۵ مئی کی رات میرے لیے بہت ہی دکھوں بھری داستان چھوڑ گئی۔ تین چار دن پہلے چھوٹی بھابھی کا فون آیا کہ اباجان کی طبیعت خراب ہے اور وہ بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ لیکن ذہن نے یہ قبول نہیں کیا کہ میرے بابا جان ہم سب کو ایسے چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ میں ملاقات کے لیے جانے کے پروگرام ہی بناتی رہی، لیکن مجبوریاں آڑے آ گئیں اور اصل تو یہ ہے کہ مقدر میں ملاقات تھی ہی نہیں۔ روزانہ فون کر کے پوچھتی تو جواب ملتا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں، صرف کمزوری ہے۔ اس شام کو جہلم میں چھوٹی ہمشیرہ سے بات ہوئی توا س نے بھی یہی کہا کہ بچے گئے تھے اور اباجان بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی کافی کمزور ہو جاتے تھے، لیکن خون وغیرہ لگانے سے افاقہ ہو جاتا۔ پس یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے باباجان کو صحت عطا کردیں گے۔
اس رات بھی بے چینی سے لیٹی یہ منصوبہ بنا رہی تھی کہ صبح ہرحال میں بابا جان سے ملنے جاؤں گی۔ آنکھ لگے ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ کسی نے میر ا دایاں پاؤں بڑے زور سے پکڑ کر ہلایا۔ میں ہڑہبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ ادھر ادھر دیکھا۔ لائٹ جل رہی تھی، لیکن اہل خانہ سب سوئے ہوئے تھے۔ میں بہت پریشان ہوئی اور ایسا محسوس ہوا کہ میرا دم گھٹنے لگا ہے۔ اٹھ کر ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ وقت دیکھا تو بارہ بج کر بیس منٹ ہو رہے تھے۔ پریشانی میں اٹھا بھی نہیں جا رہا تھا کہ اٹھ کر کوئی دوا وغیرہ لے لوں۔ اسی طرح بیٹھے بیٹھے تقریباً دو بج گئی۔ دو بجے کے لگ بھگ فون کی گھنٹی ہوئی۔ میں نے گھبرا کر فون اٹھایا۔ دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ سخت طوفا ن آنے والا ہے۔ ہمت کر کے فون اٹھایا۔ موبائل پر چھوٹی بہن نے یہ روح فرسا خبر سنائی تو بے اختیار اتنی زور زور سے میری چیخیں نکلیں کہ دوسرے کمروں سے گھر کے سارے افراد جمع ہو گئے اور پوچھنے لگے کہ کیا ہوا ہے، لیکن میں اپنی چیخوں پر قابو نہیں پا رہی تھی۔ جب ان کو پتہ چلا تو سارے گھر میں کہرا م مچ گیا۔ میرا بلڈ پریشر اس قدر ہائی ہو گیا کہ لگتا تھا کہ دماغ کی شریانیں پھٹ جائیں گی۔ مجھے بابا جان کے کہے ہوئے الفاظ ایک دم یاد آگئے: کل نفس ذائقۃ الموت۔ اپنی اپنی باری پر سب کو جانا ہے، صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہ الفاظ بابا جان نے کچھ عرصہ پہلے کسی کی موت پرکہے تھے۔ میں پریشان تھی کہ ان کا باپ فوت ہوگیا ہے اور بچے پریشان تھے۔ اس وقت مجھے یہ بات یاد آئی تو فوراً مجھے جھٹکا لگا اور میں نے جلدی سے چارپائی سے اٹھ کر پہلے دو گولیاں بلڈ پریشرکی لیں، پھر وضو کیا اورکچھ نوافل پڑھے۔ سحری کا وقت تھا۔ پتہ نہیں کیا پڑھا اور کیا نہیں، لیکن اللہ سے اپنی بے صبری کی معافی مانگی، توبہ کی کہ اے اللہ! یہ میرے بس میں نہیں تھا۔ اللہ پاک مجھے معاف کردیں اور مجھے صبر اور استقامت دیں تاکہ میں اپنے بابا جان کا آخری دیدار استقامت سے کر سکوں۔ صبح اذان ہوتے ہی نماز پڑھی اور سفر پر روانہ ہو گئی۔
اللہ تعالیٰ نے میری دعا ؤں کو شرف قبولیت بخشااور مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ میں نے سفر کیسے طے کیا۔ تقریباً ساڑھے بارہ بجے ہم گکھڑ پہنچ گئے۔ ہمارے پہنچنے کے تقریباً ایک گھنٹہ بعد باباجان کو غسل کے لیے لے جایا گیا۔ جب نہلا کر لایا گیا تو دیدار کرنے والا ہجوم اور ان کی تڑپ قابل دید تھی۔ میں بابا جان کو بوسہ دینے کے لیے جھکی تو باباجان کی آنکھیں تھوڑی تھوڑی کھلی ہوئی لگ رہی تھیں، جیسا کہ زندگی میں نیند کی حالت میں ہوتی تھیں۔ مجھے اس وقت یہ محسوس ہوا کہ بابا جان میرا انتظار کرتے رہے ہیں، لیکن میں بدنصیب تھی کہ آخری وقت میں ملاقات نہ کرسکی۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے میں اور چھوٹی بھابھی اور بھتیجی تقریباً ڈیڑھ ہفتہ گکھڑ رہے تو بابا جان ہمیں اپنے کمرے سے ایک منٹ کے لیے بھی نکلنے نہیں دیتے تھے۔ تھوڑی دیر کے لیے باہر آجاتی تو اسی وقت باباجان بلوا لیتے، یہاں تک کہ کہتے کہ نماز بھی یہیں پڑھو۔ ان دنوں میں باباجان نے ہم سے ہر قسم کے موضوع پر بہت سی باتیں کیں۔ کچھ کتابوں کے بارے میں سوالات پوچھے اور مدرسہ، گھر اور بچو ں سے متعلق دریافت کرتے رہے۔ کچھ پرانے واقعات بھی سنائے۔ یوں یہ ڈیڑھ ہفتہ میری زندگی کا حاصل بن گیا۔ جب رات کو بابا جان تھوڑا سو جاتے تو چھوٹا بھائی عزیزم راشد اور بھابھی جو کہ ہماری خالہ زاد بہن بھی ہیں، ہم سب بہن بھائی بیٹھ پر گپیں لگاتے۔ بھائی بھی کھانے پینے کے لیے کچھ نہ کچھ لے آتے اور ہمارے ساتھ بیٹھے رہتے۔ بھابھی بھی ہمارا بہت خیال رکھتی۔
جس دن میں نے واپس آنا تھا، میں خود بہت پریشان تھی اور بابا جان بھی پریشا ن تھے۔ اکثر جب میں واپس آتی تو انھیں روتے ہوئے چھوڑ کر آتی تھی، کیونکہ واپس تو آنا ہی ہوتا تھا۔ اس دن بھی شام کومیں گوجرانوالہ چلی گئی اور وہاں دو دن گزار کر واپس آگئی۔ اس کے بعد یکم مارچ کو ہمارے چھوٹے بہنوئی قاری خبیب احمد عمر اچانک ہمیں چھوڑ کر اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔ میں ان کی وفات پر جہلم آئی تو میں اور میری بیٹی گکھڑ بھی گئے۔ یہ میری بابا جان سے آخری ملاقات تھی۔ رات کوعشا سے پہلے ہی بابا جان نے میری بیٹی سے کہا کہ بستر لا کر یہاں بچھا دو۔ آپ کی امی آج میرے پاس سوئے گی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ دوبارہ کمرے میں آئی، لیکن بستر ساتھ نہیں تھا۔ بابا جان نے اسے بہت ڈانٹا کہ میں کہہ رہا ہوں کہ بستر لا کر بچھاؤ اور تم نہیں لائیں۔ خیر چھوٹی بھابھی نے بستر بچھا دیا۔ بابا جان کے پاس بیٹھے بیٹھے تقریباً ڈیڑھ بج گئے۔ پھر بھائی راشد آگئے۔ بابا جان ان کو دیکھ کر بہت پریشان ہوگئے۔ کبھی اس کو دیکھتے اور کبھی مجھے۔ میں نے بابا جان سے کہا کہ آج میں یہاں سو جاتی ہوں، لیکن بھائی نے کہا کہ باباجان باربار کبھی اٹھتے ہیں اور کبھی لیٹتے ہیں اور کپڑے وغیرہ بھی تبدیل کرنے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا صحیح تھا، کیونکہ میں یہ کام نہیں کر سکتی تھی۔ جب میں کمرے سے باہر آئی تو باباجان بار بار مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں اس رات بالکل سو نہیں سکی۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا وجہ ہے، کیونکہ اس سے پہلے آ کر کہتی کہ میں یہاں آپ کے پاس سو جاتی ہوں تو بابا جان کہتے کہ تم بیمار ہو جاؤگی، آرام کرلو۔
چھوٹے بھائی راشداور بھابھی اور چھوٹی ہمشیرہ اور ان کی بیٹیاں اور خصوصاً چھوٹی بیٹی جو بابا جان کو بہت عزیز تھی اور جسے وہ بار بار اپنے پاس بلاتے تھے، سب بہت خوش نصیب ہیں۔ چھوٹے بھائی نے اباجی کی خدمت کے لیے ہر کام ہر شغلہ چھوڑ رکھا تھا جو کہ ایک بہت بڑی قربانی ہے۔ وہ ایک دن بھی کہیں باہر نہیں جا سکتے تھے۔ انہوں نے یہ ذمہ داری بڑی خوش اسلوبی سے انجام دی۔ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کا آخرت میں اجر جزیل دے کہ ان کی وجہ سے ہم سب بے فکر تھے۔
اگر میںیہ کہوں کہ بابا جان کو مجھ سے بہت پیار تھا تو بے جا نہ ہوگا۔ آپ کی تمام اولاد میں ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ بابا کو تجھ سے زیادہ پیار تھا۔ حقیقت میں بابا کو اپنی تمام اولاد سے بہت پیا ر تھا۔ آخری ملاقات میں بھی بابا جان نے یہ ذ کر کیا کہ جب میں حج پر گیا تو بہت بیمار ہو گیا۔ دل میں خواہش تو تھی کہ یہاں قبرنصیب ہو، لیکن میں نے دعا کی کہ اللہ مجھے اپنے بچوں کے پاس پہنچا دے۔ آپ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ کچھ ماہ پہلے میری چھوٹی بیٹی کا چھ سالہ بیٹا بچہ عکرمہ گکھڑمیں بابا جان سے ملاقات کے بعد واپس جاتے ہوئے لالہ موسیٰ کے قریب کار کے حادثے میں شہید ہو گیا تو اس وقت بھی باباجان فون پر تعزیت کرتے ہوئے بہت روئے اور بار بار فون کرتے رہے۔ جب میں گکھڑ آئی تو بابا جان نے کہا کہ مجھے عکرمہ کی والدہ بہت یاد آتی ہے، لیکن میں اس کے پاس جا نہیں سکتا تھا۔ کہتے کہ عکرمہ نے میری کمر توڑ دی ہے۔ میں جب واپس آئی تو میں نے بیٹی سے کہا کہ بابا جان بہت روتے اور آپ کویاد کرتے تھے۔ بھلا ہومیر ے دامادمولانا عبدالحق صاحب کا، وہ انہی دنوں بچوں کو لے کر بابا جان کی ملاقات کے لیے چلے گئے۔ واپس آئے تو رو تے ہوئے بتایا کہ مجھے بہت شرمندگی ہوئی ہے کہ باباجان کہہ رہے تھے کہ تمہارا بہت بہت شکریہ کہ تم مجھے ملنے آئے ہو۔ یہ آپ کی محبت تھی۔
ہماری والدہ صاحبہ کی وفات کو تقریباً بیس سال ہو چکے ہیں، لیکن بابا جان نے ہمیں کوئی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ بڑی والدہ کے انتقال پر جب میں رات کافی دیر سے گکھڑ پہنچی اور دروازہ کھٹکھٹایا تو بابا جان نے دروازہ کھولا۔ میں پریشان ہوگئی کہ بابا جان ابھی تک جاگ رہے ہیں۔ اند رگئی تو بابا جان نے مجھے اپنے زور سے سینے کے ساتھ لگاکر پیار دیا۔ میں حیران ہوگئی اور مجھے سب کچھ بھول گیا کہ میں کیا سوچ رہی تھی۔ اللہ گواہ ہے کہ آج بھی جب یادکرتی ہو ں توبابا جان کے سینے کی ٹھنڈک مجھے اپنے سینے میں محسوس ہوتی ہے۔
میرے بھتیجے عمار خان ناصرکااصرار تھا کہ میں کچھ لکھوں حالانکہ میں ابھی لکھنے کے قابل نہیں ہوں۔ کئی دن سے جب بھی قلم کاغذ لے کر بیٹھتی ہوں تو بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے۔ بہرحال یہ چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ لکھ دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ میرے باباجان، میرے چچا جان اور میرے بہنوئی اور خاندان کے سب فوت شدگان کوجنت الفردوس میں جگہ عطا کرے اور ہمیں صبرجمیل عطا کرے۔ آمین