دنیا میں جو بھی آیا ایک نہ ایک دن اس سے اس دنیائے فانی سے کوچ کر جانا ہے۔ مشیت کے اسی قاعدے کے تحت ہمیں اپنے پیارے استاذ محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالقدوس خان قارن صاحب نور اللہ مرقدہ کی جدائی کا زخم برداشت کرنا پڑا۔
2011ء کی بات ہے جب راقم نے اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے مرکز اہل حق جامعہ نصرت العلوم کا انتخاب کیا تو وہاں پہ جس طرح تعلیمی معیار بے مثال تھا اسی طرح تربیت کے لیے جو شخصيات اللہ تعالیٰ نے عطاء فرمائیں وہ بھی باکمال تھیں جن میں کبھی تو صوفی باصفاء مولانا ریاض خان سواتی صاحب رحمہ اللہ کی شفقتیں نصیب ہوتی کبھی جانشینِ مفسرِ قرآن محققِ اہلسنت مولانا حاجی فیاض خان سواتی صاحب کی تربیت سے استفادہ ہوتا اور کبھی مفکر اسلام حضرت اقدس مولانا زاہدالراشدی صاحب کی عالمگیر گفتگو سے مستفید ہوتے اور کبھی اپنے استاذ القرآء استاذی المکرم مولانا قاری سعید صاحب سے تعلیم کے ساتھ تربیت کے بہت سے انمول خزانے سمیٹنے کو ملتے۔
اسی جامعہ کے آنگن نے راقم کے دل کو ایک ایسی ہستی جو سخاوت میں دیکھو تو بے مثال، ریاضت میں دیکھو تو بے مثال، تقویٰ و للّٰہیت کا عظیم مجسمہ، اخلاق، محبت اور شفقت دیکھی جائے تو ایسے محسوس ہو جیسے والد اپنی اولاد سے کرتا ہے، وہ ہستی کوئی اور نہیں تھی بلکہ ہمارے شیخ حضرت اقدس مولانا عبدالقدوس خان قارن تھے۔ آپ جامعہ میں جب نماز مغرب کی امامت سے فارغ ہوتے تو مسجد کے سامنے اپنی فرشی نشست پہ تشریف فرما ہوتے اور ہم کچھے کچھے وہاں پہنچ جاتے اور ان کے قدموں میں بیٹھ کر شفقتوں بھرے تربیت کے انمول خزانے سے استفادہ کرتے اور کافی خوش طبعی ہوتی، لطائف سے مجلس کشتِ زعفران بنی رہتی۔ اور مجھے مانسہرہ کی وجہ سے کبھی کبھی فرماتے گرایاں! (گاؤں والے)، اور مانسہرہ بالاکوٹ سے متعلق بہت سی باتیں ہوتیں۔ کبھی کبھی عزیز مکرم صاحبزادہ حافظ حنظلہ عمر آجاتا پھر حنظلہ کی شرارتیں ہوتیں اور استاذ جی کی شفقتیں ہوتیں، ہم بہت محظوظ ہوتے۔
خیر جب جامعہ سے اپنے تعلیمی کورس کی تکمیل کی تو استاذ جی نے اپنی ڈھیروں دعاؤں سے رخصت کیا۔ اور جامعہ سے راقم کا رشتہ ایسا ہے جس طرح اپنے گھر کا، تو جب بھی لاہور یا گوجرانوالہ جانا ہوتا جب تک جامعہ کا چکر نہ لگتا وہ دورہ نامکمل محسوس ہوتا۔ اور اگر جامعہ پہنچ کر حضرت شیخ قارن صاحب سے ملاقات نہ ہوتی تب جامعہ کا دورہ ادھورا محسوس ہوتا۔
گزشتہ سال جامعہ انوریہ گوجرانوالہ میں مخدومی حضرت مولانا قاری عبیداللہ عامر صاحب نے اپنے سالانہ جلسے میں راقم کو بیان کے لیے مدعو فرمایا تو حسب معمول جامعہ جانا ہوا، شیخ سے ملاقات کی، غرض سے عصر کی نماز تک انتظار کیا اور انہی کی اقتداء میں نماز عصر ادا کی، نماز کے بعد ملاقات ہوئی، کافی دیر تک بغل گیر رہے اور سب خیر خیریت دریافت کی اور فرمانے لگے کس طرح آنا ہوا؟ میں نے عرض کیا جامعہ انوریہ میں بیان ہے، تو فرمایا مجھے بھی دعوت ہے میں عام طور پہ پروگرامات میں نہیں جاتا، آج اگر طبیعت نے اجازت دی تو ضرور وہاں حاضر ہوں گا۔
ایسے ہی ہوا راقم کا بیان چل رہا تھا، استاذ جی کمرے میں تشریف لے آئے اور قاری صاحب سے پوچھا کہ کون بیان کر رہا ہے؟ انہوں نے بتایا تو خوشی کا اظہار فرمایا۔ جب بیان سے فارغ ہو کر ہم کھانے والی جگہ پہنچے جہاں دیگر مہمان بھی تشریف فرما تھے وہاں استاذ جی بھی جلوہ افروز تھے، راقم سے ہی متوجہ رہے، کافی مانسہرہ کے حوالے سے اور حضرت والد گرامی (مولانا مفتی عبد القادر صاحب) کے حوالے کافی باتیں ہوتی رہیں۔ مولانا امجد سعید قریشی صاحب کا تذکرہ بھی ہوا۔ جب کھانے کے دسترخوان پہ ہم لوگ بیٹھے تو استاذ جی شریک طعام نہیں ہوئے۔ ہم نے اصرار کیا کہ استاذ جی آپ بھی تشریف لائیں تو اپنے مخصوص ظرافت کے انداز میں فرمایا کہ ’’جنتی جب جنت میں کھانے کھائیں گے تو جِنّات اس طرح جنتیوں کو دیکھیں گے‘‘۔
دل چاہا کہ اس خوبصورت مجلس کو جس میں مفکر اسلام حضرت شیخ زاہد الراشدی صاحب، خطیب اسلام مولانا حفظ الرحمٰن عدیم شاہ صاحب، پیر طریقت مولانا محمودالحسن شاہ صاحب، استاذ الحدیث حضرت مولانا فضل الہادی صاحب، صاحبزادہ نصر الدین خان عمر صاحب اور استاذ جی تشریف فرما ہیں اس خوبصورت منظر کو موبائل کی گیلری میں محفوظ کر لیا جائے، لیکن چونکہ استاذ جی علم و تقویٰ کے پہاڑ تھے جو بالکل تصویر کے سخت خلاف تھے، ان کے ادب کی خاطر وہ منظر ہم محفوظ نہ کر سکے۔ آخر سب حضرات سے رخصت لی اور استاذ جی نے بھی بہت دعاؤں پیار اور شفقت کے ساتھ کافی دیر بغل گیر کر کے پیشانی پہ بوسہ دے کر رخصت فرمایا۔ اس ملاقات کی شفقتیں زندگی بھر نہیں بھول پاؤں گا اور یہ ملاقات آخری ملاقات ثابت ہوئی اور اس سال آسمان علم و تقویٰ کا آفتاب اپنی روشنیاں چھوڑ کر خود غروب ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ درجات کی بلندی نصیب فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ عرفا مقام نصیب فرمائے، آمین۔
(۱۵ ستمبر ۲۰۲۵ء)