اک صدی کا قصہءِ دل کش ہوا آخر تمام
آہ! اب رخصت ہوا وہ اہل سنت کا امام
ایسا فرزند مجاہد، ایسا فردِ ارجمند
کیوں نہ نازاں اس پہ ہوتا کاروانِ دیوبند
حسن فطرت اور وہی مرد کہستانی کی خو
پدرِ مشفق کی طرح سب کی نگہبانی کی خو
اس کی پیشانی پہ روشن علم وتقویٰ کا وہ نور
اس زمانے میں کسی اگلے زمانے کا ظہور
اس کی دنیا روز وشب کے وقتی ہنگاموں سے دور
ایک گوشے میں سدا اپنے پیمبر کے حضور
درس ارشادِ نبی کا عمر بھر اس نے دیا
اس کے ہاتھوں جامِ توحید اک زمانے نے پیا
اس کا برزخ اس کی دنیا کی طرح تابندہ ہے
اس جہاں کے بعد بھی وہ درحقیقت زندہ ہے
کل وہ جب فردوس میں اللہ کا مہمان ہو
اس کے ناتے ہم پہ بھی رحمت ہی کا فیضان ہو
اے خدا! تیرے فرشتے اور جتنے کام ہوں
اس کے پاؤں دابنے کو، پر یہی خدام ہوں