استاذ العلماء، عظیم مدرس، نصف صدی سے مسندِ حدیث کی آبرو، قافلۂ اسلاف کے بچھڑے ہوئے فرد، حق گوئی اور بے باکی میں اپنی مثال آپ، حافظ قرآن، حافظ حدیث، امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کے فرزند، حضرت مولانا عبد القدوس خان قارن رحمۃ اللہ علیہ کا تعزیتی پروگرام استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی صاحب کی زیر سرپرستی الشریعہ اکیڈمی کنگنی والہ میں منعقد ہوا، جس میں معزز علماء کرام، شیوخ حضرات اور حضرت کے صاحبزادگان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
مولانا زاہد الراشدی صاحب نے اپنی گفتگو میں کہا کہ مولانا عبد القدوس قارن صاحبِ علم تھے۔ ان کا ذوق یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو ظاہر نہ کریں۔ ساری زندگی پڑھنے اور پڑھانے میں گزاری۔ ایک بات اور، ہماری ساری زندگی ایک ساتھ گزری۔ وہ اختلاف کا اظہار اختلاف کے لہجے میں کرتے تھے، مگر سامنے والے کا لحاظ کرتے ہوئے احترام کے ساتھ دوٹوک بات کرتے تھے۔ ان کی بات میں لچک نہیں ہوتی تھی۔ حضرت والد صاحب بھی فرمایا کرتے تھے کہ لہجے میں جتنی لچک پیدا کر سکتے ہو، کر لو، لیکن موقف میں لچک نہیں آنی چاہیے۔ جب بھی ان سے کوئی معاملہ ہوتا تھا، آخر میں اکثر کوئی بھی مسئلہ ہو ہم دونوں ہی فائنل کرتے تھے۔ وہ اکثر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے، "میری رائے یہ ہے، لیکن آپ کی بات فائنل کرتے ہیں۔"
دیگر علماء کرام کا کہنا تھا کہ حضرت کا سانحہ وفات اس دورِ قحط الرجال میں صرف اُن کے متعلقین اور منتسبین کے لیے ہی نہیں، بلکہ قافلۂ اہلِ حق اور علم و فن کے طلبہ کے لئے ایسا غم ہے جسے آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا۔ یہ ایسا خلاء ہے کہ جسے پر کرنا شاید اب ممکن نہ ہوگا۔ اس لیے دل سے دعا گو ہیں کہ
اللھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ
(اے اللہ! ہمیں ان کے اجر سے محروم نہ فرما اور ان کے چلے جانے کے بعد ہمیں کسی فتنے میں مبتلا نہ فرما)
حضرت استاد الحدیث ؒ آخر دم تک تدریس کی ذمہ داری بڑی پرجوش انداز میں نبھاتے رہے۔ حدیث پاک پڑھنے پڑھانے کی یہ ایک کھلی کرامت ہے کہ آپ آخر عمر تک ایسے تازہ دم اور بیدار مغز رہے کہ جامعہ جیسی عظیم درسگاہ میں آپ کی آواز گونج رہی ہوتی۔ حدیث پاک کی خدمت میں مشغول خوش قسمت افراد کے لیے خود زبانِ رسالت سے یہ دعا نازل ہوئی ہے:
نضر اللّٰہ عبداً سمع مقالتی فؤعاھا فبلغھا من لم یسمعھا
(اللہ تعالیٰ اُس بندے کو تروتازہ رکھے جو میری بات سننے، محفوظ رکھنے اور پھر اُن لوگوں تک پہنچانے والا ہو جنہوں نے نہیں سنی)
یہ حدیث پاک بیس جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مختلف کتب حدیث میں منقول ہے اور اس کے واضح اثرات اور برکات آج بھی مدارس دینیہ میں درس حدیث سے وابستہ شخصیات میں مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں۔ بلا شبہ، آپ اس لحاظ سے بھی اپنے زمانے کے ہی نہیں، تاریخ کے خوش قسمت ترین مدرسین میں سے تھے کہ قدرت نے آپ کے تلامذہ کی کہکشاں میں ایسے ایسے ستارے جوڑ رکھے ہیں جن کی اپنی روشنی سے ایک عالم روشن ہے۔
عظیم شخصیات، بے مثال فقیہ، امتِ مسلمہ کے نبض شناس، سینکڑوں قرآن و حدیث پڑھانے والے ،مفتیان کرام اور دین کے مخلص خدام ایسے ہیں جنہوں نے آپ سے براہِ راست استفادہ کیا۔ وذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء۔ حضرت کا پڑھانے کا انداز بھی طلبہ کرام میں بہت مقبول تھا۔ واقعات بیان کرنے کا انداز اتنا دلکش اور حسین تھا کہ انسان کو یوں لگتا تھا کہ وہ کتاب نہیں پڑھ رہا بلکہ سیرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ پھر اس کے ساتھ جزئیات کا احاطہ، متعارض روایات میں باہم تطبیق و ترجیح اور دیگر علمی نکات سونے پر سہاگہ ہوتے تھے۔
تعزیتی پروگرام میں مولانا نصرالدین خان عمر، مولانا محمد یوسف، مولانا فضل الہادی، مولانا لقمان، مولانا قاری احسان اللہ قاسمی، مولانا خبیب عامر، مولانا عبد الوکیل مغیرہ، مولانا ارسلان شاہد ، مولانا محفوظ الرحمن، مفتی محمد عثمان جتوئی، مولانا عامر حبیب، مولانا عبد الرشید کے علاوہ شہر کے دیگر علماء کرام نے بھی شرکت کی۔