گوجرانوالہ کی فضاء جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات ایک عجیب کیفیت میں ڈوبی ہوئی تھی۔ جامعہ نصرۃ العلوم کے در و دیوار، شہر کی سڑکیں اور لوگوں کے چہرے سبھی ایک ہی صدا بلند کر رہے تھے: "انا للہ وانا الیہ راجعون"۔
استاد الحدیث، امامِ جامع مسجد نور اور بزرگ عالمِ دین حضرت مولانا حافظ محمد عبدالقدوس خان قارنؒ دارِ فانی کو الوداع کہہ گئے۔ مغرب کے بعد جب آپ کا جسدِ خاکی زیارتِ عام کے لیے جامعہ کے صحن میں لایا گیا تو صحن کی وسعت بھی تنگ ہو گئی۔ ہر طرف سے لوگ ٹوٹ پڑے۔ جامعہ کے مہتمم حضرت مولانا محمد فیاض خان سواتی، حضرت مولانا عبدالحق خان بشیر، حضرت مولانا زاہد الراشدی، مولانا حماد الزہراوی، مولانا منہاج الحق خان راشد، مولانا ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر اور دیگر اکابر علماء نہایت کرب و اضطراب میں تھے۔ ان کے چہرے کہہ رہے تھے کہ آج ایک ایسا چراغ بجھا ہے جس کی روشنی برسوں تک قلوب کو منور کرتی رہی۔ شرکاء کی تعداد اتنی تھی کہ سڑکیں دور دور تک بھر گئیں، لوگ بڑی مشکل سے راستہ بنا کر پہنچے۔ یہ ہجوم کسی شخصیت کی عظمت کا نہیں بلکہ ایک عہد کی قدردانی کا منظر پیش کر رہا تھا۔
نمازِ عشاء کے بعد جامع مسجد نور میں ایک بامقصد تعزیتی اجلاس ہوا، جس کی نظامت خاکسار حافظ فضل الہادی نے کی۔ آغاز قاری وسیم اللہ امین کی پرسوز تلاوت سے ہوا۔ اس کے بعد مختلف مقررین نے حضرتؒ کی یادوں کو زبانی تاریخ کی شکل دی۔ حضرت مولانا حافظ گلزار احمد آزاد، مفتی محمد اسلم طارق، پروفیسر عبدالماجد حمید مشرقی، چوہدری بابر رضوان باجوہ، مولانا پیر ریاض احمد چشتی، مولانا ابوبکر جہلمی، مولانا جواد محمود قاسمی، پیر احسان اللہ قاسمی، مفتی ابو محمد، مولانا اویس شاد (دارالعلوم کبیروالا)، پیر اسد اللہ (جامعہ منظور الاسلامیہ لاہور)، پیر عتیق الرحمن عزیز (راولپنڈی)، پروفیسر اشفاق حسین منیر (گجرات)، اور قاضی عطاء المحسن راشد (قلعہ دیدار سنگھ) نے اپنے اپنے انداز میں حضرتؒ کی علمی، دینی اور اخلاقی خدمات پر روشنی ڈالی۔
ہر مقرر کے الفاظ دراصل آنسوؤں کی صورت تھے، جو لبوں سے نہیں دل سے بہہ رہے تھے۔ ان سب نے کہا کہ حضرت قارنؒ کی وفات امت کے لیے محض ایک شخص کا غم نہیں، بلکہ ایک ایسے عہد کا خاتمہ ہے جس نے ہزاروں طلباء کے دلوں میں قرآن و سنت کی محبت بھری۔
اجتماع میں شریک ہونے والوں میں خاندان سواتی کے سبھی حضرات کے علاوہ حضرت مولانا قاری خالق داد (دینہ)، حضرت مولانا محمد فاروق احمد کھٹانہ، مفتی فخر الدین (گوجرانوالہ)، مولانا بلال احمد پسروری، مولانا الیاس (گجرات)، ڈاکٹر فضل الرحمن (گوجرانوالہ)، مولانا امجد محمود معاویہ (پاکستان شریعت کونسل)، مولانا عبد الواحد رسولنگری، مولانا شاہ نواز فاروقی، مولانا نعمان بابر (شبان ختمِ نبوت)، مولانا عارف شامی (عالمی مجلس ختم نبوت)، مولانا پیر محمود الحسن شاہ (مانسہرہ)، قاضی محمد اسرائیل گڑنگی و قاضی نعمان گڑنگی (مانسہرہ)، مولانا عبدالقدیر (مانسہرہ)، مولانا وقار احمد، مفتی توصیف احمد، مولانا ساجد اعوان (ہری پور) اور اچھڑیاں مانسہرہ سے حضرت کے خاندان کے کئی حضرات سمیت ہزاروں علماء، طلباء اور اہلِ محبت شامل تھے۔ یہ سب اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ حضرتؒ کا فیض صرف گوجرانوالہ تک محدود نہ تھا، بلکہ پورے ملک میں پھیلا ہوا تھا۔
اجلاس کے اختتام پر حضرت مولانا زاہد الراشدی کی لرزتی آواز نے سب دلوں کو رُلا دیا:
"جیسے میں نے اپنے چچا جان حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتیؒ کی وفات پر اپنے والد حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ سے کہا تھا کہ آج جوڑی ٹوٹ گئی ہے، بالکل اسی کیفیت میں آج کہتا ہوں کہ ہماری جوڑی ٹوٹ گئی ہے۔"
یہ جملہ ایک شخص کا بیان نہیں تھا بلکہ ہزاروں دلوں کی دھڑکنوں کا ترجمہ تھا۔
حضرت مولانا عبدالوکیل خان مغیرہ نے اس موقع پر اعلان فرمایا کہ والدِ محترم تصویر کو ناجائز سمجھتے تھے، یہ اُن کی وصیت تھی اور ہم سب اس پر عمل پیرا ہوں گے۔
رات دس بجے حضرت مولانا نصرالدین خان عمر نے والدِ محترم کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔
جنازے کی ادائیگی کے بعد آپ کا جسدِ خاکی بڑے قبرستان منتقل کیا گیا۔ جہاں علما، طلبہ اور عوام کا اس قدر عظیم اجتماع تھا کہ قبرِ مبارک کے قریب جگہ بنانا بھی لوگوں کے لیے نہایت دشوار تھا۔ حضرتؒ کو اُن کے چچا و مربی حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتیؒ کے جوار میں سپردِ خاک کیا گیا۔ لحد میں آپ کو نہایت محبت اور ادب کے ساتھ آپ کے فرزند مولانا حافظ نصر الدین خان عمر، حافظ علم الدین ابوہریرہ اور حافظ شمس الدین خان طلحہ نے اتارا۔ زمین نے اپنے دامن میں ایک اور ولی کو سمیٹ لیا۔
تدفین کے بعد سرہانے کی جانب آپ کے فرزند حافظ عبدالرشید خان سالم نے سورۂ بقرہ کے آغاز سے تلاوت شروع کی، اور پاؤں کی سمت آپ کے پوتے، حافظ حنظلہ عمر نے سورۂ بقرہ کی آخری آیات تلاوت فرمائیں۔
اس کے بعد حضرت صوفی عطاء اللہ نقشبندیؒ کے جانشین، پروفیسر ضیاء اللہ نقشبندی نے نہایت سوز و گداز کے ساتھ دعا فرمائی۔ ان کی دعا کے کلمات نے مجمع کے دلوں کو موم کر دیا، آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور فضا پر رقت و خشوع کی کیفیت طاری ہو گئی۔
حضرت مولانا عبدالقدوس خان قارنؒ کی وفات صرف گوجرانوالہ یا جامعہ نصرۃ العلوم کا غم نہیں، یہ ایک پوری نسل کا دکھ ہے۔ وہ استاد بھی تھے، رہنما بھی، مصلح بھی اور مربی بھی۔ آج ان کی مسکراہٹیں، ان کی دعائیں اور ان کی نصیحتیں ہمیں شدت سے یاد آئیں گی۔ لیکن اُن کا فیض ہمیشہ باقی رہے گا، ان کے شاگرد ان کی تعلیم و تربیت کے آثار کو زندہ رکھیں گے۔ ان شاء اللہ
(مجلہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ۔ ستمبر ۲۰۲۵ء)