والد محترم شیخ التفسیر و الحدیث حضرت مولانا محمد عبد القدوس خان قارن صاحب رحمۃ اللہ علیہ 15 اگست بروز جمعۃ المبارک جمعہ کی تیاری کرتے ہوئے انتقال فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ والد محترم 1971ء سے جامع مسجد نور میں امام تھے اور یہ امامت کا سفر 15 اگست 2025ء کی نماز فجر تک تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ آپ رحمہ اللہ نے آخر تک اپنی ذمہ داری احسن انداز سے نبھائی اور جاتے ہوئے سب کو اشکبار کر گئے:
وہ مسافر تھا ، کچھ دیر ٹہرا یہاں
اپنی منزل کو آخر روانہ ہوا
جمعہ کے بعد مہمانوں کا آنا جانا شروع ہو گیا۔ اور سب ہمارے دکھ درد میں شریک ہوئے۔ سب کی آنکھیں اشکبار تھیں کہ اتنی محبت شفقت اور پیار کرنے والے انسان ہم سے جدا ہو گئے۔ حضرت والد محترم کی یہ ادا سب سے نرالی تھی کہ اگر کوئی مہمان ملنے آتا تو دور سے ہی بانہیں پھیلا لیتے جس سے مہمان خوشی سے نہال ہو جاتا۔ آپ کو ہم نے ہمیشہ مہمان نواز, ملنسار اور باوقار انداز میں دیکھا ہے اور اللہ تعالیٰ نے موت بھی باوقار انداز میں دی کہ جمعۃ المبارک کا مبارک دن اور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا ورد کرتے ہوئے روح پرواز کر گئی۔ رحمۃ اللہ واسعۃ
صدیوں کی سوچ تھی کہ وہ قرنوں کا خواب تھا
اک شخص زندگی میں ملا لاجواب تھا
ہوا کے رخ پہ چراغ الفت کی لو بڑھا کے چلا گیا ہے
وہ اک دیے سے نجانے کتنے دیے جلا کر چلا گیا ہے
عشاء کے بعد جامع مسجد نور میں مولانا فضل الہادی صاحب (استاذ الحدیث جامعہ نصرۃ العلوم) نے مائیک سنبھالا اور تعزیتی بیان وغیرہ کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس میں حضرت مولانا مفتی ابو محمد صاحب، حضرت مولانا حافظ گلزار احمد آزاد صاحب، حضرت مولانا پیر احسان اللہ قاسمی صاحب، برادرم مولانا عبدالوکیل خان مغیرہ، اور تایا جان مفکر اسلام حضرت مولانا علامہ زاہد الراشدی صاحب نے مختصر مگر جامع بیانات کیے اور حضرت والد محترم رحمہ اللہ کی خدمات کو سراہا۔
تایا جان نے کہا کہ ’’آج ان کی جوڑی ٹوٹ گئی ہے۔‘‘
برادرم حضرت مولانا عبدالوکیل خان مغیرہ نے اس موقع پر اعلان فرمایا کہ والدِ محترم تصویر کو ناجائز سمجھتے تھے، یہ اُن کی وصیت تھی اور ہم سب اس پر عمل پیرا ہوں گے۔
رات دس بجے برادر مکرم حضرت مولانا نصر الدین خان عمر نے والدِ محترم کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔
جنازے کی ادائیگی کے بعد آپ کا جسدِ خاکی بڑے قبرستان منتقل کیا گیا۔ جہاں علما، طلبہ اور عوام کا اس قدر عظیم اجتماع تھا کہ قبرِ مبارک کے قریب جگہ بنانا بھی لوگوں کے لیے نہایت دشوار تھا۔ حضرتؒ کو اُن کے چچا و مربی حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتیؒ کے جوار میں سپردِ خاک کیا گیا۔ لحد میں آپ کو نہایت محبت اور ادب کے ساتھ آپ کے فرزند مولانا حافظ نصرالدین خان عمر، حافظ علم الدین ابوہریرہ اور حافظ شمس الدین خان طلحہ نے اتارا۔ زمین نے اپنے دامن میں ایک اور ولی کو سمیٹ لیا۔
تدفین کے بعد سرہانے کی جانب آپ کے فرزند حافظ قاری عبدالرشید خان سالم نے سورۂ بقرہ کے آغاز سے تلاوت شروع کی، اور پاؤں کی سمت آپ کے پوتے، حافظ حنظلہ عمر نے سورۂ بقرہ کی آخری آیات تلاوت فرمائیں۔
اس کے بعد حضرت صوفی عطاء اللہ نقشبندیؒ کے جانشین، پروفیسر ضیاء اللہ نقشبندی نے نہایت سوز و گداز کے ساتھ دعا فرمائی۔ ان کی دعا کے کلمات نے مجمع کے دلوں کو موم کر دیا، آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور فضا پر رقت و خشوع کی کیفیت طاری ہو گئی۔
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
ہم جنازے میں شریک ہونے والے تمام دوست احباب بزرگ کا تہہ دل سے شکر گزار ہیں جو ہمارے غم میں شریک ہوئے۔ اور جنہوں نے فون میسجز کے ذریعے تعزیت کا اظہار کیا ان کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں، اور خصوصاً جن دوست احباب نے اپنے اپنے مقامات پر ایصالِ ثواب کیا ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔
حافظ محمد شمس الدین خان طلحہ و برادران