شیخ صفدرؒ بھی ہم سے جدا ہو گئے
علم و دیں پر وہ آخر فدا ہو گئے
علم تھا ان کا سب سے بڑا مشغلہ
ذوق و نسبت میں اس کی فنا ہو گئے
وہ جو توحید وسنت کے منّاد تھے
شرک و بدعت پہ رب کی قضا ہو گئے
خواب میں ملنے آئے مسیح ناصریؐ
شرف ان کو یہ رب سے عطا ہو گئے
بوحنیفہؒ سے ان کو عقیدت رہی
اور بخاریؒ کے فن میں سَوا ہو گئے
شیخ مدنی ؒ سے پایا لقب صفدری
اور اس کی علمی نہج کی ادا ہو گئے
میانوالی کا اک بطل توحید تھا
جس کی صحبت میں وہ با صفا ہو گئے
نور احمدؒ نے ان کو جو دی تھی دعا
اس کی برکت سے وہ با وفا ہو گئے
جن کی تلقین ہوتی تھی رب کی رضا
حق کی رہ میں وہ رب کی رضا ہو گئے
حق کی خاطر جو جھیلے مصائب تو وہ
حق کی دنیا میں حق کی صدا ہو گئے
اہل حق کے سفینے کے تھے ناخدا
عزم و ہمت میں پھر با خدا ہو گئے
ان کو ڈھونڈے گا اب تو کہاں راشدیؔ
وہ جو راہئ دارِ بقا ہو گئے