مختصر تاثراتی تحریریں
(۱)
حضرت کا نام نامی اسم گرامی بچپن ہی سے سن رکھا تھا۔ دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے والے آزاد کشمیر کے بہت سے علما آ پ کے رفیق درس تھے۔ ان میں ہمارے علاقہ کے ممتاز عالم دین مولانا مفتی عبدالمتین (مرحوم)، مجاہد ختم نبوت حضرت مولانا امیر الزمان خان کشمیری، حضرت مولانا عبدالحمید قاسمی، حضرت مولانا محمد اکبر صاحب ،مولانا نور حسین صاحب، مولانا حاجی عبدالہادی صاحب، مولانا سرفراز صاحب آف ملوٹ شامل ہیں۔ یہ حضرات، حضرت شیخ الحدیث کا نام نامی اور اسم گرامی ہر عوامی اجتماع میں ضرور لیتے اور ان کے علمی مقام کاتذکرہ فرماتے ۔ آپ کے تلامذہ میں حضرت مولانا محمد الیاس صاحب چناری، مولانا فضل کریم صاحب مظفرآباد، مولانا حکیم فضل الرحمن صاحب جگلڑی، مولانا امین الحق صاحب باغ، مولانا نذیر فاروقی جگلڑی، شیخ الحدیث مولانا سلیم اعجاز صاحب، مولانا عبدالرؤف صاحب تھب، مولانا محمد الیاس صاحب تھب، مولانا محمد طیب کشمیری، مولانا محمد الطاف صاحب پرنسپل کا لج ملوٹ، مولانا عبدالخالق جگلڑی، مفتی محمد طیب خان کفل گڑھ باغ اور دوسرے سیکڑوں علما کے ساتھ راقم کو بھی اللہ تعالیٰ نے شرف تلمذ کی توفیق بخشی ۔
پرانے اکابر کی وجہ سے آپ کے ساتھ بچپن ہی سے عقیدت وتعلق تو تھاہی، اسی عقیدت کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے شرف تلمذ کا اعزاز بخشا کہ دو سال تک آپ کی خدمت میں رہ کر دورۂ حدیث مکمل کیا اور پھر دارلعلوم کراچی سے تخصص کے بعد مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی نوراللہ مرقدہ کے حکم پر بطور نائب مفتی جامعہ نصرت العلوم میں تقرر ہوا۔ اس وقت حضرت شیخ الحدیثؒ دارالافتاء کے نگران تھے۔ تقریبا ساڑھے دس سال تک آپ کے زیر نگرانی دارالافتاء میں خدمت کی سعادت ملی اور بارہا حضرت سے استفادہ اور راہنمائی کا موقع ملتا رہا۔
آپ ۱۹۴۵ء میں اپنے شاگرد خاص حضرت مولانا عبدالہادی (مرحوم) کے ساتھ گجر کوہالہ سے پیدل سفر کر کے تھب تشریف لائے۔ تھب اور قرب و جوار میں آپ کے درجنوں خطاب ہوئے او رپیدل نکر فتوٹ، ڈنہ کچیلی سے ہوتے ہوئے تشریف لے گئے۔ اس وجہ سے بھی عوام و خواص آپ کی علمی شخصیت سے نہ صرف واقف تھے بلکہ متاثر بھی تھے ۔اس بنا پر ۱۹۸۵ء میں احقر کی دعوت پر آپ علالت و ضعف کے باوجود علمی مشاغل سے وقت نکال کر ایک ہفتہ کے دورہ پر باغ تشریف لائے جس پر تعجب کرتے ہوئے استاذ العلما حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب نے راقم کو کہا کہ مولوی عبدالشکور! حضرت ہمارے والد ہیں، ہمیں تو بعض اوقات ایک گھنٹہ بھی وقت نہیں دیتے، تیرے پاس کیا گیڈر سنگھی ہے کہ اس بڑھاپے اور علالت میں پہاڑی علاقے میں پیدل سفر کر کے ایک ہفتے کا وقت دے دیا؟ پھر ۱۹۹۲ء، ۱۹۹۳ء آپ کچھ دنوں کے لیے مری تشریف لائے تو انتہائی ضعف و علالت کے باوجود راقم کی درخواست پر تین دن کے لیے باغ کے دورہ پر تشریف لائے اور تقریباً سارے مدارس میں علما اور طلبہ سے خطاب فرمایا۔ انتہائی ڈر اور خوف سے احقر نے عرض کیا کہ حضرت آپ کو میری وجہ سے بہت تکلیف ہوئی تو آپ نے حوصلہ افزائی فرمائی اور فرمایا کہ تکلیف تو یقیناًہوئی، لیکن پرانے دوستوں سے ملاقات کر کے مسرت اور خوشی بھی ہوئی ہے۔
اما م اہل سنت شیخ الحدیث والقرآن محقق دوراں حضرت مولانا سرفراز خان صفدر نور اللہ مرقدہ دارالعلوم دیوبند کے ممتاز فضلا میں سے تھے جو قوی الاستعداد اور استحضار علم کے ساتھ ساتھ علم حدیث اور علم اسماء الرجال میں خاص امتیاز رکھتے تھے۔ عوام و خواص میں شیخ الحدیث کے نام سے مشہور و معروف تھے۔ آپ بیک وقت علوم ظاہری اور علوم باطنی کے امام تھے۔ علوم ظاہری میں آپ دارالعلوم دیوبندکے ترجمان تھے اور علوم باطنی میں حضرت مولانا حسین علی ؒ کے خلیفہ مجاز تھے۔ بیک وقت قرآن اصول قرآن حدیث اور اصول حدیث فقہ نحو صرف منطق فلسفہ اور دوسرے علوم کے کامیاب مدرس تھے۔ فقہ اور افتا میں اونچا مقام رکھتے تھے اور جامعہ نصرت العلوم شیخ الحدیث کے ساتھ صدر مفتی کے منصب پر فائز تھے۔ ملک اور بیرون ملک سے آنے والے سوالات کے جوابات خود ہی دیتے تھے ۔ حضرت شیخ الحدیث ہمہ جہت صفات کے مالک تھے۔ کامیاب درس و تدریس کے ساتھ ساتھ وعظ و تبلیغ اور اصلاحی علمی گفتگو سے عوام و خواص کی راہنمائی کرتے تھے ۔ عوام کے تزکیہ نفس کے لیے بیعت و ارشاد کا سلسلہ بھی مسلسل قائم رکھا ہزاروں علما و طلبہ اور عوام نے آپ سے طریقت کا سلسلہ رائج کرکے اپنے نفس کی اصلاح کی۔
تصنیف وتالیف میں حضرت شیخ الحدیث ایک کامیاب مصنف بھی تھے ۔ آپ نے فرق باطلہ کی تردید میں مدلل اور علمی کتب کے ذریعہ مسلک حقہ کی ترجمانی کی جس موضوع پر آپ نے لکھا اس پر دوبارہ قلم اٹھانے کی چنداں کسی کو ضرورت نہ رہی جس کے لیے اکابر علماے دیوبند کی تقاریر شاہد ہیں ۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب نوراللہ مرقدہ ’’مقام ابی حنیفہ‘‘ پر تقریظ لکھتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ میں نے اس موضوع پر لکھنے کے لیے خاصا مواد جمع کر لیا تھا لیکن مولانا سرفراز صفدر کی کتاب دیکھنے کے بعد اس موضوع پر مزید کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس طرح آپ کی دوسری تصنیفات پر اکابر علماے دیوبند کی تقریظات بھی آپ کے کامیاب مصنف ہونے کی شاہد ہیں۔
آپ کی زندگی تقویٰ اور طہارت سے لبریز تھی۔ حضرت جب عمر کے آخری حصہ میں درس و تدریس سے معذور ہوگئے تو مدرسہ کی کمیٹی نے طے کیا کہ حضرت کی سابقہ تدریسی خدمات کی بنیاد پر تاحیات ادارہ کی جانب سے کچھ اعزازیہ دیا جائے۔ حضرت نے احقر کو طلب کر کے فرمایا کہ آپ خود بھی مفتی ہیں، لیکن دارالعلوم کراچی والوں سے بھی رابطہ کر کے اس بارہ میں فتویٰ لے لیں کہ کیا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ میری رائے میں یہ درست نہیں۔ چنانچہ دارالعلوم کراچی کے فتویٰ میں بھی اس کی اجازت نہ تھی تو آپ نے ادارہ کی کمیٹی والوں سے کہا کہ میرے لیے یہ جائز نہیں کہ تدریسی عمل سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی ادارہ سے اعزازیہ لوں ۔ یہ حضرت شیخ کے تقویٰ کی ایک مثال ہے۔ آپ معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اپنے اکابر کے عمل پر سو فیصد عمل پیرا تھے جس کی مثال کم ازکم اس دور میں انتہائی مشکل ہے۔
حضرت کی بلند علمی شخصیت پر کچھ لکھنا انتہائی مشکل ہے۔ آج کانپتے ہوئے قلم پکڑا ہے اور انتہائی خوف میں حضرت کی نسبت سے کچھ سطور پیش خدمت ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ہم سب کوان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
مولانا مفتی عبد الشکور کشمیری
(ضلع مفتی باغ)
(۲)
زمانہ طالب علمی سے ہی ان سے عقیدت ومحبت اور علم وتحقیق سے متاثر ہونے کی وجہ سے بندہ اس وقت مدرسہ نصرۃ العلوم کے ناظم مولانا لالہ عبد العزیز صاحب کے ذریعے سے حضرت کی تصانیف منگواتا اور جمعرات کے دن اکوڑہ خٹک اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں جا کر لوگوں کو ان سے متعارف کرانے کی کوشش کرتا۔
۱۹۷۰ء میں بندہ نے حضرت سے شرح عقائد جبکہ حضرت صوفی صاحبؒ سے حماسہ پڑھی۔ اس کے بعد ۱۹۷۲ء میں حضرت سے ترجمہ قرآن، بخاری شریف اور ترمذی شریف پڑھنے کا موقع ملا اور آپ نے اجازت حدیث بھی عنایت فرمائی۔ حضرت اسباق میں لطائف سنا کر طلبہ کو خوش بھی کرتے تھے۔ ناغہ نام کی کوئی چیز ان کی لغت میں نہیں تھی۔
حضرت نہایت شفیق تھے ۔کبھی غصہ نہیں فرمایا، بلکہ غصے کے موقع پر بھی انداز محبت بھرا اور خیر خواہانہ ہوتا تھا۔ ملاقات کے لیے حاضری ہوتی تو سیاست کے متعلق بھی گفتگو فرماتے اور اسباق کے بارے میں بھی پوچھتے۔ کبھی تعارف کرانے کی ضرورت نہیں پڑھی۔ خود ہی فرماتے کہ ’’شاہ صاحب ہیں!‘‘ اور بچوں کے بارے میں بھی دریافت فرماتے۔ ایک دفعہ حاجی مراد ہسپتال (جہاں میں خطابت کے فرائض انجام دیتا ہوں) میں تشریف لائے تو ہسپتال کی مسجد میں نماز ادا فرائی اور فرمایا کہ اس مسجد کا سنگ بنیاد میں نے رکھا ہے۔
حضرت بے حد مہمان نواز تھے اور آپ کے اہل خانہ اس معاملے میں پورا پورا تعاون کرتے تھے۔ کسی بھی وقت مہمان آجاتا تو کوئی دقت محسوس نہیں کرتا تھا۔ ایک دوست نے حضرت کا یہ ارشاد سنایا کہ جب تک گھر والی زندہ تھی، کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ کتنی محنت کرتی ہے، لیکن جب وہ رخصت ہو گئی تو تنور سے روٹی لا لا کر بھی پوری نہیں ہوتی۔
آخری دنوں میں حضرت سے درخواست کی کہ میں پہلے سے بیعت ہوں، لیکن چاہتا ہوں کہ آپ کے دست مبارک پر بھی تبرکاً بیعت کر لوں۔ اگر یہ جائز ہے تو مہربانی فرما دیں اور اگر جائز نہیں تو کوئی اصرار نہیں۔ حضرت نے میرا ہاتھ پکڑ کر ہلایا اور پھر ہم رخصت ہو گئے۔ رات کو خواب میں عجیب پرلطف کیفیات محسوس ہوئیں۔
بدعات سے سخت نفرت فرماتے تھے اور اکابر سے تعلق کے سخت پابند اور اس کی تلقین فرماتے تھے۔ قرآن وسنت کا چلتا پھرتا کتب خانہ اور استقامت کا عملی نمونہ تھے۔ بحمد اللہ حضرت نے اپنے خاندان کو علم کا گہوارہ بنایا ہے اور یہ صدقہ جاریہ ان شاء اللہ قیامت تک رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد اور اہل خاندان پر رحمت فرمائے اور انھیں حضرت کا صحیح جانشین بنائے۔ آمین
مولانا سید عبد المالک شاہ
(استاذ حدیث مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ)
(۳)
مورخہ ۵؍مئی بروز منگل ۲۰۰۹ء صبح تین بجے مدرسہ نصرۃ العلوم کے فون سے یہ دل گداز اطلاع ملی کہ حضرت شیخ محترم انتقال فرما گئے ہیں۔ زبان سے بے ساختہ اناللہ وانا الیہ راجعون کے الفاظ جاری ہوگئے۔ یہ دن میر ی زندگی میں دوہرا غم اور دوہرا صدمہ لے کر آیا۔ میرے بڑے بھائی محترم محمدسلیم عارضہ قلب میں مبتلا تھے اور کچھ دنوں سے صدیق صادق ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ ہر وقت دل کو ان کے بارہ میں کھٹکا لگا رہتا تھا۔ نماز فجرکے بعد مسجد میں حضرت شیخؒ کی وفات کا اعلان کیااورسوچا کہ ایک دفعہ ہسپتال بھائی کی عیادت کرکے گکھڑ حاضری دیتا ہوں، لیکن بھائی کی حالت تشویشناک تھی،ا س لیے ظہر تک ہسپتال رہا۔ میر ے لیے بڑے امتحان کا مرحلہ تھا۔ ایک طرف اپنے شیخ، مرشد اور مشفق استاد کی نماز جنازہ میں شرکت کرنی ہے اور دوسری طرف بھائی کی حالت ایسی تھی کہ ایک لمحہ بھی ان سے جدا ہونے کا حوصلہ نہیں پڑتا۔ شام پانچ بجے نماز جنازہ کااعلان تھا۔ بالآخر تین بجے دن بھائی کے چہرے پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈالی اور کہا کہ بھائی جان میں نماز جنازہ کے لیے گکھڑ جارہا ہوں اور شام کو دوبارہ حاضری دوں گا۔ بھائی نے ایک لمحہ کے لیے آنکھ کھولی اور اداس نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور آنکھ بند کرلی۔
میں تقریباً پونے چار بجے گکھڑ پہنچا توجی ٹی روڈ پر چاروں طرف انسانی سر نظر آئے۔ خلق خدا ہر طرف سے امڈ کر مرد درویش کے جنازہ میں شرکت کے لیے پہنچ رہی تھی۔ کالج کی گراؤنڈ اپنی وسعت کے باوجود تنگ دامنی کا شکوہ کر رہی تھی۔ ملک بھر سے جید علماء کرام جنازہ میں شرکت کے لیے پہنچ چکے تھے۔ استاد محترم مولانا زاہدالراشدی مدظلہ نے نماز جنازہ کی امامت کرائی۔ جنازہ کے بعدمیری شدید خواہش تھی کہ میں تدفین کے مرحلہ میں بھی شرکت کروں، لیکن چھوٹے بھائی حافظ محمد شاہد نے فون پر اطلاع دی کہ بھائی محمد سلیم بھی فاقلہ شیخ میں شامل ہو چکے ہیں اور ان کی میت ہسپتال سے وصول کر کے رسول نگر لے جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جس وقت حضرت استاد محترم کی نماز جنازہ ادا کی جا رہی تھی، اسی لمحے بھائی نے جان، جان آفرین کے سپرد کی۔ بروز بدھ ۶؍ مئی کو رسول نگر میں حضرت مولانا مفتی محمد نعیم اللہ مدظلہ مہتمم مدرسہ اشرف العلو م گوجرانوالہ نے بھائی کی نماز جنازہ پڑھائی۔ رب تعالیٰ غریق رحمت فرمائے۔
غم اور صدمہ کی کیفیت کا دارومدار تعلق کی نوعیت پرہوتاہے۔ حضرت شیخؒ کے ساتھ سب سے مضبوط تعلق تو آپ کے خاندان کے ان افراد کا ہے جو بیک وقت نسبی، مذہبی اور تعلیمی رشتہ رکھتے ہیں، پھروہ حضرات جن کا آپ سے مذہبی اورتعلیمی رشتہ تھا اور پھر صرف مذہبی رشتہ والے افراد۔ بلاشبہ تعزیت کے اولین حقدار توآپ کاخاندان ہے جو ماشاء اللہ علم وعمل کی دولت سے مالا مال ہے۔ دوسرے درجہ میں اس گناہگار کاتعلق بھی موجود ہے۔ مذہبی اورتعلیمی دونوں رشتے الحمد للہ تاحال قائم ہیں۔ حضرت شیخ ؒ کے دورۂ تفسیر کی علمی حلقوں میں بہت شہرت تھی۔ ۱۹۹۴ء میں، میں نے دورہ تفسیر میں شرکت کی اور بعدازاں ۱۹۹۷ء میں دورۂ حدیث شریف کے لیے مدرسہ نصرۃ العلوم میں داخلہ لیا اور بخاری شریف جلداول استادمحترم سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ دوران تعلیم اور اس کے بعد استادمحترم کی چند صفات کا بہت مشاہدہ کیا۔
شاگردوں اور چھوٹوں پر شفقت اور علمی کاموں پر حوصلہ افزائی آپ کا وصف خاص تھا۔ مولانا مفتی محمد نعیم اللہ فرماتے ہیں کہ جب بھی حضرت کی خدمت میں حاضری ہوتی تو مجھے ’’مفتی صاحب‘‘ کہہ کر مخاطب فرمایا کرتے تھے۔ مولانا محمد یعقوب (حال امام واپڈا ٹاؤن گوجرانوالہ) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنی اہلیہ کو لے کر حاضرخدمت ہوا تو حضرت نے ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ ایک سو روپیہ میر ی اہلیہ کو ہدیہ دیااور میں نے وہ سوروپیہ تاحال بطور برکت محفوظ رکھاہوا ہے۔ یہ اصاغر نوازی اور چھوٹوں پر شفقت کی اعلیٰ مثال ہے۔ میرے لیے اس سے زیادہ کیا شفقت ہوگی کہ دو مرتبہ حضرت کی موجودگی میں گکھڑ کی جامع مسجد میں رمضان المبارک کے جمعہ میں بیان کاموقع ملا اور آپ نے بعدمیں خوب حوصلہ افزائی فرمائی۔
جس قدر کوئی شخصیت بلند مرتبہ ہوتی ہے، اس سے استفادہ کرنا اسی قدر مشکل ہوجاتا ہے کیوں کہ شخصیت کارعب ودبدبہ دل ودماغ پر ایسا چھا جاتا ہے کہ وہ سوال وجواب میں حجاب بن جاتاہے۔ ہاں اگرخوش طبعی اور ظرافت مزاج میں ہوتو پھریہ حجاب اٹھ جاتے ہیں۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج عالیہ میں اگرچہ یہ وصف نہ ہوتا تو صحابہ کرام کے لیے استفادہ کرنے میں بہت مشکل پیش آتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح پر مشتمل کئی واقعا ت کتب احادیث میں منقول ہیں۔ ایسے ہی رب تعالیٰ نے خوش مزاجی سے استا د محترم کو وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔ آپ اسباق میں بڑے بڑے علمی مسائل کو لطائف کی شکل میں سمجھا دیا کرتے تھے۔ اگر مخالفین پر رد کرنا ہوتا تو بسااوقات اس کے لیے بھی بڑے دلچسپ جملے استعمال فرماتے۔ مجھے اچھی طرح یادہے کہ ۱۹۹۶ء میں دورہ تفسیر کے دوران کسی بات کے ضمن میں یہود ونصاریٰ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ دونوں طبقے ایک دوسرے پر غلط ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اس معاملہ میں یہ دونوں سچے ہیں۔ جس طرح نواز شریف، بے نظیر حکومت پر خائن ہونے کا الزام لگاتا ہے اور بے نظیر، نواز شریف پر خائن اور غلط ہونے کا الزام لگاتی ہے، ہم ان دونوں کی لڑائی میں نہیں آتے، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اس بات میں یہ دونوں سچے ہیں، کوئی بھی جھوٹا نہیں ہے۔
مدرسہ نصرۃ العلوم میں طلبہ کی جنرل حاضری صبح آپ خود لگایا کرتے تھے اور اسلامی مہینوں کے لحاظ سے حاضری ہوتی تھی۔ کلاس میں جو طالب علم نابینا یا کمزور نگاہ والا ہوتا، اسے کھڑاکر کے فرماتے، ہر مہینہ چاند نظر آنے کی خبر دینا تمہاری ذمہ داری ہے۔ تم چیئرمین رویت ہلال کمیٹی ہو۔
غالباً ۱۹۹۱ء میں مدرسہ اشرف العلوم کے مہتمم مولانا نعیم اللہ مدظلہ کی دعوت پر آپ ان کے دوبیٹوں مولوی محمدعمر اور مولوی محمد عثمان کے حفظ قرآن کی تقریب میں مدرسہ اشرف العلوم تشریف لائے اور نماز عصر کے بعد طلبہ، علما اور عوام الناس سے خطاب فرمایا۔ مفتی صاحب کا بیان ہے کہ ایسا روحانی ونورانی کیف محسوس ہوا کہ بہت کم مجالس میں نصیب ہوتا ہے۔
حضرت شیخؒ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر اہل علم ضرور قلم اٹھائیں گے۔ میں نے چند تاثرات سپر د قلم کر دیے ہیں لیکن اس اقرار کے ساتھ کہ میری عقل نے جو لفظ بھی سوچے ہیں، آپ کے مقام و مرتبہ سے بہرحال چھوٹے ہیں۔
مولانا عبدالواحد رسول نگری
(مدرس مدرسہ اشرف العلوم گوجرانوالہ)
(۴)
حضرت امام اہل سنت کی خوبیوں اور محاسن کو ہر شخص اپنے ذوق اور زاویہ خیال سے بیان کرے گا، لیکن چند چیزیں ایسی تھیں کہ ہر شخص بغیر کسی طویل مشاہدہ کے فوراً انھیں جان لیتا تھا۔ ان میں سر فہرست حضرت کا اخلاق کریمانہ تھا۔ حضرت کااخلاق وخوش خلقی و خوش مزاج ایسی تھی کہ ہر کوئی یہ سمجھتا تھا کہ حضرت ؒ کو مجھ سے تعلق دوسروں کی نسبت زیادہ ہے۔
۲۰۰۰ء کے لگ بھگ ہفت روزہ ضرب مومن نے ملک بھر کے بڑے مدارس کا سروے اور مشائخ کی زیارت وملاقات کاسلسلہ شروع کیا تھا جس کی رپورٹ ضرب مومن میں شائع کی جاتی تھی۔ جب اس سلسلہ میں مدرسہ نصرہ العلوم گوجرانوالہ اور گکھڑ منڈی میں حضرت کے دولت کدہ پر حاضرہوئے تو دو باتیں خصوصیت سے نوٹ کیں۔ ایک یہ کہ حضرت کے تصنیفی کام یعنی کتب کا جواب تو شاید دیاجا سکتا ہو لیکن حضرت کے اخلاق کریمانہ کا کوئی جواب نہیں۔ اس میں حضرت کی تصنیفی خدمات کا انکار نہ تھا، بلکہ اخلاق کریمانہ کااظہارتھا۔ اپنی جگہ یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت کی کتب کامعقول جواب آج تک کسی سے نہ بن پایا۔ دوسری بات یہ کہ حضرت امام اہل سنتؒ کے مقتدی حضرات جو کہ نما ز فجر کے بعد در س قرآن وحدیث وخطبہ جمعہ المبارک ایک تسلسل سے سنتے آ رہے ہیں، ان کی دینی معلومات اور عملی زندگی آج کل کے عام علما سے زیادہ قابل رشک ولائق تقلید ہے۔ یہ بات واقعی ثابت شدہ حقیقت ہے اور اس کامشاہدہ بھی کئی دفعہ ہوچکا ہے ۔
ہمیں حضرت امام اہل سنتؒ کی شاگردی اور پھر حضرت کے زیر سایہ دس سال تک تدریسی خدمات کی سعادت بھی حاصل ہے۔ حضرت کے صاحبزادہ مولانا قاری عزیزالرحمن مدظلہ کی معیت میں معارف اسلامیہ گکھڑ میں عرصہ دس سال تک درس نظامی کی کتب کی تدریس اورپھر حضرت کا اس پر اعتماد ہمارے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ وفاق المدارس العربیہ کے امتحانات میں معارف اسلامیہ اکادمی گکھڑ کی کامیابی بڑی شاند ارتھی۔ مدرسہ کے آغاز ہی میں سیکڑوں طلبہ کی آمد ایک بڑی کامیابی تھی۔ پھر وہ وقت آیا کہ طلبہ کی کثرت سے مدرسہ میں جگہ کم پڑگئی۔ حضرت نے فرمایا کہ زائد طلبہ کو دیگر مساجد میں سکونت وقیام کی اجازت دے دیں اور تعلیمی سلسلہ جاری رکھیں۔ تقریباً دس سال میں ہمیں اجنبیت کا احساس تک نہ ہوا۔
پابندگی وقت اور تعلیمی نظم وضبط کاایک واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ چند احباب کے ساتھ صبح کا ناشتہ حضرت کے گھر پر تھا۔ جب ہمارے سبق کا وقت ہواتو حضرت نے فرمایا مولانا! آپ کے سبق کا وقت ہوچکاہے۔ آپ جا سکتے ہیں۔
اخیر عمر میں حضرت نے اپنے محبوب استاد شیخ الاسلام مولانا حسین احمدمدنیؒ کی یاد میں منعقد ہونے والے سیمینار میں شرکت کی غرض سے بہاولپور کا سفر فرمایا۔ ہم بھی شریک سفر تھے۔ حضرت نے اس سفر میں امیر سفر اس عاجز ہیچ مدان کومقرر کیا۔ یہ بھی حضرت کی اصاغر نوازی کی اعلیٰ مثال ہے۔ اسی طرح ایک دفعہ نماز عصر کے بعد میں حافظ محمد عمارخان ناصر کے ساتھ حضرت کے کمرہ میں موجود تھا۔ نماز مغرب کا وقت ہوا تو حضرت نے نماز کی امامت کے لیے بھی ا س عاجز کو حکما آگے کھڑا کر دیا اور تعمیل ارشاد میں مجھے اس نماز کی امامت کرنا پڑی۔
اتباع سنت امام اہل سنتؒ کا خصوصی وصف تھا۔ سنت کی اتباع ہر لحاظ سے رکھتے تھے۔ اگر حضرت کو فنا فی الرسول کہہ دیں تو شاید ذرابھی مبالغہ نہ ہوگا۔ اتباع سنت کے اسی بلند درجہ خصوصی امتیاز کی وجہ سے حضرت ’’امام اہل سنتؒ ‘‘ کے موزوں ترین لقب سے ملقب ہوئے۔ تحدیث نعمت کے طورپر فرمایا کرتے تھے کہ روزانہ تین چار ہزار مرتبہ درود شریف پڑھتا ہوں۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص عقیدت ومحبت اور تعلق بالرسول کی نایاب مثال ہے۔
ایک دفعہ میں نے عرض کیا کہ حضرت طبیعت کچھ ناساز ہے، دعافرمائیں۔ حضرت نے دعافرمائی اور میرے ہاتھ کو بھی چوما۔ یہ بھی بہت اعزاز ہے۔
مرض کے دنوں میں بھی علمی شغف تمام ترکمزوریوں وناتوانیوں کے باوجود جاری رہا۔ کمرے میں بچے مینڈک مار رہے تھے تو فرمایا کہ میں نے انہیں منع کیا ہے کہ اس کو نہ مارو۔ پھر ابوداؤد شریف منگوائی اور متعلقہ مسئلہ کے تحت حدیث دیکھ کر اطمینان ومسرت کااظہار فرمایا۔
حافظ عبدالرحیم بلوچ
(سابق صدر مدرس معارف اسلامیہ اکادمی گکھڑ)
(۵)
جب سے شعور اور ہوش آیا، حضرات شیخین، حضرت مولانا عبدالحمید خان سواتیؒ اور حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی عقیدت اساتذہ اور اکابر کی برکت سے ورثہ میں ملی تھی۔ جب میری عمر سولہ سال تھی اور میں نے مدرسہ نصرۃ العلوم میں پڑھانا شروع کیا تو حضرات شیخین کو والدین جیسی شفقت کرتے ہوئے پایا۔ میری بھی یہی کوشش ہوتی تھی کہ میں ہر کام حضرات شیخین کی اجازت اور نگرانی میں کروں۔ مجھے اس با ت پر فخر ہے کہ الحمدللہ عرصہ گیارہ سال حضرات شیخینؒ کی نگرانی میں تدریس کی اور کبھی ایسا موقع نہیں آیا کہ میری طرف سے ان حضرات کو کوئی رنج وتکلیف پہنچی ہو۔ حضرت صوفی صاحبؒ کی کرامت تھی کہ عرصہ گیارہ سال میں مجھے کبھی چھٹی کرنا یاد نہیں۔ میرا نکاح جمعۃ المبارک کے دن ہوا اور دعوت ولیمہ پر حضرت شیخ ؒ تشریف لائے تو انہو ں نے آتے ہی میرے ساتھی حافظ ارشد صاحب سے پوچھا کہ نکاح کتنے بجے ہوا تھا؟ انہوں نے کہا کہ گیارہ بجے تو حضرت ؒ نے فرمایا کہ اگر جمعہ کی پہلی اذان کے بعد نکاح ہوا ہوتا تو میں دوبارہ پڑھاتا۔ استاد محترم فرمایا کرتے تھے کہ جس محلہ کی مسجد میں جمعہ کی پہلی اذان ہو جائے، اس کے بعد اگرکوئی نکاح پڑھائے تو نکاح نہیں ہوگا۔
راقم الحروف نے ۱۹۷۸ء کو حضرت صوفی صاحب ؒ سے اجازت چاہی کہ میں مدرسہ قائم کرنا چاہتا ہوں تو حضرت نے بخوشی اجازت مرحمت فرمائی اور ۱۹۷۹ء میں جامعہ قاسمیہ کا تعلیمی سلسلہ کا آغاز ہوا جس میں حضرت شیخ ؒ نے شرکت فرمائی اور دعا فرمائی۔ الحمد للہ جامعہ قاسمیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اکابر علماے دیوبند کی زیر سرپرستی چل رہا ہے، خصوصاً حضرات شیخین کی سرپرستی اور نگرانی تو ہمارے لیے بڑے فخر کی بات ہے۔ حضرت شیخ تو جامعہ کے ہر پروگرام میں تشریف لاتے تھے اور رمضان المبارک کی ۲۹ویں شب کو ہر سال افطاری جامعہ میں کرتے تھے۔ آپ نماز تراویح جامعہ میں پڑھتے اور نماز عشا اور نماز وتر خود پڑھاتے اور ختم قرآن کے بابرکت موقع پر اصلاحی بیان اور دعا فرماتے تھے۔ حضرت کا بیان عام فہم او راتنا سادہ ہوتا تھا کہ بہت مشکل بات اور مسئلہ اس طرح سمجھاتے تھے کہ جاہل بھی سمجھ جاتا تھا۔ الحمد للہ جامعہ کی تمام شاخوں کا سنگ بنیاد حضرت نے اپنے دست اقدس سے رکھا۔
حضرت کی بے شمار کرامات میں سے ایک کرامت یہ تھی کہ حضرت جس چیز کے لیے دعا فرمادیتے تھے، مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہو جاتا تھا۔ راقم نے جب بھی جامعہ قاسمیہ کی شاخ بنانے کے لیے کسی جگہ کا انتخاب کیا، ظاہری طور پر تو کوئی اسباب نظر نہیں آتے تھے، لیکن جب حضرت سے دعا کروائی یا اس جگہ سنگ بنیاد رکھوایا تو اللہ نے ایسے راستے کھولے کہ جن کا وہم وگمان بھی نہیں تھا۔ مجھے آج بھی لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ تمام کام کیسے چل رہے ہیں تو احقر جواب دیتا ہے کہ یہ اللہ کے فضل اور استاد محترم کی دعاؤں اور نگرانی کا نتیجہ ہے۔ تحدیث نعمت کے طور پر یہ کہتا ہوں کہ صرف پاکستان بلکہ اکثر ممالک میں میرے شاگرد قرآن کریم کی خدمت کر رہے ہیں۔
راقم الحروف کافی مدت سے اس کوشش میں تھا کہ حضرت کے بیانات ریکارڈ کروں۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے دستگیری فرمائی، بچوں نے ساتھ دیا اور میرے اس فکر میں میرے دست وبازو بنے۔ مدرسین حضرات میرے نیک عزائم میں معاون ومددگار ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے خاص لطف وکرم سے ’’خطبات امام اہل سنت‘‘ تحریری شکل میں شائع ہونے شروع ہوئے۔ اب یہ خطبات تین جلدوں میں منظر عام پر آچکے ہیں جن میں توحید، سیرت، نماز ، روزہ، حج، زکوٰۃ اور قربانی کے موضوع پر انتہائی اہم بیان موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف موضوعات پر اٹھارہ خطبات موجود ہیں۔
حضرت کا جنازہ ملک کے تاریخی جنا زوں میں سے ایک تھا۔ جنازہ ان کے علمی جانشین شیخ الحدیث حضرت مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم نے پڑ ھایا جو حضرت ؒ کے ہم شکل ہونے کے ساتھ ساتھ انھی کی صفات کے حامل بھی ہیں۔ راقم نے اتنا مخلص او ر بے لو ث شخص نہیں دیکھا۔ خدا کا شکر ہے کہ وہی مسند جس پر حضرت استاد محترم نے حدیث کا درس دیا، اسی پر حضرت علامہ صاحب جلوہ افروز ہیں اور جانشینی کا حق کر رہے ہیں۔ خداوند ذوالجلال ہم سب کو حضرات شیخین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
قاری گلزار احمد قاسمی
(جامعہ قاسمیہ ، گوجرانوالہ)
(۶)
۱۹۷۸ء میں، میں جامعہ نصرۃ العلوم میں داخل ہوا۔ اس وقت وفاق کی درجہ بندی نہیں تھی جس کی وجہ سے اسباق دو کلاسز میں بٹے ہوئے تھے۔ ایک کلاس میں شیخ کے صاحبزادگان مولانا عبدالحق خان بشیر اور مولانا شرف الدین حامد اور مولانا پیر رشید الحق خان عابد میرے شریک اسباق تھے، جبکہ دوسری کلاس میں مولانا بشیر سیالکوٹی لیکچرر اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اور مولانا اعظم رحمانی لیکچرر گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ اور مفتی محمد اقبال‘ مولانا قاری محمد انور سیالکوٹی‘ مولوی سعید طیب‘ مولوی پروفیسر محمد اختر رحمانی‘ مولانا عبدالقیوم طاہر تھے۔ غالباً عمر میں، میں سب سے چھوٹا تھا۔ کام کاج کے حوالے سے مجھے ہی کہا جاتا تھا۔ زیادہ تر وقت حضرت شیخ کے صاحبزادے مولانا عبدالحق خان بشیر کے ساتھ گزرتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جہاں حضرت کی شفقتیں مولانا عبدالحق خان بشیر کے ساتھ تھیں، وہاں میرے ساتھ بھی تھیں۔ خصوصاً درس و تدریس کے حوالے سے میں نے اپنے آپ کو تنہا نہیں سمجھا۔
غالباً ۱۹۸۳ء لانگریاں والی مسجد میں درس مشکوٰۃ شریف شروع کیا۔ ایک حصہ مکمل ہوا تھا تو مجھے یہاں سے جامع مسجد صدیقیہ سیٹلائٹ ٹاؤن منتقل کر دیا گیا۔ دوسرا حصہ وہاں مکمل ہوا ۔ آخری درس پر حضرت شیخؒ کو مدعو کیا گیا۔ اختتام درس پر میں نے حضرتؒ سے مزید درس جاری رکھنے کے لیے پوچھا کہ اب کون سی کتاب کا درس شروع کروں توفرمانے لگے کہ اب بخاری شریف کا درس شروع کرو۔ میں نے کہا حضرت استعدادنہیں ہے۔ فرمانے لگے کہ میں کہہ رہا ہوں۔ بہرحال جہاں ذہنی دباؤ تھا، وہاں مسرت بھی تھی اور پھر الحمدللہ گوجرانوالہ شہر میں ترجمہ قرآن پاک کے حوالے سے کام کرنے کا موقع ملا۔ محض شیخ کی دعا اور سرپرستی سے ۱۹۸۷ ء سے اب تک کم و بیش بیس کلاسز مکمل ہو چکی ہیں اور تین دفعہ عمومی درس بعد ازفجر میں قرآن کریم مکمل ہو چکا ہے۔ یہ سب شیخین کی سرپرستی اور دعا کی برکت ہے۔ کم و بیش پندرہ دفعہ شیخ اختتام درس کے موقع پر مسجد صدیقیہ میں تشریف لائے۔ میں نے اب تک جو عزت، وقار اور جو احترام پایا ہے‘ اساتذہ کے احترام اور خصوصاً حضرت شیخ ؒ اور حضرت صوفی صاحبؒ کی وجہ سے ہی ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی کسی استاذ کی چغلی کی ہو یا تہمت لگائی ہو یا ننگے سر کسی استاذ کے سامنے گیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سب کو یہ ادب نصیب فرمائے۔
سفر وحضرمیں شیخ ؒ کی خدمت میں رہا ہوں۔ کبھی خلاف سنت کوئی عمل میں نے نہیں دیکھا۔ ہر نماز باجماعت‘ کھانے میں سادگی‘ سفر میں دعاؤں اور تلاوت کا اہتمام۔ جب کسی مجلس میں بیٹھتے تو سب کی توجہ کا مرکز ہوتے۔ ہر کوئی اپنے آپ کو ان کے قریب سمجھتا تھا۔ ۱۹؍ اگست ۱۹۸۶ ء کو برادرم طاہر قیوم چودھری کے نکاح کے لیے کلرسیداں ضلع راولپنڈی کا سفر حضرت شیخؒ کے ساتھ کرنے کا موقع ملا۔ اس سفر میں میرے ماموں مولوی حبیب اللہ صاحب بھی شریک سفر تھے۔ یہ سفر بھی میری زندگی کا یادگار ترین سفر ہے۔ نکاح کی تقریب کے بعد حضرتؒ نے وہاں کی جامع مسجد میں بعد نماز ظہر درس دیا اور واپسی پر نماز عصر پنجن کسانہ قاری اختر صاحب کے مدرسہ میں ادا کی۔ سفر کے دوران آتے جاتے حضرت شیخ ؒ ہمارے ساتھ اس طرح گھل مل گئے جیسے ہمارے بچپن کے دوست ہوں۔ان کی محبتیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔
قاری سعید الرحمن (مریدکے ضلع شیخوپورہ) فرماتے ہیں کہ ۱۹۷۶ء میں ایک روز گوجرانوالہ آنے کے لیے راہوالی جی ٹی روڈ پر گاڑی کے انتظار میں کھڑا تھا کہ اچانک امام اہل سنت ؒ کی گاڑی آ کر رُکی۔ امام اہل سنت ؒ نے مجھ سے پوچھا، کہاں جانے کا پروگرام ہے؟ میں نے کہا حضرت! گوجرانوالہ شہر۔ امام اہل سنت ؒ نے جواب میں فرمایا کہ مدرسہ والوں کی طرف سے میں نے اجازت نہیں لی، ورنہ آپ کو ساتھ سوار کر لیتا۔ آئندہ میں مدرسہ والوں سے اجازت لے لوں گا۔
مفتی محمد اقبال صاحب زید مجدہ فرماتے ہیں کہ ایک فتویٰ کی تصدیق کے لیے گکھڑ جانا ہوا۔ امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھا اور تصدیق کے لیے مجھ سے قلم مانگا۔ ساتھ ہی مجھ سے پوچھا کہ قلم میں سیاہی دارالافتاء کی ہے یا ذاتی جیب سے ہے؟ میں نے کہا کہ دارالافتاء کی ہے تو امام اہل سنت ؒ نے قلم استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔
ایک دفعہ گرمیوں کے دنوں میں دوران سفر ڈرائیور نے گاڑی کا اے سی چلا دیا۔ حضرت نے ڈرائیور سے پوچھا کہ کیا اے سی چلانے سے تیل زیادہ خرچ ہوتا ہے تو ڈرائیور نے کہا کہ جی ہاں۔ اس پر حضرت نے فرمایا کہ اس کو بند کر دو۔ گاڑی میں پٹرول مدرسہ کا جلتا ہے، ہمارا نہیں لہٰذا اس کی قطعی ضرورت نہیں۔
اس طرح لے سیکڑوں واقعات ہیں جنھیں ان شاء اللہ کسی وقت قلم بند کروں گا تاکہ اس پرفتن دور میں اسلاف کی یاد تازہ ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ چراغ لے کر اگر ڈھونڈنا چاہیں تو ایسے متقی اور زاہد کی تلاش مشکل ہے۔
قاری عبید اللہ عامر
(مدرس شعبہ حفظ، مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ)
(۷)
امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ میرا تعلق حضرت شیخ کے ساتھ اس وقت ہوا جب ۱۹۷۶ء میں، میں مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں بطور امام ومدرس تحفیظ القرآن کا م کر رہا تھا۔ خط کتابت کا سلسلہ ۱۴۰۵ھ میں شروع ہوا جب احقر گوجرانوالہ سے سعودی عرب ریاض میں جماعت تحفیظ القرآن میں بطور مدرس منتقل ہوا۔ میری یہ عادت تھی کہ کوئی چھوٹا سا کام بھی پیش آتا تو خط کتابت کرکے حضرت شیخ ؒ سے مشورہ لیتا۔ حضرت شیخؒ کی کرم نوازی تھی کہ مجھ جیسے کو بھی فوراً جواب سے نواز دیتے۔ کبھی کبھی میں خود سوچتا کہ کہاں میں اور کہاں علمی دنیا کے بادشاہ۔ فرماتے کہ آپ کو علم ہے کہ میرے پاس ایک منٹ فرصت بھی نہیں، لیکن حسن عقیدت کی وجہ سے جواب دے دیتا ہوں۔ بلاشک حضرت امام اہل سنت ؒ علمی دنیا کے بادشاہ تھے۔ تقویٰ میں تو ان کا ثانی کوئی نہیں تھا، عاجزی اور انکساری میں اپنا ثانی نہیں چھوڑا۔
علمی دنیا میں تحقیق کے امام تھے۔ ایک مرتبہ درس میں فرمایاکہ جتنے بھی اکابر حیات ہیں، سب ہی بزرگ ہیں، لیکن میں تحدیث نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ جتنا مطالعہ احقر نے کیا ہے، شایدہی کسی نے کیا ہو۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ سابق شیخ التفسیر دارالعلوم دیوبند وسابق شیخ الحدیث ڈابھیل مولانا شمس الحق افغانی ؒ نے فرمایا تھا کہ میں علماے کرام کومشورہ دیتا ہوں کہ امام اہل سنت ؒ کی کتابوں کا مطالعہ کریں، کیوں کہ حضرت نے بڑے دقیق مسائل پر قلم اٹھایا ہے جو ہر عالم کے بس کی بات نہیں۔ یہ حضرت کی رائے تھی۔ پھر ایک اور بزرگ عالم استفسار کرتے رہے کہ حضرت جن کتابوں کا آپ حوالہ دے رہے ہیں، کیا یہ کتابیں آپ کے پا س موجود ہیں؟ ہم نے ان کتابوں کا نام ہی سنا ہے،دیکھی نہیں ہیں۔ اگر آپ کے پاس یہ کتابیں موجود ہیں تو یوں سمجھیں کہ آپ دیوبند کے جھنڈے کے سایے تلے کتاب لکھ رہے ہیں۔
احقر آپ کا مرید بھی ہے۔ پہلے احقرنے جانشین شیخ التفسیر حضرت مولانا عبیداللہ انورؒ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت کے بیعت ہوا۔ حضرت کے کم وبیش ۳۰؍۳۵ خطوط میرے پاس موجود ہیں۔ احقر کے بچوں کے نام بھی حضرت نے رکھے ہیں۔ احقر کے سسر حضرت مولانا عبدالحمیدؒ چونکہ آپ کے ساتھی تھے اور دیوبند میں اکٹھے رہے، ان سے امام اہل سنت ؒ کے متعلق سنا کرتا تھا کہ حضرت کو طالب علمی کے زما نہ سے ہی مطالعہ کتب کا بہت شوق تھا او ر حافظہ تو بلا کا تھا۔ ہمارے علاقے میں جتنے بھی علماے کرام حیات ہیں، اکثر حضرت امام اہل سنت ؒ کے شاگرد ہیں۔ ضلع باغ میں کوئی ایسا عالم نہیں جس نے حضرت ؒ سے نہ پڑھا ہو۔ مثال کے طور پر ضلع مفتی باغ مولانا مفتی عبدالشکور، مولانا عبدالرؤف، مولانا محمد صادق پنیانی، مولانا عبدالقدوس ناظم مدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ، مولانا عبدالقدیر عربی معلم پنیالی، چوہدری ضیاء الرحمن تھب، مولانا عبدالحئ تھب، مولا نا قاری نذیر فاروقی، مولانا عبدالجلیل خان تھب، مولانا محمد الیاس عربی معلم تھب۔ یہ چند نام نمونے کے طورپر احقر نے لکھے ہیں۔ آزاد کشمیر ضلع باغ کے کم وبیش دو صد کے قریب علماے کرام نے امام اہل سنت ؒ سے دورۂ حدیث شریف پڑھا ہے۔ احقر کی ناقص رائے یہ ہے کہ حضرت مدنیؒ کے تما م شاگردوں میں سے جتنا کام اللہ نے حضرت شیخ ؒ سے لیا ہے، شاید ہی کسی دوسرے کا اتنا فیض ہو۔
این سعادت بزور بازونیست
تانہ بخشند خداے بخشندہ
اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات کو بلند فرمائے اور آپ کے جانشین حضرت مولانا زاہدالراشدی شیخ الحدیث مدرسہ نصرۃ العلوم کو توفیق بخشے کہ وہ حضرت کے مشن کو جاری رکھ سکیں۔
قاری جمیل الرحمن کشمیری
(حال: مدرس جماعت تحفیظ القرآن، ریاض، سعودی عرب)
(۸)
۱۹۵۸ ء کی بات ہے۔ میں نے ایک خواب دیکھا کہ میں وضو کررہا ہوں۔ جب اس کی تعبیر کے سلسلے میں حضرت شیخ سے رابطہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ آپ کو روحانیت عطا ہوگی۔ خواب کی تعبیر کے علم کے بارے میں یو ں کہوں گا کہ اس دور میں خواب کی تعبیر کا علم حضرت شیخ سے زیادہ کسی کے پاس نہیں تھا۔ ۱۹۷۱ء میں، میں نے خواب دیکھا کہ میں نے بیگ پکڑا ہوا ہے اور حج پر جا رہا ہوں۔ جب اس کی تعبیر پوچھی تو حضرت نے فرمایا کہ آپ نے نہیں، بلکہ میں نے حج پر جانا ہے۔ چند دنوں کے بعد حضرت حج بدل ادا کرنے کے لیے مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔ پھر ایک دفعہ خواب میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تشریف لائے۔ ان کے پاس میرے نام کچھ کاغذات تھے۔ اس کی تعبیر حضرت نے یوں فرمائی کہ بھائی آپ کا چونکہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ کے ساتھ روحانی تعلق ہے ،یہ اس وجہ سے ہے۔
۱۹۶۱ء کی بات ہے۔ میں لاہور میں حضرت مولانا احمد علی لاہوری ؒ کی مجلسِ ذکر میں شریک ہوا۔ مجلس کے بعد اجازت لے کر اپنے گاؤں گکھڑ منڈی واپس آگیا۔ دل میں شدید بے چینی اور بے قراری کی سی کیفیت پیدا ہوگئی جس کو سکون صرف قبرستان کے علاوہ کسی جگہ نہیں آرہا تھا۔ ان حالات میں احقر کے دل میں بیعت کا شوق پیدا ہوا اور اس شوق اور بے چینی کی کیفیت کو دور کرنے کے لیے میں نے اپنے ایک پرانے ساتھی حاجی صادق صاحب سے مشورہ کیا کہ ہم حضرت شیخ کے ہاتھ پر بیعت کر لیتے ہیں۔ ان دنوں حضرت عام بیعت نہیں فرمایا کرتے تھے۔ بہرکیف کسی کی سفارش پر حضرت نے فرمایا کہ آج یا کل مغرب کے بعد آجائیں۔ بے چینی و بے قراری عروج پر تھی۔ سوچا کہ کل نہیں، آج ہی جانا ہے۔ چنانچہ مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر ہم دونوں ساتھی حضرت کی خدمت اقدس میں پہنچے۔ دروازے پر دستک دی تو حضرت ؒ کے صاحبزادے مولانا عبد القدوس خان قارن مدظلہ العالی نے دروازہ کھولا۔ ہمیں حضرت نے اپنے کمرے میں بٹھایا اور فرمایا کہ آپ لوگ بیٹھیں، میں ذرا وضو تازہ کر لوں ۔ پھر حضرت نے بیعت فرمایا اور کچھ تسبیحات پڑھنے کے لیے حکم فرمایا جس کو احقر نے بحمد اللہ تعالیٰ ساری زندگی میں ایک مرتبہ بھی قضا نہیں کیا ۔
آپ کی توجہ کی برکت سے احقر نے ۱۹۵۲ ء سے ۱۹۸۲ء تک حضرت کے پیچھے نمازیں اور جمعے پڑھے ہیں۔ جو مسئلہ آپ بیان فرماتے تھے، اس پر حضرت کو باعمل پایا۔ ۱۹۸۲ء میں ملازمت کے سلسلے میں اپنے خاندان کے ساتھ حضرت کی اجازت سے گوجرانوالہ آگیا، لیکن ۱۹۸۲ء سے ۱۹۹۹ء تک جمعہ کی ادائیگی کے لیے اپنے شیخ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوتا رہا ہوں۔
۱۹۸۲ء میں، میں نے ایک خواب دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ جارہا ہے اور اس کا ایک پایہ میرے کندھے پر ہے۔ جب اس کی تعبیر حضرت سے پوچھی تو آپ ؒ نے فرمایا کہ جس شخص نے یہ خواب دیکھا ہے، وہ سنت اور شریعت کو زندہ کرنے والا ہوگا۔ پھر ۱۹۸۳ء میں مجھے بذریعہ خواب حضرت کے مقام کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ خواب میں حضرت قاضی نور محمد صاحب قلعہ دیدار سنگھ والے، جو حضرت کے پیر بھائی تھے، تشریف لائے۔ فرمانے لگے کہ آپ کے شیخ مکرم مقام عبدیت پر فائز ہیں اور مقامِ عبدیت ولایت کا سب سے بڑا درجہ ہے، اور حضرت سید علاؤ الدین جیلانی ؒ دارالسلام والے مقام محبو بیت پر فائز ہیں اور آپ کو ان بزرگان کے مقامات تمہاری والدہ کی دعا کی وجہ سے بتائے گئے ہیں۔ جب میں نے یہ خواب حضرت کو بوہڑ والی مسجد میں بتایا تو آپ ؒ نے اپنا سرمبارک جھکایا اور فرمایا کہ بھائی، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا بندہ بنائے۔
میں نے اپنی زندگی میں جتنی احادیث کا مطالعہ کیا ہے، ہر حدیث پر اپنے شیخ کو عمل کرتا ہوا پایا ہے۔ میں نے ہمیشہ زندگی اور دین کے شعبہ میں حضرت کو بلند مرتبہ اور استقامت پر دیکھا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے شیخ کو علیین میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ہمیں ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ شیخ مکر م کی برکت سے ہمارا خاتمہ بھی ایمان پر ہو۔ (آمین یا رب العالمین)
صوفی عطاء اللہ
(مرید خاص حضرت شیخ الحدیثؒ ۔ گوجرانوالہ)
(۹)
غالباً ۱۹۸۸ کی بات ہے۔ میں آٹھویں کلاس میں زیرِ تعلیم تھا۔ میرے ایک دوست حافظ احسان اللہ الحسینی نے مجھے کہا کہ جامعہ عثمانیہ مریالی میں سالانہ جلسہ ہے، ہم بھی جائیں گے۔ جلسہ میں پہنچے اور مختلف علماے کرام کی تقریریں سنیں۔ اختتام جلسہ پر باہر کتابوں کا ایک اسٹال لگا ہوا تھا۔ ہم مختلف کتابیں دیکھنے لگے۔ اس زمانہ میں اکثر جلسوں میں قادیانیت کی شیطنت اور گمراہی کے پردے چاک ہوتے تھے اور ختمِ نبوت کے موضوع پر تقاریر ہوا کرتی تھیں۔ مسیلمہ کذاب اور اس کی ذریت کے خلاف نفرت کا اظہار ایمان کی علامت تھا۔ کتابوں کے اسٹال پر جو کتاب مجھے پسند آئی، وہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ کی کتاب ’’ختمِ نبوت‘‘ تھی۔ اس سے قبل بندہ اس نام سے واقف نہ تھا۔ بہرحال میرے لیے نیک فال تھی کہ سب سے پہلی کتاب جو میں نے خریدی، وہ ختمِ نبوت پر تھی اور حضرت شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی تھی۔ گویا یہ میری لائبریری کی ابتدا تھی۔
اس کتابی تعارف نے دل میں محبت پیدا کر دی۔ آہستہ آہستہ یہی نام عقیدت سے بڑھ کر آئیڈیل شخصیت کا روپ دھار گیا۔ محبت کب آرام سے بیٹھنی دیتی ہے۔دل ملاقات اور آپ کی صورت و سیرت دیکھنے کے لیے بے تاب ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی کہ یا اللہ کوئی ایسی صورت پیدا فرما دے کہ ذوق و شوق کو تسکین ملے۔ ہمارے ایک دوست مولانا احمد حسن صاحب نے نصرۃ العلوم میں دورۂ حدیث کی جماعت میں داخلہ لیا۔ انہی دنوں میں ہمارے ایک دوسرے دوست اور کرم فرما حضرت مولانا محمد صابر صاحب مجھے اور حافظ احسان اللہ الحسینی کو گوجرانوالہ لے گئے۔ مدرسہ پہنچنے پر دل میں عجیب و غریب خوشی کے جذبات تھے کہ آج ہمارا مدعا پورا ہونے لگا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ مسجد نور کے برآمدہ میں ایک باوقار اور پُر کشش شخصیت جلوہ افروز ہے۔ ارد گرد طلبہ کا مجمع ہے۔ ایک طالب علم حدیث پڑھتا ہے، پھر حضرت اس کی تشریح فرماتے ہیں۔ تشریح کبھی مختصر ہوتی ہے اور کبھی کچھ دیر بولنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہمارے دوست نے بتایا کہ یہی حضرت شیخ ہیں۔ سبق کے اختتام پر جب آپ دوبارہ اپنی نشست پر آئے تو ہم نے مصافحہ کی سعادت حاصل کی۔ خوشی و مسرت کی وجہ سے جسم میں خوشی کی لہریں اٹھتی تھیں کہ کہاں ہم اور کہاں یہ نابغہ روزگار شخصیت ، اکابر کے معتمد جن کی اللہ جل شانہ نے زیارت نصیب کرائی۔
گھر سے روانگی کے وقت خالہ نے فرمایا تھا کہ میرے لیے تعویذ لے کر آنا، کیونکہ گھر میں جھگڑا رہتا ہے۔ میں نے حضرت شیخ کی خدمت میں عرض کیا کہ خالہ کے گھر میں اکثر جھگڑا رہتا ہے، کوئی تعویذ دے دیں۔ بڑے ظریفانہ انداز میں فرمایا، بھئی بڑے اچھے لوگ ہیں کہ جھگڑا کرتے ہیں۔ حضرت کے پیارے پیارے الفاظ کی چاشنی آج بھی محسوس کرتا ہوں۔ آپ نے تعویذ دیا۔ تعویذ کو بند کرنے کا ایک مخصوص انداز تھا جو کسی دوسری جگہ میں نے نہیں دیکھا۔ اس تعویذ کو دوبارہ کھولنا ہر ایک کا کام نہ تھا۔ میں نے کھولنے کی کوشش کی تو تعویذ کے پھٹ جانے کا اندیشہ ہوا، لہٰذا اپنا ارادہ ترک کردیا۔
دوسری مرتبہ بھی بندہ حضرت مولانا قاری محمد صابر صاحب کی معیت میں گکھڑ بغرض زیارت گیا۔ ان دنوں حضرت کے خادم ڈیرہ اسمٰعیل خان کے ایک ساتھی تھے جن کا اب نام یاد نہیں رہا۔ آپ کے کمرے میں بیٹھے، چائے اور مٹھائی پیش کی گئی۔ حال احوال ایسے پوچھتے تھے جیسے برسوں سے واقف ہوں۔ ماں باپ، بہن بھائی کا پوچھتے اور کام وغیرہ کے بارے میں تفصیلی حالات معلوم کرتے۔ ملاقات کے دوران میں مولانا قاری محمد صابر نے حضرت شیخ ؒ سے سوال کیا کہ حال ہی میں حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئ صاحب نے فتویٰ دیا ہے، جو ضربِ مؤمن میں شہ سرخی سے شائع ہوا تھا، کہ ہندوستان کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہے۔ حضرت ؒ نے فوراً فرمایا: ’’مفتی صاحب کو اس فتویٰ سے رجوع کرنا چاہیے۔ ہندوستان میں بڑے بڑے علما موجود ہیں، وہ وہاں کے حالات کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں‘‘۔
تیسری ملاقات کچھ عرصہ قبل تین چار ساتھیوں کے ہمراہ ہوئی۔ اس سفر کی غرض اجازت حدیث لینا اور اکابر کی زیارت تھی۔ لاہور میں جامعہ مدنیہ جدید میں جانا ہوا۔ ہم نے گوجرانوالہ کے سفر کا ارادہ ظاہر کیا تو ایک ساتھی نے بتایا کہ حضرت شیخ ؒ کے پوتے اور حضرت مولانا عبدالحق خان بشیر صاحب کے صاحبزادے یہاں زیرِ تعلیم ہیں۔ ان سے ملاقات کی۔ انہوں نے اپنا نام ممتاز الحسن خان بتایا اور کہا کہ حضرت نے مجھے ’’حدائق الحنفیہ‘‘ کے دو نسخے لانے کو کہا تھا۔ آپ جارہے ہیں تو یہ ایک نسخہ میری طرف سے پیش کردیں، دوسرا مل گیا تو وہ بھی حاضر خدمت کروں گا۔ آپ اس وقت آپ صاحبِ فراش تھے۔ ہم حیرا ن تھے کہ اس حال میں بھی کتابی ذوق زندہ اور قائم ہے۔ سبحان اللہ! حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ؒ کی یاد تازہ کردی۔ جب ان سے انتہائی بڑھاپے کی حالت میں تلامذہ نے عرض کیا کہ حضرت اب ایسا کون سا مسئلہ باقی ہے کہ جس کی تحقیق کرنا ہے؟ ہمارے ذمہ لگائیں، خود کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں؟ تو فرمایا ’’یہ ایک روگ ہے‘‘۔ بہرحال ملاقات کے دوران ہم نے ممتاز الحسن خان صاحب کا ہدیہ پیش کیا تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا ’’میں نے تو دو نسخے کہے تھے‘‘۔ مولانا احسان اللہ احسان نے عرض کی کہ حضرت دوسرا نسخہ مل جائے گا تو وہ بھی آپ کو بھیجیں گے۔ فی الحال ان کو ایک ہی نسخہ ملا ہے۔ ہم سب نے اپنے لیے دعا کرائی اور اجازتِ حدیث حاصل کی جو اس سفر کا بڑا مقصد تھا ۔
کچھ عرصہ سے ہم پھر آپ کی زیارت کا پروگرام ترتیب دے رہے تھے کہ آپ ؒ کی وفات کی خبر آ گئی اور آناً فاناً پورے ملک میں پھیل گئی۔ پروانے شمع کے گرد جمع ہونے لگے۔ آپ کی وفات پر ہر انسان سوگوار تھا ۔ ہر ایک انسان کی آواز گلو گیر تھی۔ جنازہ گاہ میں اشکوں کا سماں تھا۔ اس مجمع کو دیکھ کر مولانا ابو الکلام آزاد ؒ کی وفات پر شورش کشمیری ؒ کے کہے ہوئے شعر زباں پر آنے لگے
یہ کون اٹھا کہ دیر و کعبہ شکستہ دل خستہ گام پہنچے
جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم خواص پہنچے عوام پہنچے
تیری لحد پہ خدا کی رحمت تیری لحد کو سلام پہنچے
تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقین نہیں ہے
حضرت مولانا ڈاکٹر خالد محمود نے جنازہ کے موقع پر اپنے کلمات میں فرمایا کہ وہ سرفراز تھے، اس شہر میں سرفراز آئے تھے اور سرفراز ہی گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائیں ۔ بندہ اپنی ناقص رائے کے مطابق عرض کرتا ہے کہ جیسے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا ؒ اپنے بزرگوں کے لاڈلے تھے، ایسے ہی حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ؒ بھی اپنے اکابر کے لاڈلے تھے ۔اکابر کا جو اعتماد ان کے حصے میں آیا، ان کے معاصرین میں شاید اس کی مثال نہ ہو۔ انہوں نے بھی اکابر کے اس اعتماد کی لاج رکھی۔ فرماتے تھے کہ ’’پچاس سال ہوگئے مجھے پڑھاتے ہوئے، مگر کبھی اجتہاد کا دعویٰ نہیں کیا ‘‘۔
مولانا محمد اسلم معاویہ
(ڈیرہ اسماعیل خان)
(۱۰)
میں نے دو سال مادر علمی جامعہ نصرۃ العلوم میں اپنے شیخ حضرت شیخ الحدیث والتفسیر نورا للہ مرقدہ کے قدموں میں بیٹھ کر شرف تلمذ حاصل کیا ہے۔ الحمد للہ اس دوران ہمیشہ یہی کوشش کرتا کہ استاد محترم نوراللہ مرقدہ کی جوتی مبارک کو سیدھا کرنے کا اور اٹھانے کی خدمت کا موقع مل جائے۔ استاد محترم کی گاڑی مدرسہ میں داخل ہوتی تو طلبہ اپنے شیخ اور استاد، اس دور کے قطب الاقطاب کی زیارت کی خاطر گاڑی کی طرف دیوانہ وار دیکھنے لگ جاتے۔ اس موقع پر استاد مکرم مولانا عبدالقیوم ہزاروی مدظلہ کی والہانہ محبت دیدنی ہوتی تھی کہ حضرت شیخ کی آمد کے وقت مدرسہ کے صحن میں گھومتے رہتے تھے۔ جب حضرت شیخ مدرسہ میں تشریف لے آتے اور مولانا ہزاروی ان کی زیارت کر لیتے، تب ہی اپنے کمرے میں تشریف لے جاتے۔ استاد مکرم ؒ گاڑی سے اتر کر سیدھا مسجد کی طرف روانہ ہو جاتے۔ سب سے پہلے جو قدم مبارک مسجد میں آتا، وہ دایاں پاؤں ہوتا اور مسنون دعا پڑھ کر مسجد میں داخل ہو جاتے۔
ایک مرتبہ ۹؍ذوالحجہ ۱۴۲۷ھ کو جامعہ سیدہ اسماء بنت ابی بکرؓ کی تقریب سنگ بنیاد کے موقع پر احقر نے استاد محترم ؒ حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ اور فقیہ العصر مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی دامت برکاتہم اور مولانا محمد ایوب صفدر کو دعوت دی۔ ہم ان تمام حضرات کو گوجرانوالہ سے لے کر گوٹریالہ ضلع گجرات کے لیے روا نہ ہوئے تو میں نے درخواست کی کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب سے دعا بھی کروانی ہے اور مدرسہ کی سرپرستی فرمانے کی درخواست کرنی ہے۔ ہم گکھڑ میں حضرت امام اہل سنت کے گھرپہنچے، حضرت کی زیارت ہوئی اور استاد محترم مولانا زاہدالراشدی صاحب نے فرمایا کہ ہمارا گوٹریالہ میں مدرسہ کا سنگ بنیاد رکھنے کا پروگرام ہے، وہاں جارہے ہیں، آپ دعا فرما دیں۔ آپ نے دعافرمائی اور مدرسہ کی سرپرستی بھی قبول فرمائی۔ ملاقات کے بعد ہم روانہ ہوئے تو میرے دونوں ساتھی محترم بھائی شکیل احمد اور چودھری محمد بوستان آف گوٹریالہ نے کہا: آپ نے کیسی عظیم ہستی کی ہمیں زیارت کروائی ہے۔ ایک تو ہماری ساری تھکاوٹ دور ہوگئی ہے اور دوسرے حضرت امام اہل سنت کی زیارت کر کے ہماری زندگی بدل گئی ہے۔ چودھری محمد بوستان نے تواسی وقت اپنے چہرے پر سنت رسول کو سجانے کا عزم مصمم کر لیا اور آج الحمد للہ ان کے چہرے پر سنت رسول سجی ہوئی ہے۔ یہ سب سید ی مرشدی میرے شیخ کا فیض ہے۔
استاد مکرم حضرت مولانا زاہدالراشدی تلونڈی بھنڈراں ضلع ناروال میں تشریف لائے تو میں ملاقات کی غرض سے خدمت میں حاضر ہوا۔ خیریت وعافیت پوچھنے کے بعد میں نے عرض کیا، استاذی حضرت شیخ کی طبیعت کیسی ہے؟ فرمایا: استاذمحترم ٹھیک ہیں۔ پھر فرمایا کہ استاد محترم حضرت شیخ الحدیث نوراللہ مرقدہ گکھڑ میں پنجابی زبان میں درس قرآن دیا کرتے تھے۔ ان کو پنجابی سے اردو زبان مولانا محمد نواز بلوچ منتقل کر تے ہیں اور پھر میں اردو زبان چیک کرتا ہوں۔ جہاں پر کچھ غلطی کا احساس ہوتا ہے، اس پر نشان لگا دیتا ہوں، پھر حضرت شیخؒ کی خدمت میں پیش کر کے پوچھ لیتا ہوں۔ ایک مقام پر حضرت شیخ نے فرمایا کہ مکہ مکرمہ سے طائف کی مسافت تین میل ہے۔ میں استادمکرم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ میں نے عرض کی کہ آپ نے مکہ مکرمہ سے طائف کی مسافت تین میل بتائی ہے، لیکن یہ مسافت تین میل سے زیادہ ہے۔ حضرت شیخ ؒ نے فرمایا نہیں، تین میل ہے۔ فرمایا کہ جلالین شریف لاؤ۔ میں جلالین شریف اٹھا کر لایا تو فرمایا، فلاں صفحہ نکالو۔ میں نے وہ صفحہ نکالا تو فرمایا، فلاں حاشیہ دیکھو۔ میں نے جب مطلوبہ حاشیہ دیکھا تو اس میں لکھا تھا کہ مکہ مکرمہ سے طائف کی مسافت ثلاثۃ امیال ہے۔ ساتھ ہی مجھے فرمایا کہ میں نے پچاس سال قبل جلالین شریف کا مطالعہ کیا تھا۔ عمر کے اس حصے میں حافظہ کایہ حال کہ پچاس سال قبل دیکھی ہوئی کتاب کا صفحہ اور حاشیہ تک یادہے۔
احقر ایک مرتبہ جمعہ کے دن حضرت امام اہل سنت کی خدمت میں محض زیارت کی غرض سے حاضر ہوا۔ نماز عصر جامع مسجد امام اہل سنت میں ادا کی۔ نماز کے بعد اپنے شیخ کے مکان کی طرف روانہ ہوا۔ اس وقت کچھ احباب حضرت شیخ ؒ کی زیارت اور ملاقات کے لیے پہلے ہی موجود تھے۔ میں نے حضر ت شیخ ؒ کے ساتھ مصافحہ کیا۔ استاد محترم نے فرمایا، مولانا آپ کون ہیں؟ میں نے عرض کی کہ آپ کا شاگرد بھی ہوں اور مرید بھی۔ فرمایا، کیا کرتے ہو؟ میں نے عرض کی کہ پہلے مسجد میں امام وخطیب تھا اور ساتھ حفظ قرآن مجید کی تعلیم بھی دیتا تھا۔ اب سرکاری نوکر ی کے لیے درخواست دی ہوئی ہے۔ پاس بیٹھے ہوئے ایک دوست نے کہا کہ استاد محترم سے کہیں کہ دعا فرما دیں۔ استاد محترم میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ میرے استاد تھے، حضرت مولانا عبدالقدیر کیمبل پوریؒ ۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے پوچھا کہ کیا کررہے ہو؟ میں نے کہا کہ فاضل عربی کا کورس کر رہا ہوں۔ استاد محترم نے فرمایا : ہم نے تمہیں دین کی تعلیم اس لیے دی ہے کہ تم دین اسلام کی خدمت کروگے، اور تم سرکار کے نوکر ہو رہے ہو! دو سال تک استاد محترم مولانا عبدالقدیر ؒ مجھ سے ناراض رہے۔ دوسال کے بعد میں استاد محترم ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو عرض کیا کہ استاذی! اب تو میں مدرسہ میں دین اسلام کی تعلیم دینے میں مصروف ہوں، اب تو آپ راضی ہو جائیں۔ تب استاد محترم راضی ہوئے۔ جونہی حضرت شیخ الحدیث ؒ نے اپنے استادمحترم کا واقعہ مکمل کیا، میں ان کے مقصد کو سمجھ گیا۔ میں نے عرض کی کہ استاذی، آپ دعا فرما دیں۔ اب ان شاء اللہ دین ہی کام اورخدمت کروں گا۔
مورخہ ۷؍ اپریل ۲۰۰۹ء کو احقر حضرت مولانا عبدالغفار تونسوی کے ساتھ حضرت شیخ الحدیث ؒ کی ملاقات کی غرض سے حاضر ہوا۔ مولانا تونسوی نے مصافحہ کیا تو حسب عادت شریف فرمایا، مولانا آپ کون ہیں؟ تونسوی صاحب خاموش کھڑے رہے تو میں نے عرض کی کہ حضرت مولانا محمد عبدالغفار تونسوی۔ حضرت تونسوی دامت کاتہم کا نام نامی سنتے ہی فرمایا، مولانا کا کیا حال ہے؟ تو صاحبزادہ تونسوی صاحب نے فرمایا کہ ٹھیک ہیں۔ حضرت امام اہل سنت نے فرمایا کہ تونسوی صاحب مجھ سے بارہ سال چھوٹے ہیں۔ تھوڑ ی دیر کے بعد صاحبزادہ مولانا عزیز الرحمن صاحب شاہد کمرے میں داخل ہوئے تو حضرت شیخ الحدیث صاحب نے ان کو حضرت صاحبزادہ کا تعارف کروایا کہ یہ مولانا عبدالستار تونسوی کے بیٹے مولانا عبدالغفار تونسوی ہیں۔ پھر استاد محترم نے حضرت صاحبزادہ تونسوی کی طرف متوجہ ہوکر وہ قیمتی جملہ ارشاد فرمایا جس کی قدر صاحب عظمت لوگ جانتے ہیں۔ فرمایا مولانا عبدالستار تونسوی علما کی ناک ہیں۔ اس کے بعد صاحب زادہ صاحب نے حضرت مولانا محمد عبدالستار تونسوی دامت برکاتہم کی طرف سے ہدیہ پیش کیا جس کو امام اہل سنت ؒ نے نہایت ہی خوشی سے قبول فرمایا اور فرمایا کہ حضرت کو میرا سلام کہنا۔ یہ میری استاد محترم حضرت امام اہل سنت کے ساتھ آخر ی ملاقات ثابت ہوئی۔
اللہ تعالیٰ حضرت امام اہل سنت نوراللہ مرقدہ کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین بحرمۃ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
مولانا عبدالرشید انور تونسوی
(گوٹریالہ، گجرات)
(۱۱)
حضرت امام اہل سنت ؒ کی پہلی دفعہ زیارت اور آپ کا بیان سننے کی سعادت پندرہ سال قبل جامعہ فاروقیہ شیخوپورہ میں تکمیل مشکوٰۃ کے موقع پر حاصل ہوئی۔ یوں تو مدیر جامعہ فاروقیہ حضرت مولانا محمدعالم دامت برکاتہم کا حضرت امام اہل سنت کے ساتھ دیرینہ تعلق تھا جس کی بنا پر حضرت ؒ کی طرف سے دیگر سینکڑوں اداروں اور تنظیموں کی طرح جامعہ فاروقیہ کی سرپرستی بھی ہمیشہ رہی۔ جامعہ فاروقیہ میں ۱۹۷۶ء میں جامعہ کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ہی افتتاحی اسباق حضرت امام اہل سنت ؒ نے پڑھائے جس کی برکت سے آج سینکڑوں طلبہ وطالبات اس چشمہ سے سیراب ہو چکے اور ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں وقتاً فوقتاً امتحان کی غرض سے بھی حضرت ؒ تشریف لاتے رہے۔
بندہ کو جس دور میں حضرت ؒ کا پہلاخطاب سننے کی سعادت حاصل ہوئی، یہ بندہ کی تعلیم کا ابتدائی سال تھا۔ خیال تو یہ تھا کہ حضرت جو گفتگو فرمائیں گے، وہ ہم جیسے ابتدائی طلبہ کی سمجھ میں کہاں آئے گی، لیکن جب بیان شروع ہوا تومجمع میں کوئی فرد، کسی طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص اس علم کے سمندر سے فیض یاب ہونے سے اپنی کم علمی کی وجہ سے محروم نہ تھا۔ حضرت نے مجمع اور افراد کی رعایت کرتے ہوئے دیگر علمی ابحاث کے ساتھ ساتھ روز مرہ پیش آنے والے ضروری مسائل انتہائی سادہ اور عام فہم طریقہ پر بیان فرمائے۔ کم علمی کے ساتھ اس وقت کم عمری کا زما نہ بھی تھا۔ چند باتیں پھر بھی ذہن پر نقش ہوکر رہ گئیں۔ آپ نے طہارت وصفائی کی اہمیت وضرورت پر درس دیتے ہوئے فرمایا کہ ناخنوں کو بڑھانا نہیں چاہیے، کیونکہ ان میں میل کچیل جمع ہوجاتی ہے۔ پھر آدمی انہیں میلے ہاتھوں سے کھانا کھائے یا اپنے رب کی دربار میں اسی میل کچیل کے ساتھ چلا آئے، یہ مسلمان کی شان کے لائق نہیں۔ دوسرا آپ نے عورتوں کے متعلق فرمایا کہ ناخن پالش لگاکر وضو کرتی ہیں، جبکہ ایسا وضو اور غسل درست نہیں۔ اس کے علاوہ باریک دوپٹے میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا، کہ ستر پوشی کا حکم پورا نہ ہونے کی وجہ سے نماز ادا نہیں ہوتی۔
آپ کی ’’انفع للناس‘‘ کی شان آپ کے بیان سے واضح ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی ساری زندگی تدریس، تحریک جہاد، سیاست اور تحریر کے ذریعے حق کی طرف دعوت دیتے ہوئے انفعہم للناس کا نمو نہ تھی۔ آپ نے جس سے بھی حق کے لیے اختلاف کیا تو طریق اختلاف پر بطور خاص توجہ دی کہ اختلافی دلائل جہاں مخاطب کے لیے مسکت ہوں، وہیں نفع بخش بھی ہوں۔ آپ نے مریض سے نفرت پھیلانے کی بجائے مرض کی خاتمہ کی طرف زیادہ توجہ فرمائی۔ آج ہمارے ہاں آپ کی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے اور اظہار تصلب فی الدین والمسالک کا تذکرہ کرتے ہوئے مختلف مسالک پر آپ کے رد کو بطور سند پیش کیا جاتا ہے، مگر طریق اختلاف سے عموماًرو گردانی کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں اختلاف فساد تک پہنچ جاتا ہے جو بہرحال مذموم ہے۔
آپ نے جس طریق پر اختلاف کیا،اس کی ایک مثال ذکر کرنا چاہتاہوں۔ مولانا اللہ وسایا مدظلہ بیان فرماتے ہیں کہ تحریک ختم نبوت کے ز مانہ میں گوجرانوالہ میں ایک ایسا مکتب فکر جو اکابر علماے دیوبند کو کافر کہتا ہے، اس کے ایک راہنما مولانا زاہدالراشدی صاحب کی سیاسی ترکیب سے گوجرانوالہ میں ختم نبوت کے متحدہ پلیٹ فارم کے امیر بنا دیے گئے۔ جب دیوبندی مکتب فکر سے متعلق لوگوں کو ان کے امیر بنائے جانے کا علم ہوا تو وہ حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ؒ کے پاس گئے اور عرض کی کہ کیا ہم اپنے اکابر کو کافر قرار دینے والوں کی زیر قیادت کام کریں؟ حضرت مولانا ؒ نے جواب میں فرمایاکہ ہاں، انہی کے ساتھ کام کرو۔ جب وفد نے دوبارہ یہ عرض دہرائی تو ارشاد فرمایا کہ جاؤ، ان عالم کے ساتھ کام کرو۔ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی خاطر اپنے اکابر کی عزت کو قربان کر دیا۔
اختلاف کے باوجود وسعت قلبی کا جوراستہ آپ نے اپنایا، یہ اسی کا نتیجہ تھاکہ آپ کے جنازے میں اور جنازے کے بعد تعزیت کرنے والوں میں صرف آ پ کے نقطہ نظر کے حامی ہی نہیں بلکہ بلاتفریق مسلک تمام مکاتب فکر کے نامور علما اور شخصیات شامل تھیں جس کی تفصیلات حضرت مولانا زاہدالراشدی نے روزنامہ اسلام لاہور میں شائع ہونے والے کالم میں بیان فرمائی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ اختلاف کے باوجود آپ نے مخاطب کو سمجھانے کی غرض اور اس کے نفع کو سامنے رکھا، چنانچہ فکری اختلاف کے باوجود ایسی وسعت قلبی کی جھلک آپ کے خاندان کے علما اور ’’الشریعہ‘‘ میں واضح طورپر دیکھی جا سکتی ہے۔
مولانا عبدالمالک طاہر
(مدرس جامعہ فاروقیہ شیخوپورہ)
(۱۲)
۵؍ مئی ۲۰۰۹ء کو حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کی جدائی نے عالم اسلام کی سب سے بڑی علمی لائبریری گرا دی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یادوں کی بستی میں شیخ صدیوں زندہ رہیں گے۔ حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کی وفات پر حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب نے ایک جملہ لکھا تھا کہ ’’آج تو قاسم وامداد سب ہی مرتے ہیں‘‘۔ حضرت شیخ رحمہ اللہ پر بھی یہی جملہ صادق آتا ہے۔
میری حضرت سے سب سے پہلی ملاقات ۱۹۸۰ء سے پہلے ہوئی۔ بندہ دار العلوم حقانیہ میں مدرس تھا۔ ہم حضرت کے پاس گکھڑ گئے اور رات بھی شیخ کے گھر میں گزاری۔ صبح حضرت کی امامت میں نماز پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ نماز کے بعد حضرت نے مسند احمد کا درس دیا۔ اس کے بعد ہم گکھڑ سے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ تک حضرت کے ساتھ گئے۔ راستے میں حضرت نے پوچھا کہ کیا پشاور کے کسی کتب خانے سے ابن فورک کی کتاب ’’مشکل الحدیث‘‘ کا کوئی اچھا نسخہ مل جائے گا؟ ساتھ ہی فرمایا کہ یہ کتاب سب سے پہلے علامہ ابو الوفاء افغانی نے حیدر آباد دکن سے شائع کی تھی۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ کتاب حال ہی میں اکوڑہ خٹک سے شائع ہوئی ہے۔ حضرت یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ مجھے کب تک مل جائے گی؟ ایک ساتھی نے کہا کہ آج ہی آپ کو مل جائے گی جس پر حضرت مزید خوش ہوئے۔ خوشی کی حالت میں ان کا چہرہ چمکنے لگتا تھا۔
شیخ کتابوں کے معاملے میں اپنے دور کے صاحب ’’کشف الظنون‘‘ تھے۔ صرف جمع کرنے کا شوق نہیں تھا، پڑھنے کے بھی عاشق تھے۔ بغیر حوالے کے قدم نہیں اٹھاتے تھے۔ تحریر میں ہر مصنف کی سن پیدایش اور سن وفات کا ذکر نمایاں ہوتا ہے اور یہ التزام وہی شخص کر سکتا ہے جو تاریخ اور اسماء الرجال سے گہرا شغف رکھتا ہو۔
۱۹۹۶ء میں بنوں میں فقہی کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ حضرت کو دعوت دینے کے لیے کانفرنس کے بانی مولانا سید نصیب علی شاہ صاحب مرحوم کے ہمراہ میں بھی حاضر ہوا۔ حضرت بہت خوش ہوئے اور مجوزہ عنوانات پر ایک نظر ڈالی۔ پھر فقہی کانفرنس کے بارے میں جو تبصرہ فرمایا، وہ آب زر سے لکھنے کے قابل تھا، لیکن افسوس کہ اس وقت محفوظ نہ کیا جا سکا۔
اللہ تعالیٰ حضرت کی قبر کو منور فرمائیں اور ان کی علمی یادگار مدرسہ نصرۃ العلوم کو دن دگنی اور رات چگنی ترقی عطا فرمائے۔
مولانا قاری محمد عبد اللہ
(سینئر نائب امیر جمعیت علماے اسلام صوبہ سرحد)
(۱۳)
یہ ۱۹۷۷ء کا واقعہ ہے۔ تحریک نظام مصطفی پورے ملک میں عروج پر تھی۔ ہر جگہ حکومت کے خلاف جلسے اور جلوس منعقد ہو رہے تھے۔ اسی سلسلے میں گوجرانوالہ میں گکھڑ منڈی کی جامع مسجد میں جمعے کی نماز کے بعد ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا جس کی قیادت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر فرما رہے تھے۔ میں بھی اس وقت گکھڑ میں ہی مقیم تھا اور اس جلوس میں شریک تھا۔ جلوس جی ٹی روڈ پر ایک مقام پر پہنچا تو پولیس نے روک لیا اور سڑک پر ایک سرخ لکیر کھینچ کر شرکاے جلوس کو دھمکی دی کہ جو بھی ریڈ لائن کو عبور کرے گا، اسے گولی مارنے کا حکم ہے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے اپنے دست مبارک سے میری پیٹھ تھپکی اور اپنے مخصوص انداز میں فرمایا: ’’سنگیا، اللہ دا ناں بلند کر‘‘۔ میں نے نعرۂ تکبیر بلند کیا، شرکاے جلوس نے بیک آواز یہ نعرہ دہرایا اور جلوس حضرت کی قیادت میں ریڈ لائن عبور کر گیا۔ تھوڑا آگے چل کر پولیس نے پھر ایک جگہ ریڈ لائن لگا دی۔ حضرت نے پھر میری پیٹھ تھپکی اور فرمایا کہ ’’سنگیا، اللہ دا ناں بلند کر‘‘۔ میں نے پھر نعرۂ تکبیر بلند کیا، اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی اور جلوس ریڈ لائن کراس کر گیا۔ تیسری دفعہ پھر یہی ہوا اور حضرت شیخ الحدیث کے حکم پر میں نے نعرۂ تکبیر بلند کیا اور جلوس ریڈ لائن توڑ کر آگے بڑھ گیا۔ اب پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا اور لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔ حضرت شیخ الحدیث سمیت کئی لوگ گرفتار کر لیے گئے۔
۱۹۷۸ء کی بات ہے۔ حضرت شیخ الحدیث کا معمول تھا کہ بوہڑ والی مسجد میں روزانہ صبح کی نماز کے بعد درس دیا کرتے تھے اور درس سے فارغ ہوتے ہی مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے لیے روانہ ہو جاتے تھے۔ میں ان دنوں محلہ پیر عبد اللہ شاہ کی مکی مسجد میں امامت کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ ایک دن درس کے اختتام پر میں حضرت کو گوجرانوالہ کے لیے رخصت کرنے گیا۔ واپسی پر اپنی مسجد کی طرف جا رہا تھا کہ محلہ پیر عبد اللہ شاہ میں بریلویوں کی ایک مسجد میں بریلوی حضرات کے مناظر ضیاء اللہ قادری کو درس کے دوران حضرت شیخ کے متعلق نازیبا زبان استعمال کرتے ہوئے سنا۔ اس سے پچھلی رات بھی اسی مسجد میں جلسہ تھا جس میں بریلوی مقررین نے مسلک دیوبند اور خصوصاً حضرت شیخ الحدیث کے بارے میں نازیبا الفاط استعمال کیے تھے، لیکن رات کو ہی حضرت نے طلبہ کو منع فرما دیا تھا کہ کوئی طالب علم ان کے جلسے میں نہ جائے، کیونکہ یہ لوگ بے بنیاد باتیں کرتے ہیں اور طلبہ جذباتی ہوتے ہیں جس سے شر اور فساد پیدا ہونے کا امکان ہے۔ بہرحال جب میں حضرت کو رخصت کر کے وہاں سے گزرا تو ضیاء اللہ قادری کی نازیبا زبا ن سن کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور سیدھا بریلویوں کی مسجد میں داخل ہو کر اسٹیج پر جا کر اسے گریبان سے پکڑ لیا اور وہاں اچھا خاصا ہنگامہ ہو گیا۔ آخر طے ہوا کہ ضیاء اللہ شاہ نے اپنے درس میں جو الزامات لگائے ہیں، ان پر مناظرہ کیا جائے گا۔ اس سے اگلے دن مناظرے کا وقت مقرر ہوا۔ جب حضرت شیخ الحدیث کو میری اس حرکت کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اس کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، لیکن اب وہ وہاں چلا گیا ہے تو پھر مناظرہ بھی کرنا چاہیے۔ حضرت نے اپنی مسجد کے صدر مدرس مولانا غلام علی صاحب کو فرمایا کہ آپ مناظرہ کے لیے جائیں، چنانچہ مولانا غلام علی صاحب مقام مناظرہ پر گئے لیکن ضیاء اللہ قادری اور بریلویوں کے دوسرے علما میدان سے فرار ہو گئے اور مناظرے کے لیے نہیں آئے۔
قاری فیض الدین
(بنہ، الائی ۔ ضلع مانسہرہ)
(۱۴)
پانچ مئی بروزمنگل نماز فجرکے بعد مجھے اپنے چھوٹے بھائی اور سینئر صحافی محمد عبداللہ خالد کے ذریعے، جو گکھڑ منڈی میں مقیم ہیں، اطلاع ملی کہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحلت فرما گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ خبر سنتے ہی ایسا محسوس ہوا کہ جسم میں جان ہی نہیں رہی۔ دل ودماغ جسم کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ سکتہ کی کیفیت لگ رہی تھی اور جب موت کی حقیقت آشکار اہوئی تو آنکھوں سے آنسوؤں کا نہ رکنے والا سیلاب شروع ہو گیا۔ تقریباً ایک گھنٹہ اسی جگہ بیٹھے بیٹھے اپنے ماضی کے وہ دن یا د کرتا رہا جو اللہ تعالیٰ نے مولانا صاحب کی خدمت میں نصیب فرمائے تھے۔ یقیناًیہ میری خوش نصیبی تھی کہ جب تقسیم کے بعد والد صاحب گکھڑ منڈی میں آباد ہوئے تو ہمیں مولانا صاحب کی رفاقت نصیب ہوئی۔ والد صاحب جو کہ اسکول ٹیچر تھے، دین کی نسبت سے چند ہی دنوں میں حضرت کے بہت قریب آگئے۔ یہ والد صاحب کا تقویٰ ہی تھا جس کی وجہ سے ان کو حضرت کی مسجد بوہڑ والی کی انجمن کا ناظم بنادیا گیا۔ والد صاحب کے حضرت سے تعلقات کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت نے اپنی کتب میں والد محترم کا ذکر بڑی محبت سے کیا ہے۔
والد صاحب سے تعلقات اتنے قریبی ہوئے تو گھر کی خواتین، میری والدہ محترمہ اور خالہ جی (مولانا زاہدالراشدی کی والدہ) میں بھی آپس میں بہت پیار اور انس ہو گیا۔ مولانا زاہدا لراشدی چونکہ اس وقت بہت چھوٹے تھے اور حضرت کی مصروفیات بہت زیادہ تھیں، اس لیے میرے والد محترم نے حضرت کی گھریلو خدمت کے لیے میری ڈیوٹی لگادی۔ بازار سے کوئی چیز منگوانی ہوتی یا کوئی چھوٹا موٹاکام ہوتا تو حضرت اس بندہ ناچیز کو ہی یاد فرمایا کرتے تھے۔
حضرت کی رہایش اس وقت بٹ دری فیکٹری کی بالائی منزل پر ہوا کرتی تھی۔ اس فیکٹری کے مالک حاجی اللہ دتہ بٹ نہایت متقی اور مخلص انسا ن تھے۔ مجھے خدمت کی سعادت تیسری جماعت سے ساتویں جماعت رہی۔ بعدا زاں والد صاحب والد صاحب کا تبادلہ نت کلاں کے اسکو ل میں ہو گیا۔ حضرت کی شخصیت ایسی تھی کہ مجھے ان سے قلبی لگاؤ ہوگیا تھااور یہ تعلق آج تک نہ صرف میرے دل میں محسوس ہوتا ہے بلکہ ان کی محبت کے اثرات آج بھی اپنی روز مرہ زندگی میں محسوس کرتا ہوں۔
حضرت شیخ الحدیث کے اتنے قریب رہ کر جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ ان کی سادگی تھی۔ وقت کی پابندی کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ لوگ ان کو دیکھ کر واقعی اپنی گھڑیاں درست کرتے تھے۔ حضرت جی جامع مسجد بوہڑ والی میں درس قرآن وحدیث دیا کرتے تھے۔ مجال ہے کہ کبھی ایک منٹ بھی آگے پیچھے ہوا ہو۔ اس کے علاوہ اسکول میں بھی بعد نماز عصر درس ہواکرتاتھا اور وقت کی پابندی وہاں بھی قابل تقلید ہوا کرتی تھی۔
یقیناًجن لوگوں سے اللہ تعالیٰ نے کوئی بڑاکام لینا ہوتا ہے، ان میں ابتدائی زندگی سے ہی بلکہ بچپن ہی سے بزرگوں کے اوصاف نظر آنے لگتے ہیں۔ حضرت کے تقویٰ کا صرف ایک واقعہ لکھنا چاہوں گا۔ ایک دفعہ میں حضرت کے ساتھ تھا۔ جلدی میں ٹرین پر سوار ہوئے اور ٹکٹ نہ لے سکے۔ ہم گکھڑ منڈی سے گوجرانوالہ جا رہے تھے۔ گوجرانوالہ اتر کر حضرت نے فرمایا، بیٹے حفیظ الدین! یہ پیسے لو اور گوجرانوالہ سے گکھڑ کا ٹکٹ بنواکر پھاڑ دینا تاکہ سرکاری خزانہ پر بوجھ نہ پڑے۔ ان کی تمام عادات صحابہ کرام جیسی تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے سوفیصد پابند تھے۔
مجھے حضرت بچپن ہی سے بہت پیا رکرتے تھے۔ جب بھی بلاتے، بیٹا حفیظ الدین کہہ کر بلاتے۔ دوران علالت جب بھی حاضری کی سعادت حاصل ہوئی، فرماتے میرا بیٹا حفیظ الدین آیا ہے۔ حال احوال پوچھتے، دعائیں دیتے اور نصیحت فرماتے ۔
آج الحمد للہ انہی کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے دنیاوی پریشانیوں سے بچایا ہوا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی جدائی کے صدمہ کو سہنے کی توفیق ان کے تمام پس ماندگان اور مجھ خادم کو عطا فرمائے۔ آمین۔
صوفی حفیظ الدین
(میاں چنوں)
(۱۵)
اہل وفا کی ایک طویل فہرست ہے جو قیام انسانیت سے تادم حال اپنی قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کر گئے۔ انہی قلندرانہ، مجاہدانہ اور درویشانہ صفات وکمالات کے حامل امام اہل سنت مولانا سرفرازخان صفدر ؒ بھی اپنی لازوال قربانیوں کی بدولت اپنا نام اہل وفا کی فہرست میں شامل کروا چکے۔
تقریباً آخری آٹھ سال امام اہل سنت فالج کے دو بار شدید حملہ کی وجہ سے صاحب فراش ہو گئے۔ بیماری سے پہلے بھی اور بعد میں بھی آپ ؒ کے گھر پر اکثر مہمانوں کا رش رہتا۔ بہت سی شخصیات ملاقات اور زیارت کے لیے تشریف لاتیں۔ یقیناًآپ کی اولاد اور متعلقین میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے وقت پر اور اپنے اپنے انداز میں ان کی خدمت کی مگران میں سے بعض نے تو آپ کی زندگی کے آخری اورمعذوری کے دور میں خدمت کا حق ادا کر دیا۔ ان میں سے مفتی جمیل خان شہید، حاجی میر لقمان، ڈاکٹر فضل الرحمن، مو لانا نواز بلوچ ، قاری اسماعیل ، مولانا مدثر اور خاص طور پر جگر گوشہ امام اہل سنت مولانا منہاج الحق خان راشد تو قابل رشک ہیں۔ برادرم راشد نے جو نہی جوانی کے ایام میں قدم رکھا تو امام اہل سنت ؒ بیماریوں کے حملے کی زد میں آ گئے۔ قربان جاؤں ایسے فرزند پرکہ جس نے اپنی جوانی کا ایک ایک پل اپنے عظیم والد کی خدمت میں اس انداز سے گزارا کہ شاید اس کی مثال اس دور میں نہ مل سکے۔
آپ کو غسل دینا، کپڑے بدلنا، بستر بدلنا اور بہت سی دوسری خدمات میں راشد صاحب یکتا نظر آئے۔ میرا اکثر گکھڑ جانا ہوتا۔ جب سے حضرت صاحب فراش ہوئے، میں نے برادرم راشد کو رات کی نیند سے کوسوں دور دیکھا۔ جس طرح پورا دن خدمت میں گزرتا، اسی طریقے سے اپنی رات کی نیند بھی کئی سالوں تک اپنے عظیم والد کی خدمت میں قربان کی، بلکہ کبھی کبھی ایسا بھی دیکھا کہ برادرم راشد ہمارے گھر اچھڑیاں تشریف لاتے، لیکن جونہی پہنچتے اور ابھی پانی بھی نہ پیا ہوتا کہ گھر سے فون آجاتا کہ ابا جان بلا رہے ہیں۔ فوراً سارا پروگرام تبدیل کرکے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے۔ اللہ رب العزت برادرم راشد صاحب کو بھرپور جزاے خیر عطا فرمائے۔ یقیناً یہ عظیم سانحہ آپ کی تمام اولا د اور متعلقین اور خصوصاً برادرم راشد صاحب کے لیے بہت بڑا سانحہ ہے۔ اللہ رب العزت ان سب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
حافظ سہیل امین سواتی
(اچھڑیاں، مانسہرہ)
(۱۶)
یہ ۱۹۵۹ء کی بات ہے۔ میں گورنمنٹ نارمل سکول گکھڑ کی ایس وی کلاس میں پڑھتا تھا۔ ایس وی کلاس میں تو میٹرک اور ایف اے تک کی تعلیم کے لڑکے تھے مگر ساتھ او ٹی کلاس بھی تھی جس میں عربی فاضل اور دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ بھی تھے۔ ہمارے پرنسپل جناب عبدالحمید مرحوم تھے جو بڑے نیک اورعلم دوست انسان تھے۔ انھوں نے تمام طلبہ کے لیے لازم قرار دیا تھا کہ وہ پانچوں وقت کی نمازیں اسکول کی خوبصورت اور صاف ستھری مسجد میں باجماعت ادا کریں۔ جو لڑکا جماعت سے رہ جاتا تھا، اس کو سزا ملتی تھی۔ پرنسپل صاحب خود ہر نماز میں وقت سے پہلے مسجد میں پہنچ جاتے اور طلبہ کی حاضری چیک کرتے۔
عصرکی نماز کے بعد روزانہ درس قرآن ہوتا تھا جس کے لیے مولانا سرفرازخان صفدر گکھڑ شہر سے پیدل چل کر آتے تھے۔ ان کی رہایش او ر اسکول کی مسجد کے درمیان ڈیڑھ دو کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ مولانا کی وقت کی پابندی حیران کن حد تک مثالی تھی۔ وہ عین وقت پر آکرپہلے ہمیں نماز پڑھاتے اور پھر قرآن کا درس دیتے۔ جب نماز کی جماعت کھڑی ہونے میں دو تین منٹ باقی ہوتے تو وہ مسجد کے دروازے کے اندر داخل ہو رہے ہوتے تھے۔ یہ ان کا ہر روز کا معمول تھا۔ مجھے یاد نہیں کسی ایک دن بھی وہ تاخیر سے مسجد میں پہنچے ہوں۔ اگر کبھی ایسا ہوتا کہ نماز کا وقت ہوگیا اور مولانا مسجد میں نہیں پہنچے تو یقین تھا کہ اس دن وہ نہیں آرہے اور درس کا ناغہ ہو گا۔ ہم نے ایک سال وہاں گزارا۔ مولانا نے اس دوران چھٹی تو کی مگر مسجد میں تاخیر سے کبھی نہیں پہنچے کہ ان کا انتظار کرنا پڑاہو۔
آپ کا درس عالمانہ اور انداز حکیمانہ اور پر تاثیر ہوتا تھا۔ بات خوب ذہن نشین کر دیتے تھے۔ کبھی کوئی طالب علم سوال بھی کرتا جس کا تسلی بخش جواب دے کر مولانا سائل کو مطمئن کر دیتے۔ ایک دفعہ ایک طالب علم نے سورۃ المائدہ کی آیت ۱۵ ’قد جاء کم من اللہ نور وکتاب مبین‘ کے بارے میں پوچھا کہ یہاں نور سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ نے جواب میں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی نورانیت میں کوئی شبہ نہیں مگر یہاں نور اورکتاب دونوں الفاظ قرآن کے لیے آئے ہیں۔ جب طالب علم نے جواب سے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور مزید تفصیل پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ آگے ’یھدی بہ‘ میں ضمیر واحد اس پر شاہد ہے کہ نور اور کتاب ایک ہی چیز ہے، دوچیزیں نہیں ورنہ ضمیر تثنیہ (بھما) آتی۔ آپ کا جواب سن کر سب طلبہ مطمئن ہو گئے۔
ہم نے گکھڑ میں قیام کے دوران مولانا صاحب سے خوب استفادہ کیا۔ اتنے بڑے عالم سے بعد ازاں زندگی بھر سبقاًسبقاً درس لینے کا موقع نہ ملا۔ ایک دفعہ آپ سے پوچھا گیا کہ حضرت! سرفراز تو آپ کانام ہے، صفدر کا اضافہ کیسا ہے؟ اس پر آپ نے بتایا کہ میں دیوبند سے فارغ التحصیل ہوا تو میری کامیابی امتیازی تھی۔ میرے اساتذہ مجھ پر خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ تقسیم اسناد کی تقریب منعقد ہوئی۔ جب اسٹیج سے میرا نام پکارا گیاتو میں دور سے صفوں کو چیرتا ہوا آرہا تھا۔ میرے محترم استاد نے مجھے اس طرح آتے دیکھا توفرمایا، وہ سرفراز صفدر( صفوں کو چیرنے والا) آرہا ہے۔ پس اسی دن سے میں سرفراز صفدر ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اس قدر پایے کے عالم باعمل روز روز پیدا نہیں ہوتے۔
پروفیسر محمد یونس جنجوعہ
(قرآن اکیڈمی، ماڈل ٹاؤن، لاہور)
(۱۷)
حضرت امام اہل سنتؒ علم وعرفان کاپیکر تھے۔ آپ کے علم کی بڑے بڑے جیدعلما حضرات تعریف کرتے اور آپ کے علم کی مثال دیتے تھے۔ ایک مرتبہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوریؒ ٹاؤن کراچی کے سرپرست اعلیٰ حضرت مولانا عبدالرزاق سکندر مدظلہ نے بخاری شریف کا سبق پڑھاتے ہوئے آپ کے علم کے بارے میں فرمایا کہ اگرکسی نے حسین احمدمدنیؒ ثانی اوراس دور کاعظیم محدث اور محقق دیکھنا ہوتو وہ گکھڑ جا کر حضرت مولانا سرفرازخان صفدر کودیکھ لے۔ یہ الفاظ احقر نے اپنے کانوں سے سنے اور میری کاپی پر یہ الفاظ منقوش ہیں۔
بندہ نصرۃ العلوم میں تین سال تک تعلیم حاصل کرتا رہاہے۔ میرے مدرسہ میں داخل ہونے سے ایک سال قبل حضرت ؒ نے شدید علالت کی وجہ سے مدرسہ آنا چھوڑ دیا تھا۔ اسی سال بندہ حضرت ؒ کی زیارت کی غرض سے صبح سویرے مدرسے میں حاضر ہوا۔ ابھی امام اہل سنت تشریف نہیں لائے۔ تھوڑی دیر بعد حضرت ؒ کی گاڑی گیٹ کے اندر داخل ہوئی۔ جونہی حضرت گاڑی سے باہرنکلے، حضرت ؒ نے بآواز بلند سلام کے لیے صدا کی۔ پھر تھوڑا چل کر سیڑھیوں تک پہنچے اور قدم مبارک جوتے سے نکال کر مسجد میں داخل کیے ہی تھے کہ پھر سلام کی ایک صدا بلند کی۔ پھر تھوڑا سا آگے چلے تو طلبہ کو سلام کیا اور پھر جب تدریسی نشست کے قریب ہوئے اور بیٹھنے لگے تو پھر حضرت نے تھوڑا سا ہاتھ اٹھا کر تما م طلبہ کو سلام کیا۔ گویا تھوڑا سا فاصلہ طے کرتے ہوئے کم وبیش پانچ مرتبہ سلام کیا ۔ایک طالب علم سے جب میں نے سوال کیا تو اس نے بتایا کہ یہ حضرت ؒ کا روزانہ کامعمول ہے۔ اس کے بعد حضرت تفسیر قرآن کا سبق پڑھانے لگے ۔ اللہ اکبر! اس قدر عاجزی دیکھ کر میری آنکھیں نم ہوگئیں۔
عطاء الرحمن جالندھری
(گوجرانوالہ)
(۱۸)
حضرت مولانا محمد سرفرازخان صفدرؒ سے میری پہلی ملاقات آج سے تقریباً پچیس سال پہلے گکھڑ میں ان کی مسجد میں ہوئی۔ ملاقات کا بہانہ کچھ یوں بنا کہ میرے ایک دوست حافظ محمد اکرم کی چھوٹی بہن کو دورے پڑتے تھے۔ بیچاری بہت تکلیف میں تھی۔ عاملوں نے بتایا کہ ایک جن اس میں داخل ہوتا ہے توا س کو دور ہ ہوتا ہے۔ حافظ اکرم کو کسی شخص نے بتایا کہ مولانا محمد سرفراز خان صفدر سے بچی کو چیک کروائیں۔ حافظ محمد اکرم مجھے ساتھ لے گئے۔ ہم گکھڑ پہنچے تواتفاق سے اس روز حضرت گھر پر نہیں تھے۔ بتایا گیا کہ آج حضرت راولپنڈی گئے ہیں۔ ہم دودن کے بعد دوبارہ گئے مگر اس بار بہن ہمارے ساتھ نہیں تھی۔ ہم نے سوچا کہ پہلے وقت لے آتے ہیں، پھر بہن کو لے جائیں گے کیونکہ اس بات کا اندیشہ تھا کہ اسے اگر راستے میں دورے کی شکایت ہو گئی تو سنبھالنا بہت مشکل ہوگا۔ حضرت ؒ سے ان کی مسجد میں نماز عصر کے بعد ملاقات ہوئی۔ ہم نے بچی کی تکلیف کا ذکر کیا اور پوچھاکہ اسے دم کرانے کے لیے کب لے کر آئیں۔ حضرت ؒ نے فرمایا کہ بچی کو لانے کی ضرورت نہیں، بس ایک کام کرنا۔ ہم نے پوچھا، وہ کیا؟ فرمانے لگے کہ جب بچی میں جن صاحب وارد ہوں اور بچی کو دورہ پڑے تو بچی کے دونوں بازوؤں کو مضبوطی سے پکڑنا اور یہ کہنا کہ اے جن تم جو بھی ہو، سن لو کہ مولانا سرفراز خان صفدر کا پیغام ہے کہ بچی کا پیچھا چھوڑ دو، ورنہ مجھے تمہارا پیچھا کرنا پڑے گا۔ ہم واپس آگئے۔ چار پانچ گھنٹے کے بعد بچی کو دورے کی شکایت ہوئی۔ حافظ اکرم صاحب نے حضرت ؒ کی ہدا یت کے مطابق اپنی بہن کے دونوں بازو مضبوطی سے پکڑے اور حضرتؒ کا پیغام سنا دیا۔ اسی وقت بچی کی کیفیت بدل گئی اور اس کے چہرے پر اطمینان اور سکون کے آثار نظر آنے لگے۔ اس کے بعد وہ بچی ٹھیک ہوگئی۔ اب وہ بچی حافظ آباد میں رہتی ہے اور ماشاء اللہ دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کی ماں ہے۔
ڈاکٹر عبدالماجد حمید المشرقی
(صدر انٹرنیشنل ایجوکیشن فورم پاکستان)
(۱۹)
جب ہم درجہ عالیہ میں تھیں تو ہمارے استادمحترم اکثر درس کے دوران مولانا نوراللہ مرقدہ کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ فرمانے لگے کہ بیٹیو! آپ میں صفت علم نہیں ہے، اس کی تحقیق کرو۔ اپنے اسلاف کو دیکھو، اور دیکھو کہ اگر آج دنیا میں کوئی بڑے شیخ الحدیث، شیخ التفسیر موجود ہیں تو وہ مولانا سرفراز خان صفدرؒ ہیں۔ جب بھی موقع ملے، ان کی زیارت کے لیے جاؤ اور ان ہستیوں کی قدر کرو۔ ان کی تصانیف دیکھو تو وہ علم کا شاہکار ہیں اورا نہیں خود دیکھو تو عمل کا شاہکار و پیکر۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ۲۰۰۵ء کے آخر میں مجھ پر اپنا کرم فرمایا اور میں نے حضرت ؒ کی زیارت کی۔ ان کے چہرے سے نور جھلک رہا تھا او ر سادگی کا پیکر تھے۔ مجھے ان کی بیعت سے مشرف ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ میرے ساتھ میری والدہ او رمیرا ایک کزن بھی بیعت سے مشرف ہوئے۔ میرے کزن کی ڈاڑھی نہیں تھی۔ میں نے بلکہ ہم سب نے دیکھاکہ ضعف وکمزوری کی وجہ سے حضرت بات بھی نہ کر سکتے تھے اور نہ اتنی طاقت تھی کہ بد ن کو حرکت دے سکیں، لیکن سنت سے جو محبت تھی، وہ خود بخود ظاہر ہو رہی تھی اور بار بار آپ کے ہاتھ اسی سنت کی تبلیغ میں حرکت کر رہے تھے۔ جب میرے کزن نے سلام کیا تو انہوں نے باربار ہاتھ سے ڈاڑھی کا اشارہ فرمایا۔ جب اس نے بیعت کے لیے کہا تو پھریہی اشارہ فرمایا۔ وہ باربا ر کہتا کہ ٹھیک ہے، میں ڈاڑھی رکھوں گا۔ پھر ہم تقریباً پانچ دس منٹ بیٹھے، اس دوران بھی وہ بار بار ڈاڑھی کی طرف اشارہ کرتے رہے۔ جب وہ اجازت کے لیے سلام لینے لگا تو پھر اشارہ فرمایا۔ ان کی طبیعت کی بے چینی اور سنت سے والہانہ محبت بتا رہی تھی کہ اگر ان کا بس چلتا تو اسی وقت اسے وہاں سے ڈاڑھی رکھوا کر اٹھنے دیتے۔ ان دس منٹوں میں سنت کی تکمیل اور تبلیغ کے لیے ان کی تڑپ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ باقی زندگی کا لمحہ لمحہ انھوں نے کیسے اس کی تکمیل میں گزارا ہوگا۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے اور روضہ مبارک کی کھڑکی ان کی قبر میں کھول دے، وہاں کی برکتوں اور رحمتوں کی بارش ان پر نازل فرمائے اور ہم سب کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ للہ کرے کہ ہماری طرف سے جو اعمال ان کو تحفہ ملیں، وہ ان کے لیے نافلہ ہوں اور قیامت کے روز اللہ انہیں عر ش عظیم کے سایہ سے نوازے، آمین بجاہ سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم۔
اخت نوید
(کھاریاں، ضلع گجرات)
(۲۰)
قریباً تیس ،پینتیس سال پرانی بات ہے کہ جمعۃ المبارک کے روز نماز جمعہ کی ادائیگی اور امام اہل سنت حضرت مولانا سرفرازخان صفدرؒ کی خدمت عالی میں حاضری اور دعا کی غرض سے جامع مسجد گکھڑ میں حاضرہوا۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد آپ کی خدمت عالی میں سلام عرض کرنے کے بعد گویا ہوا: ’’حضرت! میں حویلیاں ضلع ایبٹ آباد سے حاضر ہوا ہوں، دارالسعید کے نام سے حضرت مولانا قاضی محمد زاہدالحسینیؒ کی دعاؤں سے، اسلام کی بنیادی اور ضروری تعلیمات مقدسہ پر مشتمل چارٹس طبع کر وا کر مساجد کے لیے تقسیم کیے جاتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر حضرت مسکر ا کر خاموش ہو گئے۔ مسجد کے باہر مسجد کے صحن میں تشریف لائے۔ ایک آدمی جو مقامی معلوم ہوتا تھا، اپنے بارہ چودہ سالہ لڑکے کے ساتھ حضرت کے قریب ہوا۔ بڑی عقیدت کے ساتھ مصافحہ کرنے کے بعد بولا، حضرت! اس کے لیے دعا فرمائیں۔ یہ نمازنہیں پڑھتا۔ قدرے غصہ کے عالم میں اس سے کچھ اس طرح فرمایا کہ بچپن میں دین اور دین کے کاموں میں نہیں لگاتے، جب بگڑ جاتے ہیں تو پھر تعویذ کے لیے آجاتے ہیں۔ اس کو نماز پڑھنے کی تلقین فرمائی، دعا فرمائی اور پھر مسکراتے ہوئے اس سے پیا رفرمایا۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا، حضرت! اجازت ہے تو میری طرف دیکھ کر خاموش ہوگئے۔
جب مسجد کی سیڑھیوں سے اتر کر نیچے سڑک پر تشریف لائے تو میں نے پھر رخصت چاہی، لیکن حضرت خاموش رہے۔ سڑک کے کنارے فورڈ ویگن ان کے لیے کھڑی تھی۔ مجھے ویگن میں بیٹھنے کا حکم فرمایا اور خود بھی بیٹھ گئے۔ سڑک کی دوسری جانب حضرت کا مکان تھا۔ ویگن سے اتر کر مجھے بیٹھک میں بٹھایا اور خود گھر تشریف لے گئے۔ میں اکیلا بیٹھک میں بیٹھا سوچ رہاتھا کہ ہمارے اکابر کتنے عظیم ہیں۔ ان کو اللہ کریم اور اس کے دین سے محبت ہوتی ہے۔ پکے مکان بنانے کی فکر نہیں ہوتی، بلکہ اپنا اور دوسروں کا ایمان پکا بنانے کی فکر ہوتی ہے۔ اسی اثنا میں اللہ کے یہ ولی خود چائے ، بسکٹ لے کر تشریف لائے اور مجھے چائے پلائی۔ اس کے بعد میں نے دعا کی درخواست کی۔ دعا کے بعد مکان سے باہر مجھے الوداع کہنے کے لیے خود تشریف لائے۔
اپنی زندگی میں میری یہ حضرتؒ سے پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ کتنے عظیم تھے، کتنے شفیق تھے ہمارے اکابر! اللہ تعالیٰ ان کی قبور پر رحمتوں کا نزول فرماتا ہی رہے۔
محمد سعید
(دارالسعید، حویلیاں شہر، ضلع ایبٹ آباد)
(۲۱)
یوں تو بندہ کوحضرت کی زیارت کا موقع باربار ملا، مگرپہلی ملاقات کے لیے جب ہم گئے تو سارا رستہ ایک عجیب تصور دل ودماغ پر چھا یا رہا۔ عرصے سے حضرت کے علمی وعملی کارنامے سنتے آ رہے تھے اور حضرت کی شخصیت کا دبدبہ مرعوب کر رہا تھا۔ قلبی خوشی تھی کہ ملاقات کاوقت مل گیا۔ ہم حاضر ہوئے تو حضرت مصلے پر تشہد کی حالت میں سر جھکا کر عاجزی ومسکنت کے ساتھ تشریف فرماتھے۔ سلام ومصافحہ کے بعد تعارف ہوا اور کچھ مسائل اور حضر ت کی بیماری وعوارض پر گفتگو ہوئی۔ بند ہ کمرے کا جائزہ لیتا رہا۔ ہر طرف کتابوں کی الماریاں بھری ہوئی، چارپائیاں بھی کتابوں کے بوجھ سے جھکی ہوئی اور تپائیاں بھی کتابوں سے پر تھیں۔ حضرت نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ مہمان کو کھانا کھلائیں۔ وہاں موجود ایک محلہ دار نے کہا کہ حضرت! مہمان کو میں گھر لے جا کر کھانا کھلا دوں؟ حضرت نے فرمایا، کیوں؟ مہمان ہمارے ہیں، کھانا آپ کیوں کھلائیں؟ انھوں نے عرض کی کہ پھر کھانے کے بعد رات کا قیام اور ناشتہ میرے پاس ہو جائے۔ حضرت نے اس کی اجازت دے دی۔
رات ان صاحب کے ہاں قیام کیا۔ انہوں نے بہت اکرام کا معاملہ کیا اور بہت خدمت کی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ پرائے مہما ن کی اتنی خدمت کی کیا وجہ ہے۔ یہ سوال میں نے ان سے ہی پوچھ لیا کہ اتنے تکلف اور خدمت کی کیاضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کیوں نہ اتنی خدمت کروں، آپ میر ے شیخ کے مہمان ہیں جن کی وجہ سے میری زندگی بدل گئی۔ میں نے پوچھا و ہ کیسے؟ کہنے لگے کہ میں سعودیہ کام کے لیے گیا۔ وہاں خوب پیسہ کمایا۔ عیاشی کی زندگی تھی، نماز کی پروا تھی، بس دنیامیں مست اور آخرت سے غافل۔ گویا حیوانی زندگی تھی۔ میر ی والدہ اس پر پریشان تھیں۔ انھوں نے حضرت کے پاس حاضر ہو کر میرے بارے میں درخواست کی کہ اس کو خط لکھیں، شایدہ وہ سدھر جائے۔ حضرتؒ کا خط مجھے ملا، فکر آخرت سے لبریز، مختصر مگر جامع۔ میں نے خط پڑھا تو الفاظ اپنی گہرائی اور اخلاص کے ساتھ میرے دل ودماغ میں اترتے چلے گئے۔ ایسا پراثر اور پر خلوص تھا کہ میری زندگی کی کایا ہی پلٹ گئی اور میری زندگی میں انقلاب آگیا۔ اس کے بعد سے میں صوم وصلوٰۃ کا پابند ہوگیا، ڈاڑھی بھی رکھ لی اور شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنا شروع کر دی۔
بندہ ان کی گفتگو سے سوچتا رہا کہ یہ ایک خط کی وجہ سے لوگوں کی زندگی بدل جاتی ہے، جن کتابوں کے تحریرکرنے میں حضرت نے اس قدر ان تھک محنت کی، ان سے کتنا انقلاب اور تبدیلی آئی ہوگی۔ ور واقعتا ایسا ہی ہے۔ حضرت کی تصانیف سے بہت سوں کی زندگی بدلی۔ ہمارے ایک استاد جوآج کل وفاق المدارس کے بڑے عہدے پر فائزہیں اور جن کی دعوت اور وعظ ونصیحت سے بہت سے لوگ متاثر ہو کر اپنی زندگیاں بدل رہے ہیں، انھوں نے اپنی آپ بیتی سنائی کہ میں بہت زیادہ شرک وبدعات میں مبتلا تھا، بلکہ گاؤ ں کے سارے لوگوں کو بھی بدعات میں مبتلا کیے ہوئے تھا۔ اثر ورسوخ کی وجہ سے کوئی روکتا بھی نہیں تھا۔ گاؤں کے ایک صاحب کراچی میں ملازمت کرتے تھے۔ انہوں نے ایک کتاب ’’راہ سنت‘‘ نامی خرید کر میرے لیے بھیجی۔ بس اس کتاب کا پڑھنا تھا کہ دل ودماغ کی صفا ئی ہو گئی۔ راستہ مل گیا اور پھر حق اور توحیدکی محنت شروع کی۔ آج وہی گاؤں توحید وتبلیغ کا مرکز ہے۔ الحمدللہ کئی حفاظ کرام اس گاؤں سے تیار ہو رہے ہیں ۔ یہ حضرت کی محنت کی ہلکی سی جھلک ہے۔ کاش ہر مسلمان ا پنی استعدادکے مطابق اخلاص سے دین کی محنت شروع کر دے۔
مولانا ضیغم بلال
(مدرسہ زید بن ثابتؓ، کمال آباد راولپنڈی)
( ۲۲)
راقم الحروف نے حضرت شیخ ؒ سے دورۂ تفسیر قرآن میں استفادہ کیا ہے۔ درس کے آغاز پر قاری صاحب تلاوت فرماتے تھے اور طلبہ کرام وضوبنانے چلے جاتے۔ راقم الحروف حضرت شیخ صاحب ؒ کے مبارک قدموں کو دباتا تھا۔ قاری صاحب نے سورۃ انفطار کی تلاوت یوں کی: ’’وما ادریک ما یوم الدین ،ثم ما ادریک ما یوم الدین‘‘۔ حضر ت شیخ ؒ نے محبت بھرے لہجے میں فرمایا : قاری صاحب! رمضان المبارک کا مہینہ ہے ،دورۂ تفسیر برکت کے لیے پڑھا رہے ہیں۔ آپ ٹھیک تلاوت کررہے ہیں، مگر قراء ت متواترۃ سے پڑھیں۔ وماادرٰک مایوم الدین، ثم ما ادرٰک ما یوم الدین۔
راقم الحروف نے علمی وعملی ترقی کے لیے دعا اور خصوصی وظیفہ کی درخواست کی تو استاد محترم نے فرمایاکہ ہر فرض نماز کے بعد تین مرتبہ ’’سنقرئک فلا تنسٰی‘‘ پڑھا کرو۔ بندہ نے عرض کیا، ایک اور دعا چاہیے تو شفقت وپیار سے فرمایا، دائما (ہمیشہ) یہی پڑھ لیا کرو تو کافی ہے۔
حضرت شیخ ؒ فرماتے تھے: اکابر علماے دیوبند کی تصانیف اور تالیفات جو ورثہ میں ملی ہیں، ان میں جو رموز واسرار اور معارف ہیں اور مضبوط رہنمائی جو ان کی کتابوں میں ہے، یہ ہماری سمجھ میں آجائے تو فضل الٰہی اور غنیمت ہے۔ ان کے خلاف کچھ لکھنا،بولنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت شیخؒ کے پروگرام اور نصب العین کو آگے بڑھانے کی توفیق سے نوازیں اوران کے تمام رفقا اور ابنا واقربا کو فلاح دارین سے نوازیں۔ آمین۔
مولانا عبدا لصبور
(جامعہ ابوہریرہ، خالق آباد ، نوشہرہ)
(۲۳)
امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز صفدرؒ سے مجھے براہ شرف تلمذ حاصل نہیں، لیکن استاذ محترم محدث کشمیر حضرت مولانا محمد یوسف صاحب دامت برکاتہم اور مولانا سرفراز صاحب مرحوم ہم درس تھے۔ اس طرح میرا مولانا مرحوم سے تعلق ایک شاگرد کا رہا۔ مولانا کی باطل فرق کے خلاف کتب میرے زیر مطالعہ رہیں جن سے مولانا کے تبحر علمی کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔
غالباً ۱۹۶۷ء کی ایک حسین ظہر تھی۔ میں مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں طالب علم تھا۔ نماز ظہر کے بعد میں نے عجیب منظر دیکھا کہ مولانا سرفراز صاحب نے مولانا مفتی عبدالواحد مرحوم کا جوتا اٹھایا ہوا ہے، مولانا عبدالواحد صاحب نے قاضی شمس الدین مرحوم کا جو تا اٹھایا ہوا ہے اور مولانا سرفراز صاحب مرحوم کا جوتا صوفی رستم نے اٹھایا ہوا تھا۔ مولانا عبدالواحد صاحب، مولانا سرفراز صاحب مرحوم کے استاد تھے اور مولانا قاضی شمس الدین مرحوم مولانا عبدالواحد صاحب مرحوم کے استاد تھے۔ ان تینوں کو میں نے پیار ومحبت کی اس کیفیت میں دیکھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حیات النبی کا مسئلہ عروج پر تھا اور ان بزرگوں کی کتابیں ایک دوسرے کے خلاف طبع ہورہی تھیں، لیکن ان کا اختلاف صرف اور صرف علمی تھا۔ ہر ایک اپنی جگہ علم کا کوہ ہمالہ تھا ۔
حضرت کی وفات کا غم صرف ان کے خاندان کا غم نہیں، ہم سب کا غم ہے۔ ہم میں سے ہر ایک تعزیت کے لائق ہے۔ خداوند قدوس حضرت مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، ان کی آخرت کی تمام منازل آسان فرمائے اور ہم سب کو اس صدمہ جانکاہ کے سہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
سردار ریاض احمد نعمانی
(ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، باغ)
(۲۴)
حضرت سے قلبی تعلق اور عقیدت شروع ہی سے تھی، لیکن ۲۰۰۵ ء میں پہلی دفعہ ہم چار ساتھی برادرم نعمان ظہور، مولانا قیصر محمود، مولانا امیر حمزہ عاصم اور راقم شیخوپورہ سے گکھڑ حضرت کی زیارت کے لیے حاضر خدمت ہوئے۔ حضرت نے باری باری سب سے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو اور کیا کرتے ہو؟ ہم نے بتایا کہ ہم جامعہ فاروقیہ شیخوپورہ میں پڑھتے ہیں تو فرمایا کہ اس کی بنیاد میں نے ہی رکھی تھی۔ پھر حضرت مولانا محمد عالم صاحب کے بارے میں پوچھا تو ہم نے بتایا کہ الحمد للہ ٹھیک ہیں۔ پھر حضرت سے ڈھیروں دعاؤں کا ذخیرہ لے کر روانہ ہوئے۔
گزشتہ سال نصرۃ العلوم میں دورۂ حدیث میں داخلہ لیا تو ارادہ یہ تھا کہ گکھڑ قریب ہونے کی وجہ سے وقتاً فوقتاً زیارت کی سعادت ملتی رہے گی۔ بحمداللہ حدیث کی تعلیم کے ساتھ ساتھ محدث وقت کی زیارت سے آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی رہی۔
آخری بار حضرت کی زیارت ۲۵ ؍فروری ۲۰۰۹ ء کو ہوئی جب وہ اپنے صاحبزادہ استاذ محترم مولانا عبد القدوس خان قارن کے گھر تشریف لائے۔ دورۂ حدیث کی جماعت کے ساتھیوں نے مولانا زاہد الراشدی اور مولانا عبدالقدوس قارن سے خواہش ظاہر کی کہ ہم حضرت سے سبق پڑھنا اور حدیث کی اجازت لینا چاہتے ہیں۔ حضرت سے پوچھا گیا تو کمال شفقت سے اجازت مرحمت فرمائی، چنانچہ ہم سب ساتھی مولانا عبدالقدوس قارن صاحب کے گھر گئے اور زیارت کے ان مقدس لمحات میں حضرت کے سامنے بخاری ثانی سے واقعہ افک کی عبارت پڑھی گئی۔ حضرت اس وقت شدید بیماری اور کمزوری کی وجہ سے نیم دراز تھے۔ عبارت سن کر نہایت گھمبیر لہجے میں فرمایا کہ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی کی دعا کرنا کہ میں حدیث کا ادب کما حقہ نہیں کرسکا، لیکن میں معذور ہوں ۔ عبارت پڑھتے ہوئے خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات کے ساتھ طلبہ حدیث اپنے اکابر کے ہاں ادب حدیث کے بارے میں فکر مندی کا مشاہدہ کر رہے تھے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت شیخ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
حافظ محسن سعید ثاقب
(فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ)
(۲۵)
احقر تین سال حضرت امام اہل سنت کی خدمت میں گکھڑ رہا۔ تجوید وقراء ت بھی وہاں پڑھی اور جامع مسجد میں مدرس بھی رہا۔ اس دوران کے چند واقعات درج کرتا ہوں۔
ایک مرتبہ حضرت مولانا غلام غوث ہزاوری گکھڑ تشریف لائے اور جامع مسجد میں خطاب فرمایا۔ حضرتؒ کے کپڑے کھدر کے تھے اور پھٹے ہوئے تھے۔ حضرت شیخؒ ؒ نے مجھے فرمایا کہ میں گھر جا رہا ہوں، تم مولانا سے کہنا کہ تھوڑی دیر انتظار فرمائیں، میں کپڑے بھیجتا ہوں، لیکن حضرت ہزارویؒ نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے جلدی جانا تھا، اور وہ روانہ ہوگئے۔ حضرت شیخؒ کومعلوم ہوا تو آپ نے اپنے صاحبزادہ قاری محمداشرف خان ماجد مرحوم کو حضرت کے پیچھے وزیر آباد بھیجا کہ کپڑے وہاں پہنچا کر آؤ مگر گاڑی نکل چکی تھی۔ قاری صاحبؒ واپس آگئے۔ اس وقت حضرت بہت غمگین ہوئے کیونکہ وہ ؒ حضرت ہزارویؒ کے شاگر دبھی تھے۔
ایک مرتبہ حضرت شیخ کے ایک صاحبزادے سے، جو میرے لیے انتہائی قابل قدر ہیں، میرا جھگڑا ہوگیا۔ اس وقت احقر جامع مسجد گکھڑ میں مدرس تھا۔ احقر بتلائے بغیر وہاں سے چلاگیا۔ کچھ عرصہ بعد حاضر خدمت ہوا اور دروازہ کھٹکھٹایا تو حضرت اقدسؒ مکان کی چھت پر کلہاڑے سے لکڑیاں پھاڑ رہے تھے۔ نیچے دیکھا تو فرمایا،بے وفا آگیا ہے!
ایک مرتبہ ملاقات کے لیے حاضر ہواتو واپسی پر اپنے ساتھ گوجرانوالہ لے آئے۔ راستے میں حضرت اقدس ؒ درودشریف پڑھتے رہے اور احقر بھی ذکر میں مشغول ہوگیا۔
حضرت اقدس ؒ بہت مہمان نواز تھے۔ ایک مرتبہ احقرکو اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت اقدسؒ نے خود کھانے کے لیے میرے ہاتھ دھلوائے۔ اتنی عاجزی وانکساری تھی حالانکہ احقرنے کہا کہ میں خود ہاتھ دھو لیتا ہوں۔
روزانہ بلاناغہ درس قرآن وحدیث پابندی کے ساتھ ہوتا تھا۔ طلبہ پر پابندی تھی کہ درس قرآن میں ضرور شریک ہوں۔ باقاعدہ فجر کی نماز کی حاضری لگتی تھی اور یہ کام احقر کے سپر دتھا۔
ایک مرتبہ ایک مولوی صاحب ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ احقر بھی موجود تھا۔ مولوی صاحب حضرتؒ سے فضول بحث کر رہے تھے جس پر حضرت ؒ سخت ناراض ہوئے۔ بعد میں مولوی صاحب سے معذرت کی او ر انھیں ایک سوروپیہ عطافرمایا۔ یہ حضرت ؒ کا بڑ اپن تھا۔
ایک مرتبہ استاد المحدثین حضرت مولانا قاضی شمس الدین گکھڑ سے گزر رہے تھے تو حضرت سے ملنے کے لیے تشریف لائے۔ حضرت اس وقت درس قرآن ارشاد فرمارہے تھے۔ حضرت ؒ نے درس روک کر قاضی صاحبؒ کا استقبال کیا اور جب وہ تشریف لے گئے تو پھر درس قرآن شروع کیا۔
قاری محمد اشرف علی ناصر
(فیصل آباد)
(۲۶)
ایک مرتبہ ۲۰۰۳ ء میں راقم اپنے استاذِ محترم حضرت مولانا محمد عمیر صاحب کے ساتھ حضرت شیخ صاحب ؒ کی زیارت و ملاقات کی غرض سے گکھڑ حاضرِ خدمت ہوا۔ استادِ محترم صاحب نے حضرت ؒ سے اپنے تلامذہ میں شامل فرمانے کی درخواست کی۔ اسی وقت حضرت ؒ نے کمال مہربانی اور شفقت سے حدیث شریف انما الاعمال بالنیات (بے شک اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے) پڑھائی۔ روانہ ہونے سے قبل بندہ نے درخواست کی کہ حضرت! علم و عمل کی پختگی کے لیے کوئی دعا بتلادیجیے۔ حضر ت نے فرمایا کہ رب زدنی علما ہر نماز کے بعد گیارہ گیارہ بار پڑھا کرو۔ الحمدللہ، راقم اس وقت سے اب تک اس وظیفہ کو باقاعدگی کے ساتھ پڑھتا آرہا ہے اور الحمدللہ پڑھنے کا مقصد بھی پورا ہورہا ہے ۔
۲۰۰۳ ء میں ہی راقم ایک مرتبہ اپنے استادِ محترم مولانا محمد قاسم قاسمی خانپوری صاحب اور کچھ دوسرے دوست احباب کے ہمراہ حضر ت شیخ ؒ کی زیارت و ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ استاد محترم نے راستے میں کچھ پھل بھی خرید لیا کہ حضرت کی محفل میں بیٹھ کرکھانے کی سعادت نصیب ہوگی۔ حضرت شیخ کے لیے علیحدہ پھل غالباً انگور یا سیب وغیرہ خریدے گئے۔ جب ہم حاضر خدمت ہوئے توظہر اور عصر کا درمیانی وقت تھا۔ جونہی کمرے میں داخل ہوئے تو حضرت کی طرف دیکھ کر میرے دل پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ حضرت باوجودضعف اور بیماری کے بازوؤں کی ورزش فرمارہے تھے۔ آپ نے گھنٹی بجائی، گھرسے خادم آیا جس نے ہم سب دوست احباب کوحسبِ معمول مشروب پلایا۔ حضرت کی یہ عادتِ شریفہ تھی کہ زیارت کے لیے آنے والے ہر شخص کا اکرام ضرورکرتے تھے۔ اس کے بعدہم نے راستے سے جوپھل لیے تھے، وہ حضرت کے سامنے رکھ دیے گئے اور عرض کیا کہ ہم آپ کی زیارت وملاقات کے لیے حاضرہوئے ہیں، اگر آپ یہ پھل اپنے مبارک ہاتھوں سے ہم میں تقسیم کردیں تویہ بہت بڑی سعادت ہوگی۔ حضرت شیخ صاحبؒ نے عاجزی وانکساری کواپناتے ہوئے فرمایا کہ میں تواپنے آپ کو اس لائق نہیں سمجھتا۔ پھر استاذمحترم اور ہم دوستوں کے اصرارپر حضرت شیخ صاحبؒ نے کمال شفقت فرماتے ہوئے وہ پھل ہمارے درمیان تقسیم فرمائے اورواپسی پر ہم سب کو خوب دعائیں دے کر رخصت فرمایا۔
حافظ لقمان احمد فاروقی
(جامعہ قاسمیہ، ضلع ناروال)
(۲۷)
امام اہل سنت حضرت مولانا محمدسرفرازخان صفد شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدحسین احمدمدنیؒ کے حقیقی علمی وعملی جانشین تھے۔ امام اہل سنت نے ہرباطل فرقے کے تعاقب کو اپنافرض منصبی سمجھا، خواہ وہ فرقہ کسی شکل میں ہی کیوں نہ ابھرا ہو۔ جب کسی موضوع پر قلم اٹھاتے تویوں محسوس ہوتا کہ آپ سے بڑھ کراس موضوع پر کوئی مہارت نہیں رکھتا۔ آپ کی کتابوں کے مطالعہ سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
امام اہل سنتؒ کی وفات جہاں ان کے اعزہ واقارب کے لیے ایک جانکاہ صدمے کی حیثیت رکھتی ہے، وہاں یہ پورے عالم اسلام کے لیے بھی ایک سانحہ ہے، کیونکہ ان کی ہستی عالم اسلام کی ایک عظیم اورمایہ ناز ہستی تھی۔ آج اگرچہ امام اہل سنتؒ ہم میں موجود نہیں، لیکن ان کامشن اورموقف الحمد للہ ہمارے پاس موجودہے۔ وہ اگرچہ جسمانی طورپرہمیں داغ مفارقت دے گئے ہیں، لیکن وہ اپنی خدمات اور کردار کے آئینے میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت امام اہل سنت کواعلیٰ علیین میں بلندمقام عطا فرمائے، ان کے مرقد پر کروڑہا رحمتیں نازل فرمائے اور ہمیں حضرت امام اہل سنتؒ کے نقشِ قدم پرچلنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
حافظ حفیظ اللہ
(بن مولانا اللہ وسایا قاسم مرحوم)