بندہ گورنمنٹ پرائمری سکول منڈیالہ تیگہ میں تیسری کلاس کا طالب علم تھا۔ موسم گرماکی چھٹیاں گزارنے بلال پور سے اپنے ماموں کے ہاں گکھڑ منڈی کے قریب بھگت گڑھ آگیا تھا جہاں حضرت کی مسجد میں حفظ کلاس کامدرسہ تجویدالقرآن درجہ حفظ کے نام سے شروع تھا جس کے ناظم ماسٹر اللہ دین تھے۔ بلال پور گاؤں میں ماسٹر صاحب کا اپنی بیٹی کے ہاں آنا جانا تھا۔ آپ انتہائی نیک اور دین دار انسان تھے۔ وہاں سے کچھ بچوں کو مدرسہ داخلہ لینے سے متعلق تیار کیا جن میں بندہ کانام بھی شامل تھا۔ چنانچہ بھگت گڑھ سے سیدھا گکھڑ چلا آیا اورحضرت کے زیر سایہ مدرسہ میں داخل ہو گیا۔ ۱۹۶۱ ء میں حفظ قرآن شروع کر دیا۔ خدا کے فضل وکرم سے نومبر ۱۹۶۳ء میں حفظ مکمل کر لیا۔ جو نہی حفظ مکمل ہوا، آپ کے زیر سایہ قاری کلاس کا افتتاح ہو گیا۔ بندہ نے حضرت ؒ کے فرمان پر تین سال کے لیے اس میں داخلہ لیا۔ یہ ہم طلبہ کی مدرسہ تجویدالقرآن میں پہلی قاری کلاس تھی جس میں ابتدائی کتب اور قاری کلاس کا کورس تھا۔ ۱۹۶۸ ء میں یہاں سے فراغت حاصل کر کے درس نظامی کے لیے حضرت بنوری ؒ کے مدرسہ میں کراچی چلا گیا جہاں چار سال کے بعد مدرسہ نصرۃ العلو م میں آگیا اوریہیں درس نظامی حضرت ؒ کی زیر نگرانی مکمل کیا۔
سات سا ل گکھڑ میں رہا جہاں حضرت ؒ کی سیرت وکردار کا خوب مطالعہ کرنے کا موقع ملا، اور بہت کچھ سیکھا۔ حفظ قرآن کے وقت عمر چھوٹی تھی۔ پختہ شعور نہیں تھا۔ اپنے کام سے کام رہا۔ بس اتنا شعور تھاکہ حضرت ؒ واقعی ایک باوقار، بارعب عالم شخصیت ہیں۔ البتہ تجوید القرآن کے ایام شعور کے تھے۔ حضرت ؒ کی اقتدا میں نمازیں پڑھیں گئی ۔ ہر جمعہ ادا کیا گیا۔ صبح کا درس سننے کا موقع ملا۔ حضرت ؒ کے گھر آنا جانا رہتا کہ حضرت ؒ کے صاحبزادے بالخصوص مولانا عبدالقدوس خان قارن مدظلہ جو اسکول میں چوتھی کلاس میں ہم کلاس رہے،حفظ اور درس نظامی میں بھی اکٹھے رہے، جبکہ حضرت شیخ الحدیث زاہد الراشدی مدظلہ پہلے حفظ مکمل کر چکے تھے اور درس نظامی سے بھی فارغ ہو چکے تھے۔ گھر کی زندگی حضرت ؒ حضرت ؒ کی برکت سے بڑی پرسکو ن اور خوشگوار تھی۔ آپ کی دونوں بیویوں میں کبھی تو تکار ہوتے نہیں دیکھی نہ سنی۔ دونوں آپس میں بڑی پرخلوص اور حضرت کی بھی بہت زیادہ خدمت گزار تھیں۔ اللہ جنت الفردوس میں جگہ عطافرمائے۔
بندہ کو محنت کی عادت تھی جس سے بندہ پر حضرت ؒ کی شفقت بہت ہو گئی۔ حضرت ؒ قاری کلاس میں ترجمہ قرآن کا امتحان لیتے توکسی وقت بندہ انعام کا حق د ار ٹھہرتا۔ آپ انعام بھی دیتے اور دعائیں بھی اورفرماتے تھے، اللہم زد فزد۔ میں بھی حضرت ؒ سے بالخصوص بڑا متاثرتھا کہ حضرت ؒ کی ذات بڑی وقار، بارعب سنجیدہ اور خوش لباس ذات تھی۔ اللہ نے آپ کو بڑی خوبیوں سے نواز اتھا۔ دینی، تصنیفی ، تعلیمی ،روحانی، ملی ،سماجی اور سیاسی غرضیکہ ہرانسانی خوبی آپ میں موجو د تھی۔ درس قرآن بڑی پابندی سے سنتا تھا۔
نارمل اسکول میں بھی حضرت کے ساتھ جا یا کرتا تھا ۔ دل کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ چلتے چلتے راستہ میں بھی تکلیف ہو جاتی۔ آپ بیٹھ جاتے اور ہم آپ کے ہاتھ پاؤں کپڑے سے ملتے اور آپ کو افاقہ ہوجاتا۔ ایک دن میں حضرت کے ساتھ جا رہا تھا تو آپ نے فرمایا کہ یار لوگوں نے درس بند کرانے کی بڑی کوشش کی تھی، حتی کہ آپ کو پچاس روپے ماہوار جو وظیفہ دیا جاتا تھا، وہ بھی بندکردیا۔ مقصد یہ تھا کہ آپ کی جگہ اپنی جماعت کے عالم کو درس کے لیے مقرر کیا جائے، مگر آپ نے وظیفے کی پروا نہ کی اور درس جاری رکھا جو چالیس سال تک جاری رہا۔،
حضرتؒ مسجد میں پنجابی میں درس دیتے تھے۔ سننے والوں کو یوں لگتا کہ حضرتؒ صرف پنجابی پر قدر ت تامہ رکھتے تھے، لیکن نارمل اسکول میں اردو میں درس دیتے۔ وہاں ایسے لگتا کہ اردو حضرت کی مادی ز بان ہے۔ درس ہوتا یاجمعہ، مکمل تیاری کے ساتھ ہوتا۔ مضمون پر مکمل عبور ہوتا۔ کلام میں تسلسل ہوتا ۔ بات کا حوالہ دیتے۔ بوقت ضرورت بقدر ضرورت مسئلہ بیان فرماتے۔ حضرتؒ کی جمعہ کی اتنی افادیت اور مقبولیت عامہ تھی کہ دس دس میل سے عمررسیدہ حضرات آکر صبح سے مسجد میں بیٹھ جاتے تھے۔ پرچیوں پر لکھ کر لوگ سوال کرتے۔ آپ دلیل کے ساتھ تسلی بخش جواب دیتے۔ وقت پر درس یا جمعہ شروع کرتے اور ٹھیک ٹائم پر ختم کرتے۔ جتنے سال بھی گکھڑ رہا، ایک دن بھی ٹائم میں تقدیم تاخیر نہیں دیکھی۔ یہ حضرتؒ پر خاص اللہ تعالیٰ کی عنایت تھی۔ ایک مضمون جو درس میں، جمعہ میں یا پڑھاتے ہوئے بیان کرتے تو وہی مضمون جب دوبارہ کسی پر آجاتا تو جو جوبات اس سے متعلق پہلے بیان فرمائی تھی، وہی بات اور وہی دلیل اسی طرح بیان فرماتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قوت حافظہ عطا فرمائی تھی۔
ان سالوں میں ایک بات میں نے خاص طور پر یہ نوٹ کی کہ اتباع سنت اور اس پر استقامت کا جواب نہیں تھا۔ حضرت ؒ شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ ماسڑاللہ دین نے بند ہ سے بیان فرمائی تھی کہ میں نے مولانا سے پوچھا تھا کہ شلوار کتنی اوپر رکھی جائے تو آپ نے فرمایا ، ایڑی سے ایک بالشت اوپر۔ چنانچہ حضرت ؒ کی شلوار نہ کسی دن اس سے نیچے دیکھی نہ اوپر۔ جب آپ نماز کے لیے تشریف لاتے یا تو بالکل ٹائم پر مصلی پر قدم رکھتے۔ مسجدمیں داخل ہوتے ہوئے بلند آواز سے سلام کہتے اور گھڑی کی طرف دیکھتے،ایک منٹ بھی ہوتا تو آپ فوراً دورکعت کی نیت کرتے اور ٹھیک ٹائم پر ختم کرتے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ وقت کی رفتار آپ کے سلام پھیرنے کے انتظار میں ٹھہر گئی ہے۔ یہ بھی آپ کی کرامت تھی۔
مہمان نوازی کے سلسلہ میں د وتین باتیں نمایاں تھیں۔ مہمان خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، مہمانی بڑی خوشی سے کرتے۔ عموماً جو کچھ گھر میں تیار ہوتا، پیش فرما دیتے اور اپنے ہاتھ سے کھانا وغیرہ پیش کرتے۔ پھر مہمان کسی وقت بھی آتا، کبھی پیشانی پر شکن نہیں ڈالی۔ پھر کھانے کے لیے شوق دلاتے کہ اورکھاؤ ۔ بندہ ایک مرتبہ کراچی سے آیا۔ آپ کے پاس ظہر کی نماز کے بعد محراب کے قریب کچھ حضرات بیٹھے تھے۔ میں نے اپنی کم عمری کی بنا پر مجمع میں ملاقات کر نا مناسب نہ سمجھا۔ جب وہ فارغ ہوئے تو حضرت اکیلے تھے۔ میں حاضرخدمت ہوا۔ حضرت ؒ فرمانے لگے کہ صوفی! میں بڑی دیر سے تمہارا انتظار کررہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ کبھی تم اوپر کی منزل پر جارہے ہو اور کبھی نیچے۔ میں بڑا حیران ہوا کہ میرے جیسا چھوٹاانسا ن اور آپ جیسی بڑی شخصیت۔ اس کے بعد حضرت گھر لے گئے اور کھانا کھلایا۔ چائے بھی پی۔ حضرت بنوریؒ سے متعلق اور میری پڑھائی سے متعلق پوچھتے رہے۔ ایک مرتبہ رات کو حضرت ؒ کے ہاں ٹھہرا۔ کھانا بہت پر تکلف تھا۔ میں حیران تھا کہ حضرت بڑے اور چھوٹے کے ساتھ یکساں سلو ک کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ؒ کی گاڑی گکھڑ میں خراب ہوگئی۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ شیخ القرآن مسجد میں تشریف لائے۔ کچھ ساتھی ان کے ساتھ تھے۔ کسی ساتھی کو جگانا چاہتے تھے تاکہ حضرت کے مکان پر پہنچا جائے۔ خداکی قدرت یہ قرعہ بندہ کے نام نکلا۔ اس وقت پہلی مرتبہ حضرت شیخ القرآن کی میں نے زیارت کی۔ ان حضرات کو حضرت ؒ کے مکان پر لے گیا۔ حضرت ؒ کو جگایا تو آپ شیخ القرآن کو دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور اس وقت بھی ان حضرات کی خوب مہمان نوازی کی۔
۱۹۷۲ء میں آپ حج پر تشریف لے گئے ۔حضرت کا قیام بنوری ٹاؤن مدرسہ میں تھا۔ بندہ کو الحمدللہ خوب خدمت کا موقع ملا۔ سیرکے لیے ایک واقف ساتھی اپنی گاڑی میں سمندر پر لے گیا۔ بند ہ بھی حضرت کے ساتھ تھا۔ مغرب کی نماز کے لیے آپ نے مجھے مصلی پر کھڑاکیا اور آپ کے حکم پر مغرب کی نماز بند ہ نے پڑھائی۔ بحری جہاز سے آپ نے سفر حج کیا۔ واپسی پر آپ مدرسہ تشریف لائے توفرمایا، الحمدللہ مستحب تک نہیں چھوڑا جو ادا نہ کیا، ہو حتی کہ دل کی تکلیف کے باوجود غار حرا پر بھی گیا تھا۔
حضرت ؒ کو اللہ نے جتنا علم عطافرمایا تھا، اتنی ہی عمل کی توفیق ارزاں فرمائی تھی۔ آپ کی امارت میں نماز کا ایک عجیب سکون ہوتا تھا۔ سنت کے مطابق ایک ایک آیت واضح،ایک ایک لفظ صاف صاف ادا فرماتے تھے۔ قرآن کریم پر اتنا عبور تھا کہ حافظ نہ ہونے کے باوجود قاری انورصاحب کی تراویح میں غلطی نکالتے تھے، جب کہ تراویح میں قاری صاحب کی رفتار بھی تیز ہوتی تھی۔ کسی نے پوچھا کہ حضرت آپ حافظ ہیں تو فرمایا، میں حافظوں کا باپ ہوں۔ اس وقت آپ کے بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے اور نواسیاں حفاظ کی تعداد پچیس تھی جو اب ۴۴تک پہنچ چکی ہے۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشا۔
آپ کا فرمان کس قدر صحیح تھا کہ میرے مذہب میں چھٹی جائز نہیں۔ آپ نے کبھی بلاعذر شرعی سبق سے چھٹی نہ کی۔ بارش ہو یا آندھی، جنگ ہویاامن،آپ بر وقت تشریف لاتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ۶۵کی جنگ زور پر تھی اور جہاز اٹیک کر رہے تھے، پھر بھی سبق کے لیے نصرۃالعلوم تشریف لاتے۔ آپ کوفرض کی ادائیگی میں جنگ کی بھی پروا نہ تھی۔ صبح کے وقت فجر کی نماز کے بعد درس ہو رہا تھا، قریب بیٹھے ایک بزرگ شخص نے جہاز سے فائرنگ کی آواز سن کر کہا، مولوی صاحب ’’ایہہ کی اے‘‘؟ فرمایا حملہ کہیں دور ہے۔ یہ فرما کر خاموش ہوئے تھے کہ دو جہاز مسجد کے اوپر سے گزرے جن کاپیچھا دو پاکستانی جہاز کر رہے تھے، حتی کہ نت کلاں کے قریب ان کو جاگرایا۔ لوگوں کا جذبہ عجیب تھا، انڈیا کے گرے ہوئے جہازوں پر جوتے مار رہے تھے۔
آپ کی مہمان نوازی کاا ثر آپ کے گھروالوں پر بھی بہت تھا۔ میں کبھی کبھار درس حدیث کے بعد کتاب چھوڑ نے کے لیے آپ کے گھر جاتا توگھر والے بغیر ناشتہ کے آنے نہیں دیتے تھے۔ جو طالب علم بھی جاتا، ہرایک کے ساتھ یہی حسن سلو ک کرتے۔ کراچی سے کچھ علوم وفنون پڑھنے کے لیے نصرۃ العلوم آنا چاہتا تھا۔ حضرت کو خط لکھا، آپ نے اپنے دست مبارک سے خط کا جواب دیاکہ آپ داخلہ کے لیے آجائیں، چنانچہ یہاں شرح جامی، مختصرمعانی، ہدایہ، قطبی، سلم،ملاحسن، میرزاہد، ملا جلال، میبذی اور دیگر کتب پڑھیں۔ حضرت سے شرح عقائد، بخاری شریف، ترمذی اور حضرت صوفی صاحب ؒ سے حماسہ ، حجۃٰ اللہ البالغہ اور مسلم شریف پڑھی۔ حضرت ؒ سے شرع عقائد پڑھتے ہوئے قاری خبیب احمد عمر صاحب مرحوم بھی شریک سبق تھے۔ آپ سبق اتنا آسان کر کے پڑھاتے کہ یوں لگتا جیسے یہ کتاب آپ کی اپنی لکھی ہوئی ہے۔ سننے والا محسوس کرتا کہ اس طرح تو میں بھی پڑھا سکتا ہوں۔ ایک قسم کا سہل ممتنع بھی ہے۔
۵؍مئی ۲۰۰۹ء کو یہ ہماری محبوب اور ممتاز شخصیت اس دنیائے فانی سے آخرت کی طرف منتقل ہوگئی ۔ اسی نسبت سے علم وتحقیق،تفسیر، حدیث،فقہ رخصت ہوئے۔ عصر حاضر میں الحادی یلغار کو روکنے کے لیے حضرت جیسی شخصیات کی انتہائی ضرورت تھی، لیکن قضا وقدر کے سامنے کون دم مار سکتا ہے۔ آپ کی جدائی کاصدمہ پوری امت کا صدمہ ہے۔ بالکل صحیح فرمایا گیا ہے کہ ’’موت العالم موت العالم‘‘۔ حضرت ؒ کی زبان سے سنی ہوئی یہ حدیث مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’علم دنیا سے اس طرح نہیں اٹھے گا کہ سینوں سے کھینچ لیا جائے بلکہ اس طرح اٹھے گاکہ رفتہ رفتہ علم کے حاملین دنیاسے رخصت ہوتے چلے جائیں گے۔ پھر لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنالیں گے،جو بغیر علم کے فتویٰ دیں گے۔ خود بھی گمراہ ہوں گے ، دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘ ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ واقعی اہل اللہ کا وجود مسعود بہت سے فتنوں سے بچنے کے لیے آڑ بنا رہتا ہے اور ان کادنیا سے چلے جانا بذات خود فتنوں کو دعوت دیتاہے۔ اللہ حفاظت فرمائے۔
حضرت ؒ کی جدائی عرصہ دراز تک بھول نہیں سکے گی لیکن ہمیں چاہیے کہ آپ کے چھوڑے ہوئے مشن کو محنت اور جذبے کے ساتھ جاری رکھیں۔ اللہ کریم حضرتؒ کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں اپنے اہل حق اکابر کے دامن سے وابستہ رکھے۔ آمین یاالہ العالمین۔