فی أصیل یوم الجمعۃ ١٥/٨/٢٠٢٥ م بعد ما فرغت من صلاۃ العصر، استعددت _ حسب عادتی_ أن آوی لمدۃ قصیرۃ إلی المقصف للاستراحۃ من تعب دراسۃ الیوم، قبل وصولی إلی المکان الذی کنت أریدہ، اتصل بی والدی ہاتفیا، عند التحیۃ المسنونۃ لمست من صوتہ أن ہناک خبرا مؤلما، قال: ان فضیلۃ الشیخ المحدث الفقیہ عبدالقدوس خان قارن قد انتقل إلی جوار رحمۃ اللہ، فما کنت أملک إلا أن أقول: إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
بوفاتہ لقد فقد العالم الإسلامی بشکل عام، وجامعۃ نصرۃ العلوم بشکل خاص علما من أعلام یعتبر من بقیۃ السلف الصالح بعلمہ وعلمہ، وکان شیخنا واحد من کبار المفکرین فی العالم، وکذلک کل احد یعترف بعلمہ وبفقاہتہ، وکان نموذجا عملیا لفکرۃ والدہ المعی امام اہل السنۃ الشیخ سرفراز خان صفدر قدس اللہ سرہ، وکان إماما فی مسجد النور منذ خمسین سنۃ، وہکذا کان یقوم بتعلیم القران الکریم، بعد صلوۃ الفجر، وقد أتم تفسیر القران الکریم ثلاث مرات، تقبل اللہ مساعیہ المشکورۃ۔
قد انتشر خبر وفاتہ کالنار فی الحشیش، وبدا الناس یصلون إلی الجامعۃ من جمیع أنحاء البلد، لیشارکو فی الصلاۃ علی المیت، وقد شارک فی جنازتہ عدد کثیر من التلامیذ والمحبین لہ، فرغبت فی المشارکۃ فی جنازتہ تادیۃ لحقہ علی، لکن للأسف، ورغم رغبتی فی ذلک، لم أتمکن من حضور الجنازۃ بسبب بعض الأعذار، سیبقی لدی أسف دائم لذلک۔
أخیرا أسأل اللہ عز وجل أن یسکن شیخنا فسیح جناتہ، وارزق أہلہ، وذریتہ، ومن یتعلق بہ الصبر، إنک علی کل شیء قدیر۔
بقلم الاخ: ذکاء اللہ۔
پیغام: حضرت! میں اس اکیڈمی میں ہوتا ہوں تو اس اکیڈمی کے مجلہ الکفاح میں حضرت استاذ جی کی وفات کے متعلق بندے کا لکھا ہوا یہ مضمون ہے۔
شیخ عبدالقدوس خان رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات پر تعزیت
جمعہ کی شام 15 اگست 2025ء کو عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں نے حسبِ عادت تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے کیفے ٹیریا جانے کی تیاری کی۔ ابھی میں وہاں تک نہیں پہنچا تھا کہ میرے والد نے فون کیا۔ ابتدائی سلام دعا کے بعد ہی میں نے ان کی آواز میں افسردگی محسوس کی۔ انہوں نے کہا: ’’حضرت محدث فقیہ شیخ عبدالقدوس خان قارین رحمۃ اللہ علیہ اللہ کے حضور پیش ہو گئے ہیں۔‘‘ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا: انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ان کی وفات سے اسلامی دنیا عام طور پر اور جامعہ نصرۃ العلوم خاص طور پر ایک ایسے عالم سے محروم ہو گئی ہے جو اپنے علم و عمل میں سلف صالحین کی باقیات میں سے تھے۔ ہمارے شیخ دنیا کے بڑے مفکرین میں سے ایک تھے اور ہر کوئی ان کے علم و فقہ کا قائل تھا۔ وہ اپنے والد ماجد امام اہل سنت شیخ سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کے فکر و نظر کا عملی نمونہ تھے۔ پچاس سال تک مسجد النور کے امام رہے اور ہمیشہ فجر کی نماز کے بعد قرآن پاک کی تعلیم دیتے تھے۔ انہوں نے قرآن پاک کی تفسیر تین مرتبہ مکمل پڑھائی۔ اللہ تعالیٰ ان کی شکرگزار خدمات کو قبول فرمائے۔
ان کی وفات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگ نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے ملک کے تمام کونوں سے جامعہ پہنچنے لگے۔ ان کے جنازے میں بے شمار شاگردوں اور چاہنے والوں نے شرکت کی۔ میں بھی ان کے حق کو ادا کرنے کے لیے ان کے جنازے میں شرکت کرنا چاہتا تھا، لیکن افسوس کہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے میں جنازے میں حاضر نہ ہو سکا۔ اس بات کا ہمیشہ افسوس رہے گا۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے شیخ کو اپنی وسیع جنتوں میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ، اولاد اور متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
از قلم: بھائی ذکاء اللہ