میرے ابو جان کہا کرتے تھے بیٹا آپ نے بڑے دادا جان مولانا سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ نہیں دیکھے، اس وقت آپ کے بڑے تایا جان مولانا نصرالدین خان عمر کے بیٹے حنظلہ اور بیٹی گود میں تھی، انہوں نے خوب پیار لیا بڑے دادا جان سے، لیکن آپ بھی بہت خوش قسمت ہو جنہوں نے اپنے دادا جان رحمۃ اللہ علیہ کی آغوش محبت و شفقت میں پروان چڑھا، ان کی زیر تربیت اللہ نے ہمیں فیض یاب کیا۔
بظاہر تو میرے والد محترم حافظ علم الدین ابوہریرہ اور میری والدہ نے میری تعلیمی تربیت بہترین کی، فجر کی نماز سے لے کر رات تک ایک باقاعدہ پلان شدہ معمول تھا جس میں دادا جان رحمۃ اللہ کی فکر کوشش محنت اور بے انتہا دعائیں تھی کہ میرے دادا جان نے میری پیدائش پہ میرا نام اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی نسبت کرتے ہوئے فرمایا کہ بیٹا ابوہریرہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو پیار سے حمیرا کہتے تو اِس کا نام میں نے حمیرا رکھا۔ یہ ایک نام ہی نہیں تھا ایک تربیت کا آغاز تھا۔ ہمیشہ دادا جان دینی معاملات میں بھرپور تعاون کرتے اور انعامات سے نوازتے اور دعائیں دیتے۔ میرے دادا جان نے مجھے کلمہ سنانے، میرے کھانا کھانے کی دعا سنانے سے لے کر نورانی قاعدہ ختم کرنے اور ہر پارہ حفظ کرنے تک باقاعدگی سے انعام و اکرام اور دعاؤں سے دستِ شفقت رکھا۔
اس سال رمضان مارچ میں 2025ء کو مجھے دادا جان کا قرآن تراویح میں سننے کا موقع ملا، مجھے بتاتے غلطی بتانی نہیں، ہاتھ سے ہاتھ کو مارنا۔ میں الحمد للّہ اپنے والد صاحب کو روزانہ ڈیڈھ سے دو پارے سناتی تھی منزل۔ اپنے ماحول کی پیش رفت کے حساب سے ماشاء اللہ بہتر تھی۔ میرے بہن بھائی اور مجھے غلطی نکالنے کا دادا جان سے یومیہ انعام ملتا، شاباشی ملتی۔ تروایح کے بعد کہتے آؤ بھائی بچوں کھلی کچہری لگی۔ بتاؤ کیا غلطی آئی ہے؟ جب تراویح میں قرآن مکمل ہوا مجھے دادا جان نے ایک ہزار بطور انعام سے نوازا۔
میری بڑی بہن دختر تایا ابو مغیرہ جو ڈینگی بخار کی وجہ سے کافی علیل ہو گئی تھی آدھا قرآن ہو چکا اور اس کے بھائی چھوٹے کے بھی سترہ پارے ہوچکے تھے ان کو بھی انعام دیا۔ اور کہا ماشاء اللہ حمیرا کی قابل اعتبار منزل ہے اللہ یاد رکھنے کی توفیق دے۔ سب کو دعائیں دیتے تھے۔
مجھے یاد جب میرے پانچ چھ پارے رہ گے تھے تو دادا جان کی فکر بڑھ گئی کہتے تھے پتر میری زندگی کے اندر مکمل کر لینا میرا کوئی پتا نہیں میں تیری خوشی ویکھ لواں۔ پھر آتے جاتے کچھ دن کے بعد پارے پوچھتے رہتے تھے۔
کسی معتبر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم غالباً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حوالہ دے کر فرمایا کہ جس دن مکمل ہو اسی دن دعا آمین کرنی چاہیے۔ دادا جان فرماتے کہ رسم و رواج میں نہیں پڑنا۔ جس دن قرآن مکمل ہوا اسی دن دعا ہونی، یہ رسم ہوتی، اس میں دادا جان کی تربیت ہمیشہ تھی رسم و رواج سے دادا جان انتہائی احتیاط کرتے تھے۔ پھر دادا جان نے مجھے سوٹ کے پیسے دیے۔ آمین کی تیاری شروع ہو گئی۔
بقرہ عید سے پہلے 4 جون 2025ء کو بروز بدھ غالباً بعد نماز عشاء میں نے اپنے جز وقتی استاد قاری محمد عظیم صاحب اور کل وقتی استاد قاری محمد مدثر صاحب کی موجودگی میں میرے دادا جان رحمۃ اللہ علیہ نے میرا آخری سبق سنا۔ مجھے دستِ شفقت سے پیار دیا۔ میں خوش قسمت دو لحاظ سے ہوں۔ الحمد للّہ ایک تو مجھے دادا جان کو آخری سبق سنانے کا اللہ کریم نے موقع دیا۔ دوسرا دادا جان نے مجھے اپنا قرآن ہدیہ گفٹ کے طور پہ دیا، اس سے بڑا گفٹ میرے لیے اور کچھ نہ ہو سکتا تھا اور نہ ہی ہے۔ اور فرمایا اس کو سنبھالنا بھی ہے اور پڑھنا بھی ہے۔ اور مختصر بیان کیا جو والد صاحب آپ کو ریکارڈ فراہم کریں گے۔ یہ میری زندگی کا ایک اہم دن تھا۔
نصیحت و عزائم کے ساتھ اپنے معاملات میں دین کی خدمت و کوشش کا جذبہ پیدا کرنا دادا جان رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت کا حصہ تھا۔ روزانہ صبح دعاؤں سے سکول جانا۔ آتے جاتے محبت و شفقت کا سائباں۔ ہمیں کیا خبر تھی۔ جمعہ پندرہ اگست میرے گھر آتے تیاری میں مصروف تھے۔ غسل کا اہتمام کیا، باہر نکل کر اچانک طبیعت خراب ہوئی اور میرے بابا میرے تایا جان کے ہاتھوں میں اونچی آواز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھا اور عین جمعہ کی تیاری کے وقت جاتے ہوئے دربار الٰہی میں ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو گئے۔ ہم سب سے وہ سائباں اٹھا جس کی کمی کوئی پوری نہیں کر سکتا۔
اللہ کریم سے دعا میرے دادا جان کو اللہ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ہمیں ان کے نقش قدم پہ چلائے ان کی دی گئی نصیحت و تربیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دینِ اسلام پہ قائم دائم رکھے۔ آمین ثم آمین