اللہ تعالیٰ اپنے بعض خاص بندوں سے تھوڑے وقت میں دین کا بہت کام لے لیتے ہیں۔ ہمار ے حضرت بھی ان خاص بندوں میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضر ت سے حق کی اشاعت کا بے حد کام لیا۔ حق سے ہر باطل کو جدا کر کے حضرت نے امت مسلمہ کی کتاب وسنت کی روشنی میں بہت عمدہ انداز میں رہنمائی فرمائی۔ حضرت نے ایک بار فرمایا، بحمداللہ کوئی ایسا باطل اور گمراہ فرقہ نہیں جس نے سر اٹھایا ہوا ور ہم نے اس کاتعاقب نہ کیا ہو۔ فرمایا کہ ہمارے اکابر نے ہمیشہ حق کی اشاعت کی اور توحید وسنت پر کار بند رہے۔ فرمایا کہ اکابر کے دامن کو کبھی نہ چھوڑنا، ہم نے اپنے اکابر کے دامن کوتھامے رکھا۔ فرمایا کہ اگر میں بھی اپنے اکابرکو چھوڑ کر الگ راستہ اختیار کرتا تو میرے ساتھ بھی بہت بڑا طبقہ جمع ہو جا تا، مگر میں راہ ہدایت سے دور ہو جاتا۔
بندہ نے حضرت سے دور ہ تفسیر القرآن رابعہ کے سال پڑھا اور آخری سال دورۂ حدیث شریف اور پندرہ پارے مکمل تفسیر حضرت سے پڑھنے کی سعادت ۱۴۱۸ھ بمطابق ۱۹۹۷ء میں نصیب ہوئی۔ حضرت کے سب سے چھوٹے صاحبزادے مولانا منہاج الحق راشدہمارے ہم سبق تھے۔ حضرت کی تصانیف کا مطالعہ کرنے کے بعد شوق پیدا ہوا کہ اپنے وقت کے عظیم محدث، عظیم مفسر، عظیم محقق سے فیض روحانی وفیض علمی حاصل کیا جائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کافی موقع عطافرمایا۔ بطور تحدیث بالنعمت ذکر کر رہاہوں کہ اس سال حضرت کے دست مبارک سے سب ساتھیوں کی نسبت مجھے زیادہ مرتبہ انعام ملا۔ الحمد للہ بعض دوسرے ساتھیوں کو بھی انعام ملے۔ حضرت کا مزاج مبارک تھا کہ دوران درس خصوصی اور اہم مقامات کو دویا تین مرتبہ بیان فرماتے تاکہ اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔ پھر دوسرے مقام پر جب وہ مسئلہ یا بحث آتی تو حضرت فرماتے کہ فلاں مقام پر یہ بحث گزر چکی ہے۔ ہل منکم رجل، کیا تم میں سے کوئی مرد ہے جو بیان کر دے؟
ایک مرتبہ حضرت نے دوران سبق ایک سوال پوچھا اور فرمایا، جو ساتھی جواب دے، اس کو ایک روپیہ انعام دیاجائے گا۔ بحمد اللہ بندہ نے و ہ جواب دے دیا۔ حضرت نے جیب میں ہاتھ ڈالا، لیکن ہاتھ خالی لوٹا تے ہوئے فرمایا، بھائی آج فقیرکی جیب خالی ہے، کل دیں گے۔ میں سمجھا کہ حضرت بھول جائیں گے، کیوں کہ ضعیف ہیں، دوسری مصروفیات ہیں، مگر دوسرے دن درس ہونے سے پہلے حضرت نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور دو روپے کا نوٹ نکالا۔ ان دنوں دو روپے کا کاغذ کا نوٹ ہو تا تھا۔ حضرت نے فرمایا، یہ لو میاں، ایک روپیہ تمہارے انعام کا اور ایک روپیہ سود کا۔ میں نے ہاتھ کھینچ لیاکہ شاید حضر ت امتحان لے رہے ہیں، مگرسبحان اللہ حضرت کی عام گفتگو میں بھی کئی فقہی مسائل سمجھ میں آجاتے۔ فرمایاکہ یہ لو گھبرا ؤمت۔ فرمایا، اگر کسی آدمی نے کسی کا کوئی قرض یا حق دینا ہو اور معاملہ شروع میں سودی طے نہ ہوا ہو، مثلاً کوئی آدمی کسی کو ایک روپیہ دے کر زیادہ لینے کی شر ط نہ رکھے اور قرض یا حق واپس کرنے والااپنی خوشی سے زیادہ دینا چاہے تو لینے والے کے لیے حلا ل ہے۔ حضرت کی اس وضاحت کے بعد بندہ نے ہاتھ بڑھا کر حضرت کے دست مبارک سے دو روپے وصول کر لیے۔
بخاری شریف کے اختتامی پروگرا م میں حضرت نے فرمایا کہ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ آج ہم فارغ ہو رہے ہیں، ایسانہیں بلکہ آپ صرف مفت کھانے سے فارغ ہو رہے ہیں۔ کام کا وقت آپ کا اب شروع ہو رہا ہے۔ خبردار کبھی کسی بدعت میں شریک نہ ہونا۔ اگر آپ نے ایک مرتبہ بھی بدعت کرلی تو ساری زندگی اس کی تردید نہ کر سکو گے۔ اپنے اکابر کے دامن کو تھامے رکھنا۔ بحمداللہ جس باطل نے سراٹھایا، ہم نے اس کا تعاقب کیا۔ اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ دین حق کی حفاظت اور اشاعت کو اپنا مقصد بناؤ، کیونکہ دیوبندیت کے نام پر روٹی صرف میں نہیں کھاتا، آپ بھی کھاتے ہیں۔
حضرت کی مجالس یاد آتی ہیں تو عجیب لذت محسوس ہوتی ہے۔ حضرت کے ابتد ائی دوگھنٹے ہوتے تھے۔ ایسی لذت اسباق میں محسوس ہوتی کہ پتہ ہی نہ چلتا اور وقت گزر جاتا۔ حضرت کے ہاں بخاری شریف کے سبق میں بخاری شریف کی عبارت پڑھنا بھی اہم مسئلہ تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ عبارت وہ ساتھی پڑھے جس میں تین خوبیاں ہوں: عبارت صحیح پڑھے، روانی سے پڑھے اور آواز بلند ہو۔ جن تین چار ساتھیوں کو عبارت پڑھنے کا موقع ملتا، ان میں بندہ کو بھی یہ سعادت نصیب ہوتی۔ اکثر ایبٹ آباد کے ایک ساتھی عبارت پڑھتے جو عبارت میں بڑے ماہر تھے۔
جس سال ہم دورۂ حدیث میں تھے، اس سا ل تبلیغی جماعت کے بزرگ مولانا محمد عمرپالن پوری ؒ کا انتقال ہوا۔ حضرت ان کے انتقال پر غم زدہ تھے اور فرمایا، مولانا پالن پوریؒ میرے ساتھ بہت محبت کرتے تھے۔ جب بھی رائے ونڈ آتے تو مجھ سے ملنے آتے اور پچاس روپے بطور تحفہ دیتے اور فرماتے، آپ کی تصانیف کی وجہ سے مجھے آپ سے محبت ہے۔ حضرت امام اہل سنت ؒ نے ایک دفعہ فرمایا کہ تبلیغی جماعت والے عمومی طور پر بہت اچھے لوگ ہیں، اگر غلو نہ کریں۔ (یعنی تبلیغ ودعوت کو ہی صرف دین کا کام سمجھ لیں) حضرت نے تبلیغی جماعت کے ایک عمر رسیدہ حاجی صاحب کا واقعہ سنایا کہ میرے ساتھ عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ ایک دن دوران ملاقات فرمانے لگے، مولانا سرفراز! آپ نے اور تو بہت کام کیے، لیکن دین کا کام نہیں کیا۔ میں نے پوچھا، بھائی دین کا کام کیا ہے؟ کہنے لگے کہ آپ نے چلہ نہیں لگایا۔ واقعہ بیان کرتے وقت حضرت مسکرانے لگے اور سب ساتھی ہنسنے لگے۔ باقی دعوت وتبلیغ کے کام کی افادیت سے کون واقف نہیں۔ بگڑے ہوئے لاکھوں لوگوں کو اس محنت کے ذریعے ہدایت مل رہی ہے۔ خود بندہ کالج میں ایف ایس سی کا اسٹوڈنٹ تھا۔الحمدللہ دعوت وتبلیغ ہی ظاہری طورپر علوم الٰہیہ کی طرف آنے کا سبب بنی اور امام اہل سنت ؒ سے شرف تلمذ نصیب ہوا۔
حضرت شیخ الحدیث ؒ نے ایک مرتبہ تفسیر کے سبق میں سورۃ العنکبوت آیت نمبر ۱۰ ومن الناس من یقول آمنا باللہ فاذا اوذی فی اللہ جعل فتنہ الناس کعذاب اللہ‘ کا خلاصہ بیان فرمایا۔ کچھ لوگ کچے ایمان کے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ زبان سے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن جب ایمان کی آزمایش کا وقت آتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے دین کے راستہ میں ان کو لوگوں کی طرف سے معمولی تکلیف پہنچتی ہے تو اس تکلیف کو اتنا بڑا محسوس کرتے ہیں جیسے اللہ کا عذاب۔ جیسے اللہ کے عذاب سے ڈرکر کوئی آدمی کسی نامناسب کام سے رک جاتا ہے توایسے ہی یہ زبانی ایمان کا دعویٰ کرنے والے لوگوں پر جب بھی اللہ کے راستہ میں دوسرے لوگوں کی طرف سے معمولی سی تکلیف پہنچتی ہے تواس کو اللہ کے عذاب کی طرح بڑا سمجھ کر اپنے حق مشن ومقصد کوخیر باد کہہ دیتے ہیں۔
ایک دفعہ حضرت نے فرمایا کہ ہمارے ہم عصر ساتھیوں میں شاید ہی کسی نے ہم جتنا مطالعہ کیا ہو۔ ہم نے چوبیس گھنٹوں میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بھی مطالعہ کیا ہے اور نایاب سے نایاب کتب جہاں سے ملیں، جس قیمت پر ملیں، ہم نے حاصل کیں۔ صداقت ودیانت سے کام لیا، حتیٰ کہ مجھے بعض مخالفین کے خطوط بھی ملے جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ آپ سے اختلاف اپنی جگہ، مگر جو حوالہ جات آپ ہماری کتب سے یاد وسری مستند کتابوں سے نقل کرتے ہیں، وہ بغیر کسی قطع و برید کے من وعن درست ہوتے ہیں۔ الفضل ما شہدت بہ الاعداء۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت کو حاضرجوابی اور ذہانت سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔ فرمایا کہ ایک دن کالج میں درس قرآن کے دوران کسی صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ مولانا یہ ڈاڑھی تو غیر فطری چیز معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ انسان کی پیدایش کے وقت نہ تھی۔ میں نے کہا، بھائی اس معیار کے مطابق تمہارے بتیس دانت بھی غیر فطری ہیں، ان کو بھی نکال دو۔ یہ آپ کا لباس بھی غیر فطری ہے، کیونکہ یہ بھی پیدایش کے وقت نہ تھا۔ پھر اس کی کیا ضرورت؟ سب سامعین ہنسنے لگے اور سوال کرنے والے صاحب کی بھی تسلی ہوگئی اور خاموش ہو گئے۔
آخری مرتبہ حضرت کی زیارت کا شرف اس وقت نصیب ہوا جب کچھ عرصہ قبل حضرت کا سفر ضلع رحیم یار خان میں ہوا۔ کئی مدارس کی طرف سے بڑے بڑے اشتہارشائع کیے گئے جن کا عنوان بھی بڑا پیا راتھا، ’’رحیم یارخان میں امام اہل سنت کی آمد‘‘، ’’رحیم یار خان میں علم وعرفان کی بارش‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ حضرت کی زیارت کے لیے ہرطرف سے عوام کا جذبہ زیارت قابل دید تھا۔ تقریباً تمام اہل مدارس کا جذبہ تھا کہ حضرت ہمارے مدرسہ میں بھی کچھ وقت بطور برکت ودعا کے لیے تشریف لائیں۔ چنانچہ بہت زیادہ ضعف وکمزوری کے باوجود کافی اہل مدارس کو حضرت کی آمد کی برکت ملی۔ بندہ بھی کچھ وقت حضرت کے ساتھ رہا۔ حضرت پرکمزوری وضعف بہت غالب تھا۔ حضرت کے اندر کتاب وسنت کا نور اور امت مسلمہ کی ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ آخری الفاظ جو بند ہ نے حضرت سے سنے، وہ یہ تھے کہ خطبہ مسنونہ کے بعد حضرت نے فرمایا کہ یہودونصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔ یہ مسلمانوں کے دشمن ہیں، ان کو دشمن سمجھو۔ یہ مسلمانوں کو مٹانا چاہتے ہیں۔ اس کے بعدحضرتؒ نے دعافرمائی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے شیخ کواعلیٰ علیین میں جگہ نصیب فرمائے، حضرت کی تمام جسمانی وروحانی اولاد کو صبر جمیل عطافرمائے اور اپنے اکابر کے مشن کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔