مولانا محمد عمار خان ناصر نے ’’الشریعہ‘‘ کی اشاعت خاص کے لیے کچھ تحریر کرنے کا اشارہ فرمایا۔ ان کی حوصلہ افزائی سے سہارا ملا اور ہمت کر کے قلم اٹھا لیا، ورنہ اس حساس وادی کے نشیب وفراز سے سچی بات ہے کہ میں آشنا نہیں ہوں۔ مولانا عمار ناصر حضرت امام اہل سنت ؒ کے پوتے ہیں۔ ان کی زبان سے یہ لفظ سن کر کہ ’’حضرت امام اہل سنت ؒ اور مفسر قرآن مولانا عبدالحمیدخان سواتیؒ ، دونوں بھائیوں کے بارے میں جو جو واقعات آپ کے ذہن میں محفوظ ہیں، وہ لکھ دیں‘‘، ایک عجیب خوشی اور مسرت کا احساس ہوا کہ جیسے دونوں بھائیوں میں ز ندگی بھر باہمی تعلق اور محبت وپیار میں کبھی فرق نہ آیا،ا سی طرح ان کی اولاد در اولاد اسی انس والفت اور خلوص سے سرشار نظر آتی ہے۔ خدا کرے، یہ تسلسل نسل در نسل سدا قائم رہے۔
امام اہل سنت اور مفسر قرآن دونوں بھائیوں کے حالات وواقعات بچپن سے لے کر جوانی تک اور جوانی سے لے کر بڑھاپے تک کچھ اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک کی سوانح حیات مرتب کی جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ دو شخصیات کے حالات زندگی لکھے گئے ہیں۔ حضرت شیخ سرفراز خان صفدرؒ بڑے تھے اور انہوں نے بڑے بھائی کا نہ صرف حق ادا کر دیا بلکہ ایک مثال قائم کر دی۔ حضرت سواتی ؒ چھوٹے تھے اور انھوں نے پوری زندگی اپنے بڑے بھائی کے احسانات کو نہیں بھلایا۔ حضرت شیخ صفدرؒ کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’آپ کے احسانات بالعموم ہم سب پر اور بالخصوص اس احقر پر بہت زیادہ ہیں۔ ان کا اجر اللہ تعالیٰ آپ کو عطا فرمائے گا۔ آپ کی شفقت، رافت، تربیت اور رہنمائی پر احقر تادم واپسیںآپ کے لیے اور جملہ خاندان کے لیے دعاگو ہے اور دعا گو رہے گا‘‘۔
شیخین کریمین ؒ سے اللہ تعالیٰ نے خوب دین کا کام لیا۔ جانے والا دنیا سے چلا جاتا ہے، اس کے آثار بطور یادگار باقی رہ جاتے ہیں۔ شیخین کی ایسی یادگاریں قائم ہو چکی ہیں جن کا سلسلہ خیر ان شاء اللہ قیامت کی صبح تک چلتا ہی رہے گا۔ دونوں بھائیوں سے اللہ تعالیٰ نے دینی خدمات کے علاوہ تمام علوم کی مخدوم کتاب قرآن مجید کی کمال خدمت لی ہے۔ دونوں نے اپنے منفرد انوکھے انداز میں فہم قرآن کی تحریک کو پروان چڑھایا جس سے اہل علم اور عوام اپنی اپنی بساط کے مطابق مستفیض ہو رہے ہیں۔
راقم الحروف ۱۹۷۱ء میں جامعہ نصرۃ العلوم میں داخل ہوا۔ اس سے پہلے شیخین سے تعارف نہیں تھا۔ جب مدرسہ قادریہ بدوکی سیکھووال میں درجہ حفظ کا طالب علم تھا تو قلعہ دیدار سنگھ کے سالا نہ جلسہ میں شریک ہوئے۔ اتنا یاد ہے کہ ظہر کے بعد حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ؒ کا بیان سننے اور دور سے زیارت کا موقع نصیب ہوا تھا۔ اب جامعہ میں شیخین کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ دونوں بھائی اخلا ق میں اپنی مثال آپ ہی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کریم نے ان کا فیض پوری دنیا میں عام کر دیا۔ دیانت، امانت، تقویٰ، خلوص اور للہیت میں دونوں بھائی اپنے اکابر کی یادگار تھے۔ مدرسہ پر اللہ کی خصوصی رحمت ہے۔
ایک دن صبح صبح تیز بارش ہوئی۔ راقم الحرو ف اور مولانا عبدالہادی شیخوپوری ؒ (بہت اچھے خطیب تھے اور نوجوانی میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اللہ ان کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین) ہم دونوں سیالکوٹ روڈ سے اکٹھے مدرسہ جایا کرتے تھے۔ جب بارش تھمی تو ہم مدرسہ پہنچے۔ خیال تھا کہ آج حضرت یقیناًنہ پہنچ سکیں گے، مگر پہنچنے سے قبل حضرت سبق پڑھاچکے تھے اور حاضری لگا رہے تھے۔ ہم بمشکل غیر حاضری سے بچے۔ جی ٹی روڈ سے بارش میں پیدل چل کر حضرت اپنے معمول کے وقت مدرسہ تشریف لائے۔
جمعرات کو مدرسہ میں تعطیل کا معمول تھا۔ شام کو گاؤں جانا ہوتا تھا اور جمعہ کی شام کو واپسی ہوتی تھی۔ گاؤں میں ایک رشتہ دار کی بیٹی تھی، اور اس کے علاوہ کوئی اولاد نہ تھی۔ وہ سخت بیمار ہو گئی اور مایوسی کی حد تک بات پہنچ گئی۔ اس نے مجھ سے بات کی تو میں نے کہا، صدقہ کرو، اللہ کر م کر دے گا۔ میں مدرسہ آنے لگا۔ وہ رقم لے کر آگیا کہ تم خود ہی جہاں چاہو، دے دینا۔ میں نے مدرسہ آتے ہی دفتر میں حضرت صوفی صاحب ؒ کو وہ رقم دی اور رسید حاصل کر لی۔ وہ ٹائم بھی نوٹ کر لیا۔ جب گاؤں گیا تو متعلقہ آدمی سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اسی روز اللہ نے مہربانی فرمائی اور مریضہ کو افاقہ ہو گیا۔ میں نے کرید کر پوچھا کہ کب اس کو افاقہ ہوا تو انہوں نے وہی وقت بتایا جو میں نے نوٹ کیا تھا۔ جونہی حضرت صوفی صاحب ؒ نے رسید کاٹی، اسی وقت اللہ نے شفا عطا فرما دی۔ یہ حضرت کے خلوص وللہیت اور مدرسہ کے نظام میں دیانت وتقویٰ کی بدولت رحمت خداوندی اور بارگاہ میں قبولیت کی دلیل ہے۔
میں نے ۱۹۷۱ء ہی سے مسجد ختم نبوت ابوبکرٹاؤن میں خطابت شروع کر دی تھی۔ مسجد کی توسیع کا فیصلہ ہوا تو سنگ بنیاد کے لیے حضرت نے نو بجے صبح کا وقت دیا۔ لوگو ں کا خیال تھا کہ دس بجے تک حضرت تشریف لائیں گے، مگر حضرت نوبجے سے پانچ منٹ پہلے تشریف لے آئے۔ سب لو گ حیران ہوئے۔ کچھ صحافی دوست بھی تھے۔ کہنے لگے، یہ پابندئ وقت کی ایک مثال ہے۔ ہماری صحافیانہ زندگی میں یہ پہلا موقع ہے۔ بہت متاثر ہوئے۔
ایک دفعہ کسی پروگرام میں شرکت کے سلسلے میں گکھڑ جانا ہوا۔ تاخیر کی وجہ سے واپسی کی سواری نہ مل سکی۔ حضرت کے صاحبزادہ قاری ماجد صاحب مرحوم ا صرار کرکے گھر لے گئے اور مہمان خانے میں بستر بچھا دیا۔ میں لیٹ تو گیا لیکن نیند نہیں آرہی تھی۔ صبح کی اذان سے تھوڑا پہلے غنودگی طاری ہو گئی جو نیم بے ہوشی کی سی تھی۔ اتنا یاد ہے کہ کمرہ میں حضرت تشریف لائے اور کہا ’’ سنگیا، نماز دی تیار ی کرو‘‘۔ اسی طرح غنودگی میں اٹھا۔ حضرت چلے گئے اورکچھ دیر بعد مسجد میں گیا اور نماز ادا کی۔ واپسی پر جب جیب میں ہاتھ ڈالا تو دو سو روپے ہاتھ آئے۔ ایک طالب علم کے لیے یہ اچھی خاصی رقم تھی۔ یہ حضرت امام اہل سنتؒ کی سخاوت او ر طلبہ کے ساتھ محبت وشفقت تھی کہ مجھے اٹھاتے ہوئے جیب میں دو سو روپے ڈال دیے کہ یہ پروگرام میں آیا ہے، پتہ نہیں اس کے پاس کرایہ ہے یا نہیں۔
ذوالفقار علی بھٹوکے دور میں علما پر سولہ ایم پی او کی بار ش تھی۔ جلسہ میں جس نے تلاوت بھی کی، اس پر کیس بن گیا۔ ایک جلسہ ہوا۔ حضرت امام اہل سنتؒ ، مولانا زاہد الراشدی، مولانا حبیب اللہ فاضل رشیدی، مولانا عبدالرؤف چشتی اور دیگر علما اور راقم الحروف کے خلاف سولہ ایم پی او کے مقدمات درج ہوئے۔ قبل از گرفتاری ضمانت کے لیے درخواست دی گئی۔ مولانا زاہدالراشدی کے خلاف سرکاری وکیل نے کہا کہ ملز م نے پیپلز پارٹی پر سخت تنقید کی ہے۔ جج نے پوچھا، ملزم کا تعلق جس جماعت سے ہے، وہ حزب اقتدار میں ہے یا حزب اختلا ف میں۔ اس نے کہا، حزب اختلاف میں ہے تو جج نے کہا کہ پھر تو تنقید کرنا ان کا حق ہے۔ اس طرح ضمانت ہو گئی۔ راقم الحروف سے جج نے کہا کہ تمہارے نام کے ساتھ حافظ لکھا ہے تو تم نے تو تلاوت کرنی تھی، جبکہ ادھر تمہاری تقریر لکھی ہے۔ میں نے کہا کہ تلاوت کے بعد ترجمہ اور پھر اس کی تشریح کی تھی۔ جج نے مسکرا کر ضمانت منظور کرلی۔ جب مولانا چشتی کی باری آئی تو جج نے انہیں مخاطب کر کے کہا، مولانا آپ کی تقریر میں ایک لفظ لکھا ہے ’’دیوث‘‘، میں اس کی وضاحت پوچھ سکتا ہوں؟ مولانا کٹہرے میں کھڑے تھے۔ گرج کر بآواز بلندکہا: ’’سب سے بڑا بے غیر ت‘‘۔ جج نے کہا، مولانا! اب میں مجبو ر ہوں۔ اس نے ضمانت کینسل کر دی۔ حضرت امام اہل سنتؒ کی ضمانت ایک روز پہلے ہی ہو چکی تھی۔ میں مدرسہ میں حاضر ہوا اور پوری کار گزاری سنائی اور مولانا عبدا لرؤف چشتی کے بارے میں اشارۃً کہہ دیا کہ اگر وہ بھی نرم الفاظ سے وضاحت کرتے توا ن کی بھی ضمانت ہو جاتی۔ حضرت نے فوراً فرمایا، انہوں نے جرات سے کام لیتے ہوئے قابل قدر کردار ادا کیا ہے۔ گویا حضرت کو جرات مندانہ انداز اور حق گوئی پسند تھے۔
مولانا عمر قریشی میرے پاس تشریف لائے۔ فرمانے لگے،حضرت شیخ کی خدمت میں حاضری دینی ہے، زیارت کو دل بے قرار ہے۔ ہم گکھڑ حضرت کے پاس حاضر ہوئے تو میں نے عرض کیا کہ طبیعت کیسی ہے؟ فرمانے لگے کہ میرا حافظہ ختم ہوگیا۔ حافظہ ختم ہوگیا۔ یہ جملہ مسلسل دہرانے لگے۔ چہرہ اقدس سے پریشانی صاف نظرآنے لگی۔ میں نے قریشی صاحب سے کہا کہ اگر کوئی حوالہ درکار ہے تو حضرت سے پوچھ لیں۔ انہوں نے فوراً کسی حوالہ کے متعلق سوال کر دیا۔ حضرت نے اسی وقت کوئی سات آٹھ کتب کے نام لیے کہ ان میں دیکھیں، مل جائے گا۔ ان میں کئی کتابوں کے صفحات کی بھی نشان دہی فرما دی۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت آپ کا حافظہ تو ماشا ء اللہ تروتازہ ہے۔ اس پر ہنسنے لگے اور پھر خوش گوار موڈ میں بہت دیر تک گفتگو فرماتے رہے اور دوران گفتگو اشعار بھی سناتے رہے۔
آپ کے عمومی دروس اور وعظوں میں شریک ہونے والے لوگ بھی اچھی خاصی دینی معلومات کے حامل ہو جاتے تھے ۔ غالباً ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران حضرت شیخ گرفتار ہو گئے تو راقم الحروف کو پیغام ملا کہ گکھڑ منڈی میں حضرت کی جگہ جمعہ پڑھانا ہے۔ حکم کی تعمیل میں حاضر ہوا اور جمعہ کا خطبہ دیا۔ کچھ عرصہ کے بعد حضرت کی رہائی ہوئی۔ انہی دنوں جمعیت علماے اسلام کی طرف سے مکی مسجد ڈیوڑھا پھاٹک میں پروگرام تھا۔ جمعیت علماے اسلام کے ضلعی امیر آپ ہی تھے۔ بطور مہمان خصوصی آپ تشریف لائے۔ بہت سے کارکن استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ میں بھی انہی میں شامل استقبالیہ ٹیم کا حصہ تھا۔ آپ کی تشریف آوری پر دوسروں کے ساتھ میں بھی آپ سے ملا۔ مصافحہ کیا، حال احوال پوچھا تومیرا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گئے اور فرمایا : ’’او سنگیا، جمعے وچ کی بیان کیتا ای؟ میں انہاں نوں صحاح ستہ توں علاوہ کنزالعمال جہیاں حدیث دیاں کتاباں سنا دتیاں نیں‘‘، کہ میں نے لوگوں کو اتنی احادیث مبارکہ سنادی ہیں کہ اب ان کے سامنے سوچ سمجھ کر اور محتاط ہو کر بیان کرناچاہیے۔ اصل میں ہوا یوں کہ کفار مکہ کی ایذا رسانیوں کو بیان کرتے ہوئے میں نے دو واقعے بیان کیے۔ ایک یہ کہ محسن کائنات صلی اللہ علیہ وسلم حرم میں نماز پڑھ رہے تھے اور سرسجدہ میں تھا کہ کفار مکہ نے سرپر اوجھڑی لاکر رکھ دی اوردوسرا واقعہ یہ کہ آپ حرم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر کھینچا گیا۔ پہلے واقعہ میں حضرت فاطمہ نے آکر اوجھڑی کو اٹھایا تھا، جبکہ دوسرے واقعہ میں حضرت ابو بکر صدیق نے آکر چھڑوایا اور فرمایا کہ کیا تم اس آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ رب میرا اللہ ہے۔ میں نے جمعے کے خطا ب میں اس کے برعکس بیان کر دیا تھا۔ حضرت الشیخ نے فرمایا : یہاں کے لوگ میرے مقتدی اتنے سے فرق کو بھی سمجھتے اور نوٹ کرتے ہیں۔
ہم اپنے اساتذہ سے سنتے آئے ہیں کہ حضرت مدنی نوراللہ مرقدہ کا دسترخوان بڑا وسیع تھا۔ ہمارے حضرت بھی اپنے استاذ محترم کی طرح بہت مہمان نواز تھے۔ آنے والوں سے بڑی خوشی اور خندہ پیشانی کے ساتھ مسکرا مسکرا کر ملتے، حال احوال پوچھتے، چائے پانی پیش کرتے، اور اگر کھانے کا وقت ہوتا تو کھانا کھائے بغیر نہ جانے دیتے۔ اس میں اپنے بیگا نے کی کوئی تمیز نہ تھی، سب کے لیے آپ کی سخاوت یکساں تھی۔ جب تک صحت تھی، مہمان کے لیے خود چائے لاتے، پانی پلاتے، اور کھانا اٹھا کر لاتے۔ مہمانوں کی خدمت کرتے ہوئے پیشانی مبارک پر کبھی شکن نہ آتی۔ اپنے انداز اور اخلاق سے آنے والے کا دل موہ لیتے اور وہ سمجھتا کہ آپ مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔
کسی کی غیبت نہ سنتے۔ طبیعت میں عاجزی وانکساری تھی۔ ہر ایک کی خیر خواہی اور بہتری چاہتے۔ ایک روز مدرسہ نصرۃ العلوم میں اسباق سے فراغت کے بعد دفتر کے سامنے چار پائی پر بیٹھے تھے کہ اچانک خاکروب پر نظر پڑی جو نیچے زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ فرمایا، اسے اٹھا کر اوپربٹھا ؤ۔ حاضرین نے عرض کی کہ خاکروب ہے اور عیسائی ہے۔ حضرت نے فرمایا، انسان تو ہے، چنانچہ اسے اٹھا کر چارپائی پر بٹھا یا گیا۔ مولانا شفیق الرحمن بہاولپوری نے ڈبڈباتی آنکھوں سے یہ واقعہ مولانا عبید اللہ عامر کو سناتے ہوئے کہا کہ ہمارے اکا بر سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور سید حسین احمد مدنی کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔
حضرت الشیخ خشک طبیعت اور سخت مزاج نہ تھے بلکہ باغ وبہار شخصیت تھے۔مزاح اور دل لگی میں بے تکلفی کے ساتھ ایسی بات ارشاد فرماتے کہ پوری محفل کشت زعفران بن جاتی۔ علالت کے دنوں میں جب حضرت صاحب فراش تھے اور چلنا پھرنا ممکن نہ تھا، انہی دنوں میں آپ مولانا حافظ عبدالقدوس قارن کی رہایش گاہ واقع مدرسہ نصرۃ العلوم میں تشریف لائے۔ میں بھی اپنے بیٹوں حافظ عمر فاروق، حافظ محمد ابوبکر اور حافظ علی زبیر سمیت حاضر ہوا۔ اس وقت حضرت بڑے خوشگوار موڈ میں تھے۔ کچھ روز قبل فالج کا حملہ ہوا تھا، لیکن کنٹرول ہو گیا تھا۔ ہاتھ کو حرکت دینے کے لیے آلۂ ورزش دیا گیا تھا تاکہ ہاتھ ہلتا رہے اور ورزش ہوتی رہے۔ یہ بھی علاج کاایک حصہ تھا۔ حاضر ین مجلس میں سے کسی نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا ہے؟ تو فرمایا: ’’کھلونا دے کے بہلایا گیا ہوں‘‘ جس سے سب حاضرین بہت محظوظ ہوئے۔
صاحبزادہ مولانا حماد الزہراوی کے حکم پر ۲؍ مئی کا جمعہ مجھے گکھڑ میں حضرت شیخ کی مسجد میں پڑھانے کا موقع ملا۔ گکھڑ اور گردونواح میں اس مسجد کو بوہڑ والی مسجد کہا جاتا تھا، مگر اب اس کا تعارف ’’مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ والی مسجد‘‘ ہے۔ منبر کے بالکل سامنے دوسری صف میں ایک صحت مند بزرگ سفید گھنی لمبی ڈاڑھی چہرے پر سجائے بیٹھے تھے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ نت کلاں کے رہنے والے ہیں۔ (نت کلاں روڈ کا نام اب حضرت کے نام مبارک پر ’’مولانا محمد سرفراز خان صفدر روڈ‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ اسی روڈ پر وہ قبرستان ہے جس میں حضرت مدفون ہیں۔ گیٹ کے سامنے آپ کی قبر مبارک ہے اور جس طرح زندگی میں آپ کا گھر جی ٹی روڈ کے قریب ہونے کی وجہ سے ہر آنے والے کے لیے دروازہ کھلا رہتا تھا، اسی طرح اب آپ کی قبر کی زیارت کرنے میں بھی کوئی دقت نہیں ہوتی۔) جب بھی حضرت کا نام آتا، اس بوڑھے کی کیفیت دیدنی ہوتی۔ تقریر ختم ہوتے ہی خطبہ جمعہ سے قبل بھیگی آنکھوں سے کھڑا ہو کر مجھ سے ملا۔ اس کی نگاہیں اور اس کے آنسو الفاظ کے بغیر بہت کچھ کہہ گئے۔ نماز سے فراغت کے بعد اس نے ایک جملہ کہا جو سادہ سا جملہ تھا لیکن اس میں معانی کا سمندر تھا۔ اس نے کہا کہ ’’جتھے وی گئے آں، جیدے کولوں وی حدیثاں قرآن دیاں گلاں سن دے ہاں، انج لگدا اے اساں سنیاں ہوئیاں نیں‘‘، یعنی جب بھی کسی بزرگ شیخ سے ہم قرآن وحدیث کی باتیں سنتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ یہ تو ہم نے پہلے ہی سے سن رکھی ہیں، یعنی حضرت مرحوم نے ہمیں سبھی کچھ سنا دیا ہے۔ یہی کیفیت ہے آج آپ کے شاگردوں‘ فیض یافتگان اور آپ کے قریب رہنے والوں کی کہ جہاں بھی جا کر عقیدہ‘ دین‘ اسلام‘ حدیث اور قرآن کی باتیں سنتے ہیں، یوں لگتا ہے کہ یہ تو ہم کو حضرت نے بتایا تھا‘ سنایا تھا۔
سب سے اہم سبق جو ہم نے آپ سے سیکھا، وہ اپنے اکابر پر اعتماد ہے کیونکہ سب سے بڑا فتنہ آج کے دور میں اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا اور اکابر، اپنے بزرگوں پر عدم اعتماد ہے۔ حضرت اس معاملہ میں بہت محتاط تھے۔ آخری دنوں میں ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ آج تک میں نے اپنی راے سے کبھی فتویٰ نہیں دیا۔ جو کچھ بتایا‘ کہا یا لکھا، ہمیشہ اپنے اکابر کی رائے کو ہی اپنایا، اسی کو ترجیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند سے لے کر جامعہ خیر المدارس،جامعہ بنوریہ، دارالعلوم حقانیہ کے اکابر بلکہ اہل السنت والجماعت علماے دیوبند کے تمام حلقے آپ پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ گویا آپ اہل حق کی معتمد علیہ شخصیت تھے۔ کراچی کے اہل علم علما واکابرین کا آپ کو ’’امام اہل سنت‘‘کا لقب دینا آپ پر مکمل اعتماد کا بین ثبوت ہے۔ آپ کے ساتھ تعلق، نسبت اور آپ کی محبت اور آپ کا نہج اہل سنت ہونے کی دلیل اور علامت ہے۔
حضرت امام اہل سنتؒ ایک جامع شخصیت کے حامل تھے۔ ہمہ جہت خوبیوں کے مرقع اور غیر معمولی خصوصیات کا مجموعہ تھے۔ قدرت نے آپ کوایک ایسا گلدستہ بنا دیا جس میں ہر قسم کے پھول کی خوشبو مہکتی تھی۔ تدریس ،خطابت، وعظ، تصنیف، خوش اخلاق، ملنساری، جودوسخا، عاجزی، معاملات کی صفائی، دل جوئی، مہمان نوازی ،حق گوئی، اکابر واسلاف سے سچی عقیدت، محبت رسول کی خوشبو اور سنت رسول کے رنگ میں ایسے رنگے ہوئے تھے کہ ہر ہر ادااور قول وفعل سے سنت کی جھلک نمایاں تھی۔ جس نے اللہ اور رسول اور ان کے سچے دین سے اپنا رشتہ جوڑ لیا، اس کا نام ہمیشہ روشن رہتاہے۔
آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو
گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا