(جمعیت اہلسنت والجماعت کے زیر اہتمام فہمِ قرآن اسلامک سنٹر، شہزاد ٹاؤن، گوجرانوالہ میں ’’فہمِ قرآن و سنت کورس‘‘ سے ۲۸ مئی ۲۰۱۹ء کو خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ قابلِ صد احترام سامعینِ عظام اور میری انتہائی احترام و اکرام کے لائق خواتینِ اسلام! حضرت حافظ (گلزار احمد آزاد) صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے زکوٰۃ اور صدقۂ فطر کے بارے میں کچھ کہنے کا حکم دیا ہے، مختصر وقت میں اس کے بارے میں کماحقہ تو بیان نہیں کیا جا سکتا لیکن صدقہ اور زکوٰۃ کی حیثیت ایک حدیث کی روشنی میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔
صدقہ اور زکوٰۃ کی حیثیت
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ تم چونکہ اللہ کے نائب ہو، اللہ نے تمام مخلوقات میں تمہیں اعلیٰ اور افضل بنایا ہے، دنیا میں تمہیں اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے، اس لیے تم انسان اپنے اندر اللہ والی صفات کو پیدا کرو۔ ’’تخلقوا باخلاق اللہ‘‘۔ اپنے اندر اللہ والے اخلاق کو پیدا کرو۔ اللہ پاک ہے، تمہیں حکم دیا کہ پاکی اختیار کرو۔ ظاہر کے لحاظ سے بھی پاکی، باطن کے لحاظ سے بھی پاکی، اعتقاد کے لحاظ سے بھی پاکی، اخلاق کے لحاظ سے پاکی، جسم کے لحاظ سے پاکی، کپڑوں کے لحاظ سے پاکی، معاشرت کے لحاظ سے پاکی۔ پاکی اختیار کرو۔
اسی طرح باقی صفات جو ہیں ان میں ایک صفت رب تعالیٰ کی، کہ رب تعالیٰ رب العالمین ہے، تمام جہانوں کو پالنے والی ذات ہے۔ چھوٹی سی چیز کو پالتے پالتے پالتے پالتے بڑا کر دیتا ہے۔ بندوں سے تقاضا یہ ہوا ’’تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کہ تم بھی اپنے اندر وہ جذبہ رکھو کہ تمہارے کمزور طبقات جو ہیں، تم نے ان کا سہارا بنتے ہوئے رب والی صفت کو اپنے اندر پیدا کر کے، تم نے ان کی پرورش کرنی ہے۔ اللہ کے نائب کی حیثیت سے، ’’تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کے حکم کو پورا کرنے کے لیے۔ اب ایک آدمی اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے، گویا رب تعالیٰ کی وصفِ ربوبیت جو ہے اس کا اظہار بندے نے اپنے اندر کیا، کہ پروردگار کے حکم کے ساتھ میں اللہ کی مخلوق کو روزی عالمِ اسباب پہ دے رہا ہوں۔ حقیقت پہ تو اللہ دیتا ہے۔ اس کا مرتبہ کتنا ہوگا!
اور اسی کے ساتھ مماثلت اور مشابہت بیان کرنے کے لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا کہ تم جب صدقہ کرتے ہو، تم سمجھتے ہو کہ معمولی ہے، اللہ تو اس کو یوں پالتا ہے جس طرح تم اپنے جانور کے بچوں کو پالتے ہو۔ بکری ہے چھوٹی، پالتے پالتے۔ فرمایا، خود محشر کے میدان میں آدمی حیران و پریشان ہوگا کہ یہ مجھے کس چیز کا بدلہ دیا جا رہا ہے؟ فرشتوں سے پوچھے گا۔ فلاں وقت میں تو نے کسی کو کھانا کھلایا تھا نا، فلاں وقت میں تو نے کسی کی حاجت پوری کی تھی، فلاں وقت میں تو نے کسی محتاج کو اس کی احتیاجی دور کرنے کے اسباب دیے تھے، یہ اس کا بدلہ ہے۔ آدمی خود حیران ہوگا۔ اس لیے صدقہ و خیرات کے بارے میں۔
اور پھر یہ کہ زکوٰۃ جو ہے، زکوٰۃ کے بارے میں حضرات نے کہا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ زکوٰۃ نکالو اپنے مالوں کی، ورنہ یہ زکوٰۃ والا مال اگر تمہارے باقی مادہ مال کے اندر باقی رہے گا تو سارے مال کو فاسد اور برباد کر دے گا۔ اس کی مثال جسم کے اندر ایسے پھوڑے کی سمجھی جائے، جب تک آپریشن کے ساتھ اس کو کاٹتے نہیں، باقی جسم کی صحت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی، سارے جسم کے برباد ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ فرمایا، اسی طرح اگر کوئی آدمی زکوٰۃ کا مال نہیں نکالتا تو اس کا باقی مادہ سارے کا سارا مال فاسد ہوگا، باطل ہوگا، اور اگر تم چاہتے ہو کہ اپنے باقی مادہ مال کو پاک کرو، زکوٰۃ جو پروردگار نے فرض فرمائی ہے، اس زکوٰۃ کی ادائیگی کرو۔ اس کے ساتھ ایک تو اللہ والی صفت تمہارے اندر آئے گی، کہ پروردگار رب ہے اور تم بھی اللہ کی مخلوق کے ساتھ ترس کھاتے ہوئے عالمِ اسباب میں اس کی روزی کا انتظام کرتے ہو۔ تو یہ صدقہ خیرات کے بارے میں۔
اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، فرمایا کہ رمضان المبارک میں تو آپؐ، یہ ریحِ مرسلہ، یہ چلتی ہے ہوا، یہ ہوا تو معمولی سا سوراخ دیکھ کر بھی اندر گھس جاتی ہے، فرمایا اس ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوا کرتے تھے رمضان المبارک میں۔ اس لیے آپؐ نے ترغیب دی کہ اپنے باقی مادہ مال کو پاک کرنے کے لیے زکوٰۃ کی ادائیگی کی جائے۔ اور اللہ کے ہاں قُرب حاصل کرنے کے لیے پروردگار کی مخلوق پر ترس کھاؤ۔ اب دیکھیے مخلوق پر ترس کھانا، یہ کوئی معمولی عمل نہیں، ہم تو اپنے معاشرے میں چونکہ غافل ہیں اور غفلت کی وجہ سے ہمیں پتہ نہیں چلتا۔
خلقِ خدا پر ترس کھانے کا وصف
خلقِ خدا پر ترس کھانا، بخاری شریف کی روایت ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ایک ایسا آدمی جس نے، ایمان تو اس کے اندر تھا، لیکن کبھی نیک عمل نہیں کیا تھا۔ رب تعالیٰ نے رحمت کے فرشتوں کو کہا اس کی موت کے وقت کہ اس کی روح تم نے قبض کرنی ہے۔ رحمت کے فرشتے کہنے لگے کہ اس نے تو کبھی نیک عمل کیا ہی نہیں ہے اور ہمیں حکم دیا جا رہا ہے کہ تم نے اس کی روح کو قبض کرنا ہے۔ فرشتوں نے اس سے سوال کر دیا، بندے تیری کوئی نیکی ہے؟ اس نے کہا، سوچ میں پڑ گیا، نہیں میں نے تو کبھی نیک کام نہیں کیا، ہاں اتنی بات ہے ایک، وہ یہ کہ میں تاجر تھا، تجارت میرا پیشہ تھا، میں نے اپنے کارندوں سے اپنے ملازموں سے اپنے خادموں سے یہ کہہ رکھا تھا کہ دیکھو اگر کوئی کمزور آدمی آئے درگزر کا معاملہ کرو، اور اگر کوئی آدمی تم سے مہلت مانگتا ہے تو مہلت دو، اور اگر بہت زیادہ کمزور ہے تو درگزر کا معاملہ کرو۔ ادھر اس نے فرشتوں سے یہ کہا، غیب سے آواز آئی، میرے بندے! اگر تیرے دل میں میری مخلوق کے بارے میں یہ ترس کا مادہ تھا، تو میں تیرے ساتھ ترس کا معاملہ کیوں نہ کروں؟ میں تیرے ساتھ ترس کا معاملہ کیوں نہ کروں؟ اس لیے ایک تو مخلوق کے ساتھ ترس کا معاملہ ہے، رب تعالیٰ کی ربوبیت والی صفت کا بندہ عالمِ اسباب میں اظہار کرتا ہے تو یہ بہت بڑی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ ریاکاری سے بچاتے ہوئے ہماری ہر عبادت کو قبول فرمائے۔
علماء کی قدر کا درست مفہوم
حضرت حافظ صاحب نے آپ کو یہ ارشاد فرمایا کہ علماء کی قدر کرنی چاہیے۔ علماء کی واقعی قدر کرنی چاہیے، لیکن قدر کا مفہوم بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے، قدر کس کو کہتے ہیں؟ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا ایک واقعہ بیان کیا ہے، کہتے ہیں میرا ایک مرید تھا، اس مرید کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ میں حضرت کا جوتا اٹھاؤں۔ ہمارے ہاں قدر اِعزاز یہ آگیا جی، جوتا اٹھاؤ۔ فرماتے ہیں میں اس کو موقع نہیں دیتا تھا، میں جا کر اپنا جوتا خود اٹھاتا۔ ایک دفعہ یوں ہوا کہ جوتے تک میرے پہنچنے سے پہلے پہلے وہ پہنچ گیا، ادھر میں بھی پہنچ گیا۔ جب میں اپنے جوتے کو اٹھانے لگا تو اس نے مجھے دھکا دیا، مجھے گرا دیا اور جوتا اٹھا لیا۔ اپنے طور پر مجھے دیکھ کر فاتحانہ انداز میں وہ مسکرایا، ہنسا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے اس بیچارے کو کیا پتہ کہ قدر کیا ہوتی ہے۔ کیا دھکا دے کر جوتا اٹھانا یہ قدر ہے۔
آج ہم معاشرے کے اندر نظر دوڑائیں تو قدر جو ہے اس کو بھی ہم نے ایک مذاق بنا دیا۔ موقع کی مناسبت میں آپ حضرات سے کہنا چاہتا ہوں، آج کے دور میں دیکھا دیکھی یہ فیشن آگیا، حافظ صاحب نے ختم کیا ہے اس کو پھولوں کا ہار پہناتے ہیں، پتیاں نچھاور کرتے ہیں۔ علماء آئے، ان پر یہ پتیاں نچھاور کرتے ہیں۔ قاری صاحب نے تلاوت کی، پتیاں نچھاور کرتے ہیں۔ نعت خوان نے نعت پڑھی، پتیاں نچھاور کرتے ہیں۔ حالانکہ پتیاں نچھاور کرنا اس کے اعزاز کے ساتھ ساتھ اس جگہ کو آلودہ بھی تو کرتا ہے۔ اور مسجد میں اگر پروگرام ہے تو مسجد کو تم نے آلودہ کر دیا، بعد میں مسجد کی صفائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سوموار کو میری امت کے اعمال میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں حتیٰ کہ نیکی اور بدی یہ پیش کی جاتی ہے، فرمایا اگر کسی آدمی نے مسجد میں گند ڈالا اس کی برائی بھی میرے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ اور آپ اندازہ کریں امتی کے کسی برے عمل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا جائے تو کیا آپ کا دل دکھتا نہیں ہوگا؟ اب صرف ایک جانب کو پیشِ نظر رکھا، جی مولوی صاحب آئے ہیں ان پر پتیاں نچھاور کرو، قاری صاحب نے تلاوت کی ہے پتیاں نچھاور کرو۔ لیکن دوسری جانب نظر ہی نہیں کہ کیا ہماری اس حرکت سے اللہ کا گھر مسجد یہ آلودہ تو نہیں ہو رہی۔ اس لیے فرمایا کہ مومن آدمی جو ہے، مومن آدمی ہر جانب دیکھتا ہے۔ اگر کسی آدمی کی ایک آنکھ ہو وہ ایک آنکھ کے ساتھ ایک ہی جانب دیکھے گا۔ لیکن مومن آدمی ہمہ جانب دیکھتا ہے۔ کیا یہ صرف احترام ہے یا احترام کے ساتھ بے احترامی کا پہلو بھی پایا جاتا ہے؟ بے احترامی نہیں ہونی چاہیے۔ ویسے درمیان میں ضمناً یہ بات آگئی۔
سوال و جواب کے ذریعے تعلیم اور اس کے تقاضے
اسلام میں بھی اور دیگر مذاہب میں بھی یہ سوالات کا سلسلہ تعلیم کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ تعلیم میں یہ انداز بعض بعض معاملات میں زیادہ کارگر زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سوالات پوچھتے رہے، حتیٰ کہ پروردگار نے جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا، انہوں نے آ کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کیے تاکہ امت کو تعلیم کا یہ انداز اختیار کرنے میں کوئی قباحت نظر نہ آئے کہ سوال کیا اور سوال کا جواب حاصل کیا۔
لیکن ایک دور ایسا آیا جس دور میں یہود و نصاریٰ کے اکسانے پر منافقین نے آپؐ کو پریشان کرنے کے لیے، آپؐ کا وقت ضائع کرنے کے لیے، حضراتِ صحابہ کرام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان رکاوٹ ڈالنے کے لیے ایسے سوالات شروع کر دیے جو بالکل لا یعنی قسم کے ہوتے۔ بخاری شریف کی روایت ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، کچھ لوگوں نے سوالات شروع کر دیے۔ ایک کہنے لگا، میرا ابا کون ہے؟ ایک کہنے لگا جی میری اونٹنی کہاں ہے؟ کیا اللہ کا نبی یہ بتانے کے لیے ہے؟
اسی کی روشنی میں، میں عوام الناس سے یہ درخواست بھی کرتا ہوں کہ کسی عالم کے پاس جائیں مسئلہ پوچھیں، مسئلہ جو زندگی کے اندر مذہبی حیثیت سے فائدے اور نقصان کا باعث بننے والا ہو، وہ پوچھیں۔ اس سے وہ باتیں نہ پوچھیں جو اس کے علم کے ساتھ تعلق نہیں رکھتیں بلکہ وہ تو اللہ کے علم کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ آدمی آ جائے حافظ گلزار صاحب کے پاس اور آ کر کہے حافظ صاحب میری چوری ہو گئی ہے بتاؤ میری چوری کس نے کی ہے، میری چوری کرنے والا کہاں ہے؟ یہ مسائل علماء سے نہیں پوچھے جاتے۔ علماء سے مسائل، جو دنیاوی لحاظ سے، اُخروی لحاظ سے، یہ مسائل پوچھے جاتے ہیں۔
اللہ کے نبی سے بھی ان سوالات کی اجازت تھی جو دین کی تقویت کا باعث بنتے، جو معاشرے کے اندر اصلاح کا باعث بنتے ہیں۔ اب یہ سوال کہ میرا ابا کون ہے؟ میری اونٹنی کہاں گئی؟ اس طرح کے اوٹ پٹانگ قسم کے سوالات۔ اللہ کے نبی کو غصہ آیا، صلی اللہ علیہ وسلم، اور پروردگار نے سارے غیبی پردے ہٹا دیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہر چیز کو ظاہر کر دیا۔ آپؐ نے فرمایا، اچھا تم میرا امتحان لینا چاہتے ہو! پوچھو، میں تمہیں جواب دوں گا ’’ما دمت فی مقامی ھذا‘‘ جب تک میں اس مجلس کے اندر موجود ہوں جو سوال کرو گے میں اس کا جواب دوں گا۔ اس لیے کہ پروردگار نے غیب کے سارے پردے اس وقت ہٹا دیے تھے۔ اور یہ آپ کا انداز ناراضگی کا تھا۔ اور اللہ کا ولی، عالم جب غصے میں کہتا ہے نا کہ پوچھو! اب اس میں ایک دھمکی بھی ہوتی ہے۔ اللہ کے نبی نے غصے سے کہا۔
معاملہ فہمی کی ضرورت و اہمیت
لیکن ہمارے ہاں غصے کو بھی غصہ نہیں سمجھا جاتا۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بیمار تھے، بستر پر پڑے، اور وقت لینے والے آئے تو حضرت کی اٹھنے کی حالت نہیں تھی۔ حضرت نے غصے میں کہا ’’ایمبولنس لاؤ اور لے جاؤ‘‘۔ تھوڑی دیر گزری وہ ایمبولنس لے کر آ گئے اور لا کر مکان کے سامنے کھڑی کر دی۔ گکھڑ والے حیران کہ حضرت کے مکان کے سامنے ایمبولنس آگئی ہے، پتہ نہیں کیا معاملہ ہے، وہ اکٹھے ہوئے تو پتہ چلا کہ وہ تو حضرت کے غصے کے انداز کو عام جواب سمجھتے ہوئے ایمبولنس لے کر آگئے۔ جی ہم نے اپنے جلسے کے لیے لے جانا ہے آپ نے کہا تھا ایمبولنس لے آؤ، ہم ایمبولنس لے آئے ہیں۔ اب یہ غصے کا انداز جو ہے اس کو سمجھنا چاہیے ایسے معاملات میں۔
اس لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، آپ ناراض ہوئے، ہائے ہائے، اللہ کیسے آپ کی ناراضگی کو برداشت کر سکتا ہے، اللہ نے حکم اتار دیا ’’یا ایھا الذین اٰمنوا لا تسئلوا عن اشیآء ان تبدلکم تسؤکم‘‘ ایمان والو! فضول قسم کے سوال مت کرو، جواب ملا تو برا لگے گا۔ جیسے اس آدمی کو برا لگا، ایک آدمی کی باپ کے علاوہ کسی اور کی جانب نسبت کی جاتی تھی، جب آپؐ نے کہا کہ تیرا باپ وہی ہے جس کی جانب نسبت کی جاتی ہے، تو حلال زادہ نہیں ہے۔ برا مانا۔ فرمایا، سوال ہی کیوں کیا تھا ’’میرا ابا کون ہے جی؟‘‘ حقیقتِ حال سامنے آئی برا مانا۔ فرمایا کہ اگر حقیقتِ حال سامنے آئے گی، تم برا مناؤ گے۔ اس لیے ایسے سوالات مت کرو جن سوالات میں تمہیں جواب اچھا نہ لگے۔
سوالات کے جوابات
اس لیے اپنی اصلاح کے لیے، اپنے گرد و پیش کے لوگوں کی اصلاح کے لیے سوالات کرنا اچھی چیز ہے۔ اور سوالات کرنے والا جب سوال کے ذریعے سے علم کی بات کو اجاگر کرتا ہے تو یہ اللہ کے راستے میں جہاد کے مترادف ہے، اس لیے یہ جہاد کی ایک قسم ہے۔ میری جن بہنوں نے، میرے جن بھائیوں نے یہ سوالات کیے ہیں تو وہ دینی جذبے کے ساتھ کیے ہیں، اپنی اصلاح کے لیے کیے ہیں، اپنے عقائد و اخلاق و اعمال کی درستگی کے لیے، اپنی عبادات کو صحیح قائم رکھنے کے لیے انہوں نے کیے ہیں، اس لیے یہ جوابات دیے جا رہے ہیں۔
کام کاج کے کپڑوں میں نماز پڑھنا
سوال: میری ایک بہن پوچھتی ہے کہ ہم کام کاج کے کپڑوں میں نماز پڑھ سکتے ہیں، جبکہ ہم نے یہ سنا ہے کہ جس لباس میں تم اپنے دوست کے پاس ملاقات کے لیے نہ جا سکو، ایسا لباس تم پہن کر اللہ کے حضور حاضر نہ ہو۔
جواب: دیکھیے، ایک ہے لباس کا صاف ستھرا ہونا، ایک ہے پاک ہونا۔ نماز کے لیے پاک لباس کی، بلکہ عورتوں کو تو گھر کے کام کاج کے کپڑے پہن کر مسجد میں وعظ سننے اور مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت مشروط ہے۔ بھڑکیلے لباس کے ساتھ عورتوں کو منع کیا گیا کہ تم بھڑکیلے لباس کے ساتھ، زیورات کی نمائش کے لیے، اپنے کپڑوں کے فیشن کی نمائش کے لیے تم نماز کے لیے بھی نہیں جا سکتیں۔ فرمایا کہ عورتیں اگر تم سے اجازت مانگیں کہ ہم نے مسجد میں نماز پڑھنے جانا ہے، ہم نے دینی مجلس میں وعظ سننے کے لیے جانا ہے، فرمایا، ان سے کہو اپنے گھر کے کام کاج والے کپڑوں میں جائیں۔ اگر تو واقعی تیار ہو جائیں تو پھر ان کی خواہش ہے وعظ سننے کی، مسجد میں نماز پڑھنے کی۔ اور اگر یہ کہیں کہ ہم نے اس لباس میں نہیں جانا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فیشن دکھانا مقصود ہے، نماز پڑھنا مقصود نہیں ہے۔ ایسی حالت میں روک دو۔ مردوں کو حکم دیا، فرمایا کہ اگر یہ گھر کے کام کاج کے کپڑوں میں جانے کو پسند کرتی ہیں تو پھر تو واضح بات ہے کہ ان کا مقصد نماز کے لیے جانا ہے، وعظ کی بات سننے کے لیے جانا ہے۔ اور اگر یہ اور مقصد کے لیے جاتی ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ وعظ کے لیے نہیں، نماز کے لیے نہیں، بلکہ اپنے فیشن دکھانے کے لیے، ایسی عورتوں کو تو مسجد میں جانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
تو یہ پاک ہونا چاہیے۔ ہر آدمی صاف ستھرا لباس پہننے کے لیے ہر نماز میں گھر نہیں جا سکتا، بدل کر نہیں آ سکتا، جو دکان میں پہنا ہوا ہے اسی میں جا کر نماز پڑھ لے شریعت اجازت دیتی ہے بشرطیکہ پاک ہو۔ ہاں جمعے کے دن کے لیے کہا کہ ذرا دھلے ہوئے کپڑے پہن کر آؤ، مجمع زیادہ ہوتا ہے، کہیں تمہارے ایک دوسرے کے کپڑے سے یہ پسینے کی بو کی وجہ سے آس پاس بیٹھے ہوؤں کو تکلیف نہ پہنچے۔ جمعے کا مسئلہ، عید کا مسئلہ الگ ہے۔ عام نمازوں میں کپڑا پاک ہونا چاہیے، صاف ستھرا ہو یا کچھ اس پر دھبے بھی لگے ہوں، کوئی حرج کی بات نہیں۔
پیوند لگے کپڑے پہننے کی سنت
سوال: یہ کہتے ہیں جی، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں پر پیوند لگے ہوتے تھے۔
جواب: سنت تو یہی ہے، سنت تو یہی ہے۔ لیکن بعض دفعہ مجبوری ہو جاتی ہے۔ حضرت مولانا عبید اللہ انور صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی، شوق ہوا کہ اپنے لباس میں بھی سادگی لائیں۔ میں مسجد نور کا امام تھا، اب بھی ہوں۔ بیٹھے بیٹھے کیل کے ساتھ شلوار اڑ گئی اور وہ پھٹ گئی۔ میں نے کہا موقع ملا ہے پیوند والے کپڑے کو پہننے کا، تو میں نے درزی کو دیا اس نے پیوند لگا دیا۔ وہ چونکہ درمیان میں ایک کپڑا اور لگانا تھا، وہ واضح طور پر نظر آ رہا تھا، ایک نماز پڑھائی، اگلے دن دیکھا دو نئے سوٹ سلے سلائے لا کر مجھے پیش کر دیے گئے، حضرت! آپ ہمارے امام ہیں اور پیوند لگا ہوا کپڑا آپ پہنیں تو ہمارا جی نہیں چاہا ہم دو سوٹ جو ہیں آپ کے لیے سلوا کر لائے ہیں۔ اللہ کے بندے! ہماری خواہش کیا تھی تم نے کیا کر دیا؟
اس لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی ادائیگی، یہ پیوند لگے ہوئے کپڑے پہننے چاہئیں۔ بشرطیکہ دوسرے لوگ اس سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں، اور اگر دوسرے لوگ جس طرح میرے اس مقتدی نے غلط فائدہ اٹھایا، تو اس لیے ہم ذرا احتیاط کرتے ہیں کہ لوگوں کے سامنے پیوند لگے ہوئے نہیں پہنتے۔ جی چاہتا ہے پہنیں، لوگ نہیں پہننے دیتے۔ فرمایا کہ عام کپڑوں کے اندر نماز ہو جاتی ہے بشرطیکہ پاک ہوں۔
مہندی کے علاوہ کسی رنگ سے بال رنگنا
سوال: یہ کہتے ہیں جی مہندی کے علاوہ بالوں کو کسی رنگ سے…
جواب: دیکھیے، مہندی ہو یا مہندی کے علاوہ کوئی اور رنگ ہو، عورتوں کے لیے جائز ہے۔ اس لیے کہ عورتوں کو اپنے گھر میں اپنے خاوند کے لیے ہر ایسا انداز اختیار کرنے کی اجازت ہے جو اس بیوی کی قدر، عزت، محبت خاوند کے دل میں ڈالے۔ وہ مہندی لگائے، بالوں کو کالا کرے، عورتوں کے لیے اجازت ہے۔ ہاں مرد بوڑھا کالا خضاب نہ لگائے، بالکل کالا کہ وہ بوڑھا جوان نظر آنے لگ جائے، اس کو تو منع کیا گیا۔ ہاں کسی اور رنگ کے ساتھ رنگا ہوا جس سے پتہ چلے کہ اس نے خضاب لگایا ہے ایسا خضاب لگانے کی مرد کو (اجازت ہے)۔ عورتوں کو کھلی چھٹی ہے، لیکن وہ رنگ ایسا ہو جو جسم میں پیوست نہ ہوتا ہو، لیپ نہ کرتا ہو، اگر لیپ ہو جاتا ہے تو وہ ناخن پالش کی طرح ہوگا، تو ناخن پالش چونکہ اوپر لیپ ہو جانے کے بعد اصل جسم پر پانی نہیں پڑتا، نہ وضو ہوتا ہے، نہ غسل ہوتا ہے۔ اور اگر اس کی صرف رنگت ہے تو رنگت میں عورتوں کو کھلی چھٹی ہے، وہ بیوٹی پارلر کی بجائے اپنے گھریلو جو حسن کے انداز ہیں وہ اختیار کریں۔
کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا
سوال: کہتے ہیں جی کرسی پر بیٹھ کر…
جواب: دیکھیے بھئی، شریعت نے نرمی کا حکم دیا ہے، ایک آدمی اگر کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو بیٹھ کر پڑھے۔ بیٹھنے میں بھی جو انداز اختیار کر سکتا ہے، اگر التحیات کی صورت میں بیٹھ سکتا التحیات کی صورت میں بیٹھے، گوٹھ مار کر بیٹھ سکتا ہے گوٹھ مار کر بیٹھے، اور اگر کسی اور انداز میں بیٹھنا چاہتا ہے تو بے شک ٹانگیں وہ قبلے کی طرف پھیلا کر نماز پڑھ سکتا ہے، شریعت نے اجازت دی ہے۔ لیکن اس آدمی کے لیے جس کو قیام کی ہمت نہ ہو اور رکوع اور سجدہ، یہ کرے۔ اگر رکوع اور سجدے کی ہمت نہیں تو رکوع اور سجدے کا اشارہ کرے۔
اب یہ زمین پر بیٹھنا، شریعت کی جانب سے یہ قیام کا متبادل ہے۔ اور ہم نے اپنے طور پر بیٹھنے کا ایک اور متبادل نکال لیا، وہ ہے کرسی پر بیٹھنا۔ یہ کرسی پر بیٹھنا قیام کا متبادل نہیں، یہ کرسی پر بیٹھنا زمین پر بیٹھنے کا متبادل ہے۔ لہٰذا وہ آدمی جو زمین پر بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا اس کے لیے اجازت ہے کہ وہ کرسی پر بیٹھ کر پڑھے۔ شریعت نے متبادل بتایا ہے، متبادل ہے زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا، اس میں بھی انداز، شریعت نے اجازت دے دی، تم گوٹھ مار کر بیٹھ سکتے ہو، تم التحیات کی صورت میں بیٹھ سکتے ہو، تم ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ سکتے ہو۔ زمین پر بیٹھو۔ اور یہ کرسی پر بیٹھنا یہ زمین پر بیٹھنے کا متبادل ہے۔
اور یہ حضرات آپ کو بتائیں گے کہ متبادل اس صورت میں اختیار کیا جاتا ہے جب اصل کی ہمت نہ ہو۔ اگر اصل پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں پھر متبادل کی اجازت نہیں ہوتی۔ قیام کی طاقت ہے، بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت نہیں ہے فرض نماز۔ نفل میں تو گنجائش ہے۔ اسی طرح جس آدمی کو زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی ہمت ہے وہ کرسی پر نماز پڑھنے سے گریز کرے، اس لیے کہ یہ متبادل ہے۔ متبادل اس صورت میں جب کہ اصل پر عمل کرنے کی ہمت نہ ہو۔
اس لیے یہ کرسی پر نماز پڑھنا، یہ ان لوگوں کے لیے، جو زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی ہمت بھی نہیں رکھتے، ٹانگوں میں درد ہے، گھٹنے میں درد ہے، بواسیر کا پھوڑا ہے، بھگندر ہے جو زمین پر بیٹھنے نہیں دیتا، ایسے لوگ بڑے ہیں۔ اور جن کے صرف گھٹنوں میں درد ہے وہ کرسی کی بنسبت زمین پر آسانی کے ساتھ ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ سکتے ہیں، وہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھیں تاکہ زمین پر جسم کا زیادہ سے زیادہ حصہ لگے۔ اگر رکوع اور سجدہ نہیں کر سکتے تو زمین پر بیٹھے ہوئے وہ اشارہ کریں۔ اشارے کے ساتھ نماز پڑھیں تاکہ کم از کم قیام کا متبادل، زمین پر بیٹھنے کی صورت میں شریعت نے جو بتایا ہے، اس پر عمل پیرا ہو سکے۔
سونے چاندی کے علاوہ دیگر دھاتوں کا زیور پہننا
سوال: یہ کہتے ہیں جی سونے چاندی کے علاوہ چوڑیاں پہننا …
میں نے کہا عورتوں کو اللہ نے کھلی چھٹی دی ہے، وہ ہیرے کی انگوٹھی پہنیں، وہ کانچ کی چوڑیاں پہنیں، وہ لوہے کی انگوٹھیاں پہنیں، لوہے کے کڑے پہنیں، چاندی کے پہنیں، سونے کے پہنیں، پیتل کے پہنیں، جو پہن سکتی ہیں پہنیں، بشرطیکہ صرف اپنے گھر والوں کے سامنے اپنے خاوند کے سامنے زینت کے اظہار کی نیت ہو۔ اگر صرف اپنے خاوند کے سامنے زینت کے اظہار کی نیت ہے اس عورت کو ثواب ملے گا، اس عورت کو ثواب ملے گا، اس لیے کہ جو عورت اپنے خاوند کے دل کو اپنی جانب مائل رکھنے کے اسباب اختیار کرتی ہے، وہ گھر کو، گھر کے ماحول کو بہتر بنانے کا انداز اختیار کرتی ہے، اس کو اس کے ایک ایک عمل کا اچھا بدلہ ملےگا۔ اس لیے عورتیں، یہ کانچ کی پہنیں، سونے کی پہنیں چاندی کی پہنیں لوہے کی پہنیں، جو بھی زیور، عورتوں کے لیے اجازت ہے۔ ہاں اگر سونے کی ہیں تو ان کی زکٰوۃ دینا ضروری ہوگا۔
ناخنوں پر رنگ لگانا
سوال: یہ کہتے ہیں جی ناخنوں پر سرخ مہندی …
تو میں نے کہا کہ کالی ہو یا سرخ ہو بشرطیکہ وہ لیپ نہ کرتی ہو اور صرف رنگ لاتی ہے تو ایسی مہندی عورتوں کو لگانے میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ مرد اس صورت میں لگا سکتے ہیں جب بطورِ علاج ہو۔ گرمی کا موسم ہے حکیم نے کہہ دیا پاؤں پر مہندی لگاؤ بھئی۔ مرد بطور علاج لگا سکتے ہیں، عورت بطور زینت لگا سکتی ہے۔ بشرطیکہ زینت کا اثر اپنے صرف گھرانے کے اندر اندر ہو، اور اپنے خاوند کے سامنے ہو۔
جہیز کی رقم یا سامان پر زکوٰۃ
سوال: یہ میری بہن کہتی ہے کہ بچی پیدا ہوتی ہے، والدین اس کو بیاہنے کی تیاری میں سامان جہیز کا تیار کرتے ہیں۔
دیکھیے، اگر جہیز سامان کی صورت میں ہے اس پر تو زکوۃ نہیں، ہاں اگر انہوں نے بینک میں پیسہ اس نیت کے ساتھ جمع کرانا شروع کیا ہوا ہے، یا کوئی زیور رکھا ہوا ہے، تو اس زیور پر، اور جو بینک میں یا گھر میں پیسہ رکھا ہوا ہے اس کی شادی کے لیے، جب تک اس کی شادی نہیں ہوتی اگر وہ زکوٰۃ کے نصاب تک مال پہنچتا ہے تو اس کی زکوٰۃ لازم ہے، جب تک اس کو خرچ نہیں کریں۔ تو یہ جو گھروں میں بسترے بنا لیتی ہیں بیویاں اور یہ رکھ لیتی ہے سامان، اس سامان پر نہیں ہے۔ بلکہ نقدی ہو، زیور ہو، یہ جو تیار کر کے رکھیں گی ان پر زکوٰۃ ہو گی۔ یہ جہیز کا جو سامان باقی ہے اس پر نہیں ہو گی۔
شادی سے پہلے تصویر یا براہ راست دیکھنا
سوال: یہ میری بہن پوچھتی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ شادی سے پہلے دکھائی گئیں، تو اس کا معنی یہ ہوا کہ مرد عورت کو شادی سے پہلے، اس کی تصویر دیکھ سکتا ہے۔
ایک لمحے کے لیے سوچیں کیا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف یہی عمل ہمارے لیے قابلِ عمل ہے؟ کیا باقی اعمال کی پرواہ ہم کرتے ہیں؟ ام المومنینؓ، یہ تو معجزہ تھا حضورؐ کا۔ باقی رہا یہ کہ شرعی نقطہ نظر سے مرد عورت کو خفیہ نظر سے، عورت مرد کو گھر والوں کی اجازت کے ساتھ، اپنے طور پر نہیں، گھر والوں کی اجازت کے ساتھ کہ یہ بچہ ہے ہم نے تیری شادی اس کے ساتھ کرنی ہے ذرا ایک نظر دیکھ لے، پردے میں دیکھ لے۔ عورت بھی دیکھ سکتی ہے، مرد بھی دیکھ سکتا ہے، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔
اب چونکہ آج کا دور جو ہے قیاس در قیاس کا ہے۔ جی دیکھنے کی اجازت ہے تو پھر ملاقات کی بھی اجازت ہے۔ ملاقات کی اجازت ہے تو پھر گلشن پارک لے جانے کی بھی اجازت ہے۔ گلشن پارک میں لے جانے کی اجازت ہے تو سینما گھر میں بھی۔ یہ قیاس در قیاس کے دروازے بند کرنے کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ پہلے مرحلے میں ہی قدم روک دو۔ اور اگر یہ شرعی قدم ہے تو شادی سے پہلے دیکھا جا سکتا ہے۔ راہ جاتے ہوئے عورتیں دیکھتی ہیں، بیٹھا ہے دکان پر، نظر پڑ گئی، کوئی حرج کی بات نہیں، ٹھیک ہے بھئی۔ لیکن والدین کی اجازت کے ساتھ کہ فلاں بچہ ہے، اس کے ساتھ تیرا نکاح کرنا چاہتے ہیں، جاتے جاتے نظر پھیر لینا۔ تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔
عورت مرد کو دیکھ سکتی ہے، مرد عورت کو دیکھ سکتا ہے۔ ہاں ایک شرط کہ دیکھنے کے بعد کسی قسم کی جانبین میں سے کسی کی تذلیل کا ذریعہ نہ بنے۔ جیسے یہ عورتوں کی عادت ہوتی ہے۔ ’’اسی ویخ آئے ساں سانوں نئیں چنگا لگا‘‘۔ اس بیچارے کی کیوں تذلیل کرتے ہو؟ ہم دیکھ آئے تھے ہمیں کُڑی پسند نہیں آئی۔ کیا ضرورت ہے؟ تم نے دیکھا ہے، تمہیں شریعت نے اجازت دی، لیکن آگے تبصرے کی اجازت نہیں ہے۔ تمہارا جی نہیں چاہتا، نہ کرو، تبصرے کیوں کرتے ہیں؟ یہ تبصرے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ تذلیل ہے۔ دیکھنے کی اجازت ہے، تذلیل کی اجازت نہیں ہے۔ یہ شریعت ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابیؓ سے فرمایا کہ انصار کی عورت کے ساتھ تیرا رشتہ طے ہوا ہے، تو نے دیکھا ہے؟ کہنے لگے، نہیں۔ فرمایا، دیکھ لے، پہلی نظر جو ہے وہ دل میں محبت کو پیدا کرتی ہے۔ اس لیے یہ قید کے ساتھ کہ آگے تذلیل کا باعث نہ بنے، ذلت کا باعث نہ بنے، تو دیکھ سکتے ہیں، کوئی حرج کی بات نہیں۔ تصویر تو تصویر، بظاہر بیٹھے ہوئے دوکان پر اس بچے کو دیکھا جا سکتا ہے۔
ریشمی دوپٹے کے ساتھ نماز پڑھنا
سوال: کہتے ہیں جی ریشمی دوپٹہ لے کر نماز پڑھنا …
دیکھیے، دوپٹہ اس کو کہا جاتا ہے جس کے ساتھ سر ڈھانپا جا سکے۔ ریشمی کپڑا اگر ایسا ہے جو سر پر ٹھہرتا نہیں، بار بار گرتا ہے، بار بار گرتا ہے۔ ایک تو نماز کے اندر عملِ کثیر ہوگا کہ اس کو سر ڈھانپنے کے لیے بار بار جسارت کرنی ہو گی۔ اور دوسرا یہ کہ ہو سکتا ہے کہ سر سے یکدم وہ ریشمی کپڑا اتنا گر جائے کہ سر ننگا ہو جائے۔ جب آدھا سر ننگا ہو گیا تو نماز پڑھی ہوئی باطل ہو گئی، دوبارہ نماز پڑھے۔ اس لیے اگر یہ نیت ہے کہ وہ بار بار گرتا ہے، میں بار بار سنبھالتی ہوں، تو پھر تو احتیاط چاہیے، ایسا کپڑا سر پر رکھنا چاہیے جس کے گرنے کا امکان کم ہو اور زیادہ حرکات نماز میں نہ کرنی پڑیں۔ اس لیے اگر وہ کپڑا بار بار گرتا ہے تو ایسا کپڑا لے کر نماز پڑھنے سے احتیاط کرنی چاہیے۔
عینک کے ساتھ نماز پڑھنا
سوال: یہ کہتے ہیں جی عینک لگا کر نماز پڑھنا …
کوئی حرج کی بات نہیں، بشرطیکہ ناک اور ماتھا دونوں زمین پر لگتے ہوں۔ اور اگر فیشنی عینک ہے جو ماتھے کو زمین پر نہیں لگنے دیتی، اونچی ہے، تو پھر ایسی عینک کی احتیاط کرنی چاہیے۔ ویسے نماز عینک کے ساتھ، کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
میک اپ کے ساتھ نماز پڑھنا
سوال: یہ میری ایک بہن پوچھتی ہے کہ میک اپ کر کے نماز پڑھنا …
اسی قسم کا سوال ایک دفعہ ہوا، ایک نیک خاتون تھی، اچھے کپڑے پہن کر میک اپ کر کے وہ نماز پڑھنے کے لیے کھڑی ہوئی۔ اس کے گھر والوں نے پوچھا کہ یہ کیا؟ کہنے لگی، اللہ نے فرمایا ’’خذوا زینتکم عند کل مسجد‘‘ مسجد سے مراد نماز۔ ہر نماز کے وقت تم زینت اختیار کرو۔
لہٰذا اگر ایسی چیزیں، ایسی کریم، میک اپ میں ایسا سامان جس کے اندر حرام کی ملاوٹ نہ ہو۔ بعض بعض پرفیوم ایسے آئے جن کے اندر شراب کی کثرت کی وجہ سے ان کو لگانا ممنوع قرار دیا گیا۔ ایسی ایسی لپسٹکیں آئیں جن کا لگانا ممنوع ہے۔ وہ تو نہ لگائے۔ کہتے ہیں، یہ کھوتے کی کھال لے جاتے ہیں چائنا والے، اس سے میک اپ کا سامان تیار کرتے ہیں۔ اگر کھوتے کی کھال کا بنایا ہوا ہے تو ایسے میک اپ کے سامان کے ساتھ تو عورت اللہ کے حضور حاضر نہ ہو۔ ہونٹ اپنے صاف کر کے، اپنا چہرہ صاف کر کے۔ لیکن اگر ایسا سامان نہیں، صرف زینت کا سامان ہے تو کوئی حرج کی بات نہیں۔ عورت بنی سنوری بیٹھی ہے، دلہن ہے، اور نماز کا وقت ہو گیا، اٹھے اٹھ کر نماز پڑھے اگر پاک ہے۔ اور اس میک اپ کے استعمال کے ساتھ کوئی حرج نہیں نماز پڑھنا۔
اگر وضو نہ ٹھہرتا ہو
سوال: یہ میری بہن پوچھتی ہے کہ اگر کسی کا وضو نہ ٹھہرتا ہو …
جواب: مثلاً کسی پیشاب والے کے پیشاب کے قطرے نہیں رکتے۔ استطلاقِ بطن، کہ ہوا خارج ہوتی رہتی ہے، اتنا وقت بھی اس کو نہیں ملتا کہ وہ نماز پڑھ سکے۔ عورتوں کو استحاضے کی بیماری کی صورت میں، لیکوریا کی صورت میں۔ تو ایسے حضرات کو معذور اور معذورہ کہا جاتا ہے۔ معذور کو شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ ایک نماز کا وقت شروع ہو، اس وقت وضو کر لے، اور اگلی نماز کا وقت آنے تک اپنے آپ کو باوضو پاک سمجھتے ہوئے جو عبادت ادا کرنا چاہتی ہے کر سکتی ہے۔ مرد بھی عورت بھی۔ سلسلِ بول کی بھی ایک بیماری ہے، پیشاب کے قطرات نکلتے ہیں۔
ظہر کی نماز کا وقت ہوا، وضو کر لیا، اب عصر کی نماز کے وقت تک وہ قرآن بھی پڑھ سکتی ہے، نماز بھی پڑھ سکتی ہے، اذکار بھی کر سکتی ہے، کوئی حرج کی بات نہیں۔ یہی حال ہے مردوں کا جن کو سلسلِ بول کی بیماری ہے۔ اب پیشاب کے قطرے بھی گر رہے ہیں اور یہ نماز بھی پڑھ رہا ہے، کوئی حرج کی بات نہیں، شریعت نے اس کو معذور قرار دے کر معذور والا حکم، کہ وہ ہر نماز کے وقت کے لیے وضو کرے، اگلی نماز کا وقت آیا تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا، نیا وضو اس کو کرنا پڑے گا۔
عورت کے لیے شریعت کی آزادی اور حدود
سوال: یہ سونا چاندی، کہتے ہیں اس کے علاوہ کوئی اور …
جواب: میں نے کہا کہ عورتوں کو پروردگار نے کھلی چھٹی دی ہے۔ یہ جو کہتے ہیں نا جی، اسلام نے عورتوں کو جکڑ کر رکھ دیا۔ جتنی عورتوں کو آزادی شریعت نے دی ہے کسی اور مذہب نے نہیں دی۔ ہاں، عورت کو عورت کی حیثیت۔ عورت کو جانور کی حیثیت سے نہیں کہ بکری جس کھرلی میں جائے، جائے۔ ناں بھئی، عورت کا مقام بہت اونچا ہے۔ عورت ہونے کے ناطے گھر میں اچھے سے اچھا لباس پہنے، زیورات پہنے، لیکن باہر نکلنے کا وقت عورت کو عورت ہونا چاہیے۔
عورت کا معنی کیا ہے؟ عورت کا معنی ہے چھپانے کی چیز۔ فرمایا، ’’عورۃ الرجل‘‘ آدمی کے جسم کے چھپانے کا حصہ، یہ ناف سے لے کر گھٹنے تک کا حصہ۔ جس طرح یہ عورۃ ہے، اسی طرح وہ عورۃ ہے، اس کو چھپاؤ، اس کی نمائش مت کرو۔ اس کو میلوں ٹھیلوں میں لے کر مت جاؤ، اس کو ضرورت کے وقت باہر نکلنے کی اجازت دو۔ یہ عورت ہے، لہٰذا عورت ہونے کی حیثیت ہو تو ٹھیک ہے … جیسے اسلام آباد میں ایک اجلاس ہوا، انہوں نے یہ کہا کہ جب تک نکاح والی رسم ختم نہیں کی جاتی اس وقت تک عورت کو آزادی نہیں ملتی، لہٰذا یہ نکاح والی رسم۔ اللہ کے بندو! کیا تم عورت کو کھوتی کی طرح سمجھتے ہو، جہاں چاہے وہ چلی جائے؟ نکاح کے ساتھ عورت اپنے گھر کا ایک عظیم فرد بنتی ہے، اس کا اعزاز ہے، اس کا اکرام ہے، اس کا وقار ہے۔ اور تم یہ سمجھتے ہو کہ اسلام نے جو اس کو نکاح کی پابندی لگائی، یہ اس کی آزادی کے منافی ہے؟ انسانوں والی آزادی چاہیے، کھوتے گھوڑے والی آزادی نہیں چاہیے … اسلام اجازت نہیں دیتا، یہ عورت کے اعزاز اکرام، اس کی عزت کے منافی چیز ہے۔
خواتین کا بال کٹوانا
سوال: یہ کہتے ہیں کیا بچیوں کو بال کٹوانے چاہئیں …
جواب: دیکھیے، اصل بات یہ ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دور میں مردوں سے یہ کہا کہ دیکھو تم اپنی داڑھی کو سفید مت رکھو، تم اس کو مہندی کے ساتھ رنگ لیا کرو۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہودیوں نے بھی داڑھیاں رکھی ہوئی ہیں، وہ رنگتے نہیں، تم رنگو تاکہ تمہارے اور یہودیوں کے درمیان فرق واضح ہو جائے۔ معاشرے کے اندر یہودیوں کی مخالفت، ایک دور تھا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں یہود و نصاریٰ کی عورتیں بالوں کو نہیں کاٹتی تھیں، بلکہ عرب لوگ بڑے بالوں کو عورتوں کے لیے فخر کا باعث سمجھتے تھے۔ اشعار بھرے پڑے ہیں کہ فلاں عورت کے بال ایسے، فلاں عورت کے بال ایسے۔ امہات المومنینؓ فیشن کی مخالفت کرتے ہوئے کاٹ دیتی تھیں۔ مسلم شریف کی روایت ہے، ام المومنین حضرت عائشہؓ بھی کاٹتی تھیں، حضرت ام سلمہؓ بھی کاٹتی تھیں۔
لیکن یہاں یہود و نصاریٰ والا فیشن بال کاٹنے کا ہے۔ اِس دور میں عورتوں کو یہود و نصاریٰ سے اور ان کی عورتوں کے فیشن سے بچنے کے لیے نہیں کاٹنے چاہئیں۔ بال کاٹنا اگر یہود و نصاریٰ کا فیشن ہے تو پھر نہیں کاٹنے چاہئیں۔ اگر ان کا فیشن الٹ ہے تو پھر بال کاٹنے میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ کٹے ہوئے بال اچھے انداز کے ساتھ سنبھالے جا سکتے ہیں۔
اس لیے امہات المومنین کے بارے میں جو روایات ہیں وہ اس لیے کہ وہ یہود و نصاری کی مخالفت تھی، عربوں کی مخالفت تھی، جو بڑے بالوں کو پسند کرتے تھے۔ تو میری بہنیں، یہود و نصاریٰ کا فیشن آج عام ہو چکا ہے، اس لیے ان کے فیشن سے بچنے کے لیے آج عورتوں کو اپنے بال نہیں کٹوانے چاہئیں۔
بڑے ناخنوں کے ساتھ نماز پڑھنا
سوال: یہ کہتے ہیں ناخن بڑے ہوں تو نماز …
دیکھیے، ناخن بڑا ہونا کوئی اپنے طور پر۔ لیکن یہ ہے کہ ناخن بڑا ہونے کی وجہ سے اندر میل کچیل پھنس جاتی ہے، وہ ناخن اندر پانی جانے سے رکاوٹ بن جاتا ہے اور صحیح طور پر غسل اور وضو نہیں ہوتا۔ اس لیے بڑے ناخن نہیں ہونے چاہئیں۔ والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک جوڑا آیا، نئی نئی ان کی شادی ہوئی تھی۔ اس نے اپنے ناخنوں کو ظاہر کیا، بڑے بڑے ناخن تھے۔ وہ چونکہ بے تکلف تھے تو والد صاحبؒ نے پوچھا ’’یہ بلی کب سے لائی ہے؟ کہا، جی بلی؟ ’’ہاں، اینے تینوں کدی نوندراں نئیں ماریاں؟‘‘ پنجابی بولتے تھے۔ ’’اے بلی کدوں دی آندی آ؟‘‘ بلی؟ دیکھنے لگ گیا۔ فرمایا، یہ بلی کی عادت ہے لمبے لبے ناخن، کاٹو ان کو۔ یہ تو خاوند کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔
اس لیے یہ لمبے ناخن اس لحاظ سے کہ یہ خاوند کے لیے ڈراوے کا باعث بھی ہیں، اور پھر یہ لمبے ہونے کی وجہ سے وضو اور غسل میں رکاوٹ بھی بنتے ہیں، اس لیے فرمایا کہ اس سے گریز کرنا اور ان کو کاٹنا چاہیے۔
مسجدِ حرام کو مسجدِ حرام کیوں کہتے ہیں؟
سوال: یہ کہتے ہیں جی مسجدِ حرام کو مسجدِ حرام کیوں کہا جاتا ہے؟
جواب: حرام کا معنی ہے احترام و اکرام۔ یہ مسجد جو ہے تمام دنیا کے خطوں میں زیادہ احترام والی جگہ ہے اس لیے اس مسجد کو مسجدِ حرام کہا جاتا ہے۔
اعتکاف کے دوران نہانا
سوال: اعتکاف کے دوران نہا سکتے ہیں؟
جواب: دیکھیے، حضرات نے کہا کہ معتکف اعتکاف والی جگہ سے نہ نکلے۔ اور یہ مسجد ساری کی ساری اس کے لیے اعتکاف کی جگہ ہے۔ اس لیے جہاں عبادت ہوتی ہے وہ مسجد ہے۔ ہمارے یہ بیت الخلا، یہ وضو کی جگہ، یہ مسجد کا حصہ تو ہیں لیکن مسجد نہیں ہیں۔ اس حصے میں معتکف کو نہیں جانا چاہیے۔ ہاں، مسجد کے اندر انتظام کر دیا جائے تو وہاں یہ ٹھنڈک کا غسل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر غسلِ لازم ہو جائے، احتلام ہو گیا، تو پھر باہر نکل کر بھی غسل کرنے کی اجازت ہے۔
شام کے وقت جھاڑو دینا
سوال: یہ کہتے ہیں جی، شام کے وقت میں گھر میں جھاڑو دینا …
جواب: دیکھیے، بعض بعض صوفیا نے لکھا کہ رزق میں بے برکتی کا باعث بنتا ہے۔ حدیث نہیں ہے، کوئی شرعی مسئلہ اہم نہیں ہے۔ اور بعض حضرات نے کہا کہ چونکہ اس دور میں ہوتی تھی تاریکی، تاریکی میں جھاڑو کے ساتھ کوئی زہریلا کیڑا مکوڑا بھی نکل آتا۔ آج کل تو رات کی تاریکی میں ہے ٹیسٹ میچ کھیلے جاتے ہیں۔ دن کی بنسبت بھی رات کو زیادہ اجالا ہوتا ہے۔ آج کے دور میں یہ کوئی حرج کی بات نہیں۔ اگر کوئی آدمی صوفیائے کرام کی اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ رات کے وقت میں جھاڑو پھیرنا رزق میں تنگی کا باعث بنتا ہے، تو نہ پھرے۔ لیکن اس میں اگر ایسی کوئی صورت پیش آ جائے تو جھاڑو عورتیں لگا سکتی ہیں، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔
مہندی کے بارے میں، میں نے کہہ دیا کہ اگر لیپ ہے تو درست نہیں۔ لیپ نہیں صرف رنگت ہے، تو اس کے ساتھ وضو بھی ہو جاتا ہے، غسل بھی ہو جاتا ہے۔
غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والوں کی کمائی
سوال: کہتے ہیں ایک آدمی چوری چھپے دوسرے ملک چلا گیا، وہاں کمائی کرتا ہے تو کیا اس کی کمائی جائز ہے؟
جواب: دیکھیے، وہاں اگر وہ جائز کاروبار کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ یہ دو چیزیں الگ الگ ہیں: ایک ہے وہاں چوری چھپے جانا، یہ ہے حکومت کا جرم کہ اس آدمی نے حکومت کا جرم کیا ہے۔ وہاں جا کر اگر وہ جائز کمائی کے ساتھ کمائی کرتا ہے تو گھر والوں کو اس کی کمائی میں شک نہیں کرنا چاہیے، اس کی کمائی جائز اور درست ہے۔
اب دیکھیں، یہ مسئلہ نہیں پوچھتے کہ جو لوگ عمرے کی نیت کے ساتھ چلے جاتے تھے، آج کل تو زیادہ سختی ہو گئی، اور وہاں وہ چوری چھپے رہ کر حج بھی کر کے آتے، یہ بھی تو جرم ہے نا، لیکن حج ہو گیا۔ اسی طرح یہ آدمی اگر چوری چھپے گیا ہے، مجرم ہے حکومت کا، اس کا یہ گناہ الگ ہے۔ لیکن اس کی کمائی جائز ہے، اگر وہ جائز انداز کے ساتھ کما رہا ہے۔
اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا
سوال: کہتے ہیں باپ زندہ ہو تو جائیداد …
جواب: زندہ باپ کیوں جائیداد تقسیم کرتا ہے؟ ہم نے زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے والوں کو فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر روتے دیکھا ہے۔ ہمارے ایک جاننے والے تھے، وہ کہنے لگے، دیکھو! باپ چھ بچوں کو پالتا ہے، چھ بچے ایک باپ کو نہیں پال سکتے۔ جائیداد تقسیم کر دی، تھڑے پر بیٹھ کر روتا تھا، چھ بچوں کو پالا ہے لیکن چھ بچے مل کر بھی میری کفالت نہیں کر رہے۔ میں اِدھر اُدھر ٹھوکریں۔ کیوں؟ جائیداد کو تقسیم کر دیا۔
وراثت کا حق بنتا ہے آدمی کے مرنے کے بعد۔ اولاد اپنی کمائی کرے، اپنا کاروبار کرے، اپنے وسائل اختیار کرے۔ باپ کے مرنے کے بعد وہ وارث بنتا ہے، باپ کے مرنے سے پہلے پہلے وہ وارث نہیں بنتا۔ اس کو للچائی ہوئی نظر کے ساتھ باپ کی جائیداد کی جانب نہیں دیکھنا چاہیے۔
نہیں تقسیم کرنی چاہیے، لیکن اگر وہ تقسیم کرتا ہے تو اس کو اختیار ہے۔ اس لیے کہ اگر وہ مرضِ وفات میں نہیں تو مرضِ وفات میں نہ ہونے کی وجہ سے اس کو اختیار ہے، وہ بیٹی کو زیادہ دیتا ہے کہ بیٹے کو زیادہ دیتا ہے۔ لیکن مرنے کے بعد ’’للذکر مثل حظ الانثیین‘‘ بیٹے کو دو اور بیٹی کو ایک حصے کے انداز سے اس جائیداد کو تقسیم کیا جائے گا۔ اور آج کے دور میں باپ کو زندگی میں جائیداد تقسیم نہیں کرنی چاہیے، اس کے بہت مہلک اثرات ہم نے دیکھے ہیں۔
مہرِ مؤجل اور غیر مؤجل
سوال: اور یہ کہتے ہیں مہرِ مؤجل اور مہر غیر مؤجل …
جواب: دیکھیے، یہ دو صورتیں ہیں: (۱) ایک صورت یہ ہے کہ نکاح کا حق مہر (۲) ایک یہ ہے کہ جس کو ہم کہتے ہیں جی پہلی رات ملنا، منہ دکھائی، اس کو بھی مہر کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے۔ نکاح کا مہر الگ اور منہ دکھائی یا پہلی رات بیوی کے ساتھ ملاقات کا کچھ دینا، یہ دو الگ الگ ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت فاطمہؓ کا مہر مقرر کیا اور مؤجل کے طور پر پھر اپنی ڈھال بھی دی۔ اور پھر یہ بھی حضرات نے کہا کہ اگر مہر مقرر کیا ہے، مہر کا کچھ حصہ اگر ادا کر دیا جائے۔ پانچ ہزار روپے اس نے مہر مقرر کیا، ایک ہزار ادا کر دیا، جو ادا کر دیا ہے وہ مؤجل ہے اور جو ادا ابھی تک نہیں کیا وہ غیر مؤجل ہے۔ لہٰذا اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں۔ اگر وہ مراد ہے کہ ایک نکاح کا حق ہے، اور ایک یہ ہے کہ پہلی رات ملاقات اور باہمی ایک دوسرے کے ساتھ لگاؤ اور محبت کے اضافے کے لیے، تو یہ دو الگ الگ ہیں، ان کو الگ الگ ہی سمجھنا چاہیے۔
روزے کے چند مسائل
سوال:
جواب: روزے کی حالت میں خالی برش تو کیا جا سکتا ہے، پیسٹ کے ساتھ نہیں۔ روزے کی حالت میں کان میں دوائی نہیں ٹپکائی جا سکتی، آنکھ میں دوائی ڈالی جا سکتی ہے۔ اس لیے کہ کان کا براہ راست دماغ کے ساتھ تعلق ہے، ناک کا براہ راست معدے کے ساتھ تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے جو بیمار ہوتے ہیں، خوراک کی نالی لگائی جاتی ہے ناک میں۔ اس کا مطلب یہ ہوا، یہ تو طب نے واضح کر دیا۔ اور آنکھ جو ہے، فرمایا کہ آنکھ کا نہ دماغ کے ساتھ براہ راست کوئی سوراخ ہے اور نہ معدے کے ساتھ کوئی سوراخ ہے۔ اگر حلق میں اثرات آتے ہیں تو یہ ڈیلے کی وجہ سے، درمیان میں یہ آنکھ کا ڈھیلا حائل ہے، تو اس کی وجہ سے آدمی کو آنکھ میں دوائی ڈالنے میں روزے کی حالت میں کوئی قباحت نہیں۔ ناک میں اور کان میں نہیں ڈالنی چاہیے۔
سوال: روزے کی حالت میں دانت کا علاج …
جواب: اگر ڈاکٹر ماہر ہے، ہم نے دیکھے ہیں ڈاکٹر۔ وہ یوں اندر کی جانب منہ میں سپنچ سا رکھ دیتے ہیں اور باہر ہی باہر یہ علاج کر کے، تو ایسے کوئی حرج کی بات نہیں۔ اگر ڈاکٹر ماہر ہے اور وہ اندر دوائی کے اثرات روکنے کے اسباب اختیار کرتا ہے اور باہر باہر ہی منہ کے اندر اندر ہی اس کے اثرات رہتے ہیں تو ایسی صورت میں دانت کا علاج کروانے میں کوئی حرج کی بات نہیں، کروایا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر ماہر نہیں ہے اور وہ بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتا ہے، دوائی کے اثرات کے اندر جاتے ہیں، پھر پرہیز کرنا چاہیے۔
دکانوں کے کرائے پر زکوٰۃ
سوال: کہتے ہیں کہ دکانیں کرائے پر دی ہوں تو زکوٰۃ …
جواب: دیکھیے بھئی، مکان ہو، دکان ہو، اصل اس کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں۔ اس کا جو کرایہ آتا ہے، وہ کرایہ اگر نصاب تک پہنچتا ہے، تو اس مال پر جو اس کے کرائے کی صورت میں حاصل ہوتا ہے اس پر زکوٰۃ ہے۔
حدیث اور سنت میں فرق
سوال: یہ کہتے ہیں جی حدیث اور سنت میں کیا فرق ہے؟
جواب: دیکھیے بھئی، جو بھی بات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک سند کے ساتھ پہنچ جائے، اس کو حدیث کہا جاتا ہے۔ بعض حضرات نے کہا کہ حدیث اور سنت میں فرق کوئی نہیں، لیکن محتاط علماء یہ کہتے ہیں: حدیث وہ کہ جس پر عمل کرنا امت کے لیے جائز ہو یا ناجائز ہو، اس کو حدیث کہا جا سکتا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیک وقت نو شادیاں کیں۔ اب یہ حدیث تو ہے لیکن سنت نہیں۔ سنت تب ہوتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروی میں امت کو بھی اجازت ہوتی۔ اب امت جو ہے یہ چار شادیوں سے زائد نہیں کر سکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تو ہے کہ آپ نے نو شادیاں کیں، لیکن سنت نہیں ہے۔
اس لیے حضرات نے کہا کہ حدیث اور سنت میں فرق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ صحیح روایت کے ساتھ، وہ حدیث ہے۔ اگر وہ امت کے لیے عمل کے لائق ہے تو سنت ہے، عمل کے لائق نہیں وہ حدیث تو ہے لیکن وہ سنت نہیں ہوگی۔
ماہِ رمضان یا بروز جمعرات فوت ہونے والی بخشش
سوال: یہ کہتے ہیں جی ہمارے ہاں یہ معروف ہے کہ رمضان میں جو فوت ہو جائے اس کی بخشش ہوتی ہے، جمعرات کو فوت ہو جائے اس کی بخشش …
جواب: دیکھیے بھئی، بخشش کا اصل مدار ہے ایمان پر۔ بعض بعض اوقات فضیلت کا باعث ہیں۔ جیسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صوفیائے کرام یہ روایت کرتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کے بعد یہ تسبیح ’’سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم‘‘ سو مرتبہ پڑھتا ہے، اس کے اپنے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں اس کے والدین کے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں۔
اس لیے یہ جمعرات کا وقت ہے تو معزز لیکن یہ ہر آدمی کے لیے نہیں ہے، بلکہ جس کا ایمان اور پھر جس کے بارے میں پروردگار فیصلہ فرمائے۔ پروردگار جس کے بارے میں چاہیں گے وہ فیصلہ فرماتے ہیں، لہٰذا اس کو حتمی نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں احتمال، پروردگار سے امید کہ ہمارا یہ بھائی رمضان میں گیا ہے، جمعرات کو گیا ہے، اللہ سے امید کی جاتی ہے اللہ اس کے ساتھ اس وقت کی برکت کی وجہ سے خصوصی فضل فرمائیں گے۔ یہ کہا جا سکتا ہے۔
سونے پر زکوٰۃ کا نصاب
سوال: یہ کہتے ہیں دو تولے سونا ہے کیا زکوٰۃ …
جواب: دیکھیے، دو تولے سونے کے ساتھ اگر نقدی اتنی ہے جو ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے تو زکوٰۃ ادا کرنا بہتر ہے، اس کو زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔
گھروں میں ٹیوشن پڑھانے والوں کا اکرام
سوال: یہ گھروں میں ٹیوشن پڑھانے والے …
جواب: دیکھیں بھئی، یہ گھروں میں ٹیوشن پڑھانے والے، ان کا احسان مند ہونا چاہیے۔ جن آدمیوں نے ان کے ساتھ معاہدہ کر کے ان کو گھروں میں لگایا۔ اس لیے کہ تمہارا بچہ اگر مسجد میں آ کر پڑھنے کے لائق نہیں، اس کو وقت نہیں ملتا، اور یہ بھاری بھر کم بستے جو ہیں اس کو مسجد میں آنے سے رکاوٹ بنتے ہیں۔ وہ بیچارہ تمہارے گھر میں جاتا ہے۔ لیکن آج ایک تکلیف دہ چیز نظر آتی ہے کہ ان بیچاروں کو وہ اعزاز اکرام نہیں دیا جاتا۔ جی چاہا تو اندر سے آواز آگئی: ’’آج نہیں آنا، آج چھٹی کرو، آج جاؤ‘‘۔ اور گھنٹی بجانے کے بعد، وہ بیچارہ آدھا آدھا گھنٹہ باہر کھڑا ہے۔ یہ تذلیل مت کرو بھئی۔ اگر تمہارا انگلش پڑھانے والا اعزاز کے لائق ہے تو قرآن پڑھانے والا زیادہ اعزاز کے لائق ہے۔ جیسے مساجد اور مدارس میں تعلیم کا معاوضہ دیا جا سکتا ہے، اسی طرح گھروں میں ٹیوشن پڑھانے والوں کو بھی معاوضہ دیا جا سکتا ہے، اعزاز و اکرام کے ساتھ۔ وہ تمہارے بچے کا استاد ہے، اور بچے کا استاد ہونے کی وجہ سے اعزاز و اکرام کے لائق ہے۔ اس کو یوں دھتکار کر کہ ’’اج نئیں جی، بچہ نانی دے گھر گیا اے‘‘۔ پہلے اطلاع کرو بھئی۔ آج کل تمہارے پاس فون موجود ہے، اگر تم انگلش ٹیچر کو بتا سکتے ہو تو عربی ٹیچر کو کیوں نہیں بتاتے؟ وہ بیچارہ آئے ہی نا کام کاج چھوڑ کر۔ تو اعزاز و اکرام کو ملحوظ رکھتے ہوئے، یہ جو گھروں میں پڑھاتے ہیں، کوئی حرج کی بات نہیں۔ اور ان کو معاوضہ دینا، بلکہ میں تو کہوں گا زیادہ معاوضہ دینا۔ ایک ان کا پڑھانے کا وقت اور ان کا آنے جانے کا وقت، ان دونوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کا معاوضہ انگلش ٹیچر سے زیادہ ہونا چاہیے۔
اپنے امام کی برائی کرنا
سوال: کہتے ہیں جس امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں اسی کی برائی کرنا …
جواب: بچنا چاہیے، لیکن نماز میں کوئی فرق نہیں پڑتا، نماز آپ کی ہو جائے گی۔ نماز اپنی جگہ پر ہے، اس کا اعزاز و اکرام اپنی جگہ پر۔ لیکن عجیب بات ہے، ہم پنجابی لوگ جو ہیں ’’چٹے ککڑ دی توہین نہ کرو، اے اذاناں دیندا اے‘‘۔ چٹا ککڑ اس کی توہین نہ کرو یہ کیا کرتا ہے؟ اذان دیتا ہے۔ اب اذان دینے والے مرغے کا تو اعزاز ہے، یہ بیچارہ مسجد میں اذان جو دیتا ہے، مسجد میں نماز جو پڑھاتا ہے، ساری برائیاں اس کے کھاتے میں ڈال کر، بیٹھ کر، ہمارے مولوی نے یہ کیا، ہمارے مولوی نے یہ کیا۔ اگر اس کے اندر ہے تو اس کو بیٹھ کر سمجھائیں کہ مولوی صاحب اپنی اصلاح کریں، ہم آپ کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں۔ یہ پسِ پشت ایسا کرنا، یہ تو منافی ہے عزت و احترام کے۔ عزت و احترام ملحوظ رکھنا چاہیے، لیکن اگر کوئی آدمی ایسا کرتا ہے تو اس کی نماز ہو جائے گی اس کے پیچھے، نماز کا مسئلہ الگ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ نصیب فرمائے، اور مسائل سمجھنے کے بعد ان پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
(ضبطِ تحریر و عنوانات: مدیر منتظم مجلہ الشریعہ)