ایک کامل اور جامع الصفات عالمِ دین وہ ہوتا ہے، جس کی شخصیت میں خشیتِ خداوندی نمایاں ہو، جس کے دل و دماغ پر تقویٰ و للہیت کا غلبہ ہو، جس کی زندگی اتباعِ سنت اور اتباعِ شریعت کا آئینہ دار ہو اور جس کا شب و روز دین کی خدمت اور خلقِ خدا کی خیر خواہی میں بسر ہو۔ حقیقی عالم صرف وہ نہیں جو علم کے خزانے کا مالک ہو، بلکہ وہ ہے جو اپنے علم کو عمل سے سنوارے، اپنی زندگی کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالے اور اپنے وجود سے دوسروں کو ہدایت، محبت اور راہنمائی فراہم کرے۔ ایسے علماء کرام ہی امت کے لیے چراغِ راہ اور قلوب کے سکون کا ذریعہ بنتے ہیں۔
اہلِ سنت والجماعت کی علمی اور فکری تاریخ میں حضرت امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ ایک ایسی جلیل القدر شخصیت ہیں جنہیں دینی اور مسلکی اعتبار سے متفقہ طور پر امام مانا گیا۔
اسی خانوادے کے چشم و چراغ جامعہ نصرت العلوم گوجرانوالہ میں نصف صدی تک مسندِ تدریس کو رونق بخشنے، جامع مسجد نور میں امامت کے ساتھ درسِ قرآن و حدیث سے خلقِ خدا کی ہدایت و راہنمائی کرنے والے، دسیوں علمی و فکری کتابوں کے مصنف، میرے مشفق و مہربان استاد حضرت مولانا عبدالقدوس خان قارن نوّر اللہ مرقدہ و برد اللہ مضجعہ گذشتہ دنوں عارضہ قلب سے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ان للہ ما اخذ ولہ ما اعطیٰ وکل شیء عندہ باجل مسمیٰ فلتصبر ولتحتسب۔
جن کی زندگی میں علم و فضل، تقویٰ و للّٰہیت، محبت و شفقت اور دین کی غیرت و حمیت سب ایک ساتھ جمع نظر آتے تھے۔ جو سراپا محبت و شفقت ،اکابر کی نسبتوں کے امین تھے۔ آپ عظیم مذہبی سکالر حضرت مولانا علامہ زاہد الراشدی دامت برکاتہم (جو کسی تعارف کے محتاج نہیں، جن کی دین و دنیا کے مسائل پر گہری نظر اور متجددین کے اعتراضات کا مدلل اور جامع جواب دینے میں اپنی مثال آپ ہیں) کے برادرِ مکرم تھے۔
ذیل میں آپ کی حیات مستعار سے وابستہ چند یادیں سپرد قلم کی جاتی ہیں؛
1. علم و فضل اور تدریس کی مہارت
حضرت استاذیم رحمہ اللہ نے جامعہ نصرت العلوم گوجرانوالہ میں درس و تدریس کے ذریعے سینکڑوں طلبہ کے قلوب کو منور کیا۔ وہ حجیتِ حدیث، تقابلِ ادیان اور علومِ اسلامیہ کے اہم مباحث کو نہایت واضح، دلنشین اور علمی انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کی تدریس محض علمی نہ تھی بلکہ شاگردوں کی فکری و روحانی تربیت بھی ساتھ ساتھ ہوتی تھی۔ بندہ نے باضابطہ درسِ نظامی کی کوئی کتاب آپ سے نہیں پڑھی لیکن 2005ء میں ہونے والے دورہ تفسیر و تقابلِ ادیان کورس کے موقع پر "حجیتِ حدیث" کے اہم موضوع پر علمی و فکری مجلس میں زانوئے تلمذ کرنے کا شرف حاصل ہوا، جو آج تک میرے لیے سرمایۂ علم و عمل ہے۔
2. تقویٰ اور شریعت پر عملداری
آپ کی سب سے نمایاں صفت شریعت کے احکام پر غیر متزلزل عمل تھا۔ چاہے دینی معاملہ ہو یا دنیاوی، مسجد و مدرسہ ہو یا بازار، ہر موقع پر وہ اپنے عمل سے بتاتے کہ دین کے چھوٹے بڑے مسائل پر عمل کرنا ہی اصل دینداری ہے۔ چنانچہ حضرت امام اہلسنت والجماعت کی تصنیفات کے سلسلہ میں آپ سے پانچ سال معاملات رہے۔ مجال ہے کسی موقع پر آپ شریعت سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹے ہوں۔ ایک دفعہ چند بقایا جات کی ادائیگی کے لیے جامع مسجد نور میں نمازِ عصر کے بعد ملاقات ہوئی اور جب ادائیگی کرنا چاہی تو بڑے مشفقانہ انداز میں فرمایا؛ "مسجد میں دنیاوی لین دین شرعاً درست نہیں ہے"۔
ایک موقع پر مادرِ علمی جامعہ نصرت العلوم کے مہمان خانہ میں دعوتِ طعام کے دوران ملاقات ہوئی تو فرمانے لگے: چند لمحات مسجد میں انتظار کرو، چنانچہ تشریف لائے اور مسجد کی دوسری جانب ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور ماحضر سے اکرام کرتے ہوئے فرمانے لگے؛ "مہمان کے لیے کسی دوسرے مہمان کو میزبان کی اجازت بغیر کھانا کھلانا مہمان نوازی کی روح کے خلاف اور ایک نامناسب عمل ہے"۔ اس لیے میں نے تمہیں وہاں کھانے کا نہیں کہا"۔ کیا کہنے حضرت استاذیم کے کہ آپ کی پوری زندگی علم و عمل کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔
3. تواضع و انکساری
اپنے مقامِ علم و فضل کے باوجود استاذیم نہایت منکسر المزاج اور تواضع کے پیکر تھے۔ شاگردوں اور محبین کے ساتھ محبت بھرے انداز سے پیش آنا، دھیمے و مشفقانہ لہجے میں گفتگو کرنا اور اظہارِ محبت کرنا ان کے مزاج کی خاص پہچان تھی۔ بندہ نے متعدد بار تراویح میں تکمیلِ قرآن کریم کے موقع پر استاذیم کو دعوت دی تو ہمیشہ یہی فرماتے؛ "بس مجھے بتا دو کہاں آنا ہے، میں خود ہی پہنچ جاؤں گا"۔ اور قسم بخدا ایک دفعہ تو حضرت استاذیم رکشہ پر اکیلے ہی تشریف لائے۔
بندہ جب کبھی گوجرانوالہ ہوتا تو عموماً نماز جمعہ آپ کی امامت میں ادا کرتا۔ نماز جمعہ کے بعد انتہائی مشفقانہ انداز میں ملتے، بچوں پر دستِ شفقت رکھتے اور کبھی کبھی عاجزی میں فرماتے؛ "مجھے پتہ ہوتا آپ ادھر ہی ہیں، تو میں آج چھٹی کر لیتا"۔
4. محبت و شفقت پدرانہ
استاد اور شاگرد کے تعلق کو آپ نے محض تعلیمی رشتہ نہ رہنے دیا، بلکہ پدرانہ محبت و شفقت سے اسے پروان چڑھایا۔ شاگردوں کو نصیحت کے ساتھ ساتھ عملی زندگی کے آداب بھی سکھائے۔ اس سلسلہ میں استاذیم کے دسیوں واقعات دل و دماغ میں رس گھولتے ہیں۔
مادر علمی جامعہ نصرت العلوم میں درجہ ثانویہ عامہ کے سہ ماہی امتحانات کے موقع پر جب پوزیشنوں کا اعلان ہوا تو تینوں پوزیشن ہولڈرز سے فرمایا؛ "شش ماہی امتحانات میں اول پوزیشن حاصل کرو، تمہیں جنت (جنت سے مراد علامہ ابن القیم کی کتاب "ہادی الارواح الی بلاد الافراح" کا اردو ترجمہ ہے، جو استاذیم کی "جنت کے نظارے" کے نام سے مایہ ناز تصنیف ہے) دوں گا۔ چنانچہ استاذیم کی دعاؤں اور ترغیب سے تینوں نے اول پوزیشن حاصل کی تو استاذیم نے وعدے کے مطابق کتاب مرحمت فرمائی۔
درجہ ثانیہ عامہ والے سال بندہ مطعم میں کھانے کے لیے جا رہا تھا، فرمانے لگے؛ "یہ تو زکوٰۃ و صدقات کا مال ہے، جسے مسافر طلباء ہی استعمال کر سکتے ہیں، آپ تو ایک خوش حال مقامی گھرانے سے تعلق رکھتے ہو آپ کے لیے تو یہ کھانا درست نہیں"۔ پھر شفقت سے سمجھاتے ہوئے فرمایا؛ "آئندہ اپنے جیب خرچ کی ایک مقدار کھانے کی مد میں رسید کٹوا لیا کرو، آپ کا یہ کھانا قیمتاً ہو جائے گا۔
5. غیرتِ دینی اور علمی دفاع
حضرت استاذیم کو اکابر و اسلاف، حضراتِ شیخین کریمین کی جانب سے جو علمی و فکری وراثت ملی، آپ نے زندگی بھر اس نسبت کی لاج رکھی۔ چنانچہ اہلسنت والجماعت سے خارج فتنہ کے ایک نام نہاد عالم نے امام بخاری اور ان کی روایات پر بازاری زبان استعمال کرتے ہوئے طوفان بد تمیزی کھڑا کیا تو استاذیم نے خاموشی اختیار نہ کی بلکہ علمی و متوازن انداز میں "دفع اعتراضات المخبث علی بخاری محدث" المعروف "امام بخاری کا عادلانہ دفاع" کے نام سے جواب دیا اور اس کتاب کے پانچ نسخے بندہ کو دارالعلوم کبیروالا ارسال کرتے ہوئے تاکید کی؛ ایک نسخہ حضرت مولانا ارشاد احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے لیے، دو نسخے ماہنامہ تذکرہ دارالعلوم میں تبصرہ کے لیے، ایک میرے لیے اور ایک کے بارے میں فرمایا؛ کسی معتبر ذریعے سے یہ کتاب اس فتنہ پرور تک پہنچا دیں، ممکن ہو تو آپ از خود پہنچائیں۔ چنانچہ حکم بجا لاتے ہوئے، جب بندہ نے یہ کتاب پہنچا دی تو مبلغ پانچ صد روپے بذریعہ منی آرڈر انعام مرحمت فرمایا۔
اس کے علاوہ آپ کی دسیوں تصنیفات اس بات کی شاہد ہیں کہ آپ محض مدرس ہی نہیں، بلکہ دینی غیرت و حمیت کے ساتھ محقق اور محافظ دین بھی تھے۔
6. اخلاص اور امانت داری
معاملات میں شفافیت اور دیانت آپ کی پہچان تھی۔ مالی لین دین ہو یا علمی امانت، ہر جگہ ان کا کردار کامل دیانت کا آئینہ دار نظر آتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ساتھ معاملات کرنے والا ہر شخص مطمئن اور پُر اعتماد رہتا۔
7. روحانیت اور اثر آفرینی
حضرت استاذیم کا وجود محض ایک عالم کا وجود نہ تھا بلکہ ان کی شخصیت میں ایک خاص روحانیت اور اثر آفرینی تھی۔ ان کے چہرے کا سکون اور نمازِ جنازہ کے موقع پر ہزاروں علماء و محبین کی حاضری اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی زندگی بھی قابلِ رشک تھی اور ان کا وصال بھی۔
الغرض حضرت استاذیم کی شخصیت علم و عمل، تقویٰ و اخلاص، محبت و شفقت اور دین کی غیرت و حمیت کا حسین امتزاج تھی۔ ان کے شاگرد اور محبین کے لیے ان کی زندگی ایک دائمی مشعلِ راہ ہے۔ اللہ تعالیٰ استاذیم کی کامل و مکمل مغفرت فرمائے، سفرِ آخرت آسان کر کے جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام نصیب فرمائے اور ہمیں بھی ان کے علم و عمل کے فیوض سے حصہ عطا فرمائے۔ آمین