استاد گرامی مولانا عبد القدوس قارن رحمہ اللہ کے انتقال پرملال کے بعد ان کے اسباق استاذ گرامی مولانا فیاض سواتی اطال اللہ بقاءہ اور مولانا فضل الہادی دامت برکاتہم کے حصہ میں آئے۔
ترمذی اول کا سبق استاذ جی فضل الہادی دام ظلہ نے پڑھانا تھا سو تشریف لائے اور آج کے سبق کی منظر کشی کچھ یوں تھی: ’’بڑوں کا جانا تھوڑا حادثہ تھا جو چھوٹوں کو ان کا مسند نشین ہونا پڑا، یہ اس سے بھی بڑا حادثہ ہے۔ مجھے تدریس میں جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو قارن صاحب سے پوچھتے تھے، گذشتہ دنوں ایک مسئلہ میں مشکل پیش آئی تو بے ساختہ فون اٹھایا تو فوراً خیال آیا کہ قارن صاحبؒ نہیں ہیں‘‘ یہ کہتے ہوئے استاد جی بے ساختہ رو پڑے۔ ’’مدرسہ میں آیا تو استاد جی کا دروازہ دیکھ کر خیال آیا کہ استاد جی ابھی آئیں گے تو فوراً خیال آیا کہ قارن صاحب نہیں ہیں۔ یہ ’’نہیں ہیں‘‘ ہضم نہیں ہو رہا۔ اللہ عافیت فرمائے‘‘۔
مزید فرمایا کہ ’’حضرت نے وفات تک دورۂ حدیث کے طلبہ کو ترمذی شریف کی تین کتب پڑھائیں جو اسلام کے تین عقائد پر اثبات کی دلیل ہے ان شاء اللہ۔ آخری باب کتاب العیدین کا پڑھایا جس کے چھبیس ابواب ہیں ان میں سے اٹھارہ پڑھائے اور آٹھ باقی تھے جو جنت کے آٹھ دروازوں میں دخول پر نیک شگون ہے ان شاء اللہ۔ استاد جی نے آخری سبق تیرہ اگست کو عیدین کی کتاب سے پڑھایا تو اگلے دن چودہ اگست یومِ آزادی اور اس سے اگلے پندرہ اگست یومِ جمعہ کی صورت میں استاد جی نے دو عیدیں بھی دیکھ لیں۔‘‘
ایک دو واقعات سنائے جنہوں نے زخم دوبارہ تازہ کر دیا۔ اللھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ۔ نمدیدہ و رنجیدہ کلاس اختتام پذیر ہوئی۔