قیام پاکستان کے بعد گوجرانوالہ میں پادری ومسیحی مبلغین تبشیری واسلام مخالف سرگرمیوں میں بہت فعال رہے ہیں۔ ان میں پادری عبدالقیوم،اے۔ ڈیوڈ، خورشید عالم، نذیر یوسف، عنایت اللہ، آرا ارجیان، اسلم برکت، الیگزینڈر دیور، کینتھ سپارٹن، انور صدیق، ڈاکٹر کند ن لعل ناصر اور اب میجر (ر) ٹی ناصر بہت نمایاں ہیں۔ چرچ آف سینٹ پال، ڈسکہ روڈ، گوجرانوالہ؛ چرچ آف سینٹ فرانسیس زیونیر، حافظ آبا د روڈ، گوجرانوالہ، کامیاب کتابیں، معرفت سوسائٹی، بنیادی تعلیم بالغاں گوجرانوالہ؛ نرالی کتابیں، سول لائینز گوجرانوالہ اور تھیو لا جیکل سیمینری گوجرانوالہ کے علاقہ میں فلاحی اور بشارتی سرگرمیوں میں اہم کردار کر رہی ہیں۔ (۱) ’’ مسیحی خادم‘‘،’’ مزدور‘‘،’’ جستم‘‘ اور ’’کلام حق‘‘ جیسے کئی جرائد اپنا اپنا کام خاموشی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ (۲) ان میں ’’کلام حق‘‘ متشددانہ اور جارحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے ۔ یہ مجلہ گوجرانوالہ سے ۱۹۶۵ء سے مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ پہلے یہ آنجہانی ڈاکٹر کندن لعل ناصر (۳) کی ادارت میں اور پھر ان کے بیٹے میجر (ر) ٹی۔ ناصر کی نگرانی میں شائع ہوتا رہا۔
گوجرانوالہ میں مسیحی وتبشیری سرگرمیوں کی روک تھام اور ’’ کلام حق‘‘ ایسے جرائد میں شائع ہونے والے مضامین کا جائزہ لینے کی جتنی ضرورت تھی، بد قسمتی سے اس علاقہ کے بڑے علما اتنے ہی غافل نظر آتے ہیں۔ البتہ غفلت وتساہل کے اس ماحول میں دو کتب ایسی ہیں جن کا مطالعہ مسیحیت کے حوالہ سے ذکر ہوتا ہے اور انہیں علمی وقعت ومقام بھی حاصل ہے:
۱۔ حافظ محمد گوندلوی (۴) کی کتاب ’’اثبات التوحید بابطال التثلیث‘‘۔ یہ کتاب پادری عبدالحق صاحب کی کتاب ’’اثبات التثلیث فی التوحید‘‘ (پنجاب ریلجس بک سوسائٹی ،لاہور، باراول ۱۹۶۹ء) کے جواب میں تحریر کی گئی ہے۔ پادری عبدالحق مسیحیوں کے مشہور مبلغ ومناظر تھے۔ وہ گوجرانوالہ کے قریب گاؤں جواتیاں کے ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مولوی محمدعظیم تھا۔ عبدالحق عین شباب میں مرتد ہو گئے۔ منطق وفلسفہ ان کا پسندیدہ موضوع تھا اوراس کی چھوٹی بڑی تمام اصطلاحیں انہیں از بر تھیں جنہیں وہ بے تکلفی سے مناظرے میں استعمال کرتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ آگرہ چلے گئے اور ۱۹۸۰ ء میں چندنی گڑھ ( پنجاب، بھارت ) میں فوت ہوئے ۔
ایک مرتبہ توحید وتثلیث کے مسئلہ پر حافظ محمد گوندلویؒ سے ان کی بحث ہوئی۔ اس سے کچھ عرصہ بعد حافظ صاحب کی ملاقات علامہ سید سلیمان ندویؒ ( ولادت : ۲۲؍نومبر ۱۸۸۴ء ؍۱۳۰۲ھ ، وفات : ۲۲؍نومبر ۱۹۵۳ء ؍۱۵؍ ربیع الاول ۱۳۷۳ھ) سے ہوئی۔ دوران ملاقات حافظ صاحب نے اس بحث کا تذکرہ کیا اور چند پہلوؤں کی وضاحت کی۔ سید صاحب نے ان کو مشورہ دیاکہ اس بحث کو آسان زبان میں منتقل کر کے رسالہ کی صورت میں شائع کر دینا چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے اسے لکھ کر کاتب کو دے دیا۔ چار پانچ روز بعد معلوم ہواکہ کاتب سے یہ مسودہ گم ہو چکا ہے۔ حافظ صاحب حسب عادت خاموش ہو گئے اور کسی قسم کے ملال کاا ظہار نہیں کیا۔ اب اسے دوبارہ لکھا اور کاتب کو د ے دیا۔ اتفاقاً پہلا مسودہ بھی کاتب کو مل گیا۔ دونوں مسودوں کا مقابلہ کیا گیا تو بالکل ایک تھے، کہیں کوئی فرق نہیں تھا۔ (۵)
دوسری اہم کتاب مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی ’’ عیسائیت کا پس منظر‘‘ ہے۔(۶) مولانا صفدرؒ نے اس کتاب کو ۱۹۶۲ء میں تحریر کیا تھا جس کی اشاعت کے بعد انارکلی ،لاہور کے چرچ کے انچارج پادری پطرس گِل اپنے ایک ساتھی پادری کے ساتھ گکھڑ آئے اور اس کتاب کے موضوعات پر گفتگو کے بعد لاجواب ہو کر گئے تھے۔(۷) ’’ عیسائیت کے پس منظر‘‘ کے اندر بڑے مباحث : دنیا میں مسیحیت کی ترقی کے اسباب، صداقت اسلام پر مسیحیوں کی شہادت، حضرت عیسی علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کے نبی تھے، بائبل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشین گوئیاں، حواریوں اور صحابہ کرام کے مابین موازنہ، توہین انبیا، تحریف بائبل اور تثلیث وابنیت مسیح ہیں۔ ان سب پر مولانا سرفرازخان صفدر ؒ نے مسیحی ماخذ کی روشنی میں سیر حاصل، مدلل ومنطقی گفتگو بڑے سلیقے اور جامعیت سے کی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ۱۹۶۰ ء کی دہائی تک مسیحیوں کی تعداد بہت زیادہ بڑی ، جس پر صر ف علماے حق اوراخباری طبقہ ہی پریشان نہیں ہوا بلکہ خود حکومت پاکستان نے اس پر تشویش کا اظہار کیا۔ مولانا نے اس کے اسباب کی نشاندہی کی اور کہا کہ:
’’بعض لوگوں کے اسلام سے متنفر ہونے کا سبب خو دمسلمانوں کا غیر اسلامی کردار اور شعائر اسلام سے بے پروائی اور غفلت ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایک وہ دور تھا، جس میں مسلمانوں کے اجتماعی ماحول اور ان کی شکلوں اور ان کے کردار اور گفتار سے متاثر ہوکر لوگ مسلمان ہوتے تھے‘‘۔ (۸)
مسیحی ، مخالفین اسلام اور بالخصوص مستشرقین نے یہ شوشہ چھوڑ رکھا ہے کہ اسلام چونکہ بزور شمشیر پھیلاہے اور مسیحیت محبت کا مذہب ہے، اس لیے عالم اسلام اور خاص کر پاکستان کے مسلمان اسلام چھوڑ کر بڑی رغبت سے مسیحیت قبول کر رہے ہیں۔ اگر مسلم مآخذ سے یہ ثابت کیا جائے کہ اسلام اپنی حقانیت اور صداقت کی وجہ سے دنیامیں چمکاا ور پھیلاہے تو مسیحی اقوام کے لیے اس میں کوئی وزن نہ ہوتا، کیوں کہ جب اسلام کووہ سچا نہیں سمجھتے تو اس کی کتب اور مآخذ کی ان کی ہاں کیا قدر ومنزلت ہوگی۔ اس لیے ضروری تھاکہ اس باب میں انہی کے اقوال پیش کیے جاتے جس سے یہ ثابت ہوکہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کی تابانی نے تھوڑے ہی عرصے میں کرہ ارض کو روشن اورمنور کیا اور بالآخر عرب وعجم کو حق کی آواز کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ اس سلسلہ میں مولانا صفدرؒ نے معروف مستشرقین کی کتاب سے گیارہ اہم اقتباسات مع حوالہ جات نقل کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی ذاتی کشش اور جاذبیت نے ہی لوگوں کے دلوں میں اس کی قبولیت کے لیے قلوب اور اذہان کومتاثر کیا نہ کہ زور وجبر نے، جب کہ مسیحیت کے فروغ کا واحد ذریعہ دولت وعورت اور صنفی حربے ہیں، جس کی وجہ سے وہ دین سے بے بہرہ مگر دنیا کے حریص اور لالچی اشخاص وافراد کواپنا بنا لیتے ہیں۔(۹)
یہاں مولانا نے حیرت او ر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ پادری جودنیا بھر میں مسیحیت کی تبلیغ کرتے پھرتے ہیں، ان کا یہ عمل حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ حضرت مسیح ؑ صرف بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور انہوں نے کبھی غیر اسرائیلیوں کوتبلیغ نہیں کی بلکہ ایک کنعانی عورت ان کی خدمت میں استفادہ کرنے کے لیے آئی تو وہ خاموش ہوگئے اور بہت اصرار کے بعد گویا ہوئے:
’’میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑیوں کے سوا کسی اور کے لیے نہیں بھیجا گیا‘‘ (متی ۱۵: ۲۴۔۲۶)
مزید یہ کہ حضرت مسیح نے جب اپنے حواریوں کو تبلیغ کے لیے بھیجا تو انہیں اس بات کا پابند کیاکہ ’’ غیر قوموں کی طرف نہ جانا‘‘۔ (متی ۱۰: ۶) اس کے بعدمولانا مسیحیوں کے تمام فرقوں میں تبلیغ کے جواز کوتفصیلی دلائل سے باطل قرار دیتے ہیں۔(۱۰) حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت چونکہ صرف بنی اسرائیل تک محدود تھی، اس لیے انہوں نے اپنے حواریوں اور شاگردوں کے توسط سے تمام دنیاکو یہ خوشخبری سنائی کہ میرے بعد ایک ایسے عظیم الشان ہادی تشریف لائیں گے جو تمام اقوام عالم اور ساری دنیا کو تبلیغ کریں گے۔ اس سلسلہ میں حضرت مولانا نے یوحنا ۱۵:۳۰، یوحنا ۱۶:۱۳، ۱۔ کرنتھیوں ۱۳: ۹۔۱۰ اور یوحنا ۱۴: ۱۵ کی بشارتوں کا حوالہ دے کر مسیحیوں کے اس موقف کاسختی سے رد کیا ہے کہ یہ بشارات حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق نہیں ہیں۔
’’عیسائیت کا پس منظر‘‘ کا بڑ احصہ حضرت مسیح کے حواریوں کے کردار اور حضرات صحابہ کرامؓ کے خصائص کے موازنہ پر مشتمل ہے۔ بائبل حضر ت مسیح ؑ کے ساتھیوں اور حواریوں کی جو تصویر دکھاتی ہے ۔ اس کے مطابق:
۱) حواری ایمان وعمل دونوں میں کمزور تھے اور روزے تک نہیں رکھتے تھے۔
۲) حضرت مسیح علیہ السلام کی والدہ اوربھائی ( مسیحی نقطہ نظر کے مطابق ) خداوند کی مرضی پر چلنے والے نہیں تھے۔
۳) پطرس حواری کوانہوں نے اپنے لیے ٹھوکر کا باعث قرار دیا کیوں کہ وہ خداکی باتوں کانہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کادھیان رکھتا تھا۔ ( متی ۱۷: ۲۳ ؛ مرقس ۸: ۳۳)
۴) مسیح علیہ السلام کے ایک شاگرد یہوداہ اسکریوتی نے انہیں پکڑوانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ (متی ۲۶: ۱۴۔۵۰؛ مرقس ۱۴: ۴۴۔۴۵؛ لوقا ۲۲:۴۷۔ ۴۸)
اس کے برعکس صحابہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاں نثاری کا جو فقید المثال جذبہ موجود تھا، اس کی مثال میں مولانا نے تاریخ اسلام کے اس درخشندہ دورسے سولہ واقعات (۱۱) پیش کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے رضاے الٰہی کے لیے استقامت علی الدین اور آپ کی ذات گرامی کے لیے وہ قربانی اور ایسا ایثار کیا ہے جس کی نظیر دیگر انبیا اور بالخصوص حضرت مسیح علیہ السلام کے شاگردوں حتیٰ کہ بارہ قریبی حواریوں میں بھی نہیں پائی جاتی۔
اللہ تعالیٰ نے جن برگزیدہ شخصیات کو لوگوں کے رشد وہدایت اوراصلاح وتزکیہ کے لیے انتخاب فرمایا، انھیں رذائل اور آلایشوں سے بھی محفوظ رکھا، لیکن جب بائبل کامطالعہ کرتے ہوئے انبیا ے کرام کے بارے میں گندی اور فحش باتیں اور مکروہ و دل آزار افعال اور ایسے برے اور قبیح اعمال نظر آتے ہیں تو ان کو پڑھ کر حیاکے مارے آنکھیں زمین میں گڑ جاتی ہیں۔ مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے اپنی کتاب میں بجاطور پر ان واقعات کو رنگین مزاج مصنفین بائبل کی رنگ رلیوں اور عیش کوشیوں کا ثمرہ قرار دیاہے۔ ان کا یہ موقف جدید تحقیقات کی روشنی میں حق پر مبنی ہے کہ ان خواہش کے اندھوں نے انبیاے کرام علیہم السلام اور ان کی نیک اولاد کی طرف بہت سی بے سرو پا باتیں تحریر کرکے اپنے لیے تکمیل خواہش کا چور دروازہ تیار کر لیا ہے تاکہ ان پر کسی کو اعتراض کرنے کی جرات اور ہمت نہ ہو اور وہ دنیا کی ہرعورت سے جائز وناجائز مباشرت کرکے آتش خواہش بجھاتے رہیں ۔ (۱۲)
بائبل کو جو شخص اس قسم کے مضمون سے پر دیکھتا ہے، تو وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یہ ہر گز ہرگز خدا کاکلام نہیں ہے۔ پھر اندرونی اور بیرونی قرائن وشواہد اس بات کواہم ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ اس ضمن میں مولانا صفدرؒ نے درج ذیل دلائل وبراہین پر مفصل گفتگو کی ہے:
۱) قرآن کی طرح تورات کی باقاعدہ تلاوت وحفظ کاکوئی حکم یا رواج نہیں تھا۔
۲) حضرت موسی علیہ السلام نے تورات کا صرف ایک ہی نسخہ تیار کرایا تھا۔ ( استثناء۳۱: ۲۴۔۲۶)
۳) تورات صرف ساتویں سال کے بعد پڑھ کر سنائی جاتی تھی۔ ( استثناء۲۱: ۹۔۱۲)
۴) جو نگران اور محافظ تورات کی حفاظت پر مامور تھے، خود بائبل ان کی اخلاقی پستی کا رونار وتی ہے۔ (یرمیاہ ۲۳: ۱۰۔۱۱)
۵) بنی اسرائیل اپنی دینی غفلت، بدکاری اور بت پرستی کی وجہ سے تورات کی عبارت سمجھنے سے قاصر تھے۔ (عزرا ۷:۱۱)
۶) حضرت یرمیاہ نے صرف صاف الفاظ میں بنی اسرائیل سے اس بات کا شکوہ کیا ہے کہ
’’ تم نے زندہ خدا رب الافواج ہمارے خداکے کلام کو بگاڑ ڈالا ہے۔ ‘‘ ( یرمیاہ ۲۲: ۳۶)
۷) تغافل شعاری کی وجہ سے معدوم ہو جانے والے قدیم صحف وکتب کوسینکڑوں سالوں بعد تنہا عزرا نے از سر نو محض حافظہ کی بنیاد پر تحریرکیا۔
۸) تورات پر فاتح حکمرانوں کی جانب سے پابندی رہی۔
۹) یہود نے بعض کتب کو کھو دیا اور بعض کو پھاڑ ڈالا ۔
عہد نامہ جدید کی تاریخ اور تحریف کے متعلق بھی انہوں نے ٹھوس اور صریح حوالہ جات کے ذریعہ اہم باتیں لکھی ہیں:
۱) ابتدائی ڈیڑھ سوسال میں اناجیل کوکوئی مستند حیثیت حاصل نہ تھی۔
۲) اناجیل کے قدیم نسخوں میں اختلاف عبارت میں زیادہ ہے۔
۳) ڈاکٹر مل نے عہد جدید کے نسخو ں کا تقابل کرنے کے بعد تیس ہزار اختلاف نکالے۔ اسی طرح گریسباخ نے ڈیڑھ لاکھ اختلاف عبا رات کی نشاندہی کی ہے۔
۴) مصنفوں کے اصل نوشتے موجود نہیں ہیں۔
۵) محققین بائبل کے لیے اصلی یا خالص عبارت کو دروغ آمیز عبارت سے تمیز کرنامشکل ہے۔
۶) مسیحیوں نے اپنی مقدس کتب میں دیدہ دانستہ فریب کارانہ انداز سے ردو بدل کیا ہے۔
۷) یہیں پر بس نہیں ، بہت سارے فریب کاروں نے انجیل کے نام پر خود کتابیں لکھ ماریں۔
ان نکات پر تفصیلی گفتگو کے بعد مولانا محمدسرفراز خان صاحب صفدرؒ استفہامیہ صورت میں جو نتیجہ پیش کر رہے ہیں، وہ مسیحیت پر سخت چوٹ اور کاری ضرب سے کم نہیں ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
’’ اس انجیل مقد س اور کتا ب مقدس پر جن مسائل کی بنیاد رکھی جائے گی وہ کہاں تک صحیح ہو سکتے ہیں؟ اوران کی صحت کو کس طرح تسلیم کیا جا سکتاہے؟ اوران کو مدارِ نجات کیوں کر قرار دیاجا سکتاہے؟ عام اس سے کہ وہ مسئلہ تثلیث ہویامسئلہ ابنیت مسیح علیہ السلام یاکفارہ ہو؟ کسی مسئلہ کو بھی ہرگز صحیح نہیں کہا اور یقین کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ جن کتابوں میں یہ مسائل مندرج ہیں، وہ خدائی اور الہامی ہیں ہی نہیں بلکہ جعلسازوں اور فریب کاروں کی مکاری کا پلندہ ہیں۔‘‘ (۱۳)
غرض اس کتاب میں مختصر طورپر اسلام اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات ، حواریوں اور صحابہ کے ایمان وکردار کا تقابل، توہین انبیا ،عہدنامہ قدیم وجدید میں تحریف، تثلیث ، ابنیت مسیح اور مسئلہ کفارہ پر شاندار اور مدلل انداز سے بحث موجود ہے اور مولانا صفدرؒ نے مسیحیت کے بنیادی عقائد کا نقلی وعقلی دلائل سے خوب جائزہ لیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی درجنوں مسائل کھل کر سامنے آگئے ہیں اور پادریوں کی بعض فرسودہ اور بے جا تاویلات کی حقیقت طشت از بام کر کے رکھ دی گئی ہے۔
حوالہ جات
۱۔ڈاکٹر محمد نادر رضا صدیقی: پاکستان میں مسیحیت، ( مسلم اکادمی، لاہور، ۱۳۹۹ھ؍ ۱۹۷۹ء)، متعدد مقامات
۲۔ (Emmanual Zafar : A Concise History of Pakistan Christianr,(Humpookhan Publication, Lahore, [2007]) p267-268)
۳۔ ولادت :۸؍جنوری ۱۹۱۸ء ؍۲۳؍ربیع الاول ۱۳۲۶ ، وفات : ۷؍مئی وفات ۱۹۹۶ء ؍۱۷؍ذوالحجہ ۱۴۱۶
۴۔ ولادت : ۱۸۹۷ء ؍۱۳۱۵ھ؛ وفات : ۴؍جون ۱۹۸۵ء ؍۱۴؍رمضان المبارک ۱۴۰۵ھ ( محمد اسحاق بھٹی: نقوش عظمت رفتہ، ( مکتبہ قدوسیہ ، لاہور، بدون تاریخ) گوندلوی صاحب ؒ کی یہ کتاب اسلامیہ سٹیم پریس،لاہور (بدون تاریخ) سے شائع ہوئی۔
۵۔محمد اسحاق بھٹی: نقوش عظمت رفتہ ، ص۱۴۵۔ ۱۴۶
۶۔ عیسائیت کاپس منظر ، مکتبہ صفدریہ ، گوجرانوالہ ، طبع پنجم ۲۰۰۵ء کے کل صفحات ۱۲۸ ہیں۔
۷۔ محمد فیاض خان سواتی: حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کامختصر سوانحی خاکہ،( ادارہ نشر واشاعت ، نصرۃالعلوم ،گوجرانوالہ، [۲۰۰۹ء ])، ص۱۲ ۔
۸۔محمد سرفر از خان صفدر: عیسائیت کا پس منظر ، ص۱۲
۹۔المرجع السابق، ص۱۵۔۲۱
۱۰۔ المرجع السابق ،ص۲۶۔ ۳۲
۱۱۔المرجع السابق ،ص۴۵۔۵۹
۱۲۔ المرجع السابق، ص ۸۵
۱۳۔ المرجع السابق، ص ۱۰۵