پہلی ملاقات اور ابتدائی تاثر
استادِ گرامی حضرت مولانا حافظ محمد عبدالقدوس خان قارن رحمہ اللہ سے میری پہلی ملاقات 11 شوال 1416ھ، بروز ہفتہ، 2 فروری 1996ء کو جامعہ نصرۃ العلوم میں ہوئی۔ یہ ظہر کی نماز تھی اور پہلی بار ان کی اقتداء کا شرف نصیب ہوا۔
بعد ازاں 18 شوال سے باقاعدہ دروس شروع ہوئے۔ 19 شوال بروز اتوار حضرت قارن صاحبؒ سے استفادے کا سلسلہ شروع ہوا جو زندگی کے آخری لمحات تک جاری رہا۔
دروس اور علمی استفادہ
ہمارے اوقاتِ درس کی ترتیب یہ تھی:
پہلا سبق: تفسیر (پہلے پندرہ پارے) امام اہل سنہؒ علامہ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کے پاس۔
دوسرا سبق: تفسیر جلالین (جلد ثانی) حضرت مولانا محمد یوسف کشمیریؒ کے پاس۔
تیسرا سبق: توضیح و تلویح حضرت مولانا عبدالقیوم ہزارویؒ کے پاس۔
چوتھا سبق: دیوان الحماسہ اور محیط الدائرہ حضرت مولانا عبدالقدوس خان قارنؒ کے پاس تھا۔
یوں دیوانِ الحماسہ، محیط الدائرہ اور بعد ازاں ہدایہ جلد رابع آپ سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کا انداز یہ تھا کہ سبق محض پڑھا نہیں دیتے تھے بلکہ ذہن و دماغ پر نقش کر دیتے تھے۔ علم العروض میں جو کچھ سمجھ بوجھ ہمیں حاصل ہے وہ آپ کی کرامت، دعا اور محنت کا نتیجہ ہے۔
ادبِ عربی کا ذوق
ابتدائی طور پر میرا میلان منطق، نحو اور صرف، بلاغت اور دیگر فنون کی طرف تھا، ادبِ عربی میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ لیکن جب حضرت قارنؒ کی خدمت میں دیوان الحماسہ اور محیط الدائرہ پڑھنے بیٹھا تو دل میں عربی ادب کا شوق پیدا ہوگیا۔
شفقت و تعلق
آپ کا شاگردوں کے ساتھ تعلق سراسر شفقت اور محبت پر مبنی تھا۔ ہر شاگرد کو یہ محسوس ہوتا کہ حضرت کا سب سے قریبی اور خاص تعلق میرے ساتھ ہے۔ یہی آپ کے تعلق اور تربیت کا انوکھا رنگ تھا۔
’’عبد‘‘: زندگی کا خلاصہ
حضرت قارنؒ کی ولادت 1371ھ میں ہوئی۔ کمال یہ ہے کہ آپ کے نام کے اعداد کا مجموعہ بھی بعینہٖ 1371ھ بنتا ہے:
محمد = 92، عبد = 76، القدوس = 201، خان = 651، قارن = 351، کل = 1371ھ۔
یوں آپ کی ولادت کا سال آپ کے نام کے عدد سے ظاہر ہوا۔
وفات کے اعتبار سے آپ 1447ھ میں رخصت ہوئے۔ اگر ولادت کے عدد (1371) پر ’’عبد‘‘ (76) کا اضافہ کیا جائے تو بالکل 1447 بنتا ہے۔ یوں پوری زندگی کا خلاصہ ’’عبد‘‘ یعنی حقیقی بندگی و عبادت بن گیا۔ آپ کی ابتدا بھی ’’عبد‘‘ سے تھی اور اختتام بھی ’’عبد‘‘ پر ہوا۔
پورا جملہ یوں ہوگا: ”محمد عبدالقدوس خان قارن عَبدٌ“
(ترجمہ: محمد عبدالقدوس خان قارن، بندگی کا شاہکار۔ )
امام بخاریؒ کی حیات سے مثال
امام بخاریؒ کی حیات پر بھی ایک شاعر نے یوں بیان فرمایا ہے:
مِيلادُهٗ صِدقٌ، وَمُدَّةُ عُمرِهٖ
فِيهَا حَمِيدٌ، وَانقَضٰى فِي نُورٍ
ترجمہ: ان کی پیدائش ’’صدق‘‘ (194ھ) میں ہوئی، ان کی عمر ’’حمید‘‘ (62) تھی اور ان کا وصال ’’نور‘‘ (256ھ) میں ہوا۔
اور امام طحاوی کا مادہ تاریخ پیدائش "مصطفی" (229) ہے عمر "محمد" (92) ہے اور وفات "محمد مصطفی" (321) ہے
اسی طرز پر حضرت قارنؒ کی حیات پر بھی تطبیق نثر کی شکل میں یوں بنتی ہے:
مِيلادُهُ: ”مُحَمَّدٌ عَبدُ القُدُّوسِ خَان قَارِن“، وَمُدَّةُ عُمرِهِ فِيهَا: ”عَبدٌ“، وَانقَضٰی فِي ”مُحَمَّدٌ عَبدُ القُدُّوسِ خَان قَارِن عَبدٌ“۔
گویا آپ کی پوری زندگی عبادت ہی میں ڈھلی ہوئی تھی۔
آخری ایام اور آخری نماز
یہ محض حسابی اتفاق نہ تھا بلکہ عملی زندگی کا عکس بھی تھا۔ جامع مسجد تقویٰ، پیپلز کالونی میں آپ کے بیانات مختصر مگر جامع ہوتے، اکثر 25 منٹ میں مکمل کر دیتے۔
زندگی کا آخری جمعہ آپ نے سورۃ الکوثر کی تفسیر 35 منٹ میں بیان کی جس میں نماز کی تاکید پر خاص زور دیا۔
بدھ 13 اگست کو جامعہ نصرۃ العلوم میں آخری دروس بھی نماز ہی کے متعلق تھے۔ بخاری شریف میں کتاب العیدین سے 18 ویں باب کے اختتام تک سبق پڑھایا، اور ترمذی شریف میں باب فضل الجماعۃ سمیت تین باب پڑھائے۔
پھر جمعہ 15 اگست کی صبح آپ نے آخری نماز جامع مسجد نور میں پڑھائی:
پہلی رکعت میں سورۃ الحشر کا آخری رکوع (آخرت کی تیاری اور تقویٰ کی تاکید)۔
دوسری رکعت میں سورۃ الجمعہ کا آخری رکوع (نماز کو دنیا و تجارت پر مقدم رکھنے کا حکم)۔
یوں آپ نے اپنی آخری نماز میں امت کو یہ دائمی پیغام دیا: اللہ کا تقویٰ، آخرت کی تیاری، اور نماز کو دنیا پر ترجیح دینا۔
نماز کے بعد بھی ذکر و تسبیح جاری رکھا۔ پھر نماز جمعہ سے پہلے غسل فرمایا، لباس تبدیل کیا اور طہارت و تیاری کی حالت میں اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔
وفات کا لمحہ اور حسنِ خاتمہ کی علامت
آپ کی عین وفات کے وقت جامع مسجد نور کے خطیب اور جامعہ نصرۃ العلوم کے مہتمم، مولانا محمد فیاض خان سواتی، نے اپنی تقریر کا آغاز خطبہ اور تلاوتِ کلامِ پاک سے کیا۔ انہوں نے سورۃ کہف کی دو آیات، نمبر 107 اور 108، تلاوت فرمائیں۔ اتفاقاً تقریر کا موضوع تھا: "حسنِ خاتمہ کی تدابیر"۔
ابھی ابتدائی خطبہ مکمل ہی ہوا تھا کہ آپ نے فرمایا: "میں ان آیات کی روشنی میں کچھ تدابیرِ حسنِ خاتمہ کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔"
اتنے میں حافظ عبد الوحید رانا نے یہ خبر سنائی کہ استاد قارن صاحب، کا انتقال ہو گیا ہے۔ حضرت محترم صاحب نے تین بار "انا للہ وانا الیہ راجعون" کا ورد فرمایا اور یوں خبر سنائی کہ ہمارے مسجد کے امام صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔
یہاں قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ آپ کے دیگر بڑے بڑے علمی و تدریسی عناوین کے مقابلے میں، وفات کے وقت آپ کو "مسجد کے امام" کے عنوان سے یاد کیا گیا، جو براہِ راست عبادت اور بندگی سے جڑا ہوا ہے۔ یہ حقیقت آپ کی پوری زندگی کے خلاصے کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ آپ کی زندگی کا حاصل ’’عبد‘‘ تھا اور آپ کا خاتمہ بھی بندگی و عبادت کے لمحے میں ہوا۔
البتہ ہمارے لیے حسرت اور غم کا مادۂ تاریخ یہ ہے:
بَعُدَ مُحَمَّد عَبدُ القُدُّوسِ خَان قَارِن
یعنی: ’’محمد عبدالقدوس خان قارن بہت دور (سوئے آخرت) چلے گئے‘‘۔
بَعُدَ = 76،محمد = 92، عبد = 76، القدوس = 201، خان = 651،قارن = 351، میزان = 1447ھ.
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی وفات اگست کے دوسرے عشرے کے پہلے جمعہ (11 اگست 1905ء) کو، پہلی اذانِ جمعہ کے بعد ہوئی۔
عجب مشابہت ہے کہ ہمارے مخدومِ گرامی حضرت مولانا محمد عبدالقدوس خان قارن رحمۃ اللہ علیہ کی وفات بھی اگست کے دوسرے عشرے کے پہلے جمعہ (15 اگست 2025ء) کو، پہلی اذانِ جمعہ کے بعد پیش آئی۔
یہ موافقت اور مشابہت محض اتفاق نہیں بلکہ اس میں ایک خاص روحانی اشارہ پوشیدہ محسوس ہوتا ہے کہ اولیاءِ کرام اور اہلِ حق کی زندگیاں ہی نہیں بلکہ ان کے اوقاتِ رحلت بھی ایک دوسرے سے جُڑے ہوتے ہیں۔ شاید یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مقرب بندوں کے مابین ایک باطنی ربط اور سلسلۂ ولایت کا اظہار ہے۔
آخری سبق کے روحانی اشارات اور اختتام مادۂ ’’حمد‘‘ پر
امام بخاریؒ نے اپنی کتاب الجامع الصحیح کی پہلی حدیث کی سند میں اپنے استاد امام "حمیدی" سے آغاز کیا ہے، اور آخر میں اپنے شیخ "احمد بن اشکاب" کی سند سے حدیث شریف پیش کی ہے۔ دونوں کا تعلق مادۂ ’’حمد‘‘ سے ہے۔
یوں کتاب کا آغاز اور اختتام ’’حمد‘‘ پر ہوا۔
یہی شان حضرت مولانا قارنؒ کی زندگی اور آخری اسباق میں بھی نظر آئی۔ آپ کو آخری عبارت سنانے والا طالب علم مولوی حامد ہے، جس کا نام بھی ’’حمد‘‘ سے بنا ہے۔
خوف سے عید تک
آپؒ نے اپنی تدریسی زندگی میں بخاری شریف کی آخری مکمل کتاب ”کتاب صلاۃ الخوف“ ختم فرمائی۔ گویا یہ اعلان تھا کہ اب خوف کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ اس کے بعد 13 اگست کو کتاب العیدین کا آغاز فرمایا، جس میں دو عیدوں کا ذکر ہے۔ یہ بھی ایک اشارہ تھا کہ آپ اپنی زندگی کے آخری سفر میں ’’دو عیدوں‘‘ کی طرف بڑھ رہے ہیں:
پہلی عید: برزخی عید۔
دوسری عید: اُخروی عید۔
یہ بھی اللہ کی خاص مشیت تھی کہ آپ کی رحلت ایسے ایام میں وقوع پذیر ہوئی کہ اگلا دن 14 اگست، پاکستانیوں کا قومی دن اور قومی عید تھا، اس کے بعد مسلمانوں کی ہفتہ وار عید، جمعۃ المبارک کا دن آیا، اور آپ نے انہی متبرک ساعتوں میں دنیا سے رخصتی اختیار کی۔ گویا آپ کی زندگی بھی عید کے پیغام کی طرح مسرت و راحت بانٹتی رہی اور آپ کی وفات بھی عید کے ایام کی برکتوں میں ڈھل گئی۔
بخاری شریف کا آخری سبق
آپؒ نے کتاب العیدین کے 18 ابواب پڑھائے اور باب العلم بالمصلّی کے اختتام پر سبق روک دیا۔ کل 26 ابواب ہیں، یوں 8 ابواب باقی رہ گئے۔ یہ آٹھ دروازوں والے ٹھکانے ”جنت“ کی طرف بلیغ اشارہ ہے۔
طالب علم نے مکتبۃ البشری کے نسخے سے عبارت سنائی، اور "بشریٰ" کے معنی ہی خوشخبری ہیں۔ مزید سبق صفحہ 293 سے شروع ہو کر 301 پر ختم ہوا، جو بالکل 8 صفحات ہیں، جنت کے آٹھ دروازوں کا ایک اور لطیف نشان ہے۔
ترمذی شریف کا آخری سبق
اسی دوران آپؒ نے جامع ترمذی کے آخری صرف تین ابواب پڑھائے۔ یہ تین کا عدد دین کے بنیادی عقائد (توحید، رسالت اور آخرت) کی یاد دہانی ہے۔
یوں اپنی تدریسی زندگی کا اختتام حضرتؒ نے انہی بنیادوں پر کیا، گویا شاگردوں کو پیغام دیا کہ اب انہی پر جمے رہنا ہے۔
آخری سبق کے چشم دید گواہ
مولوی حامد نے اپنے تاثرات یوں قلم بند کیے:
"السلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكاتُهُ، استاذِ محترم رحمہ اللہ نے اپنے آخری دروس میں صحیح بخاری (جلد اوّل، مکتبہ البشری) سے کتاب العیدین صفحہ 293 سے آغاز فرمایا اور باب العلم بالمصلّی کے اختتام تک صفحہ 301 تک پڑھایا۔ اسی طرح جامع ترمذی (جلد اوّل، مکتبہ البشری) میں باب ما جاء فی فضل الجماعۃ (صفحہ 132) سے شروع کیا اور باب ما جاء فی الرجل یصلی وحدہ ثم یدرک الجماعۃ کے آخر تک صفحہ 133 تک پڑھایا۔یہ سعادتِ عظمیٰ بھی فقیر ہی کو نصیب ہوئی کہ دونوں کتب کی عبارات میں نے ہی پڑھ کر سنائی تھیں۔"
یہاں بھی مناسبتوں کے کئی پہلو نکلتے ہیں، تاہم ایک عجیب مناسبت یہ ہے کہ جس شاگرد نے آخری عبارتیں پڑھیں، اس کا نام ’’حامد‘‘ ہے، اور اس کا تعلق بھی ’’حمد‘‘ سے ہے۔ یوں حضرتؒ کی تدریسی زندگی کا حسنِ اختتام بھی مادۂ ’’حمد‘‘ پر ہوا۔ یوں اپنی تدریسی زندگی کا اختتام حضرتؒ نے انہی بنیادوں پر کیا، گویا شاگردوں کو پیغام دیا کہ اب انہی پر جمے رہنا ہے۔
حضرت قارنؒ کی آخری زندگی اور آخری اسباق کے یہ اشارات ایک مکمل پیغام بن گئے:
- خوف ختم ہوا اور خوشی کی بشارت آگئی۔
- دو عیدوں کا سفر شروع ہوا: برزخی اور اخروی۔
- آٹھ ابواب اور آٹھ صفحات، آٹھ دروازوں کی علامت بنے۔
- ترمذی کے تین ابواب، دین کے تین بنیادی عقائد پر جمے رہنے کا اشارہ بن گئے۔
- اور اختتام مادۂ ’’حمد‘‘ پر ہوا۔
یوں حضرت قارنؒ کی پوری زندگی کا حاصل ’’عبد‘‘ تھا، اور تدریسی اختتام ’’عبادت‘‘ اور ’’حمد‘‘ پر ہوا۔ اور جنتیوں کا آخری کلام بھی مادۂ ’’حمد‘‘ پر مشتمل ہوگا: ”وَآخِرُ دَعْواهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ“ اور آخری دعا ان کی یہ ہوگی کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ (ترجمہ حضرت صوفی عبدالحمیدخان سواتیؒ)
(مجلہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ۔ ستمبر ۲۰۲۵ء)