پھوپھا جان شیخ الحدیث مولانا عبد القدوس خان قارن رحمۃ اللہ علیہ بہت ہی با صلاحیت باوقار، روحانی شخصیت اور سب کو جوڑ کر رکھنے والے، شفقت اور مزاح کرنے والے انسان تھے۔ میں جب بھی ان سے ملتا مجھے اپنے بچوں کی طرح گلے لگاتے، پیار دیتے اور پیار سے ’’وہابی کٹا‘‘ کہتے تھے۔
14 اگست 2025ء بروز جمعرات کو میرا گوجرانوالہ آنا ہوا کہ ان شاءاللہ تعالیٰ ہم پھوپھا جان سے صبح ملیں گے۔ رات کو بے چینی سی رہی۔ پھر صبح نماز فجر پڑھ کر بھی لیٹا مگر دو ڈھائی گھنٹے مسلسل نیند نہ آئی اور طبیعت میں مسلسل بے چینی رہی۔ پھر صبح جمعہ کی تیاری کی۔ میں نے، حافظ حنظلہ عمر اور حافظ عکرمہ عمر نے گھر کے بالکل سامنے مسجد میں جمعہ پڑھا۔ ابھی ہم پڑھ کر آئے ہی تھے کہ خالو جان مولانا حافظ نصرالدین خان عمر جن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ جب انھوں نے کہا ابا جی فوت ہو گئے ہیں ہم تینوں کے سروں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ گیا۔ اسی وقت زبان پر انا اللّٰہ وانا الیہ راجعون کا ورد شروع ہوگیا اور بوجھل قدموں کے ساتھ ایک دوسرے کو سہارا دیا اور اشکبار آنکھوں سے ہم گھنٹہ گھر جامعہ نصرت العلوم پہنچے۔
پھوپھا جان کا جب مطمئن اور روشن چہرے کو دیکھا تو دل کو اطمینان آیا مگر یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہمارے پھوپھا جان ہم میں نہیں رہے۔ موت بھی اٹل حقیقت ہے سب نے اللّٰہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ پھوپھا جان کا روشن چہرے کو دیکھ کر لگا کہ وہ کامیاب ہو گئے ہیں۔
اس کے بعد ہم اپنے کزن (بھائی معاویہ، بھائی سالم، بھائی مغیرہ، بھائی ابوہریرہ، اور بھائی طلحہ) وغیرہ کے ساتھ تدفین وغیرہ اور دوسرے معاملات (خواتین کے لیے سکول میں بیٹھنے) کے کام میں مصروف ہوگئے اور غسل وغیرہ اور جنازے کا انتظامات میں ہاتھ بٹاتے رہے۔
پھر ان آنکھوں نے انسانوں کا سمندر دیکھا جو دینی اور علمی شخصیت سے عقیدت و احترام اور جنازے کے لیے اکٹھے تھے۔ پھر تقریباً 10 بجے کے بعد خالو جان مولانا نصر الدین خان عمر نے پھوپھا جی کا جنازہ پڑھایا۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ میں 2011ء میں رمضان المبارک میں جامعہ نصرت العلوم میں حفظ کرنے آیا تھا تو اکثر پھوپھا جان کے ساتھ جامع مسجد تقویٰ میں تراویح پڑھنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کچھ اٹکن آئی تو تراویح ختم ہونے کے بعد مزاح میں پوچھا کہ ’’سہی سہی دسی وضو کیتا سی؟‘‘ میں نے کہا جی ہاں۔ گھر جانے کے بعد بھی انہوں نے کافی دفعہ مزاح میں پوچھا۔ اور ایک دفعہ میں نے 4 تراویح پڑھائی تو میں نے پھوپھا جان کو بتایا تو انہوں نے خوشی سے 20 روپے انعام دیا۔ پھوپھا جان دین کے کاموں میں بچوں سے بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے اور اکثر جب میں گھنٹہ گھر آتا تو اپنے ساتھ بیٹھا کر کھانا کھلاتے تھے۔
جب میرے نانا ابو محترم امان اللہ میر صاحب کی لاہور میں ہمارے ہاں وفات ہوئی تو آپ اپنے سب بیٹوں کے ساتھ شریک ہوئے۔ اور آپ نے نانا ابو کی نماز جنازہ پڑھائی۔
آپ کی اچانک جدائی کا زخم کبھی نہیں بھرے گا اور پھوپھا جان ہر وقت دعاؤں میں یاد رہیں گے۔ اللّٰہ تعالیٰ پھوپھا جان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں بھی قبر کی اور آخرت کی تیاری نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔