مورخہ ۵ مئی ۲۰۰۹ کو تقریباً ساڑھے گیارہ بجے حسب معمول جب میں دعوۃ اکیڈمی پہنچا تو کلاس میں داخل ہونے سے پہلے کلاس روم سے باہر طلبہ اور رفقاے دعوہ اکیڈمی کاایک ہجوم نظر آیا۔ یہ یہ لوگ آپس میں گفتگو کر ر ہے تھے اور پریشان نظر آرہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی میری طرف لپکے اوریہ افسوس ناک خبر سنائی کہ شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر انتقال کر گئے۔ یہ اندوہناک خبر سنتے ہی طبیعت بوجھل ہو گئی اور مولانا کی صحبت میں بیتے ہوئے وہ سارے لمحات مستحضر ہو گئے جو اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔
مولانا سرفراز خا ن صفدر دارالعلوم دیوبند کے اس قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جس کے ارکان اب برصغیر پاک وہند میں تقریباً نایاب ہو چکے ہیں۔ میری ذاتی ملاقات مولانا مرحوم کے ساتھ ۱۹۷۶ کے بعد ہوئی اور الحمدللہ بار بار ہوئی، لیکن ہمارے خاندان میںآپ کا چرچا پہلے سے تھا۔ میرے تایا مولانا محمد یونس مرحوم اور میرے چچا مولانا عبدالحق حفظہ اللہ دونوں نے دارالعلوم دیوبند سے ا س دور میں استفادہ کیا جب مولانا سرفراز خا ن صفدر وہاں موجود تھے۔ میرے چچا نے بار ہا آپ کے بارے میں ہمیں بتایااور آپ کی علمی وتالیفی خدمات پر رشک کا اظہار فرمایا۔ میرے والد مرحوم مولانا فیروز ؒ سے جب کوئی طالب علم مشورہ لیتا تو آپ اسے مولانا سرفراز خا ن صفدر سے استفادہ کرنے کا مشورہ عنا یت فرماتے تھے۔ میرے اساسی اساتذہ میں مفتی محمد اسرائیل مرحوم مولانا سرفراز خا ن صفدر ؒ کے زملا میں تھے۔ آپ جب دارالعلوم دیوبند میں اپنے بیتے ہوئے ایام کا تذکرہ چھیڑتے تھے تو مولانا کا ذکر خیر مختلف حوالوں سے ہوتا تھا۔ مولانا مرحوم کا تذکرہ ہمارے ہاں جمعیت طلبہ اسلام کے حلقوں میں بھی زور وشور سے رہتا تھا۔ طلبہ کی تربیت اور ذہن سازی کے ضمن میں جو کتابیں مطالعہ کے لیے تجویز کی جاتی تھی، ان میں مولانا سرفراز خا ن صفدر کی تالیفات بھی ہوتی تھی۔ ان دنوں میں جمعیت طلبہ اسلام بہت فعال تنظیم تھی۔ کراچی میں جمشید روڈ پر واقع جمعیت طلبہ اسلام کے دفتر میں ماہانہ تربیتی پروگرام منعقد ہوتے تھے او راس کے ملحق لان میں سالانہ کنونشن کا انتظام ہوتا تھا۔ جمعیت علماے اسلام کے اکابر ان پروگراموں میں بڑے ذوق وشوق سے تشریف لاتے اور طلبہ کی سرپرستی فرماتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک موقع پر جب مولانا سرفراز خا ن صفدر تشریف لائے تو پہلی منزل پر جانے کے لیے سیڑھیاں تنگ ہونے کی وجہ سے ہم نے آپ کو سہارا دینے کی کوشش کی۔ آپ نے فرمایا: نہیں۔ آپ میری وجہ سے تکلیف نہ کریں۔ میں آسانی کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ سکتا ہوں۔ ‘‘ پھر دفتر میں بیٹھ کر ہمارے ساتھ گھل مل گئے ۔ اس موقع پر یاد ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ آپ لوگ مجھے جتنا بوڑھا سمجھ رہے ہیں، میں اتنا بوڑھا نہیں‘‘۔ ہم نے کہا: حضرت ! ’’مفتی صاحب جب یہاںآتے ہیں تو انہیں اچھی خاصی وقت ہوتی ہے‘‘۔ فرمایا: ’’ مفتی محمود بوڑھا ہے۔ میں بوڑھا نہیں ہوں‘‘۔
۱۹۸۱ء میں جب میں نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کو بحیثیت مبلغ Joinکیا تو اس کے بعد مولانا مرحوم کے ساتھ جہاں ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھ گیا، وہاں عقیدت کا رشتہ بھی استوار ہوا۔ یہ رشتہ الحمدللہ تسلسل کے ساتھ برقرار رہا۔ ۱۹۸۵ء میں جب میرا تقرر دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں بطور لیکچرر ہوا اور بعدازاں تربیت ائمہ پروگرام کی مسؤلیت مجھے دی گئی تومولانا مرحوم کے ساتھ ملاقاتوں کے سلسلے نے ایک اور شکل اختیار کرلی۔ تربیت ائمہ پروگرام کے شرکا کے لیے جو کورس ڈیزائن کیا گیا تھا، اس کا ایک معتد بہ حصہ مختلف مکاتب فکر کے علما ومشائخ کے ساتھ ملاقاتوں پر مبنی تھا۔ ان دنوں میں شرکاے کورس کو لے کر جب ہم پشاور جاتے تھے تو راستہ میں دارالعلوم حقانیہ اتر کر مولانا عبدالحق ؒ کی زیارت کرتے تھے۔ ہم اس نزول کو سنت مفتی محمود ؒ کہا کرتے تھے۔ مفتی محمود ؒ جب پشاور جاتے تھے تو دارالعلوم حقانیہ کی زیارت ضرور کرتے تھے ۔ اور جب شرکاے کورس کو لے کر ہم سفر کرتے تھے تو راستہ میں نصرۃ العلوم اتر کرمولانا سرفراز خا ن صفدر ؒ کی زیارت کرتے تھے۔ مولانا بہت خوش ہوتے تھے۔ فرداً فرداً شرکا ے کورس کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے۔ ملاقات کے موقع پر آپ شرکاے کورس کے ساتھ جو گفتگو فرماتے تھے تو پوری سند کے ساتھ حدیث پڑھ کر اس کی تشریح فرماتے تھے۔ فقہ کا لٹریچر پڑھنے کی ترغیب دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ کتاب محض رسم کے طور پر نہیں پڑھنی چاہیے، بلکہ کتاب کی روح تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
۱۹۹۰ء میں دعوۃاکیڈمی کی طرف سے انٹرنیشنل تربیت ائمہ پروگرام کا آغاز ہوا۔ اس ضمن میں پہلاگروپ تاجکستان اور ازبکستان کے علما اور ائمہ مساجد سے منتخب کیا گیا۔ یہ گروپ ہمارے ہاں ان دنوں پہنچا جب روس کا تسلط ترکستان پر قائم تھا ۔ اس گروپ کے شرکا جن کی تعداد سولہ تھی، عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں گفتگو کر سکتے تھے۔ تاجکستان سے تعلق رکھنے والے کی فارسی بہت اچھی تھی، اس لیے کہ ان کی فارسی مادری زبان ہے، البتہ ازبکستان کے علما کی فارسی اس حدتک اچھی نہیں تھی۔ اس کورس کے شرکا کو ہمارے ہاں دینی مدارس میں قدرتی طور پر بڑا پروٹوکول ملا اور بہت سارے علما اور مشائخ کے ساتھ ان کی ملاقات کرائی گئی۔ جب ہمارا پروگرام لاہور کا جانے کا بن گیا تو حسب معمول حضرت مولانا سرفراز خا ن صفدر ؒ کی زیارت کے لیے اتر گئے۔ شیخ نے اپنے معمول سے زیادہ گرمجوشی کے ساتھ استقبال کیا۔ مجھے یاد ہے، کافی دیر تک فرداًفرداً آپ نے معانقہ فرمایا اورانتہائی مسرت کا اظہار فرمایا۔ شیخ اپنی حیثیت کو بالاے طاق رکھتے ہوئے مہمانوں کے ساتھ گھل مل گئے۔ کسی کے ساتھ فارسی میں بول رہے تھے تو کسی کے ساتھ عربی میں بول رہے تھے۔ ترکستان کے اسلاف کبار کا نام لے لے کر فرماتے تھے کہ فلاں امام کے علاقہ سے ہیں، یہ فلاں امام کے شہر سے ہیں۔
ظہر کی نماز کے بعد ہم نے مولانا سرفراز خا ن صفدر ؒ سے اجازت لی تو آپ نے فرمایا : ’’ آپ لوگوں کی خاطر تواضع نہیں ہوئی، میری خواہش ہے کہ لاہورسے واپسی پر آپ ہمارے ہاں کھانا کھائیں۔ ‘‘ میں نے عرض کیا ’’ خاطرتواضع تو بہت ہوئی۔ آپ سے ملاقات ہوئی، آپ نے شفقت فرمائی اور پر تکلف چائے بھی پیش فرمائی۔ ‘‘ میر ی بات سن کر آپ ؒ مسکرائے اور فرمایا: ’’ آپ کی بات ٹھیک ہے، لیکن ایسے مہمان پتہ نہیں کہ پھرہمیں ملتے ہیں کہ نہیں۔‘‘
غالباً آپ کا اشارہ ترکستان کی مقبوضہ صورت حال کی طرف تھا۔ آپ کے پرخلوص اصرار پر ہم نے واپسی پر ملاقات کا وعدہ کیا۔ جب میں نے شرکاے کورس کویہ بات بتائی تو وہ از حد خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ہماری بھی یہی خواہش تھی کہ واپسی پر مولانا سرفراز خا ن صفدر ؒ سے دوبارہ ملاقات کریں۔ لاہورسے واپسی پر جب شیخ ؒ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے بہت عمدہ کھانے کا انتظام فرمایاتھا۔ دستر خوان پر ہمارے ساتھ بیٹھ کر اپنے دست مبار ک سے روٹی توڑ توڑ کر مہمانوں کو دیتے رہے اور فرماتے تھے کہ یہ مہمانوں کی خاطر مدارات کے ضمن میں ترکستان کی روایت ہے۔ کھانا کھا لینے کے بعد ہم تھوڑی دیر آپؒ کی صحبت میں رہے۔ پھر شرکاے کورس نے دعا کے لیے درخواست پیش کی۔ آپ ؒ نے بہت رقت اور خلوص کے ساتھ دعا فرمائی۔ شیخ کے ساتھ یہ میری زندگی کی یاد گار ملاقات ہے جو میرے لیے ایک انمول اور قیمتی سرمایہ ہے۔ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ آپ کے انتقال کی خبربھی اس وقت ملی جب میں انٹرنیشنل تربیت ائمہ کورس کو لیکچر دینے کے لیے کلاس روم کی دہلیز پرتھا۔
حضرت مولانا سرفراز خا ن صفدر ؒ علوم عالیہ اور علوم آلیہ کے جامع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر علم وفن میں حظ وافرعطا فرمایا تھا۔ یہ خصوصیت آپ کی تدریس اور تحریر میں بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ لیکن جو ملکہ آپ کو علم الرجال میں حاصل تھا، وہ اس دور کے کسی اور شخصیت کے حصہ میں نہیں آیا۔ روات حدیث پر آپ کامطالعہ اتنا وسیع تھاکہ معرو ف رواۃ حدیث کے حالات تقریباً آپ کو از بر تھے۔ اس لحاظ سے آپ اس دور میں امام ابن المبارک، امام ابن معین، امام علی بن المدینیؒ ، حافظ مزی اور حافظ ذہبی کے علوم کے وارث تھے۔ اسناد کے ساتھ ساتھ متون حدیث پر آپ کی گرفت بہت مضبو ط تھی۔ آپ نے جن جن موضوعات پر قلم اٹھایا اور احادیث کی روشنی میں ان پر بحث کی ہے، فنی طور پر ان مباحث کو دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ آپ نے کس حدتک متون کو کھنگالا ہے اورکس طرح ان مخفی گوشوں کو کھول کر رکھ دیاہے جو عام طور پر اچھے خاص قاری کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
حضرت مولانا سرفراز خا ن صفدر ؒ محض روکھے سوکھے عالم نہیں تھے ۔ آپ کی شخصیت بہت دل آویز، رویہ بہت خوبصورت اور وجود بہت پرکشش تھا۔ آپ کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ آپ کو حقیقتاً حجۃ الاسلام مولانامحمدقاسم نانوتویؒ ، شیخ الہند مولانا محمود حسن اورشیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنیؒ کی نسبت کاملہ حاصل ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا سرفراز خان صفدر ؒ کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس عطا فرمائے، اور ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔