وقت کا پہیہ اپنی رفتار سے چل رہا ہے، مگر بعض دن ایسے آ جاتے ہیں جو تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ ۱۵ اگست ۲۰۲۵ء بروز جمعۃ المبارک، ایسا ہی ایک دن تھا جب دنیائے علم و دین کا درخشندہ چراغ، جلیل القدر عالمِ دین، استاذ الحدیث حضرت مولانا عبد القدوس قارن صاحبؒ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔ یہ سانحہ محض ایک شخصیت کا غم نہیں بلکہ پورے علمی و دینی معاشرے کا مشترکہ دکھ ہے۔
حضرت قارن صاحبؒ کا شمار ان بزرگوں میں ہوتا تھا جنہوں نے اپنی پوری زندگی قرآن و سنت کی خدمت، علم کے فروغ اور ملتِ اسلامیہ کی رہنمائی کے لیے وقف کر دی۔ وہ بیک وقت محدث، مفسر، فقیہ، محقق، خطیب اور مربی تھے۔ آپ نے جامعہ نصرت العلوم گوجرانوالہ کی نظامت و تدریس کے ذریعے ہزاروں طلبہ کے دلوں کو علم و حکمت کی روشنی سے منور کیا۔ ان کی محنت کا ثمر یہ ہے کہ آج دنیا کے مختلف گوشوں میں ان کے تربیت یافتہ شاگرد دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ان کی سب سے نمایاں خدمت امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی علمی میراث کی تکمیل اور حفاظت ہے۔ انہوں نے اپنے بزرگ کی ناتمام تصانیف کی تدوین و تکمیل کا جو عظیم کارنامہ سرانجام دیا وہ رہتی دنیا تک ان کے نام کو زندہ رکھے گا۔
حضرت قارن صاحبؒ کی خطابت دلوں کو مسخر کر لینے والی تھی۔ ان کے بیان میں سچائی کی قوت اور استدلال کی پختگی جھلکتی تھی۔ وہ پیچیدہ مسائل کو نہایت سادگی اور محبت کے ساتھ پیش کرتے، اور سننے والے کے دل میں دین کی محبت بٹھا دیتے۔ ان کی شخصیت زہد، قناعت اور انکساری کا پیکر تھی۔ ہم رنگ لباس، سادہ طعام، اور اپنے اکابر و شاگردوں سے بے مثال محبت، یہ سب اوصاف ان کی زندگی کا خاصہ تھے۔ بڑے سے بڑا عالم بھی ان کے سامنے عاجزی محسوس کرتا، اور چھوٹے سے چھوٹا طالب علم ان کی مجلس میں سکون پاتا۔ حضرتؒ نے ختمِ نبوت، تحریکِ نظامِ مصطفیٰ، شریعت بل اور مسجد نور کی تحریک سمیت تمام دینی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کیا۔ آپ کسی ایک جماعت کے پابند نہ تھے بلکہ امتِ مسلمہ کے ہر درد کو اپنا درد سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مکتبِ فکر کے علماء و طلبہ آپ کو یکساں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
2 اگست کو آخری ملاقات میں استاذ جی فرمانے لگے، سن 88ء یا 80ء کہا، کہ میرے خلاف توہینِ اہلِ بیت کا کیس ہو گیا۔ جج نے ایس ایچ او سے پوچھا، کیا تقریر کی تھی انہوں نے؟ ایس ایچ او کہنے لگا، انہوں نے کہا تھا حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے اور بھائی بھی تھے۔ جج نے پوچھا، تو اس میں گستاخی کونسی ہے؟ توں کیتھو پڑھدا رہیا ایں؟ جج نے ایس ایچ او کو خوب سنائیں۔
ان کی وفات پر جو مناظر دیکھنے میں آئے وہ دل کو لرزا دینے والے تھے۔ جنازے میں شریک ہجوم اس حقیقت کی گواہی دے رہا تھا کہ یہ رخصتی صرف ایک عالم کی نہیں بلکہ علم و تقویٰ اور اخلاص و خدمت کے ایک عہد کی ہے جو مٹی کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ بطور شاگرد، میرا دل اس غم سے لبریز ہے کہ ہم اپنے محسن، اپنے مربی اور اپنے چراغِ راہ کو کھو بیٹھے ہیں۔ مگر ساتھ ہی یہ اطمینان بھی ہے کہ حضرتؒ کی دعائیں، ان کی تعلیمات اور ان کا فیض تاحیات ہمارے ساتھ رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولانا عبد القدوس قارنؒ کو غریقِ رحمت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور ہمیں ان کے علمی و روحانی نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔