وقت کا پہیہ اپنی رفتار سے چل رہا ہے، مگر بعض دن ایسے آ جاتے ہیں جو تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ ۱۵ اگست ۲۰۲۵ء بروز جمعۃ المبارک، ایسا ہی ایک دن تھا جب دنیائے علم و دین کا درخشندہ چراغ، جلیل القدر عالمِ دین، استاذ الحدیث حضرت مولانا عبد القدوس قارن صاحبؒ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔ یہ سانحہ محض ایک شخصیت کا نہیں بلکہ پورے علمی و دینی معاشرے کا مشترکہ دکھ ہے۔
میں اپنا واقعہ آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ پڑھائی کے دوران سادسہ والے سال میں مغرب کے بعد کھانے کا انتظام ہوتا تھا۔ اس دن ہم دوستوں نے ارادہ کیا ہے کہ استاد جی سے کھانا کھائیں تو ہم تین چار دوست اکٹھے مل کے استاد جی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ استاد جی سے کہا آج ہم نے کھانا آپ کے ساتھ کھانا ہے۔ استاد جی نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو 500 روپیہ نکلا۔ استاد جی نے کہا کہ یہ پانچ سو روپیہ لے لیں اور کھانا کھا لیں۔ ہم نے کہا کہ نہیں استاد جی آج ہم نے آپ کے گھر کا کھانا کھانا ہے اور آپ کے ساتھ کھانا ہے، تو استاد جی بہت شفقت کرنے والے تھے، استاد جی نے ہمارا ہاتھ پکڑا اور اپنے کمرے میں لے گئے، ہمیں اپنے کمرے میں بٹھا کر خود باہر چلے گئے اور ہم آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یار استاد جی کو ہم نے تکلیف دی، استاد جی کو اور بھی کام ہوتے ہیں، ہم نے کیوں استادوں کو تکلیف دی؟ ہمیں پیسے مل رہے تھے ہم باہر سے کھا لیتے، لیکن پھر ارادہ بھی یہی تھا کہ استادوں کے گھر سے ہی کھانا ہے۔
پھر اتنے میں استاد جی آئے اور استاد جی نے ہمارے سامنے کھانا پیش کیا۔ کھانا تو وہ بہت سادہ تھا لیکن اس میں استاد جی کی محبت خلوص شفقت احساس جذبات سب کچھ بھرا ہوا تھا۔ اور وہ کھانا آج تک ہم بھول نہ سکے تو اس شخصیت کو آج ہم کیسے بھول سکتے ہیں کہ جنہوں نے ہمیں علم سکھایا جنہوں نے ہمیں ادب سکھایا جنہوں نے ہمیں عالم بنایا جن کی دعاؤں سے ہم اس عہدے پر ہیں اور اپنے اپنے مقامات پر دین کا کام کر رہے ہیں۔ یہ سب انہی کا فیض ہے، اللہ رب العزت ان کے درجات کو بلند تر فرمائے۔
آج ان کو ہم سے رخصت ہوئے پورا ایک مہینہ ہو گیا، ایک مہینہ ایسے گزرا کہ پتہ بھی نہ چلا، اللہ رب العزت ان کے عزیز و اقارب کو، ان کے گھر والوں کو، ان کی اولاد کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ اللہ رب العزت استاد جی کے قبر کو تا حد نگاہ کشادہ فرمائے، اللہ رب العزت استاد جی کی قبر کو جنت کا باغ بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔
(۱۵ ستمبر ۲۰۲۵ء)