(ماہنامہ ’عزم نو‘ لاہور کی طرف ملک کے نظام تعلیم کے حوالے سے ایک سوال نامہ مشاہیر اہل علم کو بھیجا گیا اور ان کی طرف سے موصولہ جواب ماہنامہ ’عزم نو‘ کے تعلیم نمبر میں شائع کیے گئے۔ یہ سوال نامہ اور حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا تحریر کردہ جواب یہاں درج کیا جا رہا ہے۔)
سوال نامہ
۱۔ آپ کے نزدیک موجودہ تعلیمی پس ماندگی اور روز افزوں اخلاقی ترقی ومعاشرتی انحطاط کے کیا اسباب ہیں؟
۲۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آزادی حاصل کیے تیس برس گزر جانے کے باوجود ہم اپنا قومی وملی تشخص اجاگر کرنے میں ناکام رہے ہیں؟
۳۔ موجودہ نظام تعلیم بدل کر اسلامی نظام تعلیم کیسے نافذ ہوگا؟ آپ کے نزدیک اس کا خاکہ کیا ہوگا، خصوصاً سائنسی اور فنی علوم کو کس طرح اسلامی قالب میں ڈھالا جائے گا؟
۴۔ کیا یہ صحیح نہیں کہ طلبہ کی ایک کثیر تعداد انگریزی زبان کی وجہ سے ناکام رہتی ہے۔ آخر انگریزی زبان کی بالادستی ختم ہو کر اردو کو کب اس کا صحیح مقام ملے گا؟
حضرت شیخ الحدیثؒ کا جواب
الیٰ محترم المقام جناب مہربان منظور احمد صاحب دام مجدہم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ مزاج گرامی؟
آپ کا محبت نامہ تو کافی دنوں سے موصول ہو چکا ہے۔ آپ کی کرم فرمائی، حسن ظنی اور ذرہ نوازی کا صمیم قلب سے ہزار شکریہ، مگر عدیم الفرصت ہونے کی وجہ سے جواب نہ دیا جا سکا۔ پرسوں ۱۱؍ رجب ۱۳۹۸ھ،/۱۸؍ جون ۱۹۷۸ء کو بخاری شریف ختم ہوئی ہے۔ کل دور دراز سے آئے ہوئے مہمانوں کی وجہ سے مصروفیت رہی۔ آج خدا خدا کر کے کچھ تھوڑا سا وقت سرسری جواب دینے اور یوں سمجھیے کہ صرف آپ کے حکم کی تعمیل کے لیے بمشکل نکالا ہے۔ اس لیے آپ کے قائم کردہ سوالات کے نہایت ہی اختصار کے ساتھ جوابات بلکہ اشارات درج ذیل ہیں۔ واللہ الموفق۔
نمبر ۱۔ راقم اثیم کے نزدیک موجودہ تعلیمی پس ماندگی کے کئی اسباب ہیں:
۱۔ خود اساتذہ کرام کی، بجاے محنت ومشقت اور دیانت کے ساتھ تعلیم وتدریس کے صرف تنخواہ اور ٹیوشن پر نظر۔
۲۔ طلبہ میں ٹھوس طریقہ سے تعلیم حاصل کرنے کے شوق وذوق کا فقدان۔
۳۔ صرف اپنی نصابی تعلیم حاصل کرنے کی بجائے غیر ضروری سیاست میں حصہ لینا۔
۴۔ اور مادر پدر آزاد سوسائٹی اور مجلس کو اپنانا۔
۵۔ حب الدنیا کی وجہ سے اس کے درپے ہونا کہ تعلیم حاصل ہو یا نہ ہو، علمی استعداد وقابلیت اجاگر ہو یا نہ ہو، جلدی سے سند اور ڈپلوما حاصل ہو جائے، گو ناجائز طریقہ ہی سے کیوں نہ ہو تاکہ رقم بٹورنے کی سبیل بہت جلد سامنے آ جائے وغیرہ وغیرہ۔
اور معاشرتی واخلاقی انحطاط کے اسباب بھی متعدد ہیں، مثلاً:
(۱) جنسی بے راہ روی کی فحش فلمیں، ٹی وی پروگرام، جذبات میں ہیجان پیدا کرنے والے ناول اور وہ اخباری مضامین جن کو لکھنے والے مزے لے لے کر لکھتے ہیں اور نوجوان طبقے کے اخلاق شعوری وغیر شعوری طور پر بگڑتے ہیں۔
(۲) کلب گھر، مینا بازار اور بین الاقوامی سطح پر ثقافت کے نام پر ناچوں اور ناچیوں کے تبادلے اور ان کی تشہیر۔
(۳) کالجوں میں مختلط تعلیم جو جذبات کو برباد کرنے کا پہلا اور موثر قدم ہے۔
(۴) دینی تعلیم سے بے گانگی اور دوری بلکہ بعض کے نزدیک بڑی حد تک اس سے تنفر وغیرہ ایسے اسباب ہیں جن سے اخلاقی اور معاشرتی برائیاں قوم کی جڑوں تک پہنچ چکی ہیں جن سے عالم اسباب میں رستگاری مشکل ہے۔
نمبر ۲۔ ہم نے جس مقصد کے لیے قربانیاں دی تھیں اور جس سنہرے مطلب کے لیے یہ ملک بنایا تھا کہ اس میں قرآن وسنت کی بطرز حضرات خلفاے راشدینؓ حکومت قائم کی جائے گی، آج تک حکومت کی سطح پر نیک نیتی سے اس کی طرف بالکل توجہ نہیں دی گئی۔ اگر اسلام کا عادلانہ نظام نافذ ہو جاتا اور اس کی برکات عوام دیکھ لیتے تو آج ہم اتنے ذلیل نہ ہوتے جتنے ہو گئے ہیں۔ ملک دو ٹکڑے ہو گیا ہے اور باطل پرستوں کو اپنے خالص کافرا نہ اور ملحدانہ نظریات پھیلانے کا بڑا موقع مل گیا ہے جو پاکستان کے ہر محکمہ میں افراط کے ساتھ گھسے ہوئے ہیں اور دھیرے دھیرے اپنے جراثیم پھیلا رہے ہیں اور ان کے مقابلہ میں قوم کی اصلاح صرف چیونٹی کی چال چل رہی ہے اور وہ بھی صرف زبانی نہ کہ عملی۔ اندریں حالات قومی اور ملی تشخص کیونکر اور کیسے اجاگر ہو؟ بقول علامہ اقبال مرحوم
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
نمبر ۳۔ موجودہ فرنگی نظام تعلیم کو، جو لارڈ میکالے کا ورثہ ہے، بدلنا ناممکن تو نہیں لیکن جب تک اس کی تعلیم کے پیدا کردہ کل پرزے موجود ہیں، مشکل ضرور ہے۔ اگر ملک کے اندر برسر اقتدار طبقہ سچے دل سے اسلامی نظام تعلیم نافذ کرنا چاہے اور اپنے غلط کار مشیروں کی رائے پر نہ چلے تو تھوڑے سے عرصے میں یہ نافذ ہو سکتا ہے۔ جب تک تعلیم کے تمام شعبوں پر تفصیلی طور پر نگاہ نہ ڈالی جائے اور ان کا مواد اکٹھا نہ کر لیا جائے، صرف چلتے چلتے خاکہ تیار نہیں ہو سکتا۔ یہ چیز ذرا محنت طلب ہے، لیکن یہ بات تو ممکن ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ، حدیث شریف کی بعض کتابیں، فقہ اسلامی کی بعض کتابیں اور حضرات صحابہ کرامؓ کے حالات پر مشتمل بعض ٹھوس تاریخی کتابیں نصاب کے طو رپر سکولوں سے لے کر کالجوں تک درجہ بدرجہ حسب لیاقت طلبہ لازم قرار دی جائیں۔ راقم اثیم کے نزدیک سائنس اور فنی علوم کسی اسلامی قاعدہ سے متصادم نہیں، جبکہ ان کا مصرف صحیح ہو۔ لہٰذا ان کو اسلامی قالب میں ڈھالنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہاں، جب ان کا مصرف ہی غلط ہو کہ گانے بجانے اور فحش حرکات اور ڈراموں کو ہی مقصد زیست بنا لیا جائے تو پھر معاملہ جدا ہے۔ ضرورت اپنے ڈھالنے کی ہے نہ کہ ان کو۔
نمبر ۴۔ ناکامی کے اسباب صرف انگریزی زبان ہی نہیں، اور بھی کئی اسباب ہیں۔ ایک یہ غیر ملکی زبان بھی ہو تو اس میں کیا اشکال ہے؟ لیکن معاف رکھنا، جب تک لارڈ میکالے کی یہ روحانی نسل، جن کی گھٹی میں انگریزی زبان داخل ہے، ختم نہیں ہو جاتی، اس وقت تک یہ زبان بھی نہیں جائے گی۔ اردو کو اس کا صحیح مقام صرف اس وقت حاصل ہوگا جب خدا خوف قسم کا حکمران طبقہ جس کی زبان اور دل ایک ہو، اس کو صدق دل سے نافذ کرے، ورنہ ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو صحیح معنی میں پاکستان بنائے اور اس میں عادلانہ نظام نافذ ہو اور ہم اپنی گنہگار آنکھوں سے اس کی برکات دیکھیں، مگر افسوس کہ
مجھ کو منزل نصیب ہو نہ سکی
رہنماؤں سے میں نے پوچھا بھی