شیخ الحدیث جامع المعقول والمنقول استاذ العلماء میرے استاذ و مربی حضرت مولانا عبد القدوس خان قارن صاحب گزشتہ کئی دہائیوں سے سال سے علم کی شمع روشن کرتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی کے حضور پیش ہو گئے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ عالم کی موت سارے جہاں کی موت ہوتی ہے۔ آج کا دن میرے لیے یوم الحزن سے کم نہیں ہے۔
استاد کا مقام اس وقت اور بھی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے جب استاد علم کے خزانے طالب علم میں منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ باپ جیسی شفقت اور ماں جیسا پیار عطا کرے۔ ہم نے اس علم و معرفت سے مزین مربی کو ہر آن ہر کھڑی بس ہنستے مسکراتے دیکھا۔ اس عظیم ہستی کو پریشان و مایوس چہروں کو خوش راضی کرتے دیکھا۔ دورانِ طالب علمی ہم جب بھی ان کے پاس بیٹھتے تو شفقت فرماتے اور اپنی زندگی کے تلخ و حسین واقعات ضرور بیان فرماتے۔ اور مسکراتے ہوئے ہمیں تسلی بھی دیتے اور استقامت کی دعا بھی دیتے۔ ایک جملہ فرمایا کرتے کہ جامعہ نصرت العلوم کا طالب علم کبھی کسی دوسرے جامعہ میں نہیں رہ سکتا، اس لیے کہ اس جامعہ میں طالب علم کی جو مہمان نوازی اور خدمت ہوتی ہے کسی دوسرے مدرسہ میں نہیں ہوتی، اس لیے وہ جہاں کہیں چلا بھی جائے واپس ضرور آئے گا۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ان جیسے شیوخ کے قدموں میں بیٹھ کر علم کے موتی حاصل کرنے والے کہاں کسی دوسرے مقام کو ترجیح دے سکتے تھے۔
حضرت مولانا عبد القدوس خان قارن صاحبؒ گزشتہ پچاس سال سے جامعہ نصرت العلوم کے مدرس تھے، آپ نے عرصہ پچاس سال جامع مسجد نور میں امامت کے فرائض سر انجام دیے، آج بھی فجر کی نماز کی امامت کروائی، پہلی رکعت میں سورۃ حشر آور دوسری رکعت میں سورۃ جمعہ کی تلاوت فرمائی۔ عرصہ 35 سال سے نمازِ فجر کے بعد درس قرآن پاک کا اہتمام کیا۔ 56 سال مسلسل رمضان المبارک میں نماز تراویح میں قرآن پاک مکمل کرنے کی سعادت حاصل کی۔ اکثر رمضان المبارک میں اعتکاف کیا۔ 35 سال مسجد تقویٰ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ حج اور عمرہ کے علاوہ 11 دینی کتب تحریر فرمائیں۔ آپ محنت، سادگی، تقویٰ، علم، عمل، اخلاص کے پیکر تھے۔ اپنے استاذ محترم اور خاندان سواتی چشم و چراغ اور علماء و شیوخ کے ساتھ علمی عملی اور روحانی تعلق و رشتہ تادم مرگ جاری رہے گا- اللّٰہ کریم حضرت کے درجات بلند فرمائے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
(۱۵ اگست ۲۰۲۵ء)