امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر ؒ وفات سے دوماہ پہلے ۲۴؍فروری ۲۰۰۹ ء بروز منگل آخری بار ہمارے گھر (متصل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ) تشریف لائے اور پانچ دن ہمارے ہاں قیام کیا۔ ان ایام میں وقتاً فوقتاً مجھے ان سے سوال وجواب کرنے اور بعض اہم باتیں دریافت کرنے کا موقع ملا ۔ ان سوالات وجوابات کو ایک انٹرویو کی شکل میں پیش کرنا مناسب دکھائی دیتا ہے۔
طلحہ: آپ نے کتنے حج و عمرے کیے ہیں؟
حضرتؒ : پانچ حج اور دس عمرے۔
طلحہ: آپ نے کون کون سے ملک کا سفر کیا ہے؟
حضرتؒ : سعودی عرب، شام، برطانیہ، جنو بی افریقہ، بھارت، افغانستان اور بنگلہ دیش۔
(ان میں سے بعض ممالک میں آپ کو ایک سے زیادہ دفعہ جانے کا موقع ملا۔ مثلاً سعودی عرب میں حضرت پندرہ سے بیس بار اور بنگلہ دیش تین بار گئے ہیں۔ اسی طرح بھارت کے بھی متعدد سفر کیے ہیں۔)
طلحہ : جب آپ افغانستان گئے تھے تو آپ کی ملاقات ملا محمد عمر سے ہوئی تھی یا اسامہ بن لادن سے بھی؟
حضرت: میری ملاقات ملا محمد عمر مجاہد سے ہوئی تھی، اسامہ بن لادن سے نہیں ہوئی تھی۔
طلحہ: اس وقت آپ کی عمر کتنی ہے؟
حضرت: ہجری اعتبار سے ۹۹ سال۔
طلحہ: کیا مولانا قاضی شمس الدین صاحبؒ آپ کے ساتھ پڑھتے رہے ہیں؟ اور کیا وہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قائل تھے یا نہیں؟
حضرت: قاضی صاحبؒ مجھ سے پہلے دارالعلوم دیوبند میں پڑھے ہیں۔ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں ان کا موقف گول مول تھا۔
طلحہ: تصویر والا ٹی وی چینل جائز ہے یا نہیں اور تصویر کس نوعیت کی مجبوری کے تحت جائز ہے؟
حضرت: ٹی وی تصویر والا چینل حرام ہے اور شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے علاوہ اور کسی مجبوری سے تصویر بنوانا جائز نہیں۔
طلحہ: آپ کتنی بار جیل میں گئے ہیں اور کون کون سی جیلوں میں رہے؟
حضرت: ؒ میں تین بار جیل گیا ہوں: تحریک ختم نبوت ۵۳ء میں، (۲) تحر یک جامع مسجد نور ۱۹۷۶ء میں اور (۳) بھٹو دورِ حکومت کے مارشل لاء کے دوران۔
(حضرت دو بار گوجرانوالہ جیل میں اور ایک بار آپ ؒ ملتان سنٹرل جیل میں رہے ہیں۔ حضرت ؒ نے مزید فرمایا کہ میرے ساتھ تمہارے نانا بشیر احمد بٹ مرحوم بھی تھے اور ہم اکٹھے ایک ہی جیل میں رہے ہیں۔)
یکم مارچ کو حضرتؒ واپس گکھڑ روانہ ہو گئے۔ اس سے اگلے دن حضرت ؒ کے دوسرے نمبر کے داماد مولانا قاری خبیب احمد عمر رحمہ اللہ، جو کہ احقر کے پھوپھا جان تھے، وفات پاگئے۔ اسی دن احقر کی طبیعت خراب ہوگئی اور یکے بعد دیگرے تین چار ایسی تکلیفیں عارض ہوگئیں کہ باوجود دل چاہنے اور کوشش کے حضرت صاحب ؒ سے آخری دنوں میں ملاقات نہ ہوسکی جس کا تادمِ حیات ملال رہے گا۔
حضرت صاحب ؒ جب تک بقید حیات رہے، علماے دیوبند کی تمام جماعتوں مثلاً جمعیت علماے اسلام، مجلسِ تحفظ ختم نبوت، سپاہِ صحابہؓ ، ملتِ اسلامیہ اور دیگر جماعتوں کی سرپرستی فرماتے رہے۔ تمام جماعتیں اس پر فخر کرتیں کہ ہمارے سرپرحضرت کا دستِ شفقت ہے۔ حضرت امام اہل سنت، مولانا اعظم طارق شہید کو آبروے علماے دیوبند کہتے تھے اور ان کی شہادت پر آپ زارو قطار روتے رہے۔ آپ سپاہِ صحابہ کے موقف کی تائید کرتے ہوئے بعض معاملات میں سپاہ صحابہ کی قیادت کی اصلاح بھی کرتے رہے ہیں۔ جب لال مسجد کا واقعہ ہوا تو حضرت ؒ بہت پریشان رہے۔ حضرت ؒ نے اپنے چھوٹے بیٹے مولانا منہاج الحق خان راشد کو فرمایا کہ پاکستان اس لیے نہیں بنایا گیا تھا کہ سر عام مساجد گرائی جائیں اور مساجد پر فائرنگ کی جائے۔ اس سے تو اچھا تھا کہ پاکستان نہ بنتا اور ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا کہ ہمارے سامنے مساجد گرائی جائیں اور ہم خاموش رہیں۔ لال مسجد کے واقعہ کے بعداحقر کو گکھڑ جانے کا اتفاق ہوا۔ اسی دن مولانا علامہ علی شیر حیدری مدظلہ بھی گکھڑ تشریف لائے تھے۔ حضرت ؒ نے حیدری صاحب سے پوچھا کہ آپ لوگ (یعنی سپاہ صحابہ و ملت اسلامیہ) لال مسجد کے حضرات کے ساتھ مذاکرات کرنے والے علما کے وفد میں کیوں شامل نہیں ہوئے؟ حیدری صاحب نے فرمایا کہ حضرت!ہم تو علما کے وفد میں شامل ہونا چاہتے تھے، لیکن حکومت ہمیں پہلے ہی دہشت گرد قرار دیتی ہے، اس لیے مذاکرات میں ہماری شرکت مناسب نہیں تھی۔ مزید فرمایا کہ ہم مانتے ہیں کہ ہم سے کچھ کوتاہی ہوئی ہے، لیکن مذاکرات کرنے والے علما کے وفد کے ہوتے ہوئے اس طرح کا واقعہ نہیں پیش آنا چاہیے تھا۔ حضرت ؒ نے فرمایا کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بہرحال اب آپ حالات کا جائزہ لے کر اس کے مطابق اپنی پالیسی بنائیں۔ اسی میں سب کی بہتری ہے۔
حضرت کی وفات سے کچھ دن پہلے احقر کی والدہ محترمہ ان کے پاس گکھڑ تین چار دن گزار کر آئیں اور واپسی پر مجھ سے فرمایا کہ حضرت کی طبیعت بہت خراب ہے، اس لیے تم ان سے ملاقات کرنے چلے جاؤ۔ مگر احقر کی طبیعت ناساز تھی، اس لیے آخری دنو ں میں حاضر نہ ہو سکا، مگر میرے برادران مولانا نصر الدین خان عمر، مولوی حبیب القدوس خان معاویہ اور قاری عبدالرشید خان سالم وغیرہم وقتاً فوقتاً حاضر ہوتے رہے۔ ۴؍ مئی کو رات تقریباً ڈیڑھ بجے اطلاع ملی کہ حضرت ؒ وفات پاگئے ہیں تو یوں لگا جیسے کسی نے ہمارے جسم سے روح کھینچ لی ہو۔ حضرت ؒ کی وفات پر دل افسردہ اور آنکھیں اشکبار ہیں۔ رہ رہ کر حضرت اقدس کی شفقت یاد آتی اور رلاتی ہے۔ اس موقع پر حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب ؒ کی ایک نظم، جو حضرت شاہ صاحب ؒ نے اپنے والد بزرگوار کی رحلت پر کہی تھی، اپنے احساسات کی ترجمانی کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے:
دل زخم زخم لوگو! کوئی ہے جسے دکھائیں
کوئی ہم نفس نہیں ہے، غم جاں کسے سنائیں
یکایک جو چھا گئی ہیں غم ودرد کی گھٹائیں
گیا کون اس جہا ں سے کہ بدل گئیں فضائیں
اٹھا سائبان شفقت، بڑی تیز دھوپ دیکھی
نہیں دور دور چھاؤں، کہاں اپنا سر چھپائیں
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ خاندان صفدریہ کو اس صدمے کے تحمل کا حوصلہ دے، حضرت امام اہل سنت کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں حضرت کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے اور حضرت کے مشن کو زندہ رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔ جو حضرات اس موقع پر خاندان صفدریہ کے دکھ میں شریک ہوئے، اللہ تعالیٰ انھیں بھی جزاے خیر عطا فرمائے۔ آمین