جب ذہن استادِ محترم حضرت مولانا عبد القدوس خان قارن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تذکرے کی طرف بڑھتا ہے تو انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ زندگی کی کون سی جہت کو سامنے لائے؟ وہ ایک ایسی ہمہ گیر شخصیت تھے کہ جس پہلو کو بیان کیا جائے، ایک کائنات سامنے کھل جاتی ہے۔ ان کی علمی گہرائی، تدریسی مہارت، کامل مدرس، کتابت کا ماہر، دلائل کا بادشاہ، نصیحتوں کی حکمت، بیان میں قرآن و حدیث سے مثالیں، اخلاق کی گرمی اور مزاح کی چاشنی ہر رخ اپنی مثال آپ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں نقلی و عقلی دلائل کے ساتھ بات سمجھانے کا ایسا سلیقہ عطا فرمایا تھا جو کم ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ خاص طور پر تدریسِ حدیث میں ان کا انداز بے مثال تھا۔ دورانِ درس کبھی ایسا نہ ہوا کہ محض عبارت پڑھ کر گزر جائیں۔ تھوڑی سی عبارت کے بعد اس کا ترجمہ کرتے اور ساتھ ہی اگر تشریح مطلوب ہوتی تو وہ بھی بیان کر دیتے، ہر حدیث کو معانی و مفاہیم کی روشنی میں، ترجمۃ الباب سے لے کر جدید اعتراضات کے جوابات تک، پوری شرح و بسط کے ساتھ بیان کرتے۔ گویا شاگرد یہ محسوس کرتا کہ وہ محض ایک عبارت نہیں بلکہ ایک پورا جہان سمجھ رہا ہے۔
دورۂ حدیث کے زمانے میں وہ علیل تھے، مگر بیماری کے باوجود ان کی آواز میں وہی جلال اور وہی تاثیر قائم رہی۔ کبھی کبھی جامعہ کے دروازے سے داخل ہوتے ہوئے ہی ان کی پرجوش آواز سن کر پتہ چل جاتا تھا کہ استاد محترم درس فرما رہے ہیں۔ عبارت پڑھوانے میں وہ نہایت سخت تھے۔ شاگرد خوب تیاری کے بغیر ان کے سامنے جرات نہ کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پرانے فضلاء ان کے اس سختی آمیز لیکن تربیت انگیز انداز کو یاد کرتے ہیں اور اس طالب علم کو بھی یاد رکھا جاتا ہے جو ان کی عبارت پڑھتا تھا۔ کبھی ہنسی مذاق کی محفل سجا لیتے، اور کبھی دل میں اتر جانے والی نصیحتیں فرما دیتے۔
بطور ناظمِ جامعہ ان کا رعب اور وقار دیدنی تھا۔ مگر یہ رعب ان کی محبت اور طلبہ کے ساتھ خوش طبعی کے رنگ میں ڈھل جاتا۔ ایک دن بندہ نے استاد محترم سے پوچھا آپ کے نام کے ساتھ قارن کیوں ہے؟ فرمانے لگے وہ وجہ نہ بتاؤں جو کبھی کبھار والد ماجد (سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ) فرمایا کرتے تھے: قارن سینگوں والے بکرے کو بھی بولتے ہیں، میرا یہ بیٹا مجھ پر جو اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں ان کا دفاع کرتا ہے گویا کہ ان اعتراضات کو اپنے سینگوں سے اٹھا کر دور پھینکتا ہے۔
کھانے میں نہاری ان کی پسندیدہ ڈش تھی۔ دورہ حدیث شریف کے لیے جب بندہ نے اپنے استادِ محترم مولانا خالد محمود صاحب استاد جامعہ اشرفیہ کو بتایا کہ میں نصرت العلوم جا رہا ہوں تو وہ مسکرا کر بولے: "بہت خوب! ہم نے سنا ہے کہ پنجاب میں اگر کوئی ایک مدرس ہے تو وہ مولانا عبد القدوس قارن ہیں۔" کچھ اس طرح کی بات میرے استاد پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر جاوید صاحب نے بھی کہی کہ "مولانا یہ لوگ (زاہد الراشدی و عبد القدوس خان قارن) نایاب ہیں، ان کی قدر کیجئے، کل کو یہ خزانۂ علم ڈھونڈے نہ ملے گا۔"
مجھے یاد ہے کہ جب وہ بیماری کے بعد طویل وقفے سے درسگاہ تشریف لائے تو ان کے صاحبزادے مولانا عبدالوکیل مغیرہ صاحب نے مجھ سے کہا: "استاد جی کو گھر تک چھوڑ دیا کریں، جوتی پہننا بھی ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے وہ بھی دیکھ لیا کریں۔" تب سے جب بھی استاد محترم کو مسجد سے گھر جاتے دیکھتا تو وہاں حاضر ہو جاتا تھا۔ اسی اثنا میں ایک دن طویل کھڑے ہو کر انہوں نے مجھے وکالت کے بارے میں نصیحتیں کیں اور کئی مثالیں بیان فرمائیں۔ بعد میں، بار کونسل کا لائسنس ملنے اور بیٹے کی پیدائش کی خوشی میں میں اپنے محترم استاد حضرت مولانا مفتی خالد محمود صاحب کے ہمراہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ملتے ہی سب سے پہلے یہ سوال کیا " کچہری جانا شروع کیا؟" ہم دونوں حضرات سے وہ نہ صرف خوش ہوئے بلکہ ہمیں اپنے گھر لے گئے اور طویل نشست میں علمی و روحانی تربیت سے نوازا۔ ہم جو کام کر رہے وہ سب کچھ پوچھا اور مسرت کا اظہار کیا۔
وفات سے چندہ روز پہلے استاد محترم کے ہاں بندہ کا تذکرہ، مولانا حنزلہ شاہد صاحب فرماتے ہیں کہ "بھائی ابھی چند دن پہلے استاد جی سے ملاقات ہوئی تو مجھے آپ کی جگہ سمجھتے ہوئے صوبائی قانونی مشیر بننے کی مبارکباد دینے لگے، مجھے اول تو سمجھ نا آیا کہ کس بات کی مبارک باد! پھر جب سمجھا تو استاد جی سے عرض کیا کہ استاد جی وہ میں نہیں بھائی شمس الدین ہیں مجھ سے ایک سال آگے تھے۔"
اگر سوچا جائے تو شاید ہی کوئی مثال ایسی ملے جس میں ایک ہی شخصیت کے اندر اتنے اوصاف جمع ہوں۔ استادِ محترم عبدالقدوس خان قارن صاحب یقیناً ان نایاب شخصیات میں سے تھے جن کی یاد محض یاد نہیں، بلکہ ایک عہد کی ترجمان ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ استاد محترم کی کامل مغفرت فرمائیں لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہمیں ان کے علمی کاموں کی قدر اور استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین