وہ کیا گئے کہ رونق بزم چمن گئی
رنگ بہار دید کے قابل نہیں رہا
امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر نوراللہ مرقدہ کی کمالات سے لبریز زندگی پر قلم اٹھانے کا اصل حق تو ان کے اصحاب علم و فضل معاصرین کا ہے یا پھر جلیل القدر تلامذہ کرام کا۔ ’’انما یعرف ذا الفضل من الناس ذووہ‘‘ کا قاعدہ مسلم ہے، تاہم کچھ مقبولان بارگاہ خداوندی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ہر شخص کی محبت و مودت کا مرکز ہوتے ہیں، اس لیے یہ عاجز بھی یاد یاراں کی اس غم زدہ محفل میں شرکت کو اپنے لیے تحصیل سعادت کا ذریعہ سمجھتے ہوئے
ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے
کے نظارہ سے لطف اندوز ہو رہا ہے کیو نکہ ’’ھذا المجلس لا یشقی جلیسھم‘‘ یا پھر بقول برکت العصر مولانامحمد زکریا کا ندھلوی ؒ:
تیرے مے خانے کا محروم بھی محروم نہیں ہے
پوری طرح یاد نہیں کہ امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر قدس اللہ سرہ کی سب سے پہلی کون سی تصنیف نظر سے گزری، لیکن یہ اچھی طرح یاد ہے کہ ’’راہ سنت‘‘ کو پڑھ کر سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ بلا شبہ حضرت اقدس ؒ کی ہر تصنیف کی طرح یہ تصنیف بھی مسلک اہل سنت والجماعت کے مدلل اور واضح امتیازات پر نہایت جامع کتاب ہے بلکہ اہل سنت اور اہل بدعت کے درمیان اختلافی مسائل میں اس سے زیادہ دلکشا، بصیرت افروز، باحوالہ اور فیصلہ کن اور کوئی کتاب نظر سے نہیں گزری۔ یہ عاجز اپنے ناقص العلم، ناقص المطالعہ اور ناقص الفہم ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے بھی اس اظہار حقیقت میں کوئی تردد محسوس نہیں کرتا کہ متقدمین و اسلاف اہل سنت والجماعت کے عقائد و اخلاق کا امین وو کیل اور ترجمان حضرت شیخ مولانا محمد سرفراز خان صفدر جیسا (چہ جائیکہ بڑھ کر) ہم عصر بزرگوں میں اور کوئی نہیں تھا۔ گو کہ مسلک اہل حق اور مشرب اعتدال کے معاملہ میں حضرت قاضی مظہرحسین صاحب ؒ (مجاز شیخ الاسلام مدنی) ؒ اور سرخیل صوفیا حضرت الشیخ سید نفیس الحسینیؒ (مجاز قطب الارشاد حضرت رائے پوری نوراللہ مرقدہ) بھی بڑے حساس تھے، لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ اکابر و اسلاف کے مجموعی مزاج کے ہر پہلو کی پورے اعتدال کے ساتھ علیٰ وجہ البصیرت مدلل و مفصل ترجمانی کا حق حضرت الشیخ مولانامحمد سرفراز خان صفدؒ ر نے ہی ادا کیا۔ فجزاھم اللہ احسن ما یجزی بہ عبادہ المنعمین علیھم۔
غالباً حضرت الامام محمد بن حسن شیبانیؒ کی ’’سیر صغیر‘‘ یا ’’سیر کبیر‘‘ کے مطالعہ سے متاثر ہو کر کسی نصرانی نے یہ کہہ کر اسلام قبول کر لیا تھا کہ چھوٹے محمد ؒ کے وفور علم اور کمال فضل کا یہ حال ہے تو بڑے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و کمالات کی بلندی کا کیا حال ہوگا۔ بلاشبہ حضرت اقدس نوراللہ مرقدہ کی ہر تصنیف کو پڑھنے کے بعد یہ تاثر ابھرتا ہے کہ حضرت ؒ کے رسوخ علمی، عمیق مطالعہ اور اظہار حق علی الادیان کلہا کا یہ حال ہے تو قطب الارشاد حضرت گنگوہیؒ ، قاسم العلوم حضرت نانوتویؒ ، حضرت شیخ الہندؒ ، حضرت مجدد تھانویؒ ، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری، ؒ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ اور شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ قدس اللہ اسرارہم جیسے اکابر کے کمالات علمیہ و عملیہ کا کیا حال ہوگا۔
۱۷ ؍رجب ۱۴۰۶ھ کی وہ مسرور کن صبح کبھی نہ بھولے گی جب مولانا غلام مصطفی، بانی جامعہ مدنیہ بہادلپور نے فون پر مبارکباد دی کہ آپ بڑے خوش قسمت ہیں کہ ہمیں تو ۱۶ سال مسلسل درخواست کے بعد جامعہ مدنیہ کے لیے حضرت اقدس ؒ کا وقت ملا ہے اور آپ کے جامعہ خالد بن ولید کے لیے (جہا ں ابھی فقط زمین خرید کیے ہوئے چند ماہ ہوئے تھے اور کوئی عمارت بھی نہ بنی تھی) تشریف آوری منظور فرمائی ہے۔ بندہ انتہائی خوش بھی ہوا اور حیران بھی کہ اس عاجز نے تو کبھی حضرت اقدس ؒ سے اشارتاً بھی درخواست نہیں کی تھی، لیکن اس طرح کی منجانب اللہ شفقت کریمانہ کو انتہائی نیک فال شمار کرتے ہوئے مولوی محمد رفیق صاحب بالاکوٹی (حال ٹیچر و مدرس ڈسکہ سیالکوٹ جو ان دنوں اس عاجز کے ہاں جامعہ عثمانیہ شور کوٹ میں درجہ مشکوٰۃ شریف میں تھے) کو حضرت اقدس کے ہاں مختصر سا عریضہ لکھ کر پیشگی شکریہ ادا کرنے کے لیے بھیج دیا۔ حضرت اقدس ؒ خود بھی حیران ہوئے کہ میں نے ( یعنی حضرت اقدس ؒ نے) تو جامعہ خالد بن ولید کے لیے کوئی وقت نہیں دیا۔ دراصل حضرت اقدس ؒ کا تحیر بالکل صحیح تھا، کیوں کہ حضرت نے تو ایک تلمیذ قدیم کو ٹھینگ موڑ موجودہ الہ آباد ضلع قصور کے لیے وقت دیا تھا، لیکن حضرت مولانا غلام مصطفی مرحوم نے ٹھینگی کالونی وہاڑی سمجھا اور بندہ کو مبارک باد دے دی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ حضرت اقدس ؒ کواپنے شایان شان جزاے خیر عطا فرماے کہ بہاولپور سے ٹھینگ موڑ میں راستے میں ہونے کی وجہ سے بالکل نومولود جامعہ خالد بن ولید میں تشریف آوری کی خوشخبری سے شاد کام فرمایا اور ۲۳؍رجب ۱۳۰۶ھ کو قبیل از عصر تشریف لائے۔ نماز عصر پڑھائی اور طویل دعا فرما کر عظیم خوشخبری بھی عنایت فرمائی ’’کہ اس سرزمین سے علم کی نورانی شعاعیں پھوٹتی نظر آر ہی ہیں۔‘‘ ( قلند ر ہرچہ گوید دیدہ گوید ) او ر فرمایا کہ اگر مجھے رات کے جلسے میں نہ پہنچنا ہوتا تو رات یہیں گزارتا۔ حوصلہ افزائی اور صغیر پروری کی انتہا فرمائی۔ رجسٹر پر سب سے پہلی وقیع رائے گرامی تحریر فرمائی اور اپنے اگلے نظم پر روانہ ہو گئے۔ (فجزاھم اللہ احسن الجزاء فی الاخرۃ والاولی) پھر تشریف آوری کے آثار قبولیت بفضلہ تعالی یوں ظاہر ہوئے کہ بعد از نماز عشا شاداں وفرحاں سویا تو رات سوا ایک بجے کے قریب دیکھتاہوں کہ مفسر قرآن حضرت مولانا عبداللہ بہلویؒ جامعہ میں تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ’’ لائیے وہ رجسٹر جس پر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے رائے گرامی تحریر فرمائی ہے۔ میں بھی وہیں دستخط کروں گا‘‘۔ چنانچہ دستخط فرمائے۔ بندہ کی آنکھ کھل گئی۔ پون گھنٹہ بعد پھر نیند میں دیکھا کہ جانشین امام لاہوریؒ ولی ابن ولی حضرت مولانا عبیداللہ انور ؒ خوب صورت گاڑی پر جامعہ تشریف لائے ہیں۔ دو ڈبے مٹھائی کے ہاتھ میں ہیں او ر فرمایا، ایک ڈبہ اپنی چھوٹی بیٹی سلمہا ( جو اس وقت دورہ حدیث شریف میں تھی) کو دیں اور دوسرا ڈبہ طلبہ حفظ قرآن میں تقسیم کر دیں، اور وہ رجسٹر لائیں جس میں حضرت امام اہل سنتؒ کی رائے گرامی تحریر ہے۔ میں (مولانا عبید اللہ انور) بھی وہیں دستخط کروں گا۔ چنانچہ دستخط فرمائے۔ بندہ بیدار ہوا تو بالکل محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے رجسٹر ہاتھ میں ہے اور حضرت انورؒ ابھی ابھی تشریف لے جا رہے ہیں۔ فالحمد للہ علی ذلک حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ۔ اس کے بعد بفضلہ تعالیٰ اپنائیت کا یہ عالم تھا کہ بندہ بیسیوں مرتبہ حاضر خدمت ہوا اور حضرت اقدس ؒ کی مشفقانہ توجہات کریمانہ کو سمیٹتا رہا۔ اللہ جزائے خیر عطا فرمائے مفتی محمد مظہر شاہ اسعدی کو کہ بہاولپور میں شیخ الاسلام ؒ سیمینار منعقد کرکے جملہ اکابر دامت برکاتہم کے فیض برکات سے متمتع ہونے کا موقع مہیا فرمایا جس میں بطور خاص حضرت مولانا سید محمد ارشد مدنی مدظلہ کی صدارت میں کثیر تعداد میں بلند وبالاعلمی شخصیات کی شرکت وزیارت اور ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
اس دوران معلوم ہو اکہ پیرانہ سالی اور حد درجہ ضعف کے باوجود حضرت امام اہل سنتؒ نے ریاست بہاولپور کے کافی مدارس قدیمہ میں تشریف لے جانا قبول فرمایا ہے تو داعیہ عشق ومحبت نے مہمیز لگائی اور جانشین شیخ حضرت مولانا زاہدا لراشدی مدظلہ اور مولانا عبدالحق خان بشیر مدظلہ سے درخواست کی کہ واپسی میں مروراً ہی سہی، شرف آمدن باعث آبادئی ماہو جائے تو ’’قلیل منک یکفینی ولکن قلیلک لا یقال لہ قلیل‘‘ کے ہدیہ وقیعہ پر تہہ دل سے شکر گزار رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ دونوں بھائیوں کو جزائے خیر عطافرمائے کہ محترم صاحبزادہ مولانا قاری عزیزالرحمن شاہد کے ذمہ لگایا کہ چونکہ تھکاوٹ اور ضعف بہت زیادہ ہے، لہٰذا تھوڑے وقت کے لیے مروراً دعا فرماتے جائیں گے ۔ بس پھر کیا تھا ’’سَنۃ الوصال سِنۃ وسِنۃ الفراق سَنۃ‘‘ والے انتظار طویل کے لمحے گزرنے لگے یہاں تک قریب مغرب ۲۷؍محرم ۱۴۲۶ھ حضرت مع رفقا تشریف لائے۔ طلبہ نے بھی بفضلہ تعالیٰ بھر پور والہانہ استقبال کیا۔ جب گاڑی مسجد کی دائیں طرف رکی اور حسب امید ووعدہ حضرت اقدس ؒ سے دعا کی درخواست کی گئی تو پو چھا کون سی جگہ ہے؟ عرض کیا گیا ’’جامعہ خالد بن ولید‘‘ تو قربان جائیں ان کی مہروشفقت پر، فرمایا مجھے اتارو، رات یہیں رہیں گے۔ اللہ اللہ! خادم نبوت سیدنا انس بن مالکؓ کا وہ سرور بخش جملہ مستحضرہوا ’’کانی انظر الی وبیض خاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘۔ بندہ بھی اپنی اس مسرت او ر خوشی کو لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہے۔ عشا کی نماز کے بعد مختصراً خود اور پھر اپنے عزیز صالح کے ذریعے مسئلہ حیات النبی علیٰ صاحبہا الف الف تحیۃ وسلام کی اہمیت کاتذکرہ فرمایا اور تمام اساتذہ وطلبہ سے اس پر قائم رہنے کا عہد وپیمان لیا اوراسی شرط پر اپنی جملہ سندات علیاء سے اجازت حدیث بھی عطافرمائی۔ (فجزاھم اللہ احسن الجزاء واحسنہ)۔
صبح ناشتہ کے بعد روانگی سے قبل بندہ نے حقیر سا ہدیہ پیش خدمت کیا تو فرمایا ’’تبرکاً لے رہا ہوں‘‘۔ ڈھیروں شکریہ اور دعاؤں سے حضرت اقدس ؒ کو جملہ اساتذہ اور طلبہ نے الوداعی سلام کہہ کر روانہ کیا۔ بعدا زاں حضرت اقدسؒ کی ہر مرتبہ زیارت ’’یزیدک وجہہ حسنا اذا ما زدتہ نظرا‘‘ کامنظر پیش کرتی رہی۔ یہاں تک کہ محترم بھائی محمد نعیم بٹ صاحب کا پیغام ملاکہ حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ صاحب مدظلہ کی، حضرت مولانامحمد طارق جمیل مدظلہ کے متعلق ایک تحریر کے سلسلے میں حضرت اقدس ؒ سے ملاقات ضروری ہے۔ اس پیغام پر بندہ ۲۰؍ ربیع الاول ۱۴۲۹ ھ بروز بدھ حضرت اقدس ؒ کی خدمت میں پہنچا۔ زیارت ہوئی، سلام کیا اورجامعہ کانام لیا تو فوراً پہچان کر فرمایا کہ ہاں آپ ہی کے ایک مدرس نے ’’فضل الرحمن فی حل ترکیب القرآن‘‘ کتاب لکھی ہے اور پھر دورۂ حدیث شریف میں طلبہ وطالبات کی تعداد پوچھی۔ بتلانے پر بہت خوش ہوئے اور ڈھیروں دعائیں دیں۔ باربار فرماتے کہ ایمان کے بعداللہ کی بڑی نعمت صحت ہے۔ پھر فرمایا کہ چار سال سے بے کار پڑا ہوں، دعا کریں اللہ تعالیٰ ایمان پر خاتمہ فرمائے۔ جب بندہ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کی زندگی کے بقیہ ایام بھی استقامت علی الدین، عزت وصحت کاملہ سے نصیب فرما کر ہم سب کا خاتمہ ایمان کامل پر فرماد یں تو بلند آواز سے تین مرتبہ آمین آمین آمین کہا۔ اسی دوران صاحبزادہ عزیز الرحمن شاہد صاحب کی موجودگی میں بندہ نے عرض کیا کہ مولانا مفتی محمد عیسیٰ صاحب کی بعض عنوانات پر گرفت گو اصولی ہے، لیکن طبع ہونے پر دین دشمن لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع ملے گا، لہٰذا حضرت اقدسؒ مفتی صاحب کو حکماً طباعت سے روک دیں۔ صاحبزادہ صاحب کی موجودگی میں حضرت اقدس ؒ نے تائید فرمائی۔ قریباً ایک گھنٹہ کی سعادتوں سے لبریز محفل سے اٹھتے وقت اجازت چاہی تو ڈھیروں دعا ئیں دیں۔
یہ علم نہ تھا کہ یہ آخری ملاقات ہوگی، لیکن احساس ہو رہا تھا کہ ’’من احب لقاء اللہ احب لقاۂ‘‘ کا مصداق یقیناً ’’یختار ما عند اللہ علی ما عند الناس‘‘ کے انتظار میں ہے۔ یہی ہوا۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد بندہ حرمین شریفین زادہما اللہ شرفاً کے لیے پابرکاب سفر تھا کہ صبح سوا دو بجے استاد مکرم حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی مدظلہ کی جانب سے فون موصول ہوا کہ حضرت اقدس ؒ لاحق بالصالحین ہوچکے۔ فوراً حضرت مولانا زاہدالراشدی مدظلہ سے تصدیق کرکے فون پر تعزیت کی: ’’فان للہ ما اخذ ولہ ما اعطی وکل شئ عند ہ باجل مسمی، فلتصبروا ولتحسنوا‘‘۔ اس طرح کروڑوں مسلمانوں کے مرکز عقید ت، لاکھوں کے شیخ طریقت او رہزاروں اہل علم کے شیخ واستاد نفس مطمئنۃ کے حامل ’’رجو ع الی ربہ راضیۃ مرضیۃ‘‘ کے سفر عشق ومحبت پر روانہ ہوگئے۔
اللھم وسع مدخلہ وبرد مضجعہ وادخلہ فی دار نعیمک المقیم الذی لایزول ولایحول۔ آمین یا اکرام الاکرمین۔
دل کی گہرائیوں سے بارگاہ کریمی میں دعاہے کہ اللہ بلند وبالا حضرت اقدس ؒ کے نسبی وروحانی جملہ پس ماندگان کو صبرجمیل و اجز جزیل سے مالا مال فرما کر حضرت اقدس ؒ کے ایمانی، علمی اور اخلاقی کمالات علیا وآثار حسنہ کو قیامت کی صبح تک زندہ وتابندہ رکھ کر امت کے لیے ہرنوع کی رہنمائی کا ذریعہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔