مولانا ضیاء الحق صاحب، محترم حاجی افضال صاحب، محترم حاجی بشیر صاحب، بڑے میاں محترم عبدالرحمن صاحب، بھائی عبداللہ صاحب بڑے میاں سویٹ کے ہمراہ، حضرت مولانا عبدالقدوس صاحب قارن رحمہ اللہ کے جنازے میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضرت ایک علمی و کتابی شخصیت تھے، آپ نے زندگی بھر علم و کتاب ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ کتاب و سنت کی تعلیمات کو صرف اپنے سینے اور سفینے تک ہی محدود نہ رکھا، بلکہ ان کی نشر و اشاعت فرمائی، اور تبلیغ و تعلیم کے میدان میں نمایاں خدمات سرانجام دیں، جو ان شاء اللہ تا قیامت آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنی رہیں گی۔
مادرِ علمی جامعہ حنفیہ کے سالانہ جلسہ پر حضرت سے آخری ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ اس موقع پر آپ نے توحید باری تعالٰی پر عام فہم اور مؤثر درس قرآن ارشاد فرمایا، اس کا ابتدائی حصہ اور درس کے آخر میں حضرت نے لجاجت سے جو دعا فرمائی تھی، پیشِ خدمت ہے قارئین کرام مطالعہ فرما کر حضرت کے بلندئ درجات کے لیے دعا فرما دیں۔ جزاکم اللہ خیراً۔
درس کا ابتدائی حصہ
آپ حضرات کو دیکھ کر، اور یہاں بیٹھے بزرگوں کو دیکھ کر، اکابر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اکابر کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد بھی ہمیں جامعہ حنفیہ میں حاضری کی توفیق حاصل رہتی ہے۔ جامعہ کے سالانہ جلسہ میں جامعہ کی سالانہ کارکردگی اور رپورٹ پیش کی جاتی ہے، اور ساتھ ہی مختلف موضوعات پر علماے کرام کے بیانات بھی کرواے جاتے ہیں، تاکہ شرکاے جلسہ ایک سوچ، فکر اور لائحہ عمل لے کر جائیں۔ بہت سے موضوعات پر آپ نے بیانات سنے، اور مزید بھی سنیں گے، مگر سب سے اہم موضوع عقیدہِ توحید ہے۔
درس کا آخری حصہ (دعا)
یا اللہ! سفر کر کے آنے والوں کا ایک ایک قدم اپنی بارگاہ میں قبول فرما، ان کی جائز حاجات قبول فرما، جو حرمین شریفین کی زیارت کے لیے ترس رہے ہیں، پروردگار عالم ان کو اسباب مہیا فرما، جو زیارت کر کے آ گئے ہیں ان کو بار بار زیارت کی توفیق عطا فرما، یا اللہ ہمیں اپنے دین کے لیے قبول فرما، ہماری اولاد کو بھی دین کی سمجھ نصیب فرما، دین پر عمل کی توفیق نصیب فرما، ہمارے ملک میں رہنے والوں کی حفاظت فرما، یہ ملک بہت قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ہے، سیاست دانوں، حکمرانوں نے اس کی کوئی قدر نہیں کی، بلکہ اسے مزاح بنا کر رکھ دیا ہے، پروردگار عالم ہماری ان قربانیوں کی برکت سے ہمارے حال پر رحم فرما، اس ملک کو صحیح معنوں میں پاکستان بنانے کی توفیق عطا فرما، ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، زیادہ سے زیادہ دین کی تبلیغ اور اشاعت کی توفیق عطا فرما، دین پر عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرما، یا اللہ ہماری غفلتوں، کوتاہیوں سے درگزر فرما، یا اللہ میرے جن اکابر نے یہ مبارک سلسلہ شروع کیا تھا، پیر طریقت حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب، اور مجاہد اہل سنت حضرت مولانا عبداللطیف صاحب، میرے بھائی قاری خبیب احمد عمر صاحب، ان سب کے درجات بلند فرما، ان کے جانشین کو صحت و عافیت اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ ہمارے سروں پر تا دیر سلامت رکھ، یا پروردگار عالم تجھ سے مدد چاہتے ہیں، ہماری مدد فرما، یا اللہ فلسطین کے مسلمانوں کی مدد فرما، بہت زیادہ ان پر ظلم ہو رہا ہے، مسلم حکمرانوں کو غفلت کی نیند سے بیدار فرما، ہمارے جو اکابر ایمان کے ساتھ تیری بارگاہ میں پہنچے ہیں ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرما، ہمیں موت کی تیاری کی توفیق عطا فرما، سب کو جنت الفردوس نصیب فرما، جب تک رہیں ایمان، اعمال صالحہ کی سلامتی، عزت و وقار، آرام والی زندگی نصیب فرما، ہمارا آخری وقت آنے پر ہماری زبان پر جاری فرما، لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ، آمین۔
میرا اعلان اور حضرت کا فرمان
درس سے فارغ ہوئے تو دعا کے بعد راقم نے اعلان کیا کہ حضرت کچھ علیل ہیں، اس لیے مصافحہ کی کوشش نہ فرمائیں۔ بیان سماعت فرما لیا ہے، بس زیارت ہی پر اکتفا کریں۔ مگر یہ اعلان صدا بہ صحرا ثابت ہوا، اور لوگوں نے آگے بڑھ کر مصافحہ شروع کر دیا۔ حضرت کی نقاہت دیکھتے ہوئے کہا گیا: "جزاکم اللہ! راستہ چھوڑتے جائیں، مصافحہ کی زحمت نہ فرمائیں۔"
حضرت میری طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے: "مصافحہ کرنے دیں، ان میں کئی ہاتھ ایسے ہوں گے جنہوں نے حضرت قاضی صاحب سے مصافحہ کیا ہو گا۔"
درس سے پہلے میری ایک گزارش
راقم نے بیان سے قبل گزارش کی کہ: "حضرت! اگر نمازِ فجر کے بعد والی دعا سے پہلے بیان شروع فرما لیں تو زیادہ لوگ استفادہ کر سکیں گے، کیونکہ دعا کے بعد کچھ لوگوں کے اٹھ جانے کا امکان ہے۔"
فرمانے لگے: "مجھے کوئی مسئلہ نہیں، اس کا تعلق انتظامیہ سے ہے۔ جیسے وہ کہیں گے، میں حاضر ہوں۔"
حضرت کی اس بات سے بھی بڑا سبق ملا۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت فرمائے۔
جنازہ کا منظر
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے جنازے میں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر شریک تھا۔ جنازہ اسی مقام پر ہوا، جہاں حضرت نے نصف صدی سے زائد عرصہ علم کے پیاسوں کو سیراب کیا۔
جہلم کے احباب کی جنازہ میں بھرپور شرکت
جنازہ سے قبل اپنے مختصر بیان میں، گلشنِ حضرت جہلمی کے مہتمم، شہزادہ اہل سنت حضرت مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق صاحب نے، حضرت کی وفات کو ایک عظیم سانحہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت کو اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ گہری محبت و تعلق تھا، اور ان کی جدائی ایک ایسی کمی اور خلا ہے، جو کبھی پُر نہیں ہو سکے گا۔ قائدِ طلباء محترم قاری عمر فاروق صاحب، صاحبزادہ مولانا قاری محمد عمیر خان عثمان، جامعہ کے اکابر اساتذہ کرام، مولانا اسد حسین کوٹلی اللہ یار، اور دیگر جماعتی احباب نے بھی جنازہ میں شرکت فرمائی۔