مولانا ابوعمار زاہد الراشدی کی تحریروں میں حضرت قارنؒ کا تذکرہ

’’میں حافظوں کا باپ ہوں‘‘

بحمد اللہ خاندان کا پہلا حافظ میں ہوں۔ ۱۹۶۰ء میں میرا حفظ مکمل ہوا تھا۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ حافظ نہیں تھے، آپؒ سے کوئی پوچھتا کہ آپ حافظ ہیں؟ تو وہ فرماتے کہ میں حافظوں کا باپ ہوں۔ کافی عرصہ پہلے ایک دن ہم نے گننا چاہا کہ والد محترمؒ کے خاندان میں کتنے حافظ ہیں تو اس وقت تینتالیس حافظ تھے۔ ابھی دو ہفتے پہلے میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس خان قارن کے پوتے عکرمہ نے حفظ مکمل کیا، میں نے اس کے والد حافظ نصر الدین خان عمر سے پوچھا کہ بیٹا! شمار کیا ہے کہ اس کا کتنا نمبر ہے؟ تو اس نے بتایا کہ ہمارے خاندان میں حافظ ساٹھ سے بڑھ گئے ہیں۔ اس لیے والد محترمؒ کو حق تھا کہ کہتے ’’میں حافظوں کا باپ ہوں‘‘۔ میں نے عکرمہ کے آخری سبق کی تقریب میں تحدیث نعمت کے طور پر کہا کہ مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی اولاد میں پہلا حافظ میں ہوں اور ساٹھواں حافظ یہ ہے۔

(محمدی ٹاؤن اسلام آباد میں ’’ینگ علماء لیڈر شپ پروگرام‘‘ کے ایک سیمینار سے خطاب ۔ ۲۶ فروری ۲۰۲۳ء)

حضرت والد صاحبؒ کا ذاتی کمرہ

یہ حضرت والد محترم کی آرام گاہ بھی تھا، اسٹڈی روم بھی تھا، ذاتی لائبریری بھی اسی میں تھی اور یہی ان کی درس گاہ بھی تھی۔ میں برادرم راشد خان کی کلاس میں بیٹھا تھا اور میری نگاہوں میں اس درس گاہ کے مختلف مناظر باری باری گھوم رہے تھے۔ یہ خود میری اولین درس گاہ بھی ہے کہ ۱۹۶۰ء میں قرآن کریم حفظ مکمل کرنے کے بعد درس نظامی کی تعلیم کا آغاز میں نے یہیں سے کیا تھا اور سال اول کی کتابوں کے طور پر میزان الصرف و منشعب، نحو میر، علم الصیغہ اور شرح مائۃ عامل حضرت والد صاحبؒ سے پڑھی تھیں۔ ۱۹۶۲ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں داخل ہوا اور ۱۹۷۰ء میں دورۂ حدیث سے فراغت حاصل ہوئی۔ اس دوران بھی یہ معمول تھا کہ شعبان اور رمضان کی سالانہ تعطیلات میں سال کے دوران پڑھی ہوئی کتابوں میں سے ایک دو کتابیں مجھے دوبارہ حضرت والد محترم سے پڑھنا ہوتی تھیں، بلکہ سنانا ہوتی تھیں۔ یہی معمول چھوٹے بھائیوں مولانا عبد القدوس قارن، مولانا عبد الحق خان بشیر، قاری حماد الزہراوی، پیر عابد سلّمہ اور دیگر کا بھی کم و بیش رہا ہے، جبکہ ہماری بہنوں نے بھی یہیں تعلیم حاصل کی ہے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۳۰ اپریل ۲۰۱۲ء)

امامِ اہلِ سنتؒ کا آخری وقت

گزشتہ جمعرات کو گھر گوجرانوالہ واپس پہنچا اور جمعۃ المبارک کی شام کو گکھڑ حاضری ہوئی تو وہ اگرچہ بات چیت اشاروں میں ہی کر رہے تھے مگر اطمینان کی کیفیت ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کی وفات کے دن ہم سب بھائی خلاف معمول یہاں موجود تھے۔ میں برطانیہ سے واپس پہنچ گیا تھا۔ ہمارے چھوٹے بھائی قاری عزیز الرحمان خان شاہد کئی سالوں سے جدہ میں مقیم ہیں اور تحفیظ القرآن کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں، وہ گزشتہ ماہ بچوں سمیت آگئے تھے۔ اور ہمارے ایک بھائی مولانا رشید الحق خان عابد سلمہ جنہیں ہم پیر عابد کے نام سے یاد کرتے ہیں، نقشبندی سلسلہ کے اصحاب سلوک میں سے ہیں بلکہ وقف للسلوک ہیں، اپنے اوراد و اشغال میں اس قدر مگن رہتے ہیں کہ مہینوں ان کا پتہ نہیں چلتا کہ کہاں ہیں۔ میں انہیں خاندان کا ’’امام غائب‘‘ کہا کرتا ہوں، وہ بھی دو روز قبل گکھڑ پہنچ چکے تھے۔ بقیہ برادران مولانا عبد القدوس خان قارن، مولانا عبد الحق خان بشیر، مولانا قاری حماد الزہراوی، قاری عنایت الوہاب خان ساجد، قاری منہاج الحق خان راشد، اور ہمارے مرحوم بھائی قاری محمد اشرف خان ماجد کے فرزند حافظ انصر خان اپنے اپنے گھروں میں موجود تھے۔ اس طرح ہم سب بھائی حضرت والد محترم کے سفر آخرت کے وقت حاضر تھے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۹ مئی ۲۰۰۹ء)

دو ماؤں کی اولاد

جب آپؒ گکھڑ میں سیٹ ہوئے ہیں تو دو سال کے بعد ان کی شادی ہوئی۔ گوجرانوالہ میں تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن کی بیک میں آبادی ہے، اس آبادی میں ایک مسجد کے امام مولانا محمد اکبر صاحب مرحوم تھے، جنجوعہ راجپوت برادری سے تعلق تھا، اچھے حافظ، اچھے قاری تھے تو مولانا عبد الواحد صاحبؒ کی وساطت سے والد صاحبؒ کی ان کے ہاں سے شادی ہو گئی۔ ہماری والدہ محترمہ مولوی محمد اکبر صاحب کی بیٹی ہیں اور گوجرانوالہ شہر کی ہیں۔ پہلی شادی ہوئی، اس سے ہماری بڑی ہمشیرہ پیدا ہوئیں، جن کا پچھلے سال انتقال ہوا ہے، اس کے بعد میں پیدا ہوا، میرے بعد ایک اور بھائی تھے جو بچپن میں ہی فوت ہو گئے، پھر مولانا عبد القدوس قارن صاحب، پھر مولانا عبد الحق صاحب اور جو جہلم میں ہماری چھوٹی ہمشیرہ ہیں، پیدا ہوئے۔ اس دوران حضرت والد صاحبؒ نے اپنی برادری میں بھی شادی کی۔ ہماری چھوٹی والدہ ان کی چچا زاد لگتی تھیں۔ حاجی فیروز خان مرحوم کورے اچھڑیاں میں ہوتے تھے، ان کی بیٹی تھیں۔ دوسری شادی ہوئی تو پھر دونوں گکھڑ میں اکٹھی رہیں۔ الحمد للہ ہمارا یہ امتیاز ہے کہ دونوں مائیں زندگی بھر اکٹھی رہی ہیں، ایک گھر میں رہی ہیں، ایک ہنڈیا رہی ہے، ایک جگہ کھانا رہا ہے جبکہ ہم بھائیوں میں بھی ہلکی پھلکی نوک جھونک چلتی رہی ہے، لیکن جس کو جھگڑا کہتے ہیں وہ کبھی نہیں ہوا۔ نہ ماؤں میں اور نہ ہم میں۔ ہم اکٹھے ہی رہے ہیں، اب بھی ہم سب بھائیوں کی طرح ہیں اور الحمد للہ ہمارے ہاں وہ ماحول نہیں پیدا ہوا۔ …… ہم مجموعی طور پر بارہ بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ ہمارے تین بھائی بچپن میں فوت ہو گئے تھے عبدالکریم رانا، عبدالرشید، اور ایک بھائی محمد یونس خان تھے جو بچپن میں فوت ہو گئے۔ ہم بارہ بھائی تھے، جن میں سے نو حیات رہے، جن کی شادیاں ہوئیں اور بہنیں تین تھیں، اب ایک فوت ہو گئی ہیں، دو الحمد للہ حیات ہیں، اللہ پاک سلامت رکھے۔ دونوں ماؤں سے ہم پندرہ بہن بھائی ہیں۔ سچی بات ہے کہ مجھ سے کوئی اب بھی پوچھتا ہے کہ اس ماں سے کتنے ہیں تو گننے پڑتے ہیں۔ الحمد للہ ہمارا سب کا بھائیوں بہنوں جیسا معاملہ ہے۔ ہم تین بھائی اور دو بہنیں ایک والدہ سے ہیں: میں، قارن صاحب، عبدالحق، ہماری بڑی ہمشیرہ اور جہلم والی ہمشیرہ۔ باقی بھائی اور چھوٹی ہمشیرہ جو گوجرانوالہ میں ہیں دوسری والدہ سے ہیں۔ لیکن ہمارے لیے تقسیم کرنا مشکل ہوتا ہے، الحمدللہ سب کے ساتھ یکساں محبت پیار ہے۔

(طلال ناصر اور ہلال ناصر کے انٹرویو ’’یادِ حیات (۱)‘‘ سے ماخوذ۔ ماہنامہ الشریعہ نومبر ۲۰۲۴ء)

البتہ آپ کو یہ بتانا چاہوں گا کہ شروع سے آخر تک دونوں والدہ اکٹھی رہیں اور دونوں کی اولاد ایک ہی گھر میں رہی۔ بڑی امی کی اولاد سے ہم کل پانچ ہیں، تین بھائی اور دو بہنیں۔ ایک بھائی مولانا عبد القدوس خان قارن ہیں جو جامعہ نصرۃ العلوم میں مدرس ہیں۔ دوسرے بھائی عبد الحق خان بشیر ہیں جو مسجد و مدرسہ حیات النبی گجرات کے خطیب و مہتمم ہیں۔ بڑی بہن اچھڑیاں مانسہرہ جبکہ چھوٹی بہن جہلم میں بیاہی گئیں۔ چھوٹی امی سے ہمارے چھ بھائی اور ایک بہن ہیں۔ ایک بھائی وفات پا چکے ہیں۔ اکٹھا رہنے سے باہم چھوٹا موٹا اختلاف تو کبھی کبھار ہوا، جیسا کہ انسان ہونے کے ناطے سے ہوتا ہی ہے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ کبھی تقسیم تک نوبت نہیں پہنچی اور وقت اچھا گزر گیا۔ چھوٹی امی کی اولاد سے بھی مجھے بہت پیار ہے بلکہ ان چھوٹے بھائیوں کے گھروں میں مجھے زیادہ پروٹوکول ملتا ہے۔ ہمایوں صاحب! ہمارے معاشرے کی اخلاقی حالت جس نہج پر جا پہنچی ہے اس سے آپ بھی واقف ہیں، لیکن الحمد للہ ہمارے گھروں میں اب بھی باہمی احترام اور محبت کی فضا موجود ہے۔

(انٹرویو ماہنامہ قومی ڈائجسٹ، لاہور۔ دسمبر ۲۰۰۷ء)

والدہ محترمہ کا انتقال

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی اہلیہ محترمہ اور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی (راقم الحروف) کی والدہ مکرمہ کا انتقال ہوگیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ کی عمر ساٹھ برس سے زائد تھی اور وہ کچھ عرصہ سے ذیابیطس او رہائی بلڈ پریشر کی مریضہ تھیں۔ دو ہفتہ سے ان کی طبیعت زیادہ خراب تھی چنانچہ انہیں شیخ زاید ہسپتال لاہور میں داخل کرا دیا گیا مگر وہ تین چار روز بیہوش رہنے کے بعد وفات پا گئیں۔ ان کی نماز جنازہ گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ نے پڑھائی جس میں ممتاز علماء کرام، سیاسی راہنماؤں، سماجی شخصیات اور جماعتی کارکنوں کے علاوہ ہزاروں شہریوں نے شرکت کی اور نماز جنازہ کے بعد مقامی قبرستان میں انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔

مرحومہ ایک عبادت گزار اور شب زندہ دار خاتون تھیں اور انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ قرآن کریم کی تعلیم و تدریس میں بسر کیا۔ وہ صبح و شام اپنے گھر میں بچیوں اور بچوں کو قرآن کریم حفظ و ناظرہ، ترجمہ قرآن اور بہشتی زیور کی تعلیم دیا کرتی تھیں اور یہ سلسلہ تقریباً پینتالیس برس سے تسلسل کے ساتھ جاری تھا۔ وہ خود قرآن کریم کی حافظہ نہیں تھیں لیکن جن بچیوں نے ان سے قرآن کریم حفظ مکمل کیا ان کی تعداد پچیس سے زائد ہے جبکہ باقی شاگرد بچوں اور بچیوں کا کوئی شمار نہیں ہے۔ ان کے شاگردوں میں ان کے اپنے بچوں مولانا زاہد الراشدی، مولانا عبد القدوس خان قارن اور مولانا عبد الحق خان بشیر کے علاوہ بریگیڈیئر محمد علی چغتائی اور اے آئی جی پولیس احمد نسیم جیسی ممتاز شخصیات شامل ہیں۔

سابق وفاقی وزیر غلام دستگیر خان، میئر گوجرانوالہ کارپوریشن الحاج محمد اسلم بٹ، کونسلر ڈاکٹر محمد احمد اور سابق ڈپٹی میئر میاں محمد عارف ایڈووکیٹ کے علاوہ ممتاز علماء کرام علامہ ڈاکٹر خالد محمود، مولانا قاضی عصمت اللہ، مولانا محمد فیروز خان، مولانا حکیم عبد الرحمان آزاد، مولانا خالد حسن مجددی، مولانا حکیم محمود اور دیگر شخصیات نے مولانا محمد سرفراز خان اور مولانا زاہد الراشدی سے ملاقات کر کے مرحومہ کی وفات پر تعزیت کی اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔

(ہفت روزہ ترجمان اسلام، لاہور۔ ۲۹ اگست ۱۹۸۸ء)

شادی کی شیروانی

۲۳ مارچ کو میں نے زندگی میں دوسری بار شیروانی پہنی۔ اس سے قبل شادی کے موقع پر ۲۵ اکتوبر ۱۹۷۰ء کو شیروانی پہنی تھی جو حضرت والد محترم رحمہ اللہ تعالیٰ نے بطور خاص میری شادی کے لیے سلوائی تھی۔ خود میرے ساتھ بازار جا کر ٹیلر ماسٹر کو ناپ دلوایا تھا اور ایک قراقلی ٹوپی بھی خرید کر دی تھی۔ یہ دونوں شادی کے دن میرے لباس کا حصہ بنیں۔ قراقلی تو میں اس کے بعد بھی ایک عرصہ تک خاص تقریبات میں پہنتا رہا ہوں لیکن شیروانی دوبارہ پہننے کا حوصلہ نہیں ہوا اور وہ میں نے شادی کے دوسرے دن چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس قارن کو دے دی۔ اپنے اپنے مزاج کی بات ہے، شیروانی اور بند کوٹ میں خود کو گھٹا گھٹا سا محسوس کرتا ہوں، حتیٰ کہ واسکٹ کے بٹن بند کرنے میں بھی مجھے الجھن ہوتی ہے، جبکہ مایہ والے سوتی کپڑوں میں لباس کے ساتھ خود بھی اکڑے رہنا پڑتا ہے اس لیے اس سے حتی الوسع بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن اس سال صدر پاکستان کی طرف سے ’’یوم پاکستان‘‘ کے موقع پر جن حضرات کو صدارتی تمغوں کے لیے نامزد کیا گیا ان میں تمغۂ امتیاز پانے والوں میں میرا نام بھی شامل تھا۔ یہ تمغہ ۲۳ مارچ کو گورنر ہاؤس لاہور میں ایک تقریب کے دوران گورنر پنجاب کے ہاتھوں ملنا تھا۔ اس تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو اس میں یہ شرط درج تھی کہ شیروانی اور جناح کیپ پہن کر شریک ہونا ہے۔ میرے پاس یہ دونوں موجود نہیں تھیں، اس لیے جناح کیپ تو بازار سے خریدی اور شیروانی کے لیے کسی دوست کی تلاش شروع کر دی جس سے ایک دن کے لیے عاریتاً حاصل کر سکوں۔ گزشتہ ہفتے فیصل آباد جانا ہوا تو شام کا کھانا جامعہ اسلامیہ امدادیہ میں مولانا مفتی محمد زاہد صاحب کے ساتھ کھایا اور انہی سے فرمائش کر دی کہ اگر ایک روز کے لیے کوئی مناسب شیروانی مل جائے تو فقیروں کا کام چل جائے گا۔ انہوں نے اپنی شیروانی عطا کی جو پہننے پر مناسب لگی تو ساتھ لے آیا۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۲۶ مارچ ۲۰۱۵ء)

مسجد حرام میں ارسلان خان کے حفظِ قرآن کریم  کی تکمیل

میں نے گزشتہ عشرہ سعودی عرب میں گزارا۔ ۱۲ جولائی کو جدہ پہنچا تھا اور ۲۲ جولائی کو جدہ سے سفر کر کے ایک روز قبل نیویارک آگیا ہوں۔ اس دوران بیت اللہ شریف کی حاضری، عمرہ اور روضۂ اطہر پر صلوٰۃ و سلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنے کے علاوہ مختلف تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ میرے چھوٹے بھائی قاری عزیز الرحمان خان شاہد، میرے ایک برادر نسبتی حافظ عبد العزیز اور میرے ہم زلف قاری محمد اسلم شہزاد جدہ میں مقیم ہیں۔ قاری شاہد خان کے بچے ارسلان خان نے قرآن کریم حفظ مکمل کیا ہے جبکہ حافظ عبد العزیز کی بچی کا نکاح تھا۔ دونوں نے مسجد میں مشترکہ تقریب کا اہتمام کیا۔ میرے ایک اور بھائی مولانا عبد القدوس خان قارن سلّمہ بھی عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ آئے ہوئے تھے وہ بھی اس تقریب میں شریک ہوئے۔ مسجد حرام میں اپنے عزیز بھتیجے ارسلان خان کا حفظِ قرآن کریم کا آخری سبق سنا اور برادر نسبتی حافظ عبد العزیز کی بیٹی کا نکاح پڑھایا۔

(روزنامہ پاکستان، لاہور۔ یکم اگست ۲۰۱۰ء)

مولانا عبد الحق خان بشیر کے فرزند انس خان کا ولیمہ

واپسی پر ہم مختلف گاڑیوں میں گجرات کی طرف روانہ ہوئے جہاں اگلے روز حافظ عبد الرحمٰن خان انس کا ولیمہ تھا مگر جب ٹیکسلا کراس کر کے ترنول پھاٹک پر پہنچے تو ٹریفک بری طرح بلاک تھی۔ بڑی ہمشیرہ محترمہ، راقم الحروف اور مولانا عبد القدوس قارن ایک گاڑی میں تھے جو سب سے آگے تھی اس لیے سب سے زیادہ پھنسی ہوئی تھی کہ آگے جانے کا راستہ تو بند تھا ہی پیچھے ہٹنے بلکہ دائیں بائیں ہونے کی بھی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ معلوم ہوا کہ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے کسی پروگرام میں شرکت کے لیے آنے والے اس کے ہزارہ و پشاور کے کارکنوں کو روکنے کے لیے ریلوے پھاٹک سے آگے باقاعدہ کنٹینر کھڑے کر کے راستہ بند کیا گیا ہے۔ دونوں طرف رکی ہوئی گاڑیوں ہزاروں کی تعداد میں تھیں اور کئی میل دور تک ان کی درجنوں لائنیں لگی ہوئی تھیں۔ ہماری دوسری گاڑیاں بلکہ دولہا اور دلہن بھی اسی ہجوم میں محصور تھے مگر ہم موبائل فون پر ایک دوسرے کا بار بار حال پوچھنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ رات نو بجے سے بارہ بجے تک مسلسل تین گھنٹے وہاں گزارنے کے بعد رکاوٹیں ختم کرنے کی نوید سنی اور ساڑھے تین بجے کے لگ بھگ ہم گجرات پہنچنے میں کامیاب ہوئے، فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ یکم نومبر ۲۰۱۶ء)

مولانا عبد القدوس خان قارن کی پوتی کا حفظِ قرآن کریم

گوجرانوالہ زون کے مدارس میں گزشتہ سال ۱۹۹ طلبہ و طالبات نے قرآن کریم حفظ مکمل کیا جن کے آخری سبق اور دعا کے لیے اس تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں مجھے بھی شرکت کا اعزاز حاصل ہوا، جبکہ اقراء روضۃ الاطفال کے ذمہ دار حضرات مولانا مفتی خالد محمود اور مفتی محمد بن مفتی جمیل خان شہید کی سربراہی میں موجود تھے اور بچوں کے والدین اور دیگر بہت سے معززین شہر اور سرکردہ علماء کرام شریک محفل تھے۔ اس سال حفظ مکمل کرنے والوں میں ہمارے خاندان کی ایک بچی عفیفہ عمر بھی شامل ہے جو برادرم مولانا عبد القدوس خان قارن کی پوتی اور حافظ نصر الدین خان عمر کی بیٹی ہے اس لیے اس میں حاضری میرے لیے دوہری خوشی کا باعث ہوئی۔

(روزنامہ اوصاف، اسلام آباد۔ ۱۰ نومبر ۲۰۱۸ء)

تدریسی اسباق کی  تقسیم

اس سال دورہ حدیث کے اسباق کے آغاز پر ان کا تقاضہ تھا کہ ہم دونوں بھائی یعنی راقم الحروف اور مولانا قاری عبد القدوس خان قارن اس موقع پر شریک ہوں۔ چنانچہ جب ہم تینوں بہن بھائی اسباق کے آغاز پر بنات کی درسگاہ میں بیٹھے تو یہ دیکھ کر میرے دل میں تشکر و امتنان کی ایک عجیب سی لہر اٹھی کہ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ بخاری شریف اور دورۂ حدیث کی کتابیں پڑھائی ہیں اور اب ان کی اس روایت کا تسلسل جاری رکھنے کا شرف ہم تینوں بہن بھائیوں کو حاصل ہے۔ اس لیے کہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں حضرت والد محترمؒ کی زندگی میں ہی بخاری شریف ہم دونوں بھائیوں کے سپرد ہو گئی تھی۔ ایک جلد میرے پاس ہوتی ہے اور دوسری جلد قارن صاحب پڑھاتے ہیں، اور ہم دونوں بھائی ہر سال تبادلہ کر لیتے ہیں تاکہ ہر ایک کو دو سال میں پوری بخاری شریف پڑھانے کا موقع مل جائے۔جہلم میں اکٹھے ہوئے تو ترتیب یہ تھی کہ برادرم مولانا عبد القدوس قارن نے ترمذی شریف کا پہلا سبق پڑھانا تھا جبکہ میرے ذمہ بخاری شریف کا پہلا سبق تھا اور اسی ترتیب کے مطابق ہم دونوں نے یہ خدمت سر انجام دی۔ درس طالبات کا تھا اس لیے میں نے اس موقع پر خواتین کی دینی تعلیم کی اہمیت و ضرورت پر کچھ گزارشات پیش کیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ (۱) قرآن کریم، (۲) حدیث و سنت اور (۳) فقہ و شریعت میں جس طرح مردوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کیا اور علوم نبویؐ کو امت تک پہنچانے کی سعادت حاصل کی، اسی طرح خواتین نے بھی یہ خدمات سر انجام دیں۔ چنانچہ قرآن کریم کی تفسیر، حدیث و سنت کی روایات اور فقہی احکام و مسائل کا ایک بڑا ذخیرہ امت کو خواتین کے ذریعہ پہنچا ہے اور آج تک اہل علم اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ یکم اکتوبر ۲۰۱۵ء)

تحریکِ واگزارئ جامع مسجد نور 

۱۹۷۶ء میں نوید انور نوید مرحوم مسجد نور کی واگزاری کی تحریک کے قائد کے طور پر سامنے آئے اور بھٹو حکومت کے خلاف معرکہ کا ایک اور بازار گرم کر دیا جس کی یادیں کم و بیش تیس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ مدرسہ نصرۃ العلوم گھنٹہ گھر گوجرانوالہ کے ساتھ ملحق وسیع جامع مسجد کو مسجد نور کہا جاتا ہے جسے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے محکمہ اوقاف کی تحویل میں لینے کا اعلان کر دیا تھا۔ مدرسہ نصرۃ العلوم کا نام لیے بغیر حکومت نے مسجد نور کو اس سے ملحقہ پینتالیس کمروں سمیت اوقاف کی تحویل میں لینے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا تھا۔ محکمہ اوقاف اس نوٹیفیکیشن کے مطابق مسجد و مدرسہ دونوں پر قبضہ کرنے کی تیاری کر رہا تھا کہ حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ نے مجھے اور نوید انور نوید مرحوم کو بلایا اور فرمایا کہ یہ بڑا خطرناک فیصلہ ہے، اگر اس پر عمل ہوگیا تو ملک بھر میں مدارس پر سرکاری قبضے کا راستہ کھل جائے گا اس لیے اس کی مزاحمت ہونی چاہیے اور مؤثر احتجاج ہونا چاہیے، آپ نوجوان لوگ اس کی کوئی صورت نکالیں۔ اس پر ہم تیار ہوگئے اور مزاحمت کا فیصلہ کر لیا …… اس دوران محکمہ اوقاف نے ہمارے کچھ مقامی ’’مہربانوں‘‘ کے اشارے سے یہ چال چلی کہ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم، جو کہ ہمارے چچا محترم اور استاد و مربی ہیں، کی جگہ میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس قارن کو مسجد نور کا خطیب مقرر کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔ اس کا مقصد ہمارے خاندان میں تفریق پیدا کرنا تھا اور دو بھائیوں حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم اور حضرت صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا تھا جو ایک انتہائی خطرناک بات تھی۔ قارن صاحب کو یہ آرڈر ملا تو انہوں نے مجھ سے بات کی، میں نے ان سے کہا کہ یہ جتنی بڑی سازش ہے جواب بھی اتنا ہی بڑا ہونا چاہیے۔ اس لیے آپ گرفتاری کے لیے تیار ہو جائیں اور کارکنوں کے مظاہرے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے سب کے سامنے یہ نوٹیفیکیشن پڑھیں اور اس کے بعد اسے پرزے پرزے کرتے ہوئے اعلان کریں کہ میری طرف سے اس آرڈر کا یہ جواب ہے اور میں خود کو گرفتاری کے لیے پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور تقریباً پانچ ماہ کا عرصہ جیل میں گزارا۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۲۶ اکتوبر ۲۰۰۵ء)

۱۹۷۶ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم اور اس کی ملحقہ جامعہ مسجد نور کو محکمہ اوقات پنجاب نے سرکاری تحویل میں لینے کا اعلان کیا تو اس کے خلاف مزاحمتی تحریک کے دوران یہ ضرورت پیش آئی کہ شعبان اور رمضان المبارک کی تعطیلات میں مدرسہ خالی نہیں رہنا چاہیے۔ چنانچہ سالانہ تعطیلات کے دوران دورۂ تفسیر شروع کر دیا گیا جو اکیس برس تک مسلسل جاری رہا اور ہزاروں علماء کرام اور طلبہ نے اس سے استفادہ کیا۔ یہ دورۂ تفسیر حضرت والدِ محترمؒ کی آواز میں آڈیو سی ڈی کی صورت میں مکمل طور پر موجود و محفوظ ہے، برادرِ عزیز مولانا عبد القدوس خان قارن اسے تحریری صورت میں مرتب کر رہے ہیں اور یہ قرآن کریم کی تعلیم و تدریس کا ذوق رکھنے والے علماء کرام اور طلبہ کے لیے ایک عظیم علمی تحفہ ہوگا۔ کم و بیش اکیس برس تک مسلسل پڑھانے کے بعد یہ سلسلہ حضرت والد محترمؒ نے ترک کر دیا تو بہت سے دیگر حضرات کے ساتھ ساتھ میں نے بھی ان سے عرض کیا کہ دورۂ تفسیر کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میں اب معذور ہوگیا ہوں اور مسلسل پڑھانا میرے بس میں نہیں رہا۔ میں نے عرض کیا کہ چند پارے آپ پڑھا دیں، باقی میں اور قارن صاحب مکمل کر لیں گے۔ انہوں نے فرمایا کہ جو علماء اور طلبہ دورۂ تفسیر پڑھنے کے لیے آئیں گے، وہ اس اعتماد کے ساتھ آئیں گے کہ سارا قرآن کریم میں خود (یعنی حضرت شیخ ؒ ) پڑھاؤں گا۔ اگر میں نے چند پارے پڑھا کر چھوڑ دیا تو ان کا اعتماد مجروح ہوگا جو دیانت کے خلاف ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے فرمایا کہ اب چونکہ وفاق المدارس نے مکمل ترجمہ قرآن کریم نصاب میں شامل کر دیا ہے جو مختلف مراحل میں باقاعدہ پڑھایا جاتا ہے، اس لیے اب اس کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ چنانچہ سالانہ دورۂ تفسیر کا سلسلہ موقوف ہوگیا جبکہ دو سال والا ترجمہ قرآن کریم وفاق المدارس کے ترجمہ قرآن کریم کے نصاب کے باوجود الگ طور پر اب بھی ہوتا ہے اور حضرت والدِ محترمؒ کی زندگی میں ہی ان کے حکم پر یہ سعادت میرے حصہ میں آگئی تھی جو مسلسل جاری ہے، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔

(ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ۔ جنوری ۲۰۱۳ء)

حضرت والد صاحب مدظلہ کے ترجمہ قرآن کریم کے تین الگ الگ حلقے ہوتے تھے۔ روزانہ صبح نماز فجر کے بعد جامع مسجد گکھڑ میں ہفتہ میں تین دن قرآن کریم اور تین دن حدیث نبویؐ کا درس ہوتا تھا۔ مدرسہ نصرۃ العلوم میں روزانہ ترجمہ کی مذکورہ کلاس ہوتی تھی اور شام کو روزانہ گکھڑ کے نارمل اسکول میں، جہاں اسکولوں کے اساتذہ کی تربیتی کلاسیں، ایس وی، جے وی، سی ٹی وغیرہ ہوتی تھیں، ان اساتذہ کے لیے درسِ قرآن کریم کا الگ حلقہ ہوتا تھا۔ تینوں کا رنگ الگ الگ تھا اور ہر کلاس میں اسی کے ماحول اور ذوق کے مطابق ترجمہ ہوا کرتا تھا۔ ان تین حلقوں کے ساتھ ایک چوتھے حلقے کا اضافہ اس وقت ہوا جب ۱۹۷۶ء میں بھٹو حکومت کے صوبائی وزیر اوقاف نے، جو گوجرانوالہ سے ہی تعلق رکھتے تھے، مدرسہ نصرۃ العلوم اور جامع مسجد نور کو سرکاری تحویل میں لینے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جس پر شہر کے علماء نے حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی سرپرستی میں اس آرڈر کو مسترد کرتے ہوئے مزاحمتی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اس مزاحمتی تحریک میں سینکڑوں علمائے کرام اور کارکن گرفتار ہوئے جن میں راقم الحروف اور میرے دو چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس خان قارن اور مولانا عبد الحق خان بشیر بھی شامل تھے، ہم اس موقع پر کئی ماہ تک گوجرانوالہ کی ڈسٹرکٹ جیل میں رہے۔ اس موقع پر ضرورت محسوس ہوئی کہ شعبان اور رمضان المبارک کی تعطیلات کے دوران مدرسہ خالی نہ رہنے دیا جائے تاکہ حکومت کو اس پر قبضہ کرنے میں آسانی نہ ہو۔ اس ضرورت کے تحت تعطیلات کے دوران مدرسہ نصرۃ العلوم میں دورۂ تفسیر قرآن کریم کا اعلان کر دیا گیا اور پھر دو عشروں تک حضرت والد محترم مدظلہ نے شعبان اور رمضان المبارک کی تعطیلات کے دوران ہزاروں علمائے کرام اور طلبہ کو قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر پڑھائی۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۲۲ جنوری ۲۰۰۷ء)

۱۹۷۶ء میں پنجاب کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ اور اس کے ساتھ ملحقہ جامع مسجد نور کو محکمہ اوقاف کی تحویل میں لینے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا تھا جس کے خلاف احتجاج کے لیے گوجرانوالہ کے معروف وکیل جناب نوید انور نوید ایڈووکیٹ مرحوم کی قیادت میں احتجاجی تحریک چلی جس میں سینکڑوں علماء اور کارکنوں نے گرفتاری دی اور ہم تین بھائی راقم الحروف، مولانا عبد القدوس خان قارن اور مولانا عبد الحق خان بشیر بھی کئی ماہ تک جیل میں رہے۔ اس تحریک کے اصل سرپرست مولانا مفتی عبد الواحدؒ، مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ، اور مولانا صوفی عبد الحمیدؒ سواتی تھے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۲۷ جون ۲۰۰۹ء)

معارفِ اسلامیہ اکادمی گکھڑ میں دورۂ تفسیرِ قرآن کریم

میں دس رمضان المبارک کو بیرون ملک سفر سے واپس پہنچا تو پہلے سے طے شدہ مصروفیات نے کسی اور طرف توجہ دینے کا موقع ہی نہیں دیا۔ گکھڑ میں معارف اسلامیہ اکادمی نے چند سالوں سے شعبان المعظم اور رمضان المبارک کی تعطیلات میں دورہ تفسیر قرآن کریم کا اہتمام کر رکھا ہے۔ ہمارے فاضل ساتھی مولانا داؤد احمد، جو مدرسہ مظاہر العلوم گوجرانوالہ کے استاذ حدیث ہیں، ترجمہ قرآن کریم اور تفسیر پڑھاتے ہیں۔ ان کے علاوہ برادرم عبد القدوس خان قارن، برادرم مولانا عبد الحق خان بشیر، مولانا محمد اسماعیل محمدی اور دیگر فاضل دوستوں کے لیکچر بھی ہوتے ہیں۔ میرے لیے آخری تین پارے چھوڑ دیے جاتے ہیں، جن کے ترجمہ اور ہلکی پھلکی تفسیر کے ساتھ مجھے اپنے ذوق کی کچھ باتیں طلبہ کے کانوں میں انڈیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس سال ڈیڑھ سو کے لگ بھگ طلبہ اور طالبات نے شرکت کی۔ ایک ہفتہ اس میں مصروفیت رہی۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۱۳ نومبر ۲۰۰۵ء)

جامعہ انوار القرآن چنیوٹ میں امامِ اہلِ سنتؒ سیمینار

عید الاضحیٰ کی تعطیلات کے دوران مجھے چنیوٹ میں ایک اجتماع میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی جس کا اہتمام جامعہ انوار القرآن چنیوٹ کے مہتمم مولانا قاری عبد الحمید حامد، مولانا محمد عمیر اور ان کے رفقاء نے کیا تھا۔ یہ کانفرنس حضرت والد محترم مولانا محمد سر فراز خان صفدر دامت برکاتہم کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ’’امام اہل سنت سیمینار‘‘ کے عنوان سے جامع مسجد صدیق اکبر میں منعقد ہوئی، جس سے برادرم مولانا قاری عبد القدوس قارن، مولانا محمد الیاس چنیوٹی، مولانا محمد الیاس گھمن، مولانا شاہ نواز فاروقی، مولانا عبد الحمید حامد اور راقم الحروف کے علاوہ شاعر اسلام الحاج سید سلمان گیلانی نے بھی خطاب کیا۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ۔ جنوری ۲۰۰۹ء)

مدرسہ تعلیم القرآن،  باگڑیاں، گکھڑ میں دورۂ تفسیر قرآن کریم

گکھڑ کے قریب باگڑیاں نامی گاؤں میں بھی کئی سالوں سے دورۂ تفسیر ہو رہا ہے۔ حاجی محمد نعیم بٹ صاحب والد محترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کے خاص عقیدت مندوں میں سے ہیں، صاحب حیثیت اور صاحب خیر آدمی ہیں۔ انہوں نے اپنے خرچہ سے گاؤں میں مدرسہ تعلیم القرآن کے نام سے درسگاہ قائم کر رکھی ہے جس میں سینکڑوں طلبہ اور طالبات مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ حضرت والد محترم اس مدرسہ کی خصوصی سرپرستی فرماتے تھے اور اس کے لیے دعا گو رہتے تھے، وہی نسبت ہمیں بھی اس کے ساتھ وابستہ رکھے ہوئے ہے اور وقتاً فوقتاً حاضری کے علاوہ دورۂ تفسیر کی سالانہ کلاس میں چند اسباق پڑھانے کی سعادت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔  باگڑیاں میں مولانا داؤد احمد میواتی ترجمہ و تفسیر کا بیشتر حصہ پڑھاتے ہیں۔ ان کے ساتھ اس سال مولانا عبد الکریم ندیم، مولانا عبد الحق خان بشیر، مولانا محمد الیاس گھمن اور مولانا محمد اسماعیل محمدی نے مختلف موضوعات پر لیکچر دیے جبکہ آخری دو پارے پڑھانے کا شرف مجھے حاصل ہوا۔ ۱۷ اگست کو اختتامی تقریب تھی جس کے مہمان خصوصی مخدوم العلماء حضرت مولانا عبد الستار تونسوی دامت برکاتہم تھے اور مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی، مولانا عبد القدوس خان قارن اور راقم الحروف کے علاوہ علامہ تونسوی مدظلہ کے فرزند مولانا عبد الغفار تونسوی نے بھی خطاب کیا۔ علماء کرام اور طلباء کا بھرپور اجتماع تھا۔ دورۂ تفسیر کے علاوہ دورۂ صرف و نحو اور حفظ قرآن کریم مکمل کرنے والے طلبہ کی بھی دستار بندی کی گئی۔ حاجی محمد نعیم بٹ کو اللہ تعالیٰ نے دولت، کشادہ دل اور حسن ذوق سے نوازا ہے۔ بہت سے دینی مدارس کی خدمت کرتے ہیں اور علماء حق سے خصوصی محبت رکھتے ہیں۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۱۱ اگست ۲۰۱۲ء)

مولانا محمد نافع جھنگویؒ اور مولانا مشتاق احمد چنیوٹی کا تعزیتی پروگرام

۱۳ مارچ کو چنیوٹ میں حضرت مولانا محمد نافع جھنگویؒ اور حضرت مولانا مشتاق احمد چنیوٹیؒ کی یاد میں منعقد ہونے والے ایک تعزیتی ریفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس کا اہتمام ’’خدام فکر اسلاف‘‘ نے جامع مسجد گڑھا میں بعد نماز عشاء کیا تھا۔ اس کی صدارت حضرت مولانا حافظ ناصر الدین خاکوانی نے کی اور مفکر اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مہمان خصوصی تھے۔ خطاب کرنے والوں میں مولانا محمد الیاس چنیوٹی، مولانا مفتی شاہد مسعود، برادرم مولانا عبد القدوس قارن، حافظ محمد عمیر چنیوٹی اور راقم الحروف شامل تھے۔ جبکہ حضرت مولانا محمد نافع قدس اللہ سرہ العزیز کے فرزندان گرامی جناب محمد مختار عمر اور مولانا ابوبکر صدیق بھی رونق محفل تھے۔ اظہارِ خیال کرنے والوں کا کہنا تھا کہ حضرت مولانا محمد نافعؒ ملک کے معمر اور بزرگ علماء کرام میں سے تھے جبکہ مولانا مشتاق احمد چنیوٹیؒ کا شمار نوجوانوں میں ہوتا تھا مگر دونوں کتابی آدمی تھے اور سادگی، تواضع، علم دوستی اور تحقیق و مطالعہ دونوں میں قدرِ مشترک تھی۔ دونوں کی زندگی ایسی تھی کہ اسے دیکھ کر پرانے بزرگوں اور اسلاف کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ حضرت مولانا محمد نافعؒ کی تصنیفات اور تحقیقی افادات و جواہر کو محفوظ رکھنے اور ان کی مسلسل اشاعت کے ’’رحماء بینہم ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے نام سے ایک رفاہی ادارہ ان کی زندگی میں ہی قائم کر دیا گیا تھا اور اس کے تحت سماجی اور رفاہی خدمات کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا تھا۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۱۷ مارچ ۲۰۱۵ء)

حضرت والد صاحبؒ کا دورۂ تفسیرِ قرآن کریم

مدرسہ نصرۃ العلوم میں ۱۹۷۶ء سے دورۂ تفسیر کا آغاز ہوا تھا جو اکیس سال تک چلتا رہا، اس کی بھی ریکارڈنگ موجود ہے۔ لیکن اس پر لطیفہ یہ ہے کہ گکھڑ والا عمومی درس تو مرتب ہو کر چھپ گیا ہے، نارمل سکول والا ریکارڈ نہیں ہو سکا تھا اور یہ ریکارڈ ہو کر ریکارڈ موجود ہے۔ اس دورے میں علماء سامنے ہوتے تھے اور والد صاحبؒ جو تفسیر انہیں پڑھاتے رہے ہیں وہ بڑی کام کی چیز ہے۔ ہمارے بھائی حضرت مولانا عبد القدوس قارن صاحب بڑے باذوق عالم ہیں اور بہت اچھے مدرس ہیں، اللہ پاک انہیں صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ وہ اس کو مرتب کر رہے ہیں اور میں کئی دفعہ انہیں یاد دلاتا ہوں کہ مکمل کر لو، چھاپ دیتے ہیں۔

(جامعہ انوار العلوم گوجرانوالہ۰ ۲۵ فروری ۲۰۲۳ء)

حضرت والد محترمؒ کے خاص ذوقِ تدریس کے ترجمان

حضرت والد محترمؒ کا ایک خاص ذوق تدریس و تعلیم کے دوران حنفیت اور دیوبندیت کے مسلکی تعارف و دفاع میں ان کا ممتاز اسلوب بھی تھا جس سے ہزاروں علماء کرام نے استفادہ کیا ہے۔ ان کے بعد جامعہ نصرۃ العلوم کی تدریس و تعلیم کے ماحول میں اس ذوق کو برادرم مولانا عبد القدوس خان قارن اور عزیزم مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی نے بحسن و خوبی سنبھال رکھا ہے۔ اور وہ بحمد اللہ تعالیٰ ترمذی شریف کی خصوصی تدریس کے اس تسلسل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۲۳ جولائی ۲۰۱۵ء)

الشریعہ کی خصوصی اشاعت ’’امام اہل سنتؒ‘‘ پر مبارکباد

مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے استاذِ حدیث مولانا عبد القدوس خان قارن نے اپنی گفتگو میں خصوصی اشاعت (ماہنامہ الشریعہ ’’بیاد امام اہل سنتؒ‘‘) کی تیاری کو ایک قابل قدر اور فخریہ کارنامہ قرار دیتے ہوئے اس پر الشریعہ اکادمی کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس کوشش کے ذریعے عوام الناس کو حضرت امام اہل سنت کی شخصیت اور ان کی ذات سے روشناس کرانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت کے ساتھ عقیدت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی تحقیقات پر کامل اعتماد کیا جائے اور اگر کسی کے ذہن میں ان کی کسی بات سے اختلاف موجود ہے تو اسے صفحۂ قرطاس پر منتقل نہیں ہونا چاہیے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۷ اکتوبر ۲۰۰۹ء)

مسئلہ توہینِ رسالت پر علمی مباحثہ

مذکورہ مسئلہ (توہینِ رسالت پر موت کی سزا) پر ملک کے جن اہلِ علم نے سنجیدگی سے قلم اٹھایا ہے ان میں دیگر علماء کرام کے علاوہ مولانا مفتی محمد عیسٰی خان گورمانی، مولانا عبد القدوس خان قارن، مولانا مفتی ڈاکٹر عبد الواحد، مولانا مفتی محمد زاہد، علامہ خلیل الرحمن قادری، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، پروفیسر مشتاق احمد اور حافظ محمد عمار خان ناصر بطور خاص قابل ذکر ہیں، اور ہم ان سب حضرات کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ایک علمی مباحثہ کو آگے بڑھانے کی طرف توجہ دی اور اس میں حصہ لیا۔

(ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء)

مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانیؒ کی نمازِ جنازہ کی امامت

مولانا مفتی محمد عیسیٰ خانؒ گورمانی کے ساتھ زندگی بھر میرا ربط و تعلق رہا۔ ہمارے درمیان عام طور پر مختلف دینی مسائل کی تحقیق اور نادر کتابوں کے حوالہ سے گفتگو چلتی رہتی تھی۔ نوشہرہ سانسی کی مسجد توحیدی میں امامت و خطابت کے ساتھ ان کی رہائش تھی اور اسی علاقہ میں جامعہ فتاح العلوم کے نام سے ایک درسگاہ بھی انہوں نے قائم کر رکھی تھی جس میں اپنی صحت کے زمانہ میں افتاء کا کورس کراتے تھے۔ بہت سے فاضل علماء کرام نے ان سے استفادہ کیا اور فقہ و افتاء کی تربیت حاصل کی۔ جب بھی ملاقات ہوتی کسی نایاب کتاب یا کسی مسئلہ پر نئی تحقیق پر بات چیت ہوتی، کوئی نئی کتاب ان کے علم میں آتی یا مجھے معلوم ہوتی تو باہمی معلومات کا تبادلہ ہو جاتا اور مسائل پر گفتگو ہوتی۔ ملاقات میں زیادہ دیر ہو جاتی تو پیغام بھیجتے تھے کہ کسی روز آکر مل جاؤ، میں جاتا اور ان کی مسجد میں کسی نماز کے بعد درس دیتا پھر کچھ دیر نشست رہتی۔ وہ مجھے کوئی کتاب ہدیہ کے طور پر مرحمت فرما دیتے۔ ہمارے پاس الشریعہ اکادمی میں بہت دفعہ تشریف لائے اور دعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھتے۔ جمعہ سے قبل گیارہ بجے جامعہ فتاح العلوم کے قریب کھلے میدان میں ان کی نماز جنازہ برادر عزیز مولانا عبد القدوس قارن حفظہ اللہ تعالیٰ کی امامت میں ادا کی گئی جس میں حضرت مولانا فضل الرحمان درخواستی، حضرت مولانا سید جاوید حسین شاہ اور حضرت مولانا محب النبی بھی شریک تھے جبکہ شہر کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کی بڑی تعداد نے جنازہ میں شرکت کی اور اس کے بعد ان کی میت تونسہ شریف روانہ کر دی گئی۔

(ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ۔ جنوری ۲۰۱۷ء)

قاری خبیب احمد عمرؒ کے ہم سبق

قاری خبیب احمد عمرؒ نے دورۂ حدیث مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں کیا اور وہ میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس خان قارن کے ہم سبق رہے ہیں، جو اس وقت مدرسہ نصرۃ العلوم میں دورۂ حدیث کے اسباق پڑھا رہے ہیں۔ قاری صاحب مرحوم نے اپنے سب بچوں کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا۔ ان کے بڑے بیٹے قاری ابوبکر صدیق جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم میں درس نظامی کے اسباق پڑھا رہے ہیں اور انتظامی معاملات میں بھی اپنے والد مرحوم کے ساتھ شریک رہے ہیں۔ چنانچہ اسی وجہ سے نماز جنازہ میں شریک اکابر علمائے کرام اور جامعہ حنفیہ کی مجلس شوریٰ نے انہیں قاری صاحبؒ کے جانشین کے طور پر منتخب کیا ہے اور تحریک خدام اہل سنت کے امیر مولانا قاضی ظہور الحسین نے ان کی دستاربندی کر کے اس کا اعلان کیا ہے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۹ مارچ ۲۰۰۹ء)

حضرت مولانا قاری عبد الحلیم صاحبؒ کے شاگر

۱۹۶۴ء میں تجوید کی کلاس کا آغاز ہوا۔ تجوید کے استاد کے طور پر حضرت مولانا قاری عبد الحلیم صاحبؒ گکھڑ تشریف لائے اور کافی عرصہ یہاں پڑھاتے رہے ہیں، ان کے سینکڑوں شاگرد ہیں جنہوں نے ان سے تجوید پڑھی ہے، میں نے خود حضرت قاری صاحبؒ سے تقریبا دو مہینے مشق کی ہے، میرے استاد محترم تھے، بڑے شفیق استاد تھے۔ میرے اکثر بھائی (مولانا حافظ قاری عبد القدوس قارن، مولانا حافظ قاری رشید الحق عابد، مولانا قاری حماد الزہراوی، قاری محمد اشرف خان ماجد مرحوم، مولانا حافظ عبد الحق خان بشیر، ہمشیرہ محترمہ ام قاری ابوبکر صدیق جہلم) ان کے شاگردوں میں سے ہیں، انہوں نے ان سے تجوید پڑھی اور مشق کی ہے۔

(الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ۔ ۲۳ ستمبر ۲۰۲۲ء)

قاری محمد انور صاحب کے ساتھ ایک نشست

قاری صاحب محترم گذشتہ دنوں گکھڑ تشریف لائے تو میں نے ان سے عرض کیا کہ اگر آپ تھوڑا سا وقت الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے لیے مرحمت فرما دیں تو ہم ان کے چند پرانے شاگرد ان کے ساتھ بیٹھ کر پرانی یادیں تازہ کر لیں گے۔ چنانچہ ۲ مئی کو ان کے ساتھ ایک نشست کا پروگرام بن گیا اور ان کے شاگردوں کی ایک اچھی خاصی تعداد جمع ہو گئی جن میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے صدر پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر، لاہور کے نامور خطیب مولانا خورشید احمد گنگوہی، میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس قارن، مولانا عبد الحق خان بشیر اور قاری منہاج الحق خان راشد اور دیگر بہت سے علماء کرام اور قراء کرام شریک تھے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۶ مئی ۲۰۰۷ء)

ماسٹر بشیر احمد کشمیری مرحوم

گکھڑ میں حضرت والد محترمؒ کے ایک قریبی ساتھی ماسٹر بشیر احمد کشمیری مرحوم مجلس احرار اسلام سے وابستہ تھے اور امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ سے گہری عقیدت رکھتے تھے، ان کے ہاں ہمارا اکثر آنا جانا رہتا تھا اور گھریلو نوعیت کے تعلقات ہوگئے تھے، حتیٰ کہ ان کی ایک ہمشیرہ محترمہ بعد میں میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس خان قارن کی خوشدامن ہوئیں۔ ماسٹر صاحب مرحوم جماعتی اور تحریکی لٹریچر سے دلچسپی رکھتے تھے اور انہی کے ہاں میں نے بچپن میں چودھری افضل حقؒ کی کتابوں ’’زندگی‘‘ اور ’’تاریخ احرار‘‘ وغیرہ کا مطالعہ کیا تھا۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۱۸ نومبر ۲۰۱۸ء)

پھر ایک قدم اور آگے بڑھا اور کتابوں کو خود پڑھنے کی منزل آگئی۔ اس کے لیے میں گکھڑ کے ایک مرحوم بزرگ ماسٹر بشیر احمد صاحب کشمیری کا ممنون احسان ہوں کہ ان کی بدولت کتاب کے مطالعہ کی حدود میں قدم رکھا۔ ماسٹر بشیر احمد کشمیریؒ پرائمری سکول کے ٹیچر تھے اور حضرت والد محترم کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ ان کے خاندان سے ہمارا گہرا خاندانی تعلق تھا۔ انہیں ہم چاچا جی کہا کرتے تھے اور وہ بھی ہم سے بھتیجوں جیسا تعلق رکھتے تھے۔ ان کی والدہ محترمہ کو ہم بے جی کہتے تھے اور ان کی ہمشیرگان ہماری پھوپھیاں کہلاتی تھیں۔ انہی میں سے ایک پھوپھی اب میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس قارن کی خوشدامن ہیں۔ والد محترم کو جب کسی جلسہ یا دوسرے کام کی وجہ سے رات گھر سے باہر رہنا پڑتا تو بے جی اس روز ہمارے ہاں رات گزارتی تھیں اور ہمیں چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنایا کرتی تھیں جس کی وجہ سے ہم بہت خوش ہوتے تھے اور ہمیں ایسی رات کا انتظار رہتا تھا۔

(ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء)

مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ — چھوٹے بھائی سے بھی چھوٹے

ازبکستان کے سفر میں مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ کے ساتھ اچھی رفاقت رہی اور اس سفر کی بہت سی یادیں ذہن میں وقتاً‌ فوقتاً‌ تازہ ہوتی رہتی ہیں۔ طبیعت میں سادگی اور زندہ دلی تھی، دوستوں کے ساتھ بے تکلف رہتے تھے اور ہنسی مزاح کا شغل چلتا رہتا تھا۔ پہلے میرے ذہن میں تھا کہ عمر میں شاید مجھ سے بڑے ہوں گے مگر ایک مرتبہ سن ولادت دریافت کی تو غالباً‌ ۱۹۵۲ء بتائی۔ میں نے دل لگی سے کہا کہ مفتی صاحب! یہ بات آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتائی، میں خواہ مخواہ اب تک آپ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھتا رہا ہوں۔ آپ تو میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس قارن سے بھی عمر میں چھوٹے ہیں۔ یہ سن کر بہت ہنسے لیکن یہ بہرحال دل لگی کی بات تھی۔ مفتی صاحب عمر میں چھوٹے ہونے کے باوجود علم وفضل اور دینی جدوجہد کے جذبہ وحوصلہ میں مجھ سے کہیں آگے تھے اور آخری عمر میں تو ان کی جدوجہد ہم سب کے لیے قابل رشک تھی۔

(روزنامہ پاکستان، لاہور۔ ۴ جون ۲۰۰۴ء)

بے تکلف دوستوں کا گروپ

اس حوالہ سے ایک اور واقعہ بھی ذہن میں آگیا ہے جس سے کسی دینی تحریک بالخصوص تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کارکنوں کے جذبات کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مرکزی مجلس عمل نے تحریک کے ایک دوسرے مرحلے میں دار العلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی میں ’’کل جماعتی ختم نبوت کانفرنس‘‘ منعقد کرنے کا اعلان کیا اور ملک بھر میں علماء کرام اور کارکنوں کو اس شرکت کے لیے کال دے دی۔ حکومت نے حسب عادت کانفرنس کے انعقاد میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کر دیں اور چاروں طرف راستوں کی ناکہ بندی کر دی گئی تاکہ علماء اور دینی کارکن کسی طرف سے بھی راولپنڈی میں داخل نہ ہو سکیں۔ گوجرانوالہ سے ایک گروپ راولپنڈی جانے کے لیے روانہ ہوا جس میں میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس قارن، قاری محمد یوسف عثمانی، جناب امان اللہ قادری اور ہمارے بے تکلف مرحوم دوست عبدالمتین چوہان شامل تھے۔ جہلم سے گزرتے ہی انہیں بس سے اتار دیا گیا کہ کسی داڑھی والے کو آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے بہت سے بس کنڈیکٹروں کی منتیں کیں مگر کوئی بھی یہ خطرہ مول لینے کو تیار نہ ہوا، بالآخر ایک بس کنڈیکٹر اس بات کے لیے تیار ہوا کہ بس کی چھت پر کسی تاجر کی خالی بوریاں بندھی ہوئی ہیں اگر وہ تیار ہوں تو وہ ان بوریوں میں لپیٹ کر انہیں راولپنڈی لے جا سکتا ہے۔ چنانچہ یہ حضرات بس کی چھت پر بار دانے کی بوریوں میں لپٹ کر راولپنڈی پہنچے اور احتجاجی جلسہ میں شریک ہوئے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۲۱ دسمبر ۲۰۰۲ء)

محمد خان جونیجو صاحب کا دور آیا ، وہ وزیراعظم بنے تو ہمارے ان کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔ ہم نے اسلام آباد میں کال دے دی، لوگوں کو کہا کہ جمعہ اسلام آباد پڑھنا ہے تو لوگ ایک دن پہلے پہنچ گئے کہ حکومت رکاوٹیں کھڑی کر دے گی۔ اس میں ایک لطیفہ یہ ہوا کہ انہوں نے ناکہ بندی کر رکھی تھی اور ہم نے طے کر رکھا تھا کہ ہم نے ہر حال میں پہنچنا ہے۔ چونکہ جو پرانے کارکن تھے انہیں پتا تھا کہ کیا کرنا ہے۔ بعض حضرات نے اپنا حلیہ بدلا۔ یہ طریقے سیکھنے پڑتے ہیں جو ہم نے سیکھے ہیں۔ راستے میں انہوں نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ ہم نے کہا ادھر ایک بندے سے کام ہے۔ انہوں نے پوچھا جمعہ کہاں پڑھنا ہے؟ ہم نے کہا جہاں آگیا پڑھ لیں گے، اس طرح ہم نکل گئے۔ حضرت مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ مجلس عمل کے نائب صدر تھے، وہ آئے تو ان کو اسلام آباد میں روکا گیا۔ وہ آتے ہی بولے کہ تم جانتے نہیں ہو میں مجلس عمل کا نائب صدر ہوں۔ انہوں نے کہا جی تشریف لے آئیں اور انہیں تھانے میں لے جا کر بٹھا دیا۔ اور بھی کئی حضرات کو تھانے میں لے گئے تھے۔ بہرحال لوگ اسلام آباد پہنچے، وہاں جمعہ پڑھا، جلسہ ہوا، شام کو ہماری میٹنگ ہوئی۔ اس کے بعد دوبارہ کال دی گئی،ناکہ بندی جہلم سے شروع ہو گئی تھی، پچاس ساٹھ میل پر ناکہ بندی کر رکھی تھی کہ کوئی آدمی جانے نہ پائے۔ اس کے باوجود لوگ پہنچے اور لوگوں کے جذبے کا حال یہ تھا کہ گوجرانوالہ کے چار پانچ ساتھیوں کو جہلم میں روک دیا گیا۔ قاری یوسف عثمانی، میرے چھوٹے بھائی قارن صاحب، امان اللہ قادری، طالب اعوان وغیرہ۔ جب انہیں روکا تو انہوں نے سوچا کہ جانا تو ضروری ہے۔ لیکن انہوں نے بٹھا دیا تھا کہ آپ نہیں جا سکتے۔ چنانچہ ایک بس پر باردانہ لدا ہوا تھا، خالی بوریاں تھیں، ان حضرات نے کنڈیکٹر سے بات کی کہ ہم آپ کو ڈبل کرایہ دیں گے آپ ہمیں باردانہ میں باندھ کر لے جائیں۔ انہوں نے کرایہ طے کر کے اپنے آپ کو بندھوایا اور بس کے اوپر چڑھ گئے ۔ باردانہ مرچوں کا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈیڑھ دو گھنٹے کا سفر تھا، ہمارا تو برا حال ہوگیا ، لیکن بہرحال اسلام آباد پہنچ گئے۔ لوگ اس کیفیت میں بھی وہاں پہنچے۔ پھر جونیجو صاحب کے ساتھ جو تفصیلی مذاکرات ہوئے، میں بھی ان میں شریک تھا۔

(الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ میں نشستیں۔ ۲۰۱۶ء، ۲۰۱۷ء)


نوٹ: ماہنامہ الشریعہ میں مولانا راشدی کی تعارف و تبصرہ والی تحریریں مولانا کامران حیدر کے مرتب کردہ مجموعہ میں آ گئی ہیں، جو اسی اشاعت میں شامل ہے۔


(اشاعت بیاد مولانا عبد القدوس خان قارنؒ)

اشاعت بیاد مولانا عبد القدوس خان قارنؒ

برادرِ عزیز مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کی وفات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا قارن صاحبؒ کے انتقال کی دل فگار خبر
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

’’ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں،       ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم‘‘
مولانا حافظ نصر الدین خان عمر

ابتدائی اطلاعات اور مختصر تعزیتی پیغامات
مولانا عبد الوکیل خان مغیرہ

والد محترم رحمہ اللہ کا سانحۂ ارتحال
حافظ محمد شمس الدین خان طلحہ صفدری و برادران

اللہ والوں کے جنازے اور وقت کی پابندی
مولانا مفتی ابو محمد

نمازِ جنازہ میں کثیر تعداد کی شرکت
حافظ عبد الجبار

سانحۂ ارتحال کی خبریں اور بیانات
حافظ عبد الرشید خان سالم

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا اظہارِ تعزیت
مولانا عبد الرؤف محمدی

اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے
مولانا فضل الرحمٰن

جیسے آپ کا دل دُکھا ہے، ہمارا دل بھی دُکھا ہے
حضرت مولانا خلیل الرحمٰن نعمانی

حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے متبعِ کامل
 مولانا میاں محمد اجمل قادری

اللہ تعالیٰ ان کی خدماتِ دینیہ کو قبول فرمائے
مولانا محمد الیاس گھمن

زاہدان، ایران سے تعزیت
مولانا غلام اللہ

علمائے کرام کے پیغامات بسلسلۂ تعزیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق

جامعہ فتحیہ لاہور میں دعائے مغفرت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

استاذ العلماء حضرت مولانا عبد القدوس قارن رحمۃ اللہ علیہ کی باتیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حافظ محمد عمرفاروق بلال پوری

اسلاف کی جیتی جاگتی عملی تصویر تھے
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی

اعزيكم واهله بهٰذا المصاب
مولانا مفتی محمد قاسم القاسمی

اسلاف کی عظیم روایات کے امین تھے
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

حق تعالیٰ شانہ صبرِ جمیل کی نعمت سے سرفراز فرمائیں
حضرت مولانا اللہ وسایا

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی یادگار تھے
مولانا محمد الیاس گھمن

تنظیمِ اسلامی کی جانب سے تعزیت
اظہر بختیار خلجی

جامعہ محمدی شریف چنیوٹ کی تعزیتی قرارداد
مولانا محمد قمر الحق

مجلسِ انوری پاکستان کی تعزیتی پیغام
    مولانا محمد راشد انوری

جامعہ حقانیہ سرگودھا کی جانب سے تعزیت
حضرت مولانا عبد القدوس ترمذی

علمی و دینی حلقوں کا عظیم نقصان
وفاق المدارس العربیہ پاکستان

تعزیت نامہ از طرف خانقاہ نقشبندیہ حسینیہ نتھیال شریف
مولانا پیر سید حسین احمد شاہ نتھیالوی

جامعہ اشاعت الاسلام اور جامعہ عبد اللہ ابن عباس مانسہرہ کی طرف سے تعزیت
حضرت مولانا خلیل الرحمٰن نعمانی

تحریک تنظیم اہلِ سنت پاکستان کا مکتوبِ تعزیت
صاحبزادہ محمد عمر فاروق تونسوی

اللہ تعالیٰ علمی، دینی اور سماجی خدمات کو قبول فرمائے
متحدہ علمائے برطانیہ

پاکستان شریعت کونسل کے تعزیت نامے
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ
پروفیسر حافظ منیر احمد

علمائے دیوبند کے علم و عمل کے وارث تھے
نقیب ملت پاکستان نیوز

سرکردہ شخصیات کی تشریف آوری اور پیغامات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ نصر الدین خان عمر و برادران

خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد کی جامعہ نصرۃ العلوم آمد
مولانا حافظ محمد حسن یوسف

وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف کی جامعہ نصرۃ العلوم آمد
مولانا حافظ فضل اللہ راشدی

امیرتنظیمِ اسلامی پاکستان جناب شجاع الدین شیخ کی الشریعہ اکادمی آمد
مولانا محمد عامر حبیب

جامعہ نصرۃ العلوم میں تعزیت کیلئے شخصیات اور وفود کی آمد
حافظ علم الدین خان ابوہریرہ

الشریعہ اکادمی میں تعزیت کیلئے شخصیات اور وفود کی آمد
ادارہ الشریعہ

مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کا سفرِ آخرت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’تیرے بغیر رونقِ دل اور در کہاں‘‘
مولانا عبد الرحیم

ایک عابد زاہد محدث مربی و معلم کی مکمل تصویر
قاری سعید احمد

استاد جی حضرت قارنؒ کے تدریسی اوصاف
اکمل فاروق

حسین یادوں کے انمٹ نقوش
مولانا محمد عبد المنتقم سلہٹی

جامع الصفات اور منکسر المزاج عالمِ دین
مولانا محمد عبد اللہ عمر

وہ روایتِ کہنہ اور مسنون وضع قطع کے امین
مولانا محمد نوید ساجد

چراغ جو خود جلتا رہا اور دوسروں کو روشنی دیتا رہا
محمد اسامہ پسروری

استادِ گرامی حضرت قارنؒ صاحب کی یاد میں
پروفیسر غلام حیدر

حضرت استاد مکرم رحمہ اللّٰہ کا حاصلِ حیات ’’عبد‘‘ اور حسنِ خاتمہ کے اشارے
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

حضرت قارنؒ کی یادیں
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

مانسہرہ میں یوم آزادی اور حضرت قارنؒ کی تاریخی آمد
مولانا حافظ عبد الہادی المیدانی سواتی

آہ! سائبانِ شفقت ہم سے جدا ہوا ہے
قاری محمد ابوبکر صدیقی

مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کے ساتھ وابستہ یادیں
اسد اللہ خان پشاوری

مولانا عبدالقدوس خان قارنؒ کے ہزارہ میں دو یادگار دن
مولانا قاری شجاع الدین

حضرت قارن صاحبؒ سے ملاقاتوں اور استفادے کی حسین یادیں
مولانا حافظ فضل اللہ راشدی

علمِ دین کا ایک سایہ دار درخت
مولانا میاں عبد اللطیف

آہ! استاذ قارن صاحبؒ
مفتی محمد اسلم یعقوب گجر

حضرت قارن رحمہ اللہ اور ڈاکٹر صاحبان کی تشخیص
حافظ اکبر سیالکوٹی

استاد محترم، ایک عہد کے ترجمان
مفتی شمس الدین ایڈووکیٹ

حضرت شیخ قارنؒ — امام اہلسنت نور اللہ مرقدہ کی تصویر
مولانا قاری عبد القدیر سواتی

تحریک ختمِ نبوت اور حضرت قارن رحمہ اللہ تعالیٰ
مولانا عبد اللہ انیس

حضرت مولانا عبد القدوس قارنؒ: چند یادیں
مولانا حافظ خرم شہزاد

محبت اور دلجوئی کرنے والے بزرگ
قاری محمد عثمان رمضان

ایک عہد کا اختتام
   حافظ حفظ الرحمٰن راجپوت

استاد عالی وقار
ڈاکٹر حافظ محمد رشید

چراغِ علم بجھ گیا
مولانا محمد عمر عثمانی

’’یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہرِ یک دانہ‘‘
مولانا عبد الجبار سلفی

ایک بے مثال شخصیت
بلال مصطفیٰ ملک

مطمئن اور نورانی چہرہ
پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد حمید مشرقی

حضرت قارنؒ اور مولانا فضل الہادی سواتی
عمار نفیس فاروقی

نعی وفاۃ الشیخ عبدالقدوس خان رحمہ اللہ تعالیٰ
مولانا ذکاء اللہ

آہ ایک اور علم و معرفت کا درخشندہ ستارہ غروب ہو گیا
مولانا شفیق الرحمان شاکر ایبٹ آبادی

استاد محترم مولانا عبد القدوس قارنؒ بھی چلے گئے
محمد مقصود کشمیری

خاندانِ سواتی کا ایک درخشندہ ستارہ
ڈاکٹر فضل الرحمٰن

ایک آفتابِ علم کا غروب
صاحبزادہ حافظ حامد خان

حضرت قارن صاحبؒ حضرت شیخ سرفرازؒ کی نظر میں
محمد سرور کشمیری

امت ایک مخلص عالم سے محروم ہو گئی
مفتی رشید احمد العلوی

ہزاروں طالبانِ علم کے مُفیض
یحیٰی علوی

آہ! ایک درخشاں ستارۂ علم و فضل
ڈاکٹر ناصر محمود

حضرت قارنؒ سے پہلی ملاقات
محمد بلال فاروقی

دینِ متین کا ایک اور روشن چراغ گل ہوگیا
محمد عمران حقانی

استاد جی حضرت قارنؒ اور ملکی قانون کی پابندی
 مولانا امداد اللہ طیب

حضرت قارن رحمہ اللہ کا پابندئ وقت کا ایک واقعہ
شہزادہ مبشر

حضرت قارنؒ اور قرآن کا ادب
قاری عبد الوحید مدنی

’’قارن‘‘ کی وجہِ تسمیہ
 مولانا حافظ فرمان الحق قادری

چراغِ علم کی رخصتی
مولانا محمد ادریس

استاد جی حضرت قارنؒ کے گہرے نقوش
مولانا محمد حنظلہ

دل بہت غمگین ہوا!
محمد فاروق احمد

حضرت قارن صاحبؒ کی وفات اور قرآن کا وعدہ
میاں محمد سعید

’’وہ چہرۂ خاندانِ صفدر، جو سارے رشتوں کا پاسباں تھا‘‘
احسان اللہ

’’دے کر وہ دینِ حق کی گواہی چلا گیا‘‘
لیاقت حسین فاروقی

’’مجلس کے شہسوار تھے استادِ محترمؒ‘‘
قاری محمد ابوبکر صدیقی

’’تیری محفلیں تھیں گلشنِ دیں کی خوشبوئیں‘‘
   حافظ حفظ الرحمٰن راجپوت

یہ ہیں متوکل علماء
قاضی محمد رویس خان ایوبی

میرے ماموں زاد حضرت قارنؒ کی پُر شفقت یادیں
سہیل امین

سانحۂ ارتحال برادرِ مکرم
مولانا محمد عرباض خان سواتی

’’گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا‘‘
امِ ریحان

’’وقار تھا اور سادگی تھی اور ان کی شخصیت میں نور تھا‘‘
ڈاکٹر سبیل رضوان

عمِ مکرمؒ کی شخصیت کے چند پہلو
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

تایاجان علیہ الرحمہ، ایک گوہر نایاب
اُمیمہ عزیز الرحمٰن

"اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا"
حافظ عبد الرزاق خان واجد

والد گرامی حضرت قارنؒ کے ہمراہ مولانا عبد القیوم ہزارویؒ کے جنازہ میں شرکت
حافظ محمد شمس الدین خان طلحہ صفدری

’’اک ستارہ تھا وہ کہکشاں ہو گیا‘‘
اہلیہ حافظ علم الدین خان ابوہریرہ

’’کیا بیتی ہم پہ لوگو! کسے حال دل سنائیں؟‘‘
اہلیہ حافظ محمد شمس الدین خان طلحہ

میرے پیارے پھوپھا جانؒ
محمد احمد عمر بٹ

دل جیتنے والے پھوپھا جانؒ
بنت محمد عمر بٹ

میرے دادا ابو کی یاد میں
حافظ حنظلہ عمر

شفقتوں کے امین
دختر مولانا حافظ نصر الدین خان عمر

دادا جان ہماری تعلیم و تربیت کے نگہبان
دختر حافظ علم الدین ابوہریرہ

آہ! حضرت قارن صاحب رحمہ اللہ
مولانا محمد فاروق شاہین

حضرت مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کی نمازِ جنازہ و تعزیتی اجتماع
مولانا حافظ فضل الہادی سواتی

’’جوڑی ٹوٹ گئی‘‘
مولانا حافظ محمد حسن یوسف

مولانا عبد الحق بشیر اور مولانا زاہد الراشدی کے تاثرات
عمار نفیس فاروقی

الشریعہ اکادمی میں تعزیتی تقریب
مولانا محمد اسامہ قاسم

مدرسہ تعلیم القرآن میترانوالی کے زیر اہتمام مولانا عبدالقدوس قارنؒ سیمینار
حافظ محمد عمرفاروق بلال پوری
حافظ سعد جمیل

قارن کی یہ دعا ہے الٰہی قبول کر لے!
مولانا عبد القدوس خان قارن

فہرست تصنیفات حضرت مولانا حافظ عبدالقدوس خان قارنؒ
مولانا عبد الوکیل خان مغیرہ

منتخب تاثراتی تحریریں
مولانا حبیب القدوس خان معاویہ

افکار و نظریات حضرات شیخینؒ سیمینار سے خطاب
مولانا عبد القدوس خان قارن
حافظ محمد عمرفاروق بلال پوری

’’تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کے تقاضے
مولانا عبد القدوس خان قارن

بخاری ثانی کے اختتام کے موقع پر دعائیں
مولانا عبد القدوس خان قارن
  مولانا عمر شکیل خان

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی کی تحریروں میں حضرت قارنؒ کا تذکرہ
ادارہ الشریعہ

مجلہ الشریعہ میں حضرت مولانا عبد القدوس خان قارنؒ کا تذکرہ
مولانا حافظ کامران حیدر

فہرست اشاعت بیاد حضرت قارنؒ
ادارہ الشریعہ

پیش لفظ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

عرضِ مرتب
ناصر الدین عامر

مطبوعات

شماریات

Flag Counter