امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کو اللہ تعالیٰ نے علوم ومعارف کا بہت بڑا ذخیرہ عطا فرمایا تھا۔ قرآن وحدیث، فقہ وتفسیر، جرح وتعدیل اور دیگر علوم وفنون پر آپ کو مکمل عبور حاصل تھا اور ہر فن میں آپ ید طولیٰ رکھتے تھے۔ قوت حافظہ، دقت فہم، سیلان ذہن اور اعلیٰ فقاہت نے آپ کو زمانہ کے تمام اہل علم سے ممتاز بنا دیا تھا۔ رسوخ فی العلم، تصلب فی الدین اور قوت استدلال آپ کا خاصہ تھا۔ دوران تدریس مشکل مقامات اور دقیق نکات ایسے دل نشیں انداز میں بیان فرماتے کہ غبی سے غبی طالب علم بھی بآسانی مستفید ہو جاتا۔ اسی طرح آپ کو اردو ادب میں بھی کمال حاصل تھا۔ آپ کی تصانیف میں جہاں دلائل کے انبار ہیں، وہیں اردو ادب کی چاشنی بھی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ ایک کامیاب مصنف کی تمام خصوصیات اور خوبیاں آپ کی ذات میں جمع تھیں۔ حضرت نے اپنی تصانیف کی ہر بحث میں جہاں مخالفین کے دعووں کو دلائل سے رد کیا ہے، وہاں مزید دلچسپی کے لیے حسب حال شعر لکھ کر عبارت کے حسن اور مدعا کی تاثیر کو دوبالا کر دیا ہے۔ زیر نظر مضمون میں حضرت امام اہل سنت کا شعری ذوق قارئین کے سامنے لانے کے لیے آپ کی مختلف کتب سے چند اقتباسات جمع کیے گئے ہیں جن میں موقع ومحل کی مناسبت سے اشعار کے برمحل اور بلیغ استعمال کی خوب صورت اور دلچسپ مثالیں پائی جاتی ہیں۔
’’افسوس ہے کہ فریق ثانی نے تعصب اور کم فہمی کی وجہ سے ایسا ایٹم بم ایجاد کر لیا ہے کہ اس کی زد سے نہ بڑے بڑے ائمہ بچ سکتے ہیں اور نہ حضرات تابعین، بلکہ حضرات صحابہ کرام اور حتیٰ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بھی ان کے لایعنی فتووں سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔ (العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ) دیکھیے، اس ناروا فتوے کی زد سے کون بچ سکتا ہے۔
متاع دین ودانش لٹ گئی اللہ والوں کییہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی‘‘’’اگر فریق ثانی گستاخی نہ سمجھے تو ایک جائز قسم کا ورد عرض کرتا ہوں۔ وہ اس کو پڑھا کریں (اور وہ یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئا للہ کے خالص مشرکانہ ورد سے کوئی تعلق نہیں رکھتا)۔ وہ ورد شریف یہ ہے:
اے میرے باغِ آرزو کیسا ہے باغ ہائے توکلیاں تو گو ہیں چار سو کوئی کلی کھلی نہیں‘‘
(احسن الکلام)
’’اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ روح کا اصل ٹھکانہ جہاں بھی ہو، مگر قبر میں بدن بھی اس کے لیے ایک مکان کی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا روح اپنے اس تعلق کی وجہ سے مکین ہے اور بدن اس کے لیے مکان ہے او رمردہ کو جلانے کی صورت میں گویا روح کو بے مکان کرنا ہے اور چونکہ انبیاء علیہم السلام کے ابدان مبارکہ کا اصل صورت میں موجود ہونا نص حدیث سے ثابت ہے، بعض شہدا اور اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے اجسام کا موجود ہونا مشاہدہ سے ثابت ہے، لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ ان کی ارواح مبارکہ کا تعلق ان کے اجسام عنصریہ سے نہ ہو، کیونکہ
دل ہو اور اس میں درد محبت کہیں نہ ہوعبرت کا ہے محل کہ مکاں ہو مکیں نہ ہو‘‘’’آپ عند القبرسلام کہنے والے کا سلام بنفس نفیس خود سنتے اور اس کا جواب دیتے ہیں اور انصاف کی دنیا میں نہ تو اس اتصال اور تعلق کا انکار ہو سکتا ہے اور نہ اس سے بڑھ کر اس کا کوئی ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔ ثلج صدر کے لیے یہ دلائل کافی ہیں۔
حریم دل کا کیا کہنا یہاں جلوے ہی جلوے ہیںبحمد اللہ یہیں وہ ہیں یہیں خلوت نشیں میں ہوں‘‘(تسکین الصدور)
’’یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ امت کی اکثریت نے جس طرح حضرت امام ابو حنیفہؒ کے علم ودیانت پر اعتماد کر کے ان کی خوشہ چینی کی ہے، وہ حضرات صحابہ کرام اور کبار تابعین کے بعد اور کسی کو نصیب نہیں ہو سکا اور علم وعرفان اور حدیث وفقہ کی ہزاروں شمعوں کے ہوتے ہوئے جس طرح آتش علم بجھانے کے لیے پروانے ان کے گرد جمع ہوئے ہیں، وہ کسی اور پر جمع نہیں ہوئے۔ کیا خوب کہا گیا ہے کہ
سرِ بزمِ فلک شب بھر ہزاروں شمعیں جلتی ہیںمگر اس محفلِ گردوں میں پروانے نہیں دیکھے‘‘’’جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں کے اعلیٰ حصے پر ہی مسح کیا ہے تو کسی دانش ور کی دانش اور کسی عقل مند کی عقل اور کسی فہیم کی فہم وراے کی اس پیارے عمل کے مقابلے میں بھلا حیثیت ہی کیا ہے؟ اس موقع پر اگر تسلی اور چین ہو سکتا ہے تو صرف آپ کی پیاری ادا اور آپ کے پسندیدہ عمل اور بہترین اسوۂ حسنہ سے، اس لیے کہ
برسوں فلاسفہ کی چناں اور چنیں رہیلیکن خدا کی بات جہاں تھیں، وہیں رہی‘‘’’اگر انھوں نے وقت کی اس ضرورت کو اپنے ناخن تدبیر وتفقہ سے حل کر کے امت مرحومہ پر احسان کیا ہے تو اس کی وجہ سے کیا وہ داد وتحسین کے مستحق ہیں یا باعث نفرین ہیں؟
وہ ایک عالم جسے جہاں نے خراج تحسیں ادا کیا ہےوہ ایک مومن جو لطف خالق کی برکتوں سے قمر بنا ہے‘‘’’یہ الگ بات ہے کہ غیر مقلدین حضرات کو تعصب کی عینک استعمال کر کے رافضی کی طرح کچھ کا کچھ نظر آئے اور اہل الراے والاجتہاد اور ان کے متبعین کو ہی ملزم گردانا جائے، مگر اس سے اہل حق کا کیا نقصان؟
تجھے کیوں فکر ہے اے گل دلِ صد چاکِ بلبل کیتو اپنے پیرہن کے چاک تو پہلے رفو کر لے‘‘(مقام ابی حنیفہ)
’’اگر ان کو ]یعنی حضرت شاہ ولی اللہؒ کی جماعت کو[ اہل حدیث تسلیم نہیں کرتے تو بتائیں ان سے بڑھ کر اہل حدیث کون ہوا ہے؟ اور اگر یہ اہل حدیث ہیں تو صاف طور پر یہ بتلائیں کہ تقلید اختیار کر کے اور شخصی راے کی پابندی اختیار کر کے یہ حضرات اہل حدیث کیسے ہو گئے اور کیونکر ہو گئے؟ مگر صد افسوس کہ
اہل گلشن کے لیے بھی باب گلشن بند ہےاس قدر کم ظرف کوئی باغباں دیکھا نہیں‘‘(طائفہ منصورہ)
’’اس نکتہ پر خان صاحب بریلوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب دونوں متفق ہیں کہ ایصال ثواب کے لیے جو قرآن کریم پڑھا جاتا ہے، اس پر اجرت لینا دینا دونوں حرام ہیں اور ثواب کچھ نہیں ہوتا، بلکہ اس پر استحقاق عذاب ہے۔ اب جو لوگ ا س مسئلہ میں علماء دیوبند کو کوستے ہیں تو ان کو بغور سوچ لینا چاہیے کہ طعن کس پر ہوگا؟
یوں نظر دوڑے نہ برچھی تان کراپنا بے گانہ ذرا پہچان کر‘‘(راہ سنت)
’’کیا رنجیت سنگھ اور کیول کسی مسلمان کا نام تھا؟ اور کیا سکھوں اور انگریزوں کے ان ایجنٹوں سے جہاد کرنا کسی مسلمان سے جہاد کرنا ہے؟ یہ ہے مولف مذکور کے ہاں مسلمان جو مجاہدین اسلام سے لڑتا ہے اور سکھوں اور انگریزوں سے اس کی دوستی اور محبت ہے۔
فیض تم کو ہے تقاضاے وفا ان سے جنھیںآشنا کے نام سے پیارا ہے بے گانے کا نام‘‘’’عبد الرحمن بن عبد القاری مسلمان تھے، مگر خان صاحب ان کو کافر اور شیطان سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب خان صاحب صحابی یا ثقہ تابعی کو کافر کہنے سے نہیں چوکے تو اگر وہ اس دور کے اہل حق علما اور مجاہدین کو کافر کہہ دیں تو کون سی انوکھی بات ہے۔ کافروں کو مسلمان بنانا تو ان کے بس کا روگ نہیں، تکفیر مسلم ہی کے ذوق وشوق سے وہ فرحاں ہیں۔
پھولوں کے تو قابل نہیں قطعاً تیرا دامناے صاحب گلشن اسے کانٹوں سے ہی بھر دے‘‘’’مولف مذکور اور ان کے ہوشیار اکابر نے یہ باور کرا رکھا ہے اور عوام کو اسی کا درس دیتے ہیں اور ان کے خلاف ایسے بے اصل شوشے چھوڑتے اور تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کے درپے ہیں کہ تحریک آزادی اور پاکستان بنانے میں علماء دیوبند کا کوئی حصہ نہیں اور حقیقت اس کے برعکس ہے۔
ہمیں سے رنگ گلستاں ہمیں سے رنگ بہارہمیں کو نظم گلستاں پہ اختیار نہیں‘‘’’تکفیر رضاخانی فرقہ کا آبائی ورثہ ہے اور باب سوم کے روشن حوالوں سے اس پر خاصی بحث ہو چکی ہے کہ انگریز کا ہر مخالف اور تحریک آزادئ ہند کا کوئی عالم، پیر اور سیاسی لیڈر ایسا نہیں جو ان کے تکفیری گولے سے بچ سکا ہے۔
گھائل تری نظر کا بنوع دگر ہر ایکزخمی کچھ ایک بندۂ درگاہ ہی نہیں‘‘(اظہار العیب)
’’ہم تو مدینہ طیبہ سے عقیدت اور محبت کو ایمان کی جز سمجھتے ہیں۔ سنیے کیا خوب کہا گیا ہے:
الٰہی کیسی پر انوار گلیاں ہیں مدینے کیخداوندا! انھیں دیکھا نہیں ہے نام سنتے ہیںدر محبوب پر پہنچیں یہی ارمان ہے دل میںمریض عشق پاتا ہے وہاں آرام سنتے ہیںوہ یاد آتے ہیں تو اک ہوک سی اٹھتی ہے سینے میںکلیجہ تھام لیتے ہیں جب ان کا نام سنتے ہیں‘‘اعلیٰ حضرت خان صاحب بریلوی حدائق بخشش حصہ دوم ص ۵۰ میں لکھتے ہیں:
سر سوے روضہ جھکا پھر تجھ کو کیادل تھا ساجد نجدیا پھر تجھ کو کیابیٹھتے اٹھتے مدد کے واسطےیا رسول اللہ کہا پھر تجھ کو کیایا عبادی کہہ کے ہم کو شاہ نےبندہ اپنا کر لیا پھر تجھ کو کیادیو کے بندوں سے کب ہے یہ خطابنہ تو ان کا ہے نہ تھا پھر تجھ کو کیانجدی مرتا ہے کہ کیوں تعظیم کییہ ہمارا دین ہے پھر تجھ کو کیادیو کے بندوں سے ہم کو کیا غرض!ہم ہیں عبد المصطفیٰ پھر تجھ کو کیاامام اہل سنت نے اس کا جواب اسی وزن پر درج ذیل اشعار میں دیا ہے:
تو اگر مشرک ہوا پھر ہم کو کیاپیٹ کا بندہ بنا پھر ہم کو کیاتو نے کی تحریف قرآن وحدیثراندۂ درگاہ ہوا پھر ہم کو کیاخالق کون ومکاں کو چھوڑ کرغیر کے در پر جھکا پھر ہم کو کیاشرک وبدعت کو کیا تو نے پسندتوحید وسنت سے پھرا پھر ہم کو کیاآیہ ایاک نستعین کوکر دیا تو نے بھلا پھر ہم کو کیاہم تو اللہ کے بندے سبھیتو ہے عبد المصطفیٰ پھر ہم کو کیا(آنکھوں کی ٹھنڈک)
’’برطانیہ نے شریف مکہ کے توسط سے ترکوں کے خلاف جنگ کرنے کے جواز پر کس سے فتویٰ حاصل کرنا چاہا تھا اور کس نے اس کا انکار کر کے سالہا سال تک مالٹا میں اسیری کی زندگی بسر کی تھی؟ اور کس کو مالٹا کے زنداں میں گھر کی سی لذت محسوس ہوتی تھی؟ جنھوں نے شاید بزبان حال یہ بھی کہا ہو کہ
نئی دنیا بنا دی لذتِ ذوق اسیری نےقفس میں رہنے والوں کو خیال آشیاں کیوں ہو‘‘’’فریق مخالف کی بلا سے! وہ تو اپنی ساکھ اور حلوے مانڈے کے لیے بدعات کو سنگینوں کے پہرے سے محفوظ رکھنے کے درپے ہے۔ اس کے مقابلے میں توحید وسنت کا گلستاں اجڑتا ہے تو ان کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ ہاں گیارھویں شریف، ختم، میلاد اور عرس وغیرہ پر کوئی زد نہ پڑے۔ آہ!
کس نے اپنے آشیاں کے چار تنکوں کے لیےبرق کی زد میں گلستاں کا گلستاں رکھ دیا‘‘(ازالۃ الریب)
’’برق صاحب ہی فرمائیں کہ کیا جن کی نبوت تمام انسانوں اور جنوں بلکہ تمام مخلوق کے لیے ہو اور زمانہ بھی محدود نہ ہو (کہ ان کے بعد کوئی اور نبی مبعوث ہو کر اگرچہ بعض ہی احکام کیوں نہ ہوں، منسوخ کر سکے) وہ افضل ہوں گے یا وہ جن کی نبوت باعتبار قوم اور زمانہ کے محدود اور مخصوص ہو؟ دیکھیے کیا ارشاد ہوتا ہے!
الٹی سمجھ کسی کو بھی ایسی خدا نہ دےدے موت آدمی کو پر ایسی ادا نہ دے‘‘’’برق صاحب کو مناسب تھا کہ وہ ملا کے مبلغ علم کا ماتم کرنے سے پہلے ٹھنڈے دل سے اس حقیقت کو سوچ لیتے اور اس کے بعد قلم تحقیق کو جنبش دیتے، مگر ان کی بلا سے! وہ تو میدان اوہام اور ظنون میں بے سروپا باتیں کرنے اور خیالی گھوڑے دوڑانے کے عادی ہیں۔ نہ دماغ پر کنٹرول ہے اور نہ قلم قابو میں ہے۔
شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوشصحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں‘‘(صرف ایک اسلام)
’’اکابرین علماے دیوبند کثر اللہ جماعتہم جو اس زمانہ میں صحیح معنی میں اہل السنت والجماعت ہیں، ائمہ دین کے قدم پر قدم ہیں اور ان کے عقیدہ اور عمل سے سر مو انھوں نے تجاوز نہیں کیا۔ اگرچہ کئی لوگ افراط وتفریط کی حدود کو پھاند کر دور نکل گئے، مگر یہ اکابر جہاں تھے، وہاں ہی ہیں:
وہ تری گلی کی قیامتیں کہ لحد کے مردے اکھڑ گئےیہ مری جبین نیاز ہے کہ جہاں دھری تھی دھری رہی‘‘’’قارئین کرام سے التجا کرتے ہیں کہ وہ تمام اہل توحید کے لیے دعا کریں اور خصوصیت سے اس ناچیز کے لیے جس کی تھوڑی سی فانی زندگی میں خدا جانے کیسے کیسے اور کتنے بڑے بڑے گناہ صادر ہو چکے ہیں، مگر جب اللہ تعالیٰ کی ستار اور غفار ہونے کی صفت پر دھیان پڑتا ہے تو بے اختیار زبا ن سے نکلتا ہے کہ:
مرے گناہ زیادہ ہیں یا تری رحمتکریم تو ہی بتا دے حساب کر کے مجھے‘‘(راہ ہدایت)
’’اکابر علما کا طریقہ یہ تھا اور ہے کہ وہ ان احادیث کو تسلیم کرتے ہوئے حسب فہم اس کی مناسب تاویل کرتے ہیں، لیکن فریق ثانی کو ملحد وزندیق اور مبتدع کسی نے نہیں کہا۔ تکفیر سازی کا یہ عہدہ جناب نیلوی صاحب اور ان کے سید سند کو ہی حاصل ہے۔
قسمت کیا ہر ایک کو قسام ازل نےجو شخص کہ جس چیز کے قابل نظر آیا‘‘’’جناب نیلوی صاحب! ایسا صریح دھوکہ تو نہ دیں۔ آپ نہ تو حنفی ہیں نہ دیوبندی۔ صرف اپنی نارسا عقل کے پیروکار ہیں۔ آپ کو حنفیت اور دیوبندیت سے کیا واسطہ اور تعلق؟
ہو چکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں؟جن کو مطلب نہیں رہتا، وہ ستاتے بھی نہیں‘‘(المسلک المنصور)
’’جناب خمینی صاحب! یہ روایت تو حضرت علی سے مروی ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ متعۃ النساء سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ کیا آپ کے نزدیک متعہ جیسے لذیذ فعل کی نہی نقل کر کے حضرت علی بھی حضرت عمر کے ساتھ قرآنی حکم کے مخالف نہیں ہو گئے؟ لب کشائی تو کیجیے، بات کیا ہے!
میرے رونے سے مرا دامن ہی تر ہوتا تو خیرشرم سے ظالم جبیں تیری بھی تر ہو جائے گی‘‘’’تقیہ شیعہ کے نزدیک روے زمین کی تمام اشیا سے محبوب ترین چیز ہے کہ دین کے نو حصے اسی میں شامل ہیں اور اسی میں عزت، رفعت اور درجات کی بلندی منحصر ہے۔ یعنی جھوٹ میں ثواب ہے۔
کیا جو جھوٹ کا شکوہ تو یہ جواب ملاتقیہ ہم نے کیا تھا ہمیں ثواب ملا‘‘’’اور کون کم بخت دنیا کی لذت اور آخرت کے ثواب کی تحصیل سے جان چھڑائے گا؟ ہم خرما وہم ثواب۔ ممکن ہے کہ دنیا کی لذت کا دل دادہ کوئی متعہ باز یہ کہہ دے:
اک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجودحسن انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں‘‘’’اندازہ کیجیے کہ شیعہ اور امامیہ کے مذہب میں جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے کس قدر وسعت اور فراوانی ہے کہ آزاد عورت ہو یا لونڈی ہو، منکوحہ ہو یا غیر منکوحہ، اس کی شرم گاہ کسی دوسرے کو لطف اندوز ہونے کے لیے عاریتاً دینے میں قطعاً کوئی حرج اور مضائقہ نہیں ہے۔ شاید شیعہ امامیہ کا ورد یہ ہو:
شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھابغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا‘‘(ارشاد الشیعہ)
’’المہند کو اول سے آخر تک پڑھ لیں اور انصاف کریں کہ کیا اس میں حضرت تھانوی کی تکفیر کی گئی ہے یا تکفیر سے ان کی براء ت بیان کی گئی ہے؟ اور کیا اس کتاب میں ان کی تردید کی گئی ہے یا تصدیق اور تقریظ حاصل کی گئی ہے؟ مگر
یہ ملا کافروں کو دولت اسلام کیا دے گااسے کافر بنانا بس مسلمانوں کو آتا ہے‘‘(عبارات اکابر)
’’تعجب ہے کہ اس پر اپنے بے بنیاد مذہب اور مسلک کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے اور ان کی تکفیر کے لیے نعرۂ تکبیر ورسالت وغوثیہ کی گونج میں عوام سے داد تحسین حاصل کی جاتی ہے اور اس پر بھی وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم لب کشائی نہ کریں۔ آہ!
صداے نالہ دل پر خموشی کس کا شیوہ ہےتو ہی کہہ دے کہ پتھر کا جگر تیرا ہے یا میرا؟‘‘(بانی دار العلوم دیوبند)