم استادوں کو دبانے کے لیے تالاب کے پاس والے برآمدے میں بیٹھ جاتے۔ ایک دن حضرت استاد جی فرمانے لگے: ”گل ولی جب کوئی مسئلہ پوچھتا ہے تو کہتا ہے: ہمارے علاقے میں ایک مرد تھی اور ایک عورت تھا۔“
چونکہ ساتھی پٹھان تھے اور اردو بھی کمزور تھی، سکول بھی نہیں پڑھے ہوئے تھے۔ لیکن استادوں کی بات سمجھ گئے۔ کہنے لگے: ”استاد جی! میں بھی پٹھان ہوں، آپ بھی پٹھان ہیں۔ میں تو پھر بھی اتنی اردو بول لیتا ہوں، آپ پشتو کے دس لفظ بول دیں۔ آپ تو پشتو کے دس لفظ بھی نہیں بول سکتے۔“ اس پر استاد جی نے خوب زور کا قہقہہ لگایا، ساتھیوں نے بھی قہقہہ لگایا۔ استاد جی فرمانے لگے: ”آج گل ولی نے مجھے لاجواب کر دیا۔“
ایک دفعہ غالباً استاد جی کسی سفر پر تھے۔ مجھے فرمایا: ”آپ نے میری جگہ پیپلز کالونی تقویٰ مسجد میں جمعہ پڑھانا ہے۔“ میں نے کہا: ”استاد جی! مجھے تقریر کرنی بھی نہیں آتی اور میری اردو بھی کمزور ہے۔“ استادوں نے فرمایا: ”آپ نے ہی جمعہ پڑھانا ہے۔“ استاد جی جب سفر سے واپس تشریف لائے تو اگلے دن مجھے فرمانے لگے: ”ساتھیوں نے آپ کی تقریر پسند کی ہے۔ میں جب بھی کسی سفر پر جاؤں گا، میری جگہ آپ ہی پڑھائیں گے۔“ پھر دو تین مرتبہ مزید استادوں کی جگہ میں نے جمعہ پڑھایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ نہ تو میری تقریر اچھی تھی، نہ کوئی علمی گفتگو تھی، صرف استادوں کا اعتماد تھا اور میری حوصلہ افزائی کرنی تھی۔
چند سال پہلے میں نے استاد جی مولانا قاضی حمید اللہ خان صاحبؒ کے خطبات چھاپنے کا ارادہ کیا تو استاد جی مولانا عبدالقدوس خان قارنؒ سے مشورہ کیا کہ اس کی ترتیب کیا ہونی چاہیے؟ استاد جی نے فرمایا کہ: ”قاضی صاحبؒ کی تقریر کے الفاظ تبدیل نہیں کرنے۔ جو ان کی تقریر کے اپنے الفاظ ہیں وہی لکھنے ہیں، اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ ہو۔ مرچ مصالحہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ قاضی صاحبؒ کا اپنا اندازِ بیان تھا، اس اندازِ بیان میں مٹھاس اور چاشنی ہے۔“ اور فرمایا کہ: ”آخر میں اگر ممکن ہو تو ایک دو خطبے اپنے بھی ساتھ لگا دیں۔“ استاد جی نے فرمایا: ”آپ نے مدرسہ نصرۃ العلوم کی جامع مسجد میں ایک جمعہ پڑھایا تھا، جب حضرت مہتمم صاحب باہر کے ایک سفر پر تھے۔ میں نے خود آپ کی تقریر سنی تھی۔ آپ کا اندازِ بیان اچھا تھا، نمازیوں نے بھی پسند کیا تھا۔“ حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ صرف استادوں کی طرف سے میری حوصلہ افزائی تھی، کیونکہ استاد جی کی یہ خاص خوبی تھی کہ اپنے شاگردوں کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔
تقریباً تین مہینے پہلے کی بات ہے، ہمارے ایک دوست حافظ محمد اکمل نے بتایا کہ: ”استاد جی قارن صاحب آپ کے گھر تشریف لائے تھے۔ دو تین دفعہ گھنٹی بھی بجائی، دروازہ بھی کھٹکھٹایا، لیکن بچوں نے بتایا کہ ابو گھر نہیں ہیں۔ استاد جی نے آپ کا فون بھی لگایا لیکن آپ کا فون نہیں لگا۔“ میں جب گھر پہنچا تو بچوں سے پوچھا کہ: ”استاد جی قارن صاحبؒ کل گھر پر تشریف لائے تھے؟ آپ لوگوں نے مجھے بتایا نہیں؟“ گھر والے کہنے لگے کہ: ”بچے نے اوپر کھڑکی سے دیکھا، بچے نے پہچانا نہیں کہ کون ہے تو بچے نے اوپر سے ہی آواز دی کہ ابو گھر نہیں ہیں۔“
مجھے بہت افسوس ہوا کہ استاد جی گھر تشریف لائے لیکن مجھ سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ اگلے دن میں نے ظہر کی نماز اپنی مسجد میں پڑھائی اور نماز کے بعد آکر استاد جی کے پیچھے ظہر کی نماز نفل کی نیت سے مدرسہ میں ادا کی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حاضرِ خدمت ہوا۔ استاد جی نے بڑی خوشی کا اظہار فرمایا، بڑی گرمجوشی سے ملے۔ میں نے کہا: ”استاد جی! پہلے تو میں معذرت خواہ ہوں کہ آپ گھر تشریف لائے تھے لیکن میں گھر پر موجود نہیں تھا، آپ سے گھر پر ملاقات بھی نہیں ہو سکی اور بچوں نے بھی آپ کو نہیں پہچانا۔“ استاد جی فرمانے لگے: ”مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ ٹھیک ہیں۔ بات دراصل یہ تھی کہ میں چند دن پہلے حافظ آباد ایک حکیم کے پاس گھر والوں کی دوائی لینے گیا ہوا تھا تو حکیم صاحب نے بتایا کہ مولانا عبدالرحیم صاحب کو بھی فالج ہو گیا ہے۔ میں نے کہا کہ ہاں! مجھے بھی پتہ چلا ہے کہ مولانا عبدالرحیم بلوچ صاحب کو بھی فالج کا اٹیک ہوا ہے۔ حکیم صاحب کہنے لگے کہ میں مولانا عبدالرحیم بلوچ صاحب کی بات نہیں کر رہا، مولانا عبدالرحیم صاحب جو حذیفہ خان سواتی کے سسر ہیں، ان کی بات کر رہا ہوں، ان کو فالج کا اٹیک ہوا ہے۔ تو میں تو یہ سن کر بہت پریشان ہو گیا۔ تو میں آپ کا پتہ کرنے آیا تھا کہ مجھے تو معلوم بھی نہیں ہے، کسی نے بتایا بھی نہیں ہے۔ آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ ٹھیک ہیں۔“ پھر استاد جی نے ڈھیر ساری دعائیں دیں۔
یہ چند ٹوٹے پھوٹے جملے اور کلمات ہیں جو میں نے لکھنے کی جسارت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے استاد جی کو جن خوبیوں، کمالات اور صفات سے نوازا تھا، استاد جی صحیح معنوں میں اپنے والد اور میرے شیخ و استاد امامِ اہلِ سنت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے علمی جانشین تھے۔ حضرت استاد جی کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ مدتوں تک پُر نہیں ہو سکے گا۔ لیکن یہ قانون ایسا ہے کہ ہم اس دنیا میں جانے ہی کے لیے آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ استاد جی مولانا عبدالقدوس خان قارنؒ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ان کی بشری لغزشوں سے درگزر فرمائے، ان کے تمام دینی و مسلکی خدمات کو قبول فرمائے، ان کے بچوں و اہلِ خانہ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(۱۲ ستمبر ۲۰۲۵ء)