کل ۱۵ اگست بروز جمعۃ المبارک جانشین امام اہلسنت شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد القدوس قارن صاحب رحمہ اللہ کی وفات ہوئی ہے۔ حضرت رحمہ اللہ کی وفات کی خبر سننے کے بعد سے ابھی تک دل اتنا غمگین ہے کہ بیان کے قابل نہیں۔ حضرت قارن صاحب رحمہ اللہ امام اہلسنت شیخ سرفراز خان صفدر صاحب رحمہ اللہ کے حقیقی فرزند اور جانشین تھے آپ کا علمی مقام، زہد اور تقوی بہت بلند تھا۔ مولانا قارن صاحب رحمہ اللہ گزشتہ پچاس سال سے جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے مدرس تھے آپ نے عرصہ پچاس سال مدرسہ نصرۃ العلوم کی جامع مسجد نور میں امامت کے فرائض بھی سر انجام دیے۔ کل صبح یعنی فوت ہونے والے دن بھی آپ نے فجر کی نماز کی امامت کروائی، پہلی رکعت میں سورۃ الحشر آور دوسری رکعت میں سورۃ الجمعہ کی تلاوت فرمائی۔ آپ نے ۳۵ سال سے نماز فجر کے بعد درس قرآن پاک کا اہتمام کیا۔ ۵۶ سال مسلسل رمضان المبارک میں نماز تراویح میں قرآن پاک مکمل کرنے کی سعادت حاصل کی، اکثر رمضان المبارک میں اعتکاف کیا، ۳۵ سال مسجد تقوی میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ آپ ایک بہترین خطیب، باکمال مدرس اور مشفق استاذ ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مصنف بھی تھے۔
آپ عرصہ تین سال سے دل کے عارضے، شوگر، اور بلڈپریشر کی زد میں کمزور ہو چکے تھے۔ ان بیماریوں نے جسم کو تو ناتواں کر دیا تھا، مگر چہرے کی نورانیت، پیشانی کی روشنی متبع سنت اور سادگی ویسی ہی تھی۔ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ڈاکٹرز کی تشخیص کے حساب سے میں آج سے چند سال قبل دنیا چھوڑ چکا ہوں۔ ایک بار حضرت قارن صاحب رحمہ اللہ نے علماء کرام کی مجلس میں فرمایا کہ میرے معالج نے ایک پروگرام میں میری گفتگو سنی تو حیرانگی سے کہنے لگا یہ وہی عبد القدوس ہے جس کی رپوٹیں میں چیک کرتا ہوں۔ آپ کا اندازِ تکلم اتنا مضبوط اور توانا ہوتا تھا کہ سامعین کو پتہ بھی نہیں چلتا تھا کہ آپ اتنی بیماریوں کا شکار ہیں۔ آپ کا چہرہ ایسا تھا کہ دیکھ کر دل بے ساختہ اللہ کی یاد میں جھک جائے۔ آپ کی جدائی صرف ایک شخص کی جدائی نہیں، بلکہ علم و تقویٰ کے ایک چراغ کا بجھ جانا ہے۔ ایک ایسا سایہ دار درخت کٹ گیا ہے جس کے نیچے بیٹھ کر کئی نسلوں نے دین سیکھا، ایمان کی پناہ لی، اور زندگی کا راستہ پایا۔
چند یوم قبل ۲ اگست کو حضرت سیالکوٹ ایک پروگرام کے لیے تشریف لا رہے تھے، ہم نے حضرت کی آمد سے متعلق آپ کے شاگردِ خاص اور معتمد حضرت مولانا جاوید صاحب ناظم تبلیغ جمعیۃ علماء اسلام تحصیل سیالکوٹ سے رابطہ کیا، جاوید صاحب نے فرمایا، استاد جی اس وقت میرے گھر تشریف فرما ہیں، ہم نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، مولانا جاوید صاحب کی محبت انہوں نے ہمیں جلد گھر پہنچنے کا حکم دیا، جیسے ہم جاوید صاحب کے گھر پہنچے، ہم سے قبل کچھ علماء کرام حضرت کے شاگرد تشریف فرما تھے، علماء کے درمیان حضرت کا نورانی چہرہ چمک رہا تھا، آپ رحمہ اللہ اپنے شاگردوں سے بے تکلف گپ شپ فرما رہے تھے۔ مولانا جاوید صاحب کے چھوٹے بھائی اور ہمارے دوست حافظ حفظ الرحمٰن صاحب نے حضرت کو ہمارا تعارف کرواتے ہوئے کہا: استاد جی یہ حافظ اکبر صاحب ہمیں زبردستی جمعیۃ میں لے آئے ہیں۔ اس پر حضرت نے مسکراتے ہوئے ایک لطیفہ سنایا اور فرمایا کچھ رضامندی آپ کی بھی ہو گی، سارے کام زبردستی نہیں ہوتے۔ اس کے بعد حضرت کو پروگرام میں پہنچنا تھا، ہم نے حضرت سے ایک بچے کے لیے شہد اور کھجور کی تحنیک اور دم کروایا اور حضرت کی اجازت و دعاؤں سے واپسی کی راہ لی۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔
حضرت کی وفات نہ صرف حضرت اقدس مولانا شیخ سرفراز خان صفدرؒ اور صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے خانوادے کا صدمہ ہے بلکہ پوری علمی، دینی اور روحانی دنیا کے لیے ایک گہرا زخم ہے۔ ایسے علماء کے جانے سے مسجدوں کی رونق، مدارس کی حرارت اور مجلسوں کی برکت کم ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا عبد القدوس قارن صاحب رحمہ اللہ کی کامل مغفرت فرمائے، ان کے لواحقین، متعلقین، اور تلامذہ کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔ اللہ رب العزت آپ رحمہ اللہ کی دینی خدمات کو قبول فرماتے ہوئے آپ کے علوم و فیوض کو عام فرمائے، آمین یا رب العالمین۔