میرے پیارے پھوپھا جان شیخ الحدیث مولانا عبد القدوس خان قارن رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ کی ہر عادت، ہر مسکراہٹ میرے ذہن میں نقش ہو کر رہ گئی ہے جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح کسی کے اچھے عمل کی یادیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ آپ کی موجودگی بہت خوبصورت تھی اور آپ کو بہت یاد کیا جاتا ہے۔ جب آپ حیات تھے تب بھی آپ کا ذکر وقتاً فوقتاً گھر میں ہوتا رہتا اور آپ کی سادہ مزاجی، ملنساری، بے لوث محبت اور مہمان نوازی کو یاد کیا جاتا۔ آپ کے جانے کے بعد آپ کی باتیں یادیں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
پھوپھا جان سب کو جوڑ کر رکھنے والے انسان تھے۔ میرے پھوپھا جان محبت اور اتحاد کا پیکر تھے انہوں نے سب کو جوڑے رکھا ان کی محبت اور میل جول کی خوبی ہمیشہ یاد رہے گی۔ ان کی نرم دلی اور شفقت نے ہر دل کو جیت لیا وہ سب کے لیے پیار کا سر چشمہ تھے ان کی خوبیوں کو ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔ مجھے ان سے بے حد محبت تھی۔ میرے اور بھی پھوپھا ہیں پر آپ جیسا کوئی نہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں آپ جیسے محبت پیار کرنے والے پھوپھا جان ملے۔
میرے پھوپھا ایک خوب سیرت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین دادا تھے۔ میں جب بھی ان کو ایک دادا کے روپ میں دیکھتی تو عش عش کرتی کہ دادا کا پیار ایسا ہوتا ہے۔ کاش میرے بھی دادا جان ہوتے مجھے بھی یہ لمحات ملتے میں بھی ان کے ساتھ ان کی یادوں کے ساتھ زندگی گزارتی۔ مجھے میری زندگی میں یہ خوبصورت لمحہ نصیب نہیں ہوا، یہ اللہ پاک کے معاملات ہیں، انہوں نے مجھے اُن کے روپ میں پیارے پھوپھا دیے۔
ہم نے جب بھی گوجرانوالہ جانا ہوتا خالہ (اہلیہ مولانا نصر الدین خان عمر) کے گھر جانا۔ اگلی صبح کا شدید انتظار ہوتا۔ رات کو تو نیند مشکل سے ہی آتی خوشی سے۔ پھر ایک حسین صبح کا آغاز ہوتا، خالہ کی فیملی کے ہمراہ روانہ ہوتے، جیسے ہی گھنٹہ گھر پہنچتے سب سے سلام دعا ہوتی، ساتھ ہی نظریں پھوپھا جان کو تلاش کرتی کہ پھوپھا جان کا آرام کا وقت نہ ہو، مسجد میں نہ ہوں۔ پھر ایک انتظار کے بعد یہ گھڑی ختم ہوتی پھوپھا جان کا دیدار ہوتا۔ پھوپھا جان اتنے خوبصورت اور والہانہ انداز سے ملتے کہ مجھے اپنے بڑے جو اس دنیا فانی سے رخصت ہو چکے ہیں جن میں میری نانو، نانا جان، دادا، دادی جان شامل ہیں ان کی کمی کے احساس میں کمی آ جاتی۔
ایک خوبصورت لمحہ جو لمحہ بہ لمحہ یاد آئے گا۔ مجھے آج سے تقریب 5 سال پہلے Migraine (مائیگرین) کا بہت شدید درد رہتا تھا۔ جب میں گوجرانوالہ گئی اماں جی نے پھوپھا جان کو بتایا۔ پھوپھا جان بہت پریشان ہوئے اور کہنے لگے خوراک اچھی کرو، روزانہ ایک اخروٹ کھایا کرو۔ اتنے میں پھوپھا جان اٹھے اور اپنے کمرے میں داخل ہوئے اور ہاتھ میں اخروٹ سے بھرا ہوا شاپر لائے اور مجھے دیا کہنے لگے روزانہ کھاؤ انشاء اللہ بہت جلد آرام آجائے گا۔ پھر آپ نے مجھے دم بھی کیا جس کی وجہ سے پورا دن سر درد نہیں ہوا۔ آپ نے مجھے تب پانی دم کر کے دیا کہ یہ بھی وقتاً فوقتاً استعمال کرتی رہنا اس سے بھی افاقہ ہو گا۔ پھر پھوپھا جان خالہ (اہلیہ مولانا عمر) سے پوچھتے رہتے کہ اس کا سر درد ٹھیک رہندا اے۔ میں نے جب بھی گوجرانوالہ جانا پھوپھا جان نے پیار دینے کے فوری بعد سر پکڑ کر پوچھنا ’’ہن سر درد ٹھیک راہندا اے؟‘‘ اب اس طرح کہنے والے سب کچھ اپنے ساتھ لے گئے اور ہم اس محبت سے محروم ہو گئے۔
اسی طرح مجھے میرے پھوپھا کی ایک اور محبت شفقت یاد آئی۔ ہمارا گوجرانوالہ جانا ہوا خالہ کی فیملی کے ساتھ ہم گھنٹہ گھر جامعہ نصرت العلوم پہنچے۔ ابھی ہم بچوں کے منہ میں ہی بات تھی کہ برگر کھانے کا دل کر رہا ہے۔ جیسے ہی پھوپھا جان کے کانوں تک یہ بات پہنچی پھوپھا جان نے جھٹ سے اپنی جیب سے پیسے نکالے اور بھائی طلحہ کو پیسے دیے کہ جا کر سب کے لئے برگر لے کر آؤ۔ جیسے ہی برگر آئے اس کو سب میں برابر تقسیم کیا اور سب کو کھاتے ہوئے دیکھ کر خوشی سے مسکرانے لگے۔ پھر جیسے ہی گھر جانے کا وقت قریب آتا۔ آپ کہتے رہ جاؤ سویرے چلے جانا۔ آپ اتنی چاہت سے کہتے کے ہم آگے سے کچھ نہ کہہ پاتے۔ جب سب نے خوب گپیں لگا کر کھانا وغیرہ کھا لینا۔ پھوپھا جان پھر ہمارے سونے کے انتظامات میں لگ جاتے۔ درمیان والے کمرے میں بڑا سا بسترا ڈلواتے اور موسم کے حساب سے ہر کسی کے اوپر چادر، کمبل، رضائی کا بھرپور خیال رکھتے۔
جب ہم سب نے اپنی اپنی جگہ پر لیٹ جانا تو پھوپھا جان پھر اپنے کمرے سے نکل کر باہر آتے اور ہر ایک کو دیکھتے کہ سب اپنی اپنی جگہ پر سکون سے لیٹے ہوئے ہیں کوئی تنگ تو نہیں، کسی کو کسی شے کی ضرورت تو نہیں، تب پھوپھا جان پرسکون ہو جاتے، سب کو اچھے سے لیٹا دیکھ کر پھر خود آرام کے لیے واپس اپنے کمرے میں تشریف لے جاتے۔
پھر جیسے ہی ہم سب نے گھر جانا پھوپھا جان نے اتنے پیار سے ملنا اور دعاؤں کے سائے میں رخصت کرنا کبھی کسی کو خالی ہاتھ نہ بھیجنا بچوں کو اچھے خاصے پیسوں میں رخصت کرنا جس کی بدولت بچوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا۔
میرے نانا جان میر امان اللہ مرحوم جو پچھلے سال 21 نومبر 2024ء کو ہمیں اکیلا چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے (اللہم اغفر لہ ورحمہ) اللہ میرے نانا جان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کو اپنے خاص بندوں میں شامل کرے۔ آمین ثم آمین۔ میرے پھوپھا جان اس غم کی گھڑی میں اپنے بیٹوں کے ساتھ تشریف لائے بھائی طلحہ، بھائی مغیرہ، بھائی ابوہریرہ، بھائی سالم۔ پھوپھا جان نے غم کا اظہار کیا مجھے اپنے سینے سے لگایا اور کان میں کہا اللہ کا حکم! میرے پھوپھا جان نے میرے نانا جان کا جنازہ پڑھایا۔ نانا جان پھوپھا جان کی بہت زیادہ عزت کرتے تھے۔ جب یہ دونوں بزرگ اکٹھے ہوتے تو اپنی ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے۔ چند سال پہلے میرے بابا جان پھوپھا جان کے ہاں لکڑی کا کام کرنے گئے اور کتب کے لئے پھوپھا جان نے الماریاں بنوائیں۔ بابا جان کہتے کہ ان دنوں بھائی جان قارن صاحب کے پیچھے پہلی صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا لطف ہی اور تھا۔
پھوپھا جان کا جب بھی سیالکوٹ کی طرف چکر لگتا تو واپسی پر ڈسکہ ہماری خالہ کی طرف چکر ضرور لگاتے اور ہمارے خالہ زاد بھائی بلال، بھائی زبیر سے ملاقات ضرور کرتے اور ان کو اپنی ڈھیروں دعاؤں سے نوازتے۔ اسی طرح 17 اگست کو پھوپھا جان کا سیالکوٹ میں پروگرام تھا اور خالہ زاد بھائی حافظ حنظلہ عمر کو ساتھ جانے کے لیے تیار کیا ہوا تھا کہ واپسی پر ڈسکہ چکر لگائیں گے۔ سنا ہے کہ زبیر کا آپریشن ہوا ہے، اس بہانے عیادت بھی ہو جائے گی۔ مگر قسمت کہ آپ 15 اگست کو ہی جنت کے مکین ہو گئے۔
ہم 13 اگست کی رات کو خالہ (اہلیہ مولانا عمر) کے ہاں پہنچے۔ ہمارا 15 اگست کو گھنٹہ گھر پھوپھا جان سے ملنے کا پروگرام تھا۔ 14 اگست کی رات میں اپنی والدہ سے کہتی ہوں اماں جی پھوپھا جان سے ملنے کا بہت جی چاہ رہا ہے۔ اماں جی کہتی ہیں صبح دیکھتے ہیں۔ جیسے ہی رات ہوئی سب سونے کے لیے لیٹے مگر طبیعت میں بے چینی اس قدر تھی کہ رات کروٹ پر ہی گزری اور نیند نہیں آئی۔ اٹھ کر پھر ہلکا پھلکا ناشتہ کیا اور جمعہ کی تیاری شروع کی اتنی دیر میں دوسرے کمرے سے شور کی آواز آئی تو پتہ چلا میرے پیارے پھوپھا جان ہم میں نہیں رہے۔ اس وقت سمجھ نہیں آیا سروں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ گیا۔ اسی وقت زبان پر انا اللّٰہ وانا الیہ راجعون کا ورد شروع ہوگیا اور بوجھل قدموں کے ساتھ ہم گھنٹہ گھر جامعہ نصرت العلوم پہنچے۔ وہاں پہنچ کر پھوپھا جان کو دیکھا جن کا چہرہ پرسکون تھا اس طرح لگ رہا تھا کہ پھوپھا جان آرام کر رہے ہیں سو رہے ہیں۔
میرے پھوپھا ایک اچھے نیک انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شوہر، بہترین باپ، ایک عظیم استاد، مثالی دادا رہے ہیں۔ میرے پھوپھا نے بہت مثالی زندگی گزاری ہے اور ہمیشہ اپنے گھر کو جوڑ کر رکھا۔ اپنے بیٹوں پوتے پوتیوں کو ایک چھت کے نیچے رکھا۔ اللہ یہ ہی اتفاق ان کے اہل خانہ میں برقرار رکھے اور ان سب کو ایک ساتھ رکھے جس طرح میرے پھوپھا نے ان سب کو ایک رکھا اور اس پر عمل کیا۔ ان کے جانے سے ایک خلا پیدا ہوا جو بھرنا بہت مشکل ہے۔ ان کی غیر موجودگی کا درد بہت گہرا ہے۔ وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ ان کی اچھائی کبھی فراموش نہیں ہو گی۔ پھوپھا جان نے زندگی میں بہت کچھ سکھایا، ان کی تعلیمات ہمیشہ ہمارے ساتھ ہیں، اللہ ہمیں ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ ہر لمحہ آپ کے بغیر کھوکھلا محسوس ہوتا ہے، روح میں ایک خلا غیر موجودگی میں محسوس ہونے والے گہرے خالی پن کو ظاہر کرتا ہے۔
میرے پھوپھا جان جو اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے مگر ان کی تمام یادیں میرے دل میں موجود ہیں جو اب میرے جینے کا سہارا ہے اور مجھے مزید مضبوط کریں گی انشاء اللہ۔ اللہ پاک میری پھوپھو جان کو صحت و تندرستی کے ساتھ ہم سب پر سلامت رکھے اور پھوپھا جان کی قبر کو جنتوں کا باغ بنائے، ان کی قبر پر لاکھوں کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، پھوپھا جان پر اپنا خاص و خاص کرم فرمائے اور ان کی علمی دینی خدمات کو قبول فرمائے اور ہم سب کو ان کی تعلیمات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین ؎
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
(۱۱ ستمبر ۲۰۲۵ء)