15 اگست 2025ء کو بروز جمعہ شیخ الحدیث مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کا انتقال ہوا۔ وہ مولانا سرفراز صفدر صاحبؒ کے بڑے بیٹوں میں سے تھے اور مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم سے کچھ سال چھوٹے تھے۔ اللہ تعالی ان کی کروٹ کروٹ مغفرت فرمائے۔ میری ان سے ملاقات بھی ہوئی تھی اور ان کی اکثر تصانیف کا مطالعہ کیا تھا، لہٰذا زیر نظر مضمون میں ان سے جڑی یادوں کو ذکر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
بندہ نے مولانا ڈاکٹر خالد محمود صاحبؒ کے بارے میں لکھے گئے اپنے مضمون میں تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح مجھے مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی کتابوں کی طرف رہنمائی ہوئی۔ یہ قصہ وہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ میں جب مدرسہ عربیہ رائے ونڈ لاہور میں پڑھتا تھا، صرف سالانہ چھٹیوں میں گھر جاتا تھا، تو میری کوشش ہوتی تھی کہ راستے میں مولانا سرفراز خان صفدرؒ سے ملاقات کروں اور وہاں سے کچھ کتابیں بھی خریدوں۔ اسی غرض سے 2002ء میں میں تبلیغی چلّے کے بعد گوجرانوالہ گیا تھا، اس موقع پر مولانا عبد القدوس خان قارن صاحبؒ سے بھی ملاقات ہوئی تھی، اس سفر کی روداد میں نے اپنی ڈائری میں لکھی تھی، اس وقت میں اگرچہ نوآموز تھا، لیکن کچھ نا کچھ لکھنے کی کوشش کرتا تھا، ملاحظہ ہو:
’’… میں اور احمد گل گوجرانوالہ گئے، شیخ الحدیث والتفسیر مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب سے ملاقات کے لیے۔ سب سے پہلے مکتبہ نعمانیہ گیا جو اہلِ حدیث کا تھا، مکتبہ دار السلام گیا جو سلفیوں کا تھا، پھر جامعہ نصرۃ العلوم گیا۔ جامعہ ہٰذا کے ناظم فرزند ارجمند صوفی عبد الحمید صاحب سے ملاقات ہوئی، کافی دیر ان کے پاس بیٹھا رہا، حضرت سے مدرسے کے تعارف کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے مدرسہ ہٰذا کا ماہنامہ دیا (ماہنامہ نصرۃ العلوم نومبر 2002ء) اس کے پشت پر یہ تعارف لکھا ہوا تھا:
تعارف مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ قائم شدہ 1952ء: مدرسہ ہٰذا گوجرانوالہ میں قرآن و سنت اور دیگر علومِ اسلامیہ کا ایک عظیم ادارہ ہے۔ جہاں فرقہ واریت سے بالاتر قرآن و سنت اور دیگر علوم و فنون کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے، گزشتہ نصف صدی میں یہاں سے ایک لاکھ سے زائد طلباء و طالبات نے تعلیم حاصل کی ہے، جو گوجرانوالہ، پاکستان کے ہر علاقے اور دنیا کے کئی ممالک میں اسلام، دین اور شریعت کی نشر و اشاعت و ترویج کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں، اس سال بھی اللہ تعالی کے فضل و کرم سے 125 ایک سو پچیس طلباء و طالبات نے دورہ شریف، تفسیر قرآن کریم، تجوید و قراءت اور حفظ قرآن سے سند حاصل کی ہے۔ کل پچاسی اساتذہ و معلمات۔ (ملخصا)
میں نے مولانا و ناظم حافظ ریاض خان سواتی صاحب سے پوچھا، کیا ’’تسکین الصدور‘‘ کی رد میں کوئی کتاب لکھی گئی ہے؟ انہوں نے فرمایا کون اس کی رد میں کتاب لکھ سکتا ہے، اس پر تو علمائے دیوبند کی تصدیقات ہیں تو کس کس تصدیق کی نفی کرے گا۔ پھر فرمایا چھوٹے چھوٹے رسائل ویسے لکھے گئے مگر وہ ویسے برائے نام جواب تھے، کوئی کتاب لکھی جاتی تو ہم تک پہنچ جاتی۔
پھر مولوی محمد فیاض خان سواتی سے ملاقات ہوئی۔ اصل ملاقات جن کی مقصود تھی وہ حضرت مولانا شیخ الحدیث سرفراز خان صفدر صاحب کی اور ان کے برادر محترم شیخ الحدیث صوفی عبد الحمید صاحب کی۔ شیخ صاحب کے بارے میں جب سُنا کہ وہ تو عمرے پر گئے ہوئے ہیں تو بہت رنجیدہ ہوا، لیکن خوشی اس بات کی ہوئی کہ اللہ تبارک و تعالی نے اتنی طاقت دے دی کہ عمرے کے لیے گئے۔
صوفی صاحب صبح 10 بجے تک مدرسے ميں بیٹھے رہتے ہیں، 10 بجے کے بعد پھر گھر جاتے ہیں (گھر بالکل مدرسے کے متصل ہے)، پھر اگلے روز نکلتے ہیں، اور میں ان کی ملاقات کیلئے 11 بجے پہنچ گیا تھا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ اب تو ملاقات نہیں ہو سکتی۔
اتنے میں حافظ عبد القدوس خان قارن لائبریری سے شیر کی طرح نکلے اور گھر کی طرف جا رہے تھے، ملاقات کا یہی موقع تھا، میں جلدی سے بھاگا اور ملاقات کی، پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ میں نے کہا پشاور سے، فرمایا کہ غلطی کی اوہو ہم نے وہاں آنا تھا (مسکراتے ہوئے)، میں نے کہا نہیں جی۔ پھر پوچھا کس لئے آئے ہو؟ میں نے کہا کہ حضرات کی ملاقات کے لیے، فرمایا تو پھر حضرات سے ملاقات کرو، صوفی صاحب ہیں، میں نے کہا جی آپ بھی تو ہیں! فرمایا نہیں جاؤ صوفی صاحب کو ملو اور گھر میں جا کر ملاقات کرو۔ آخر میں جدا ہوتے ہوئے میں نے کہا جی آپ کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، تواضعاً فرمایا: ہماری کیا کتابیں ہیں۔
حافظ ریاض خان صاحب نے فرمایا تم بیٹھو تمہاری ملاقات ہو جائے گی۔ آخر میں کمرے میں گیا صوفی صاحب فرشتے رو چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے، سامنے ایک اور چار پائی تھی، مجھے بیٹھے کا حکم دیا، میں نیچے زمین پر بیٹھا، مجھے تین مرتبہ اصرار سے فرمایا چارپائی پر بیٹھو، جلدی جلدی تعارف کے بارے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ کیوں آئے ہو؟ کیا پڑھتے ہو؟ والدین کیا کرتے ہیں؟ میں نے جواب دیا ۔ پھر میں نے خیریت پوچھی، فرمایا: چل پھر نہیں سکتا، یہی کمرے میں نماز پڑھتا ہوں۔ آخری کلمے یہ تھے کہ کورس مکمل کرو پھر آؤ ۔ میں کمرے سے باہر آیا۔ صوفی صاحب کے کمرے دائیں بائیں کچاکچ کتابوں سے بھرے ہوئے تھے۔
ظہر کی نماز کا وقت ہوا، نماز حافظ قارن صاحب نے پڑھائی، تقریباً 10 دس منٹ میں چار فرض پڑھے۔ نماز کے بعد مدرسہ ہٰذا کے دارالافتار میں گیا، دار الافتاء میں مفتی نور محمد صاحب سے ملاقات کی، خیر المدارس سے افتاء کیا تھا، یہاں جامعہ میں تین سال سے افتاء کا شعبہ سنبھالا تھا۔ ایک اور مفتی صاحب تھے ان کا نام نہ پوچھا۔ پھر مکتبے آئے، مدرسے میں ہی مکتبہ ہے ادارہ نشر و اشاعت، وہاں سے شیخ سرفراز صاحب کی، صوفی صاحب کی، قارن صاحب کی، فیاض صاحب اور عمار صاحب کی کتابیں خریدیں۔ پھر گھنٹہ گھر گئے، احمد کیسٹ ہاؤس سے شیخ صاحب کی، تقی عثمانی صاحب کی اور قاری محمد طیب صاحب کی کیسٹیں خریدیں، پھر واپس گھر کی طرف رخ کیا۔ رات 2 بجے گھر پہنچے۔‘‘ (ذاتی ڈائری، اسد اللہ خان)۔
مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کی کتابیں
یہ وہ دور تھا جب یہاں خوب کتابیں لکھی جا رہی تھیں، اس پورے گھرانے کی کتابیں علمی ہوتی تھیں، لہٰذا میری کوشش ہوتی تھی کہ اس پورے خاندان کی تمام کتابیں خریدوں۔ ذیل میں مولانا قارن صاحبؒ کی پڑھی ہوئی کتابوں کی تفصیل درج کرتا ہوں:
- خزائن السنن اردو شرح سنن ترمذی، دورہ حدیث کے سال اس کا مطالعہ کیا تھا۔
- فنِ مناظرہ کی کتاب رشیدیہ کی اردو شرح حمیدیہ۔ خریدی تھی اور مطالعہ کیا تھا۔
- امام بخاریؒ کا عادلانہ دفاع۔ یہ کتاب خریدی تھی اور مطالعہ کیا تھا۔
- مروجہ قضائے عمری بدعت ہے۔ یہ بھی پڑھی تھی۔ یہ مولانا عبد الحیی لکھنویؒ کی کتاب کا ترجمہ ہے۔
- مسئلہ تین طلاق پر جواب مقالہ۔ یہ شیخ سرفراز صفدرؒ کی کتاب عمدۃ الاثاث کے دفاع میں لکھی گئی ہے، یہ بھی خریدی تھی اور مطالعہ کیا تھا۔
- بخاری شریف غیرمقلدین کی نظر میں۔ اس کتاب میں انہوں نے بخاری شریف کے وہ مسائل جمع کیے ہیں جس پر غیرمقلدین کا عمل نہیں ہے، عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ غیرمقلدین بخاری شریف پر عمل کرتے ہیں احناف اس پر عمل نہیں کرتے۔ یہ بھی خرید کر پڑھی تھی۔
- امام ابوحنیفہؒ کا عادلانہ دفاع۔ یہ علامہ کوثریؒ کی کتاب تانیب الخطیب کا اردو ترجمہ ہے۔ اس کا مطالعہ کیا تھا۔
- وضو کا مسنون طریقہ (شیعہ کی جانب سے اہل سنت کے وضو پر اعتراضات کے جوابات) یہ بھی خرید پڑھی تھی۔ جب میں 2002ء میں سفر پر گیا تھا یہ اس وقت تازہ چھپی تھی۔
- مولانا ارشاد الحق اثری کا مجذوبانہ واویلا۔ یہ مولانا سرفراز صفدرؒ کے دفاع میں لکھی ہے۔
- تصویر بڑی صاف ہے۔ یہ کتاب بھی مولانا ارشاد الحق اثری کے رد میں ہے۔