انا للہ وانا الیہ راجعون۔ نماز جمعہ کے بعد ابھی سوشل میڈیا کے ذریعے یہ خبر ملی کہ استاذ محترم جامعہ نصرت العلوم گوجرانوالہ کے استاذ الحدیث، امامِ اہلِ سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کے لائق و فائق فرزند، مفکرِ اسلام حضرت مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم کے چھوٹے بھائی، استاذ الحدیث حضرت مولانا عبد القدوس خان قارن رحمہ اللہ اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے۔
یہ خبر سنتے ہی ذہن یک دم پچیس سال پیچھے لوٹ گیا۔ سن ۲۰۰۰ء کا وہ مبارک سال، جب مجھے جامعہ نصرت العلوم میں دورۂ حدیث شریف کی سعادت نصیب ہوئی۔ ترمذی شریف اور ابوداؤد شریف کی تدریس حضرت مولانا عبد القدوس قارن رحمہ اللہ سے پڑھنے کی خوش نصیبی ملی۔ ان کا پڑھانے کا انداز ایسا تھا کہ مشکل سے مشکل بحث کو بھی اس قدر آسان اور واضح بنا دیتے کہ جیسے دھوپ میں بکھرا ہوا اجالا دل و دماغ کو منور کر دیتا ہو۔ نمازِ عشاء کے بعد ان کا عوامی درس ختم ہوتا تو طلبہ آ کر علمی سوالات پیش کرتے۔ میں جب کسی دقیق مسئلے میں الجھ جاتا تو ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ اور وہ ہمیشہ شفقت بھری مسکراہٹ اور نرمی کے ساتھ منٹوں میں الجھی گرہیں کھول دیتے۔ یہ ان کا بڑا وصف تھا کہ علم کو بوجھ نہیں بلکہ نعمت سمجھ کر بانٹتے تھے۔
حضرت مولانا عبد القدوس قارن رحمہ اللہ نہ صرف ایک عظیم معلم تھے بلکہ کئی علمی کتب کے مصنف بھی تھے۔ ان کی تحریریں ان کے علمی ذوق، وسعتِ مطالعہ اور فکری پختگی کا آئینہ ہیں۔ وہ سادگی، انکساری، اور اخلاص کا پیکر تھے۔ ان کے چہرے کی متانت اور گفتگو کی شائستگی آج بھی ذہن میں نقش ہے۔ یقیناً یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ مگر کچھ لوگ اپنے علم، عمل اور اخلاص سے ایسا چراغ جلا جاتے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد بھی روشنی باقی رہتی ہے۔ حضرت مولانا عبد القدوس قارن رحمہ اللہ کا شمار انہی چراغوں میں ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت حضرت استاد محترم کی کامل مغفرت اور ان کی لغزشوں کو معاف فرماتے ہوئے درجات بلند فرمائے، اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔