25 ربیع الاول 1434ھ بروز جمعرات (7 فروری 2013ء) مغرب کے بعد یہ خبر ملی کہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے اکابرِ ثلاثہ میں سے تیسری عظیم شخصیت، جامعہ محمدیہ اسلام آباد کے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالقیوم ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ ایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آباد میں انتقال فرما گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ استاذُ الاساتذہ حضرت مولانا عبد القیوم ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ سے میرے بچپن کی یادیں وابستہ ہیں۔ وہ والدِ گرامی کے بنیادی اساتذہ میں شمار ہوتے تھے۔ استاذ الاساتذہ حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب ہزاروی رحمہ اللہ اور استاذ الاساتذہ حضرت مولانا عزیز الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ (ٹیکسلا) جب تک جامعہ نصرۃ العلوم میں رہے، ایک ہی کمرے میں قیام پذیر رہے۔ والد محترم رحمہ اللہ اسباق پڑھا کر اکثر استاذ محترم کے کمرے میں چلے جاتے اور وہاں سے کچھ دیر بعد گھر آتے۔ کبھی والد محترم دیر سے گھر پہنچتے یا والدہ محترمہ کو فوری پیغام دینا ہوتا تو مجھے اس کمرے میں بھیج دیا جاتا۔ یوں بچپن ہی سے میرا تعلق دونوں بزرگوں سے قائم ہوگیا۔
حضرت ہزاروی رحمہ اللہ کی شفقت بے مثال تھی۔ ان کے دستِ مبارک سے بارہا بابرکت چائے پینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ کئی مرتبہ وہ خود میرے لیے کوئی چیز منگوا کر رکھتے اور پھر یا تو اپنے ہاتھوں سے کھلاتے، یا جیب میں ڈال دیتے، یا کچھ نقدی دے دیتے کہ "خود کچھ کھا پی لینا"۔ جب والد محترم کو کسی کتاب کی ضرورت پیش آتی تو وہ ایک پرچی پر کتاب کا نام لکھ کر مجھے دیتے اور میں استاذ محترم کی خدمت میں پیش کر دیتا۔ وہ کتاب فوراً عنایت فرما دیتے۔ بعض کتب درسی ہوتیں اور بعض غیر درسی۔ بعد میں جب مجھے مطالعہ کا ذوق پیدا ہوا تو کبھی وہ خود فرماتے: "کتاب کا نام دیکھ لو اور ڈھونڈ لو"۔ انہی میں سے غالباً ایک کتاب "پاگلوں کی کہانی" بھی تھی۔
حضرت ہزاروی رحمہ اللہ مجھے "صفدری" کہا کرتے۔ فرماتے: "اس کے دادا (امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ) صفدر ہیں تو یہ صفدری ہے۔"
جب دونوں اساتذہ جامعہ نصرۃ العلوم چھوڑ کر جامعہ محمدیہ اسلام آباد تشریف لے گئے تو والد محترم ہر تین چار ماہ بعد ضرور ملاقات کے لیے جاتے اور مجھے بھی ساتھ لے جاتے کہ میرا ان دونوں بزرگوں سے خاص تعلق تھا۔ حضرت مجھے دیکھتے ہی فرمایا کرتے: "میرا سنگی آیا، میرا صفدری آیا۔" ہم نے اپنی زندگی میں اپنے اساتذہ کرام کا ادب و احترام کرنے والوں میں والد گرامی رحمہ اللہ کو عملی طور پر دیکھا.
اسی تعلق و محبت کی وجہ سے والد گرامی نے مجھے جنازے کے سفر میں بھی ہمراہ چلنے کا حکم دیا۔ ہم فوراً مانسہرہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ عام گاڑی کے ذریعے رات بھر سفر کے بعد صبح سویرے مانسہرہ کے قدیم لاری اڈہ پر پہنچے۔ وہاں والد گرامی نے اپنے شاگرد، مولانا فضل الہادی صاحب (استاذ الحدیث جامعہ نصرۃ العلوم) سے رابطہ کیا۔ وہ فوراً تشریف لائے اور ہمیں اپنی رہائش گاہ (لمبی ڈھیری، محلہ باغ، لبرکوٹ روڈ) لے گئے۔ مختصر آرام اور ناشتہ کے بعد والد گرامی نے جامع مسجد ابراہیم (باغ، لمبی ڈھیری) میں قریب پون گھنٹہ خطاب فرمایا جس میں فکرِ آخرت اور اصلاحِ اعمال پر نہایت پر اثر نصیحتیں فرمائیں۔ پھر خطبہ جمعہ دیا اور نماز پڑھائی۔ والد گرامی کی آمد کی خبر سن کر بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے تھے۔
نمازِ جمعہ کے بعد مولانا فضل الہادی کے چھوٹے بھائی مولانا عبدالہادی کی معیت میں والد گرامی بذریعہ موٹر سائیکل حضرت مولانا عبدالقیوم ہزاروی رحمہ اللہ کے گاؤں "تمبر کولا" تشریف لے گئے جبکہ میں اور دیگر مہمان ایک دوسری سواری پر وہاں پہنچے۔ اس وقت مختلف مقررین حضرتؒ کی علمی و دینی خدمات پر خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے اور علما و مشائخ کی بڑی جماعت شریک تھی۔ والد گرامی نے بھی نہایت جامع اور پر اثر انداز میں اپنے تاثرات بیان فرمائے۔ سامعین پر واضح ہوا کہ حضرت مولانا عبدالقیوم ہزاروی رحمہ اللہ کس قدر عظیم شخصیت تھے۔
جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے حضرت مولانا صوفی محمد ریاض خان سواتی رحمہ اللہ بھی اپنے رفقا اور اساتذہ کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ایک عظیم انسانی سیلاب امڈ آیا ہو۔
نماز جنازہ سہ پہر تین بجے حضرت مولانا ظہور احمد علوی (مہتمم جامعہ محمدیہ اسلام آباد، چائنہ چوک) نے پڑھائی۔ جنازے میں سیاسی، سماجی، علمی اور عوامی شخصیات کا عظیم مجمع شریک تھا۔ تدفین مقامی قبرستان میں آپ کے بھائی مولانا عبدالغنی اور اہلیہ محترمہ کے پہلو میں عمل میں آئی۔
جنازے کے بعد میں والد گرامی کے ہمراہ اچھڑیاں گیا اور پھوپھی کے ہاں قیام کیا۔ اگلے روز، 9 فروری 2013ء کو مولانا فضل الہادی اپنے دوست مولانا عدنان مسوالی کے ہمراہ گاڑی لے کر آئے اور ہمیں مانسہرہ لے گئے۔ وہاں پانو ڈھیری میں واقع جامعہ عبداللہ بن عباس میں حضرت مولانا خلیل الرحمٰن دامت برکاتہم کی زیر صدارت تعزیتی سیمینار منعقد تھا۔ اس میں حضرت مولانا عبدالقیوم ہزاروی رحمہ اللہ کی یاد تازہ کی گئی۔
نماز عشاء سے قبل تلاوتِ قرآن، نعت اور تعارفی کلمات پیش کیے گئے۔ بعد ازاں حضرت مولانا خلیل الرحمٰن نے والد گرامی کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا اور اسٹیج سیکرٹری مولانا فضل الہادی نے والد گرامی کو خطاب کی دعوت دی۔ والد گرامی نے تقریباً ایک گھنٹہ تک حضرت مولانا عبدالقیوم ہزاروی رحمہ اللہ کے علمی کمالات، دینی و تحریکی خدمات، جامعہ نصرۃ العلوم میں قیام اور شاگردوں کی تربیت کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو فرمائی۔ خاص طور پر تحریکِ ختمِ نبوت میں حضرت کے کردار اور گوجرانوالہ میں ان کی عملی قربانیوں، حتیٰ کہ گرفتاری دینے کے واقعات بھی بیان کیے۔
بعد از نمازِ عشاء عشائیہ کا اہتمام تھا۔ اس کے بعد ہم لاری اڈہ مانسہرہ پہنچے اور نیو حبیب خان کی گاڑی کے ذریعے رات کا سفر شروع کیا۔ بالآخر 10 فروری کی صبح بخیر و عافیت گوجرانوالہ پہنچ گئے۔