سن 2008ء کی بات ہے، جب میں دارالعلوم خلفائے راشدین، ویسہ (اٹک) میں پڑھ رہا تھا۔ سالانہ جلسے کے لیے مرکزی خطاب کے لیے مولانا عبدالقدوس قارن صاحب سے درخواست کی گئی تو انہوں نے فوراً قبول فرما لیا۔ نہ کسی گاڑی کی فرمائش، نہ ہی لفافے کی خواہش۔ ایسا لگا جیسے واقعی علمائے کرام بھی “پیکج فری” آ سکتے ہیں۔ مولانا صاحب گوجرانوالہ جی ٹی روڈ سے پشاور جانے والی بس میں بیٹھ گئے اور فون پر مدرسے والوں کو اطلاع دے دی: “میں فلاں وقت تک کامرہ پہنچ جاؤں گا، آگے سے کوئی بندہ راہنمائی کے لیے آ جائے۔” اب مدرسہ والوں نے یہ ڈیوٹی ہمیں سونپ دی، یعنی مجھے اور میرے دوست اکرام الحق کو کہ ایک کیری ڈبہ لے کر جاؤ اور مولانا کو لے آؤ۔
مسئلہ یہ تھا کہ ہم دونوں نے مولانا کو کبھی دیکھا نہیں تھا۔ سو ہر بس رکتے ہی آنکھیں گاڑی میں سے اترنے والے ہر سواری پر یوں جمی ہوتیں جیسے پولیس ناکے پر شناختی چیک ہو رہا ہو۔ کچھ ہی دیر میں اکرام نے ایک شخص کو دیکھتے ہوئے کہا: “یار، یہ ایسا نہیں لگ رہا جیسا گاڑیوں میں پھکی بیچنے والے ہوتے ہیں؟” میں نے غور کیا تو سامنے ایک نہایت سادہ شلوار قمیض پہنے، اسی رنگ کے کپڑے کی ٹوپی لگائے، ہاتھ میں چھوٹا سا بیگ تھامے ایک شخصیت کھڑی تھی جو ادھر اُدھر متلاشی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ میں نے اکرام کو گھورتے ہوئے کہا: “اوئے پاگل! یہ تو خود مولانا ہیں۔” ہم آگے بڑھے، سلام کیا، بیگ لیا اور کیری ڈبے میں بٹھا کر روانہ ہو گئے۔ پورا راستہ بے تکلفی سے بات چیت چلتی رہی۔ وہ ہم سے ہمارے سبق پوچھتے رہے اور ہم ان سے ان کے والد گرامی مولانا سرفراز خان صفدرؒ کے واقعات سنتے رہے۔
ہاں، ویسہ گاؤں کی ایک الگ ہی خصوصیت ہے: وہاں کی سڑکوں پر ہر تین چار میٹر کے بعد ایسا جمپ بنایا گیا ہے کہ گاڑی تو دھیمی ہو ہی جاتی ہے، مگر گاڑی کے اندر بیٹھے افراد کی ہڈیاں بھی الگ سے جمپ لگاتی ہیں۔ مولانا کافی دیر برداشت کرتے رہے، پھر مسکرا کر بولے: “بھائی! یہ جمپ ختم ہونے کے بعد کہیں سڑک بھی آئے گی یا سارا گاؤں ہی قلابازیاں کھلاتا ہے؟” خیر، مولانا بخیر و عافیت پہنچ گئے، نہایت وقیع خطاب فرمایا اور جیسے عام بس پر آئے تھے، ویسے ہی واپس تشریف لے گئے۔ علم تو پہلے ہی متاثر کن تھا، لیکن ملنے کے بعد ان کی سادگی، بے تکلفی اور اپنائیت نے دل کو گرویدہ کر لیا۔
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں قیام کے دوران کئی بار ملاقات ہوئی، ہمیشہ شفقت سے ملے اور دعائیں دیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے، ان کے اہلِ خانہ، استاذ گرامی مولانا زاہد الراشدی اور تمام برادران کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین