محترم مکرم جناب حضرتِ اقدس مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور حضرت مولانا محمد فیاض صاحب دامت برکاتہم العالیہ دونوں بزرگوں کی خدمتِ اقدس میں گزارش ہے، سب سے پہلے تو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، پھر اس کے بعد آپ حضرات کے گھرانے میں حضرت مولانا عبد القدوس قارن رحمہ اللہ، ان کی وفات کا سانحہ پیش آیا، مجھے دلی طور پر بہت دکھ ہوا، لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کا دوٹوک اٹل فیصلہ ہے جس کا مفہوم یہی ہے ’’اذا جاء الاجل لا یستقدم العبد ولا یستاخر‘‘ اللہ تعالیٰ نے اسی کے مطابق ان کو لے لیا۔ ان کی سعادت مندی تھی کہ زندگی بھر کے لیے ان کو درس و تدریس اور اسی طرح اصلاحِ خلق کے شعبے سے منسلک رکھا۔ اور یہ ان کے لیے ایک بہت بڑی سعادت کی بات تھی، ان کے مزاج میں استقامت اور اعتدال اور پختگی اور ان کے طرزِ گفتگو میں متانت موجود تھی۔ اور ان کے اپنے اکابر بڑے حضرات شیخینؒ کی طرف سے یہ وراثت ان کی طرف اور آپ کی طرف منتقل ہوئی ہے۔ یوں سمجھیں کہ حضرات شیخینؒ کے جانے کے بعد ان کی جو مسندیں ہیں وہ آباد ہیں۔ تو حضرات شیخینؒ دنیا سے جا چکے ہیں تب بھی وہ ابھی زندہ ہیں کہ ان کی مسند آباد ہیں۔ بزرگوں کی مسند کی آبادی دراصل ان کی روحانی زندگی ہے۔
حضرت مولانا عبد القدوس قارن رحمہ اللہ میرے بڑے بھائی حضرت مولانا عزیز الرحمٰن صاحب، جو میرے استاذ بھی ہیں، دامت برکاتہم العالیہ، ان کے دوست بھی تھے۔ اور اسی نسبت سے ہمارے گھر میں مانسہرہ کے اندر کافی مرتبہ آنا ہوا۔ اور ان کی تواضع، عاجزی اور شفقت والا مزاج ہی مجھے یاد آ رہا ہے۔ ان کے لیے دعا تو میں نے کی ہے اور طلبہ سے بھی کروائی۔ اور ان شاء اللہ مستقبل قریب میں تعزیت کے لیے وہاں مدرسہ نصرۃ العلوم میں اپنے دونوں حضرات بزرگوں کی خدمت میں حاضری ہو گی ان شاء اللہ، میں جاؤں گا، لیکن اس حاضری سے پہلے یہ پیغام ریکارڈ کر رہا ہوں تاکہ ان کے عظیم الشان صدمے کے اندر، جیسے وہ بھی اپنے غم کو سہہ رہے ہیں، اسی غم کو ہم بھی سہہ رہے ہیں۔ اور جیسے ان کا دل دُکھا ہے، ہمارا بھی اسی طرح دل ان کی وفات کے اوپر دُکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان کی کمی کو پورا فرما دے اور ان کی اولاد میں اللہ تعالیٰ صلاحیت بڑھا دے۔ اور آپ حضرات دونوں کو صبر اور استقامت نصیب فرما دے۔ مدرسے کو اپنے اکابر کے مجوزہ اصولوں کے مطابق اللہ تعالیٰ ہمیشہ آباد رکھے اور اس کا فیض جاری رکھے۔
میرے سب سے بڑے بھائی حضرت مولانا حمید الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ جن کا انتقال ہوا تھا مکہ مکرمہ میں اور وہیں پر قبرستان میں ان کو دفن کر دیا گیا تھا۔ وہ بھی یہیں سے فارغ تھے، یہاں سے پڑھے ہوئے تھے۔ اور حضرت شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تقریری کاپی ان کے پاس تھی۔ میں تو جب پڑھتا تھا اس زمانے میں اس کاپی کو کبھی کبھی دیکھتا تھا، حوالے کے ساتھ مسائل، کتابوں کے نام، اور ایک مدلل مضمون ہوتا تھا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ آپ سب حضرات کو اجرِ عظیم نصیب فرمائے، اور اس حادثہ فاجعہ اور اس سانحہ عظیمہ میں آپ کو صبر نصیب فرمائے، آمین۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔