علم و عرفان کی بستیوں میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنے وجود سے زمانے کو روشنی عطا کرتی ہیں۔ ان کے الفاظ چراغ ہوتے ہیں، ان کی محفلیں گلشنِ علم، اور ان کا فیض نسلوں تک جاری رہتا ہے۔ انہی منور ہستیوں میں ایک درخشاں نام شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کا ہے۔
آپؒ ہمارے علاقے کے مایہ ناز محدث اور فقیہ، حضرت مولانا عبدالقدیرؒ کے فخرِ روزگار اور برگزیدہ شاگرد تھے۔ آپؒ کی شاگردی کا شرف حاصل کرنے والے بھی اپنی جگہ علم و تقویٰ کے مینار تھے، جن میں ہمارے محترم اساتذہ حضرت مولانا عبدالسلامؒ، حضرت مولانا محمد صابرؒ اور حضرت مولانا قاری چن محمد مدظلہ شامل ہیں۔ ہمارے گاؤں کا علمی سرمایہ اور فخر، شیخ الحدیث حضرت مولانا قاری سعید الرحمٰنؒ، آپؒ کے مجازِ خلافت ہونے کی سعادت رکھتے تھے۔
ہمارے استادِ محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالسلامؒ کو بھی آپؒ سے بے پناہ عقیدت تھی۔ وہ وقتاً فوقتاً آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے۔ ایک مرتبہ انہوں نے آپؒ کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا تو حضرت سرفراز خان صفدرؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’یہ علماء کا ہدیہ ہے، بخوشی قبول ہے۔‘‘ یہ جملہ آپؒ کے دل کی وسعت اور علماء کے مقام کی قدردانی کا عکاس ہے۔ ہمیں حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ سے ایک خاص قلبی لگاؤ ہے۔ ان کی کتب سے بارہا علمی تشنگی بجھائی، اور ہر بار محسوس ہوا کہ یہ تحریریں محض الفاظ نہیں بلکہ ایمان و بصیرت کی روشنی ہیں۔
آج دل کو مغموم کر دینے والی خبر ملی کہ آپؒ کے لائق و فاضل صاحبزادے، علم و فضل کے امین، اور سینکڑوں شاگردوں کے مربی، حضرت مولانا عبدالقدوس قارنؒ اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
یقیناً حضرت قارنؒ خوش نصیب تھے کہ ہزاروں تشنگانِ علم نے ان کے در سے سیرابی پائی، اور وہ اس قافلے کا حصہ رہے جو صدیوں سے چراغِ علم کو نسل در نسل منتقل کرتا آ رہا ہے۔ ان کے اخلاق و کردار کی خوشبو ہر اس دل میں باقی رہے گی جو ان کی صحبت سے فیضیاب ہوا۔
اس اندوہناک موقع پر ہم مرحوم کے اہلِ خانہ اور تمام متعلقین سے دلی تعزیت کرتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی رحمت کے سائے میں جگہ عطا فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے، اور ان کے علم و فیض کا سلسلہ تا قیامت روشن رکھے۔