استاد محترم عمدۃ المدرسین، یادگارِ اسلاف، عظیم محدث حضرت مولانا عبد القدوس خان قارن بھی داعیِٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ راقم السطور بروز جمعہ والدین کے ہاں گیا ہوا تھا، وہیں پر جمعہ ادا کر کے گھر پہنچا تو یہ اندوہناک خبر ملی کہ استاد قارن صاحبؒ وصال فرما گئے ہیں۔ یہ سنتے ہی اعصاب شل ہوگئے اور سر چکرا گیا۔ آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اور انا للہ کے سوا کوئی جملہ زبان سے نہ نکل سکا۔ استاد محترم کی ذات سراپا شفقت و محبت تھی، جس سے ملتے اسے یہ محسوس ہوتا کہ استاد جی کا تعلق سب سے زیادہ مجھ سے ہے۔
استاد جی سے ہمارا تعلق
استاد قارن صاحبؒ گو میرے براہِ راست استاد نہیں، میرے والد صاحب (مولانا قاری رشید احمد صدیقی) کے استاد تھے۔ اور والد صاحب سے حضرات شیخین کریمینؒ کے بعد جن کا سب سے زیادہ والہانہ تذکرہ سنا وہ استاد قارن صاحبؒ ہیں۔ 2005ء میں والد محترم گرفتار ہوئے، اور 1 مہینے کی نظربندی 10 مہینے تک طویل کر دی گئی، اسی دوران والد صاحب کا خط آیا کہ نصرۃ العلوم جا کر استاد قارن صاحب سے دعاؤں کی درخواست کرنا۔ ایک روز میں نصرۃ العلوم استاد جی کی خدمت میں حاضر ہوا استاد جی سبق پڑھا کر گھر کی طرف جا رہے تھے۔ میں نے والد صاحب کی درخواست پیش کی، تو مجھے گلے لگایا اور ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور فرمایا کہ مکمل صورتحال سے آگاہ کرو۔ میں نے تمام حالات تفصیل سے عرض کر دیے تو فرمانے لگے "تیرے ابو دی بڑی قربانی اے پر اودی قدر نئیں کیتی کسے نے" (تیرے ابو کی بڑی قربانی ہے مگر اس کی قدر کسی نے نہیں کی)۔ اس کے بعد مجھے تسلی دی کہ دین کیلئے قربانی دینا ہمارے بزرگوں کی سنت ہے، پریشان نہیں ہونا۔ چائے وغیرہ کے بعد رخصت کرتے ہوئے کچھ پیسے دیے کہ یہ گھر میں استعمال کرنا۔ یہ میری استاد جی سے بغیر واسطے کے پہلی ملاقات تھی۔
2011ء میں میرے چھوٹے بھائی عزیزم مولوی محمد اسامہ عبد اللہ کے حفظ کی تکمیل ہوئی تو اس کا آخری سبق استاد جی نے سنا۔ ماشاء اللہ اب وہ استاد جی کا شاگرد ہے اور پچھلے سال نصرۃ العلوم سے دورۂ حدیث کر چکا ہے۔
استاد جی کی محبت
کھانے کے بعد میں نے پوچھا کہ استاد جی چائے میں چینی ڈالنی ہے، تو میری کمر پر تھپکی دی اور فرمایا کہ "بغیر چینی توں چاہ بن دی اے؟" (بغیر چینی کہ چائے بنتی ہے؟) جہاں ملتے محبت و شفقت کا اظہار فرماتے، ساتھ کوئی لطیفہ یا چٹکلہ ضرور سناتے۔
اہل علم کی نظر میں استاد جی کا علمی مقام
قریباً 8 یا 9 سال پہلے کی بات ہے، ہمارے ماموں فرمانے لگے کہ مجھے کسی حدیث کے بارے کوئی مسئلہ درپیش ہوا، میرا رابطہ شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری رحمہ اللہ (سابق صدر مدرس و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند) کے ساتھ ہوتا رہتا تھا، میں نے پریشانی کے عالم میں حضرت کو کال کی اور مسئلہ عرض کیا کہ حضرت یہ معاملہ ہے۔ ماموں جی کہتے ہیں کہ میں حیران ہوا کہ جب انہوں نے کہا کہ "آپ کے قریب مولانا عبد القدوس خان قارن رحمہ اللہ ہیں، ان سے پوچھیے، فی الحال میرے ذہن میں مستحضر نہیں ہے۔" اور فرمایا کہ "پوچھ کر ان کا جواب مجھے بھی ضرور بتانا۔" ماموں جی کہتے ہیں کہ میں نے استاد جی قارن صاحب کے سامنے ساری بات رکھی تو استاد جی نے چٹکی میں وہ مسئلہ حل کردیا۔ میں نے حضرت پالنپوری رحمہ اللہ کو استاد جی کا جواب سنایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ "بڑے باپ کے بڑے بیٹے ہیں، مجھے پتہ تھا کہ حضرت قارن صاحب فوراً یہ مسئلہ حل کردیں گے۔"
استاد جی کی نصیحت
دو سال قبل مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں حضرت مولانا محمد ریاض خان سواتی رحمہ اللہ تعالی کی یاد میں تعزیتی پروگرام منعقد ہوا، استاد جی اس میں تشریف لائے۔ عصر کی نماز کا وقت ہوا تو راقم نے عرض کی کہ استاد جی نماز پڑھائیں، استاد جی نے فرمایا کہ خود پڑھاؤ۔ نماز کے بعد میں مصافحہ کیلئے بڑھا تو استاد جی نے فرمایا، یہاں کب سے ہے؟ راقم نے عرض کی کہ استاد جی دو سال ہوگئے ہیں۔ فرمایا، کس نے رکھا ہے؟ عرض کی بڑے استاد جی مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہم نے۔ بہت خوش ہوئے اور پنجابی زبان میں فرمایا کہ "میری گل نصیحت سمجھ کے یاد رکھیں" (میری بات نصیحت سمجھ کر یاد رکھنا) کہ استاداں دا ناں اپنے مفاد واسطے کدی استعمال نئیں کرنا" (استاد جی مولانا زاہدالراشدی صاحب کا نام اپنے مفاد کیلئے کبھی استعمال نا کرنا)۔ الحمد للہ ابھی تک اس نصیحت پر کار بند ہوں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی کوشش یہی ہے۔
اہل تصوف کے ہاں استاد جی کا مقام
ہمارے بڑے حضرت جی، حضرت اقدس مولانا حافظ محمد ناصر الدین خان خاکوانی صاحب دامت برکاتہم استاد جی سے بہت محبت فرماتے، اور استاد جی قارن صاحبؒ بھی حضرت جی سے بہت محبت فرماتے تھے۔ حضرت حافظ سیف اللہ صاحب جو کہ مچھلی منڈی کی مسجد کے امام اور حضرت خاکوانی صاحب کے اجل خلفاء میں سے تھے، انہوں نے ایک مرتبہ اس ناکارہ کو فرمایا کہ استاد قارن صاحب نے حضرت خاکوانی صاحب سے بیعت ہونے کی درخواست کی تھی مگر حضرت خاکوانی صاحب مدظلہم نے استاد قارن صاحبؒ کو کہا کہ آپ کو حضرت شیخ سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی نسبت حاصل ہے اور حضرت کی نسبت بہت اونچی نسبت ہے۔ لہٰذا میں آپ کو بیعت نہیں کروں گا۔ بلکہ حضرت خاکوانی صاحب مدظلہم نے کئی مرتبہ استاد قارن صاحب کی موجودگی میں فرمایا کہ گوجرانوالہ آکر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے کہ ان جیسے حضرات سے استفادہ کرتا ہوں۔ دارالسلام کے اجتماعات میں بھی کئی مرتبہ استاد جی قارن صاحب کو دعوت دے کر بلایا اور بیان کروایا۔
حضرت صوفی عطاء اللہ صاحب رحمہ اللہ کی خانقاہ میں جب حضرت خاکوانی صاحب تشریف لاتے تو اکثر استاد قارن صاحب بیان کر رہے ہوتے تھے۔ حضرت بڑے انہماک کے ساتھ استاد جی کا بیان سماعت فرماتے۔ ایک مرتبہ استاد قارن صاحب نے ہمارے ایک پیر بھائی سے کہا کہ حضرت خاکوانی صاحب تصوف میں عظیم شخصیت تو ہیں ہی، مگر علمی مقام بھی بہت اونچا ہے کہ حضرت جو قرآن پاک سے استدلال کرتے ہیں اس پر حیران رہ جاتا ہوں۔ اسی طرح اس فقیر نے حضرت صوفی عطاء اللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا کہ جب استاد قارن صاحب سے ملتے تو فرطِ محبت میں حضرت صوفی صاحب بھی آبدیدہ ہوتے اور استاذ قارن صاحب کی آنکھیں بھی نم ہوتیں۔ آہا حضرت الاستاد کی شخصیت تھی ہی ایسی کہ جو کئی کمالات کا مجموعہ تھی جو ملتا وہ انہیں کا ہوکر رہ جاتا۔
یہ سطور لکھتے ہوئے بھی راقم کی آنکھیں نم ہیں، دل ویران سا ہے، کہاں سے ملیں گے اب استاد قارن صاحب جیسی محبت و شفقت دینے والے، کہ جن کی مجلس دل کو جِلا بخشتی تھی۔ اللہ رب العزت استاد جی کی کامل مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑوس عطا فرمائیں۔ اور استاد جی کے اہلِ خانہ، بچوں اور مجھ سمیت تمام متعلقین محبیّن متوسلین اور شاگردوں کو صبرِ جمیل عطا فرمائیں۔ اور ہم سب کو استاذ جی کے نقشِ قدم پر چلنے اور ان کے مشن کو زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین ثم آمین۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ
وہ سائبانِ شفقت ہم سے جدا ہوا ہے
جنت کا راہی اپنی جنت میں جا بسا ہے
تا عمر دین حق کی جو آبیاری کی تھی
مجھ کو یقیں ہے رب نے اس کا صلہ دیا ہے
آمین ثم آمین۔