انا للہ وانا الیہ راجعون۔ استاد گرامی مولانا عبد القدوس خان قارن رحمہ اللہ تعالی رخصت ہوئے۔ گوجرانوالہ بہت سی برکات سے محروم ہو گیا۔ اللہم لا تحرمنا اجرہ و تفتنا بعدہ۔ ایک بہت ہی شفیق و رحیم مربی تھے۔ علمی پایہ تو بلند تھا ہی، شاگردوں کے ساتھ تعلق بھی بے مثال تھا۔ جب انہیں پہلی دفعہ ہارٹ اٹیک ہوا تو میں اور مولانا وقار احمد عیادت کے لیے حاضر ہوئے، میں نے انہیں دیکھتے ہی پوچھا: استاد جی! تہاڈا دل ہن قابو وچ اے کہ نہیں؟ مسکراتے ہوئے فرمایا: یارا میں تے لئی پھرداں، کوئی لیندا ای نہیں۔ پھر دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔
میرا جگر عثمان حیدر وہاں زیر تعلیم تھا، دورانِ سبق استاد جی نے اس کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر پوچھا: اوئے عثمان! ناشتہ کیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں استاد جی۔ سبق چھوڑا اور مسجد کے اوپر اپنے گھر چلے گئے اور تازہ ناشتے سے سجا ہوا تھال اٹھائے مسکراتے ہوئے تشریف لائے اور فرمایا: چھڈ سب کج، پہلے ناشتہ کر۔
آج شفقت و محبت کا یہ پیکر جہانِ فانی سے رخصت ہوا۔ اللہ کروٹ کروٹ جنت عطا کرے۔ تفصیلی حالات مولانا وقار صاحب لکھیں گے، لیکن کتنی تفصیل لکھ سکتے ہیں وہ بھی، ان کا تو ہر دن ایسے واقعات سے پر ہے۔ جب بھی اکادمی تشریف لاتے تو ملتے ہی چہرہ دونوں ہاتھوں میں لے کر ہلکی سی دو چپت لگاتے اور کاندھے پر تھپکی دے کر پوچھتے: او سنا منڈیا، کی حال اے تیرا؟
اللہ استاد گرامی کو ہم سب کی طرف سے اجرِ جزیل عطا کرے، آمین۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ و وسع مدخلہ آمین۔