بھولے گا نہیں ہم کو کبھی ان کا بچھڑنا

بنت حافظ محمد شفیق (۱)

مشہور ادیب ٹالسٹائی نے کیا خوب کہا ہے کہ میں انتہائی کوشش اور طویل جستجو کے باوجود زندگی کے معمے کا عشر عشیر بھی نہیں جان پایا۔ حقیقت کی جستجو فضول ہے۔ آخر کار مرجانا ہے۔ انسان کسی مسئلے پر کتنا ہی غور کیوں نہ کرے، وہ درحقیقت موت پر غور کر رہا ہوتا ہے۔ جہاں موت ہے، وہاں حقیقت کی کیا حیثیت ۔ یہ تو ایک غیر مسلم نے موت کے بارے میں کہا ہے، جبکہ مسلمان ہونے کے ناتے ہمارا ایمان ہے کہ کل نفس ذائقۃ الموت۔ موت ایک ایسی چیز ہے کہ کوئی بھی بشر زندگی کے کتنے ہی سا ل گزار لے، آخر موت اسے ہم سے چھین لیتی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتی یہ کسی کو کتنا پیار اہے اور دنیا والوں کو اس کی کتنی ضرورت ہے۔ ایسی ہی ایک عزیز از جان، پیاری اور محترم شخصیت ہمارے نانا جان کی تھی۔ ان کے نام کے ساتھ رحمہ اللہ اور نور اللہ مرقدہ جیسے الفاظ لکھتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ ہم سے جداہو گئے۔ محبتوں کے پیکر اور وفاؤں کے راہی اپنی محبتوں اور وفاؤں سے ہمیشہ کے لیے محروم کر گئے۔ اپنے گھر اور خاص طور پر اپنے کمرے کے بغیر کہیں نہ رہنے والے اس کے درودیو ار کو تنہا چھوڑ کر کسی دور دیس جا بسے۔ ہماری پریشانی پر پر یشان ہونے والے اور آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بے چین ہو جانے والے ہمیں بے چینی اور آنسوؤں کی ایسی برسات دے کر چلے گئے جو ہماری زندگیوں کاحصہ بن گئی ہے۔ جگر پارہ پارہ اور دل زخمی زخمی ہے۔ لگتاہے کسی نے دل مٹھی میں لے رکھا ہو اور اسے بھینچتاچلا جارہا ہو۔ ہاتھ اب بھی دعا کے لیے اٹھتے ہیں تو عادت کے مطابق بے اختیار یہی زبان سے نکلتاہے کہ یا اللہ، اباجان کو صحت اور تندرستی عطا فرما۔ فون کی گھنٹی بجتی ہے تو یہی خیا ل ہوتا ہے کہ ابا جی کا ہوگا ۔ ؂

بھولے گا نہیں ہم کو کبھی ان کا بچھڑنا

بستے ہوئے اک شہر کا پل بھر میں اجڑنا

ماضی کی یادوں کو دہرایا تو اپنی زندگی کا بہت سا وقت جو ان کی محبتوں کے سایے تلے گزرا، آنکھوں کو نمناک اور دل کو مزید غمگین کر گیا۔ بچپن میں ہم چھٹیوں کے دوران اپنی امی جان کے ساتھ گکھڑ جایا کرتے تو سرخ وسفید چہرے، خندہ پیشانی، عد سے سے جھانکتی ہیروں جیسی چمکتی ذہین آنکھوں والے اور سفید اجلے کپڑے پہنے ایک باوقار وبارعب بزرگ سے پیا ر ومحبت اور خلوص بھری ملاقات ہوتی۔ باشعور ہونے پر پتہ چلا کہ ہمارے اباجی ہیں۔ ہمارے والدین کی طرف سے ہمیں یہ نصیحت تھی کہ اباجی کا ادب واحترام ہم سے بھی بڑھ کر کرنا ہے اور ان کی دل وجان سے خدمت کرنی ہے۔ چنانچہ اباجی کے کھانے کا وقت ہوتا تو ہم بھاگ کر ہاتھ دھلوانے کی کوشش کرتے، وضوکے لیے اٹھتے تو فوراً جوتے پیش کرتے، سونے کے لیے لیٹنا ہوتا تو ٹانگیں دباتے اور ایسے چھوٹے چھوٹے کام لگن سے کرنے کی وجہ سے وہ ہماری محبت کا پاس رکھتے ہوئے یہ کا م ہمیں کرنے دیتے۔ 

ایک مرتبہ ہماری والدہ محترمہ سخت بیمار ہوگئیں تو ہم چاروں بہنیں اور بڑے بھائی جان گکھڑ میں ہی رہے جبکہ امی جان بڑے ماموں جان زاہد کے ہاں گوجرانوالہ چلی گئیں۔ ہم لوگ کبھی امی کے بغیر نہیں رہے تھے۔ کچھ وقت ابا جی کی محبتوں اور اپنی شرارتوں میں گزاردیا، لیکن پھر ہم نے شور مچانا شروع کر دیا کہ امی کے پاس جانا ہے۔ اباجی نے اپنی باتوں سے اور چیزیں وغیر ہ دے کر ہمیں بہلایا۔ جب ہم بچوں کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور ضد شروع کردی تو اباجی نے ہمیں کہا کہ چلو سب مل کر دعا کرتے ہیں کہ وہ جلدی صحت یاب ہو کر یہاں آجائے۔ جب ہم نے دیکھا کہ نہ تو امی جان کے آنے کی کوئی اطلاع ہے اور نہ ہی ہمیں وہاں بھیجا جا رہا ہے تو ہم سب بہنوں اور بھائی نے فیصلہ کیاکہ ہم کھانا نہیں کھائیں گے، جب تک امی سے نہ مل لیں۔ اباجی تک یہ بات پہنچی تو فوراً ہمیں اپنی عدالت میں حاضر کیا اور بہت پیار سے منانے لگ گئے۔ ہماری کیفیت دیکھ کر کہنے لگے کہ اس وعدہ پر لے کر جاؤں گا کہ وہاں رہنا نہیں ہے اور نہ ہی امی کے سامنے رونا ہے۔ میر ی آنکھوں میں وہ منظر اب بھی روشن ہے کہ ہم سب بہن بھائی ان کے ارد گرد بیٹھے تھے اور درمیان میں کھانے کا طشت رکھا تھا۔ وہ ہمیں ایک ایک لقمہ بناکر کھلا رہے تھے اور ساتھ کہہ رہے تھے کہ ان شاء اللہ صبح تمھاری امی کے پاس جائیں گئے۔ صبح انھوں نے ہمیں ماموں جان ماجد مرحوم کے ساتھ روانہ کیا۔ ہم گھر سے نکل کر اڈے تک گئے تو پتہ چلا کہ آج پہیہ جام ہڑتال ہے، چنانچہ گھر واپس لوٹ آئے۔ ہمارے اداس چہرے دیکھ کر کہنے لگے ان شاء اللہ، آج ضرور جاؤ گے۔ باہر کے حالات خراب ہونے کے باوجود اس دن عصر کے بعد اباجی نے اپنے وعدے کے مطابق ہمیں گوجرانوالہ بھیجا۔ یہ ہے ان کی چھوٹے بچوں کے ساتھ ایفاے عہد کی روشن مثال۔

جب بھی ہم اباجی کے پاس جاتے تو وقتاً فوقتاً ہمیں نصیحت کرتے اور قرآن وحدیث کے متعلق باتیں بتاتے۔ سب سے زیادہ نمازکی تاکید کرتے اور اس کے مسائل بتلاتے تاکہ بچوں کے ذہن میں یہ باتیں پختہ ہوجائیں۔ ایک دن نماز کے مسائل بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ اکثر خواتین وضو کرتے وقت ناک کے سوراخ میں پانی نہیں ڈالتیں۔ اس طرح وضو نہیں ہوتا۔ ان کی یہ بات ہم نے اپنے پلے باندھ لی۔ صبح سب سے پہلے ہمارے کانوں میں لاٹھی کی آواز کے ساتھ ’’نماز نماز‘‘ کی گونج دار آواز بھی پڑتی۔ بڑے تو بڑے، سب چھوٹے بچے بھی اپنے اپنے بستروں سے نکل کر نماز کی تیاری بڑے اہتمام سے کرتے۔ عشا کی نماز کے بعد سب بچے مل کر کمرے میں جا کر ابا جی کا جسم دباتے تھے۔ ابھی تھوڑا سا دباتے تھے کہ شاباش شاباش کی آواز کے ساتھ اٹھتے اور الماری میں رکھی ہوئی اپنی زنبیل سے طرح طرح کے میوہ جات ہمیں عنایت فرماتے۔ جمعۃ المبارک کو ناشتہ کرنے کے بعد گھر کی چھت پر چلے جاتے اور حجامت بنواتے۔ ہم بچے حجام کے جانے کے انتظار میں ہوتے تاکہ اوپر جاکر اباجی سے ناخن کٹوائیں اور انعام میں ایک ایک روپیہ حاصل کریں جو ہم بچوں کے لیے ہفت اقلیم کی دولت ہوتی۔ کبھی کبھی مذاق سے قینچی ناک پر رکھتے اور کہتے ناک کٹوا لو تو پانچ روپے دوں گا۔ ہم بچے تھے، لیکن اتنی سمجھ ضرور تھی کہ ناخن تو دوبارہ آسکتے ہیں، لیکن ناک نہیں، اس لیے فوراً بھاگ جاتے کہ کہیں ہمیں نک کٹا نہ کردیں۔

ہمارے والد محترم نے خواب دیکھا کہ وہ مجھے اور بڑے بھائی مولانا داؤد خان نوید کولے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے بھائی جان کو ٹافیا ں دیں۔ میر ے والد محترم نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یارسول اللہ، میری بیٹی کو بھی دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھی کچھ ٹافیا ں عنایت فرمائیں۔ اسی اثنا میں والد محترم کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ ان دنوں ہمارے گھر ماموں جان عابد آئے ہوئے تھے۔ ان سے تعبیر پوچھی تو کہنے لگے کہ بچوں کو کسی بڑے بزرگ کی صحبت نصیب ہوگی۔ اس کی تعبیر یوں سامنے آئی کہ میرے بھائی جان نے حفظ مکمل کیا تو اباجی نے انھیں اپنے پاس بلوالیا اور وہ وہاں تجوید کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اباجی کی خوب جی بھر کر خدمت کرتے رہے۔ اسی طرح کچھ عرصہ کے بعد میں نے میٹرک کا امتحان دیا تو ماموں جان شاہد مجھے گکھڑ لے گئے تاکہ چھٹیاں وہاں گزاروں۔ کچھ دن رہنے کے بعد اباجی سے اجازت لینے گئی تو اباجی نے مجھے واپس نہ آنے دیا اور وہاں ماموں جان حمادالزہراوی کے مدرسہ میں شعبہ حفظ میں داخل کرا دیا۔

میرا میٹرک کا رزلٹ آیا تو امی جان نے مجھے فرسٹ ڈویژن میں امتحان پاس کرنے پر سونے کی ایک انگوٹھی کا تحفہ دیا۔ میں کسی کام کے لیے اباجی کے پاس گئی توان کی نگاہ انگلی میں پڑی ہوئی انگوٹھی پر پڑ گئی اور وہ اس کے متعلق پوچھنے لگے۔ میں نے بتایا تو کہنے لگے پتر، تمہاری امی کی محبت ٹھیک ہے، لیکن یہ طالب علمی کا دور ہے۔ پھر بڑے پیار محبت سے اپنے طالب علمی کے دور کے تین چار واقعات رقت آمیز لہجے میں سنائے اور کہنے لگے کہ ہمیشہ سادگی سے رہو، یہی عورت کا اصل زیور اور حسن ہے۔ مجھے اس وقت اپنے آپ پر بہت زیادہ رشک آیا کہ اللہ پاک نے ہمیں ایسے ابا جی عطا کیے ہیں جو ہماری چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی اتنے اچھے انداز سے رہنمائی کرتے ہیں اور ہمارا حد سے زیادہ خیا ل رکھتے ہیں۔ ہماری بھی کوشش ہوتی کہ ہم سے کوئی کوتاہی نہ ہوجائے، خصوصاً ہماری امی جان نے آخر وقت تک ان کا بہت زیادہ خیال رکھا۔

ہماری امی جان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بہت خوش ہو کر کھاتے۔ امی جان بھی ہفتے میں دو تین دن ضرور کھانا بنا کر بڑے بھائی کے ہاتھ اباجی کو بھیجتی تھیں۔ کریلے گوشت، چوہنگاں، کڑھی، سری پائے، ساگ، ایسی چیزیں بہت خوش ہو کر کھاتے تھے۔ ایک دفعہ اباجی کھانا لے کر گھر میں داخل ہوئے تو مجھے آواز دی۔ میں بھاگ کر آئی تو میر ے ہاتھ میں کھانے کے برتن پکڑائے اور ہنس کر کہنے لگے، ’’اج تیر یا ں موجاں نیں۔ تیر ی امی نے تیرے لئی پکایا اے۔ میری امی زندہ ہوندی تے میرے واسطے پکاندی۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’میری امی نے اپنے اباجی واسطے تیار کیتا اے‘‘ تو کہنے لگے کہ ’’چل دوناں لئی اے۔‘‘

ایک دن میں جامعہ جانے کی تیاری کر رہی تھی کہ مجھے بلایا اور کہنے لگے کہ پتر، آج جنوبی افریقہ سے مہمان (غالباً حاجی ابراہیم صاحب تھے) نے آنا ہے، ان کے لیے اچھے کھانے کا انتظام کرلینا۔ مجھے ڈشز بھی بتائی گئیں کہ یہ تیار کر لینا۔ اباجی پریشان تھے کہ کیا میں اتنا کچھ تیار کر لوں گی یا نہیں اور کھانا اچھا بنے گا یا نہیں۔ اباجی سے اچھے کھانے کی سند حاصل کرنا بہت ہی مشکل کا م تھا۔ بہرحال دوپہر کو خوب اللہ کو یاد کرتے ہوئے اور د ل لگا کر کھانا بنایا۔ الحمد للہ حاجی صاحب کومیری محنت اتنی پسند آئی کہ ہر لقمہ پر انہوں نے کھانے کی تعریف کی۔ پہلے تو اباجی کو محسوس ہو ا کہ بچی کا دل رکھنے کے لیے ایسا کہہ رہے ہیں، لیکن جب انہوں نے خوب جی بھر کر کھانا کھایا تو پھر یقین آیا۔ کھانے کے فوراًبعد اباجی کے ہاتھ پر پانچ سو روپے رکھے اور کہنے لگے کہ میر ی طرف سے بچی کا انعام ہے۔ اباجی نے بہت انکار کیا لیکن جب وہ کسی طریقے سے نہ مانے تو مجھے آواز دے کر اندر بلوایا۔ میں پردہ کے ساتھ اندر گئی تو حاجی صاحب نے میرے سر پر پیار دیا اور مجھے انعام دیا۔ میں نے تردد کا اظہار کیا تو اباجی نے اشارہ کر کے کہا کہ رکھ لو۔ حاجی صاحب کے جانے کے بعد اباجی نے مجھے کمرے میں بلاکر بہت زیادہ شاباش دی۔

طبیعت کے مطابق کا م کرنے پر بہت زیادہ حوصلہ افزائی کرتے جبکہ طبیعت کے خلاف کام کرنے پر سخت غصہ اور ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے۔ ایک دفعہ مجھے شوق ہوا کہ اباجی اور مہمانوں کے لیے جوکمرہ ہے، اس کی نئی چادریں اور پردے وغیرہ بناؤں۔ سب گھر والوں نے بہت ڈرایا کہ اباجی غصہ کریں گے، لیکن میں نہ مانی۔ ان دنوں ان کی بڑی بہن ’’ددے‘‘ بھی آئی ہوئی تھیں اور ابا جی اپنے معمول سے ہٹ کر عشا کے بعد تقریباً دو گھنٹے تک ان کے پاس آکر بیٹھتے اور پرانی یادیں دہرا کر اور نت نئے قصوں سے ہمیں لطف اندوز کرتے تھے۔ جب اباجی اپنے وقت پر ہمارے پاس آئے تو فوراً ان کی نگاہوں نے تبدیلی بھانپ لی اور وہ ارد گرد کا بہت غور سے جائزہ لیتے رہے۔ کمرے میں واپس جانے کے بعد ماموں جان راشد کو بلایا اور کہنے لگے کہ اتناتو مجھے پتہ ہے کہ بازار سے یہ سب لانے والے تمہی ہو، یہ بتاؤ کہ کس نے منگوایا ہے؟ انہوں نے پس و پیش سے کا م لیا، لیکن اباجی کے سامنے مجبوراً میرانام بتانا پڑا۔ نا م اس لیے نہیں بتارہے تھے کہ ان کوپتہ تھا کہ اب ڈانٹ لازماً پڑے گی۔ اُدھر میں سب کو اترا اترا کر بتارہی تھی کہ ابا جی نے مجھے کچھ بھی نہیں کہا۔ اس بات پر سب حیران بھی تھے۔ یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ صبح سحری بنا کر اباجی کے پاس گئی اور ہاتھ دھلانے کے لیے برتن آگے کیا تو برتن ایک طرف رکھ کر مجھ سے پوچھنے لگے کہ پہلے مجھے بتاؤ، سارا خرچ کتناآیا ہے۔ ان کا اصول تھا کہ ایک ایک روپے کا حساب لکھواکر لیتے۔ میں نے ٹال مٹول سے کا م لیا تو سختی سے کہنے لگے، مجھے بتاؤ۔ مجھے ان کی سختی سے پو چھی گئی بات پر رونا آگیا اور آنسو میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ میرے آنسودیکھ کر میری طرف دیکھ کر تھوڑا مسکرائے اور کہا کہ میں نے تمہیں کچھ بھی نہیں کہا، صرف خرچ پوچھا ہے کہ کتنا ہوا ہے۔ مجبوراً میں نے آدھا خرچ بتایا تو کہنے لگے، یہ چیزیں اتنے کی تو نہیں ہیں۔ اتنا تجربہ تو مجھے ہے۔ سچ سچ بتاؤ اور آئندہ جس چیز کی بھی ضرورت ہو، مجھ سے پیسے لے لینا یا مجھے بتا دینا، میں منگوا دوں گا۔ غرض جب تک انہوں نے مجھے روپے نہیں دیے، سحری کے کھانے کو ہاتھ نہیں لگایا۔ ہوسکتا ہے پڑھنے والوں کے ذہن میںیہ بات آئے کہ گھریلو معاملات میں اباجی کس قدر سخت تھے۔ با لکل نہیں۔ دراصل وہ گھریلو معاملات میں بہت حساس تھے اور احساس ذمہ داری سے ہر کا م کو انجا م دینے والے تھے۔ ان کے کچھ اصول تھے جن پر وہ سختی سے کا ر بند رہتے تھے۔

ہمارے معاشرے میں عام طور پر مرد حضرات گھریلو ذمہ داریوں سے دست بردار ہو جاتے ہیں، لیکن اباجی نے جس طرح دین کی خدمت اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے کی ہے، اسی طرح گھر کی ذمہ داریوں کو بھی نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا ہے۔ گھر کا سودا سلف لا نا ہے تو لسٹ اباجی خود بنارہے ہوتے کہ کون سی چیز کتنی آنی ہے۔ بجلی، سوئی گیس یا جس قسم کے بل آتے، فوراً ادائیگی کرواتے۔ کسی کی شادی آتی ہے تو تحفے بھیجتے۔ کوئی فرد بیمار ہے تو اس کی عیادت کرتے۔ گھر کا کوئی فرد بیمار ہو جاتا تو جب تک خود دوائی منگوا کر اسے کھلانہ دیتے، ان کو سکون نہ آتا۔ جب تک بیمار فرد کو چلتا پھرتا نہ دیکھ لیتے، بے چین اور بے سکون رہتے۔ یہ کیفیات صرف صحت کی حالت میں نہیں تھیں، صاحب فراش ہونے کے بعد تو گھروالوں کے معاملے میں بہت زیا دہ حساس ہوگئے تھے۔

ہماری ایک ایک بات کی طرف ان کی خصوصی توجہ ہوتی۔ کوئی غلط کا م یا بات کرتے تو فوراً ٹوک دیتے تھے۔ ہماری والدہ محترمہ اپنے بہن بھائیوں میں زیادہ خاموش طبع ہیں۔ ان کو یہ ڈر تھا کہ کہیں بچوں میں بھی یہ نہ عادت آ جائے، اس لیے اچھی گفتگوکرنے پر ہمہ وقت اکساتے۔ آج ہم بہن بھائی جس مقام پر ہیں، اللہ رب العزت کی خصوصی مدد اور اس کے فضل کے ساتھ اباجی اور والدین کی خصوصی دعائیں اور اباجی کی تربیت بہت زیادہ شامل ہے۔ الحمد للہ اباجی نے ہمیں بہت زیادہ اعتماد، اعتبار، محبتوں، شفقتوں، دعاؤں اور نصیحتوں سے نوازا جو ہماری باقی کی زندگیوں کے لیے مشعل راہ اور بہترین زاد راہ ہے۔

ہم چاروں بہنوں نے اباجی کی خواہش کے مطابق گھر کے قریب جامعہ ام سلمہ میں درجہ کتب میں داخلہ لیا تو بہت خوشی کا اظہار کیا اور استقامت کی دعائیں دیں۔ جامعہ میں کچھ ہی عرصہ گزارا تھا کہ اباجی کی بیماری کی اطلاع آ گئی۔ اس وقت ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ طبیعت کی خرابی اتنے طویل عرصہ تک رہے گی۔ ہمیں جامعہ سے چھٹیا ں نہ ہونے کی وجہ سے امی جان اکیلے ہی چلی گئیں جبکہ ہمیں اک پل بھی چین نہ تھا۔ ہونٹوں پر یہی دعائیہ کلمات تھے کہ مالک کائنات! اباجی کو صحت وتندرستی عطافرما۔ ہم تین چارد ن کے بعد گئے تو اپنے جان سے پیارے اباجی کو چار پائی پر لیٹے دیکھ کردل دھک سے رہ گئے۔ چہرے پر بہت زیادہ کمزوری اور بیماری کے اثرات صاف دکھائی دے رہے تھے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ ہر وقت دوسروں کو تسلی اور دلاسہ ینے والے ابا جی کواب ہماری اشد ضرورت ہے۔ بس پھرکیا تھا، ادھر جامعہ سے جمعرات کو چھٹی ہوتی، اُ دھر ماموں جان راشد ہمیں گکھڑ لے جانے کے لیے گاڑی لے کر آجاتے۔ انہوں نے اباجی کی خدمت کے ساتھ ہمیں لانے لے جانے کی ڈیوٹی بھی احسن طریقے سے نبھائی ہے۔ اللہ پاک ان کو بہترین جزاے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔ ماموں جان کہتے تھے کہ ہفتہ کے دن جب تم لوگ چلی جاتی ہو تو اباجی پر انتظار کے لمحے بہت بھاری گزرتے ہیں۔ ایک ایک پل پوچھتے کہ آج کیا دن ہے۔ جب منگل آتا تو پر سکون ہونا شروع ہوجاتے کہ اب تمہارے آنے میں صرف ایک دن رہ گیا ہے۔ خود اباجی ہم بہنوں کو کہتے کہ تم میر ے آنگن کی چڑیا ں ہو، جب چلی جاتی ہوتو میں اداس ہو جاتا ہوں۔ میں نے مذاقاًکہا کہ چڑیا تو اُڑتی پھر تی ہے تو ہم بھی اُڑنے لگی ہیں تو فوراً کہتے، ’’ناں ناں، ہالے نہ اُڑنا‘‘۔ 

ہمارے جامعہ نے تقسیم اسناد کاپروگرام رکھا تو جامعہ کی انتظامیہ کا اصرار تھا کہ حضرت صاحب یہاں آئیں، لیکن اباجی نے معذرت کا اظہار کیا اور کہنے لگے کہ آپ کسی اور کو بلالیں، میں کہیں نہیں جاتا۔ انتظامیہ والوں نے ہمیں کہا کہ آپ ان کو منائیں، آپ کی بات مان جائیں گے۔ ہم نے صرف اتنا ہی کہا کہ اباجا ن، ہمیں بہت خوشی ہوگی جب آپ اپنے ہاتھوں سے سند ہمیں دیں گے تو ماموں جان راشد کوبلاکر کہنے لگے کہ بچیوں کی خوشی اسی میں ہے، اس لیے تم مجھے وہاں لے جانا۔ اُس وقت ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا جب اباجی ماموں جان ساجد، ماموں جان راشد اور بھائی داؤد کے ساتھ جامعہ میں داخل ہوئے۔ انہوں نے ہمیں کہا کہ تم لوگوں کی فرمایش پوری کردی ہے، اب تم ان کو سنبھال لینا، ہم باہر جارہے ہیں۔ اباجی نے جامعہ کے اساتذہ کرام وطالبات سے کچھ گفتگوفرمائی اور پھر ہمیں سند یں دیں۔ جب واپس جانے لگے تو اصرار کرنے لگے کہ میر ے ساتھ چلو، کیونکہ جمعرات کا دن تھا۔ گاڑی میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے ماموں کہنے لگے، آپ کو چھوڑکر میں ان کو آکر لے جاؤں گا۔ اباجی کی محبتوں کو دیکھ کر اپنے اوپر بہت رشک آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم بھی گکھڑ پہنچ گئے۔ ان دنوں عصر کے بعد ہوا خوری کے لیے ویل چیئر پر باہر چکر لگواتے تھے۔ اس دن میں نے ویل چیئر پکڑی ہوئی تھی تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ آج جو تمھیں سندیں ملی ہیں، یہ وفاق المدارس کی طرف سے ہیں؟ میں نے کہا، جی اباجی تو کہنے لگے الحمد للہ ثم الحمد للہ، اللہ پاک تم سب کوکامیاب وکامران کرے۔ اسی طرح عالمیہ والے سال ختم بخاری شریف کے موقع پر تشریف لائے تو ہمیں کہنے لگے، آج میں بہت زیادہ خوش ہوں کیونکہ تم لوگوں سے متعلق میری دیرینہ خواہش پوری ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ سند حدیث کی اجازت دی اور عالمہ کے ساتھ عاملہ بننے کی خصوصی دعا کی ۔

جب جمعرات کو ہم گکھڑ جاتے تو رات کا فی دیر تک بزم ادب کی طرح محفل سجتی۔ نعتیں، نظمیں، علمی باتیں اور لطالف رات گئے تک سنتے۔ کچھ مزاحیہ باتو ں پر اباجی کے قہقہوں کے ساتھ ہمارے قہقہے بھی رکنے پر نہ آتے۔ نظمیں سننے پر باربار یہ الفاظ دہراتے کہ یا اللہ تیرا شکر ہے کہ میرے بچے تیرے نام لیوا ہیں۔ لوگوں کے بچے گانے سناتے ہیں تو ان کے والدین خوش ہوتے ہیں، جبکہ مجھے اپنے بچوں کی ہی ادا ئیں بہت پسند ہیں۔

اباجی کے ساتھ زندگی کی بہت سی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ ان خوشگوار دنوں میں سے ایک وہ دن بھی ہے جب ہمیں پتہ چلا کہ چھوٹے نانا جان حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ رہنے کے لیے اباجی کے پاس آرہے ہیں۔ ہماری خوشوں کا کوئی ٹھکانا نہ رہا جب ہم نے ان دونوں بزرگوں کو ایک جگہ پر کافی دیر اکٹھے دیکھا۔ دونوں بھائیوں کی پر انی یادیں اور پرانے قصے بڑے مزے سے سنے چھوٹے جو نانا جان نے اپنے دلچسپ انداز میں ہمیں سنائے اور ہمیں بہت زیادہ ہنسایا۔ ان دنوں اباجی کی یہی خواہش تھی کہ مجھے چھوڑکر صوفی کی خدمت زیادہ کرو۔ اُدھر ان کے پاس جاتے تو وہ کہتے، مولوی صاحب کی زیادہ خدمت کرو۔ دونوں بھائیوں کی محبت اور ایثار آخر تک مثالی رہا۔

بیماری کی حالت میں اباجی مطالعہ خود تو نہیں کر سکتے تھے، لیکن کتابیں بہت خوش ہو کر سنتے۔ اکثر وبیشتر کتابوں کے اوپر اپنا ہاتھ حسرت سے پھیرتے کہ میں ان کو اب پڑھ نہیں سکتا۔ میں نے سب سے زیادہ جو کتابیں سنائیں، ان میں صحاح ستہ کے علاوہ الجامع الصغیر، جامع البیان، تذکر ۃ المحدثین والمفسر ین، دنیا میرے آگے اور تحریک مجلس احرار اور ختم نبوت کی تحریک کے متعلق کتابیں شامل ہیں۔ مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کا سفر نا مہ بہت زیادہ سنا ہے۔ جب مجھے سنانے کے لیے کہتے تو میں پوچھتی کہ ’’اباجی، اج کتھے دی سیر کریے؟‘‘ جس ملک کے بارے میں سننا ہو تا تو کہتے ’’اج اوتھے چلنا اے‘‘۔ جب ذخیرۃ الجنان کی نئی جلد آتی تو وہ بھی سنتے۔ ماموں راشد سے کہتے کہ ان سب کے لیے ایک ایک جلد ضرور رکھنا، چنانچہ جب ہم واپس آنے لگے توہم بہن بھائیوں کو اپنے ہاتھ سے دیتے۔ ایکسیرپس، ضرب مومن اور اسلام اخبار سننے کا معمول تھا۔ ضرب مومن میں مولانا اسلم شیخوپوری اور سید عدنا ن کاکاخیل کے مضامین بعض اوقات موڈ نہ ہونے کے باوجود بہت دلچسپی سے سنتے۔ اسلام اخبار میں سے ماموں جان زاہد کے کالم کے علاوہ مجھے جو کا لم اچھا لگتا اور میں سنانے کے لیے کہتی تو بہت غور سے سنتے۔ ایک دفعہ مولانا غلام اللہ خانؒ کے متعلق قسط وار مضمون آیا۔ میں نے سنایا تو بہت زیادہ پسند آیا اور اپنے کمرے کی الماری میں وہ اخبار رکھوایا۔ جب بھی جاتی، وہ ضرور سنتے۔ 

کسی کتاب کی بھی عربی عبارت سننے پر بہت خوش ہوتے۔ پیشانی اور ہاتھ پر بوسہ دیتے اور بے اختیا ر ہمارے استاد مکرم مولانا عبد المجید صاحب کو دعائیں دیتے۔ میں اپنی عادت کے مطابق ایک ہاتھ میں کتاب پکڑتی اور دوسرا ہاتھ اباجی کے کندھے پر رکھ کر سناتی تھی۔ پھر کچھ دنوں میں ایسی عادت ہوگئی کہ کمرے میں موجود چھوٹی کرسی پر بٹھا کر سنا کرتے۔ ایک دن بڑے خوشگوار موڈمیں تھے۔ مجھے کتاب سنانے کو کہا تومیں نے ایک طرف بیٹھ کر کتاب سنانی شروع کی تو مجھے کر سی لاکر وہاں بیٹھنے کو کہا۔ میں نے ہنس کرکہا کہ اباجی، اس کرسی کے لیے تو بہت سے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، جب کہ آپ آرام سے دوسروں کے حوالے کردیتے ہیں۔ آپ بھی مسکرائے اور کہنے لگے کہ ’’اوہ وڈی کرسی ہوندی اے، ایہہ تے چھوٹی ساری اے۔‘‘ میں جب بھی پاس جاکر بیٹھتی تو میری کلائی تھوڑا سازور لگا کر پکڑتے اور وہ جگہ سرخ ہوجاتی۔ میں کہتی کہ آپ کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوں، جبکہ آپ میں ابھی بھی اتنی طاقت اور ہمت ہے کہ کسی پہلوان کونیچے گرا سکتے ہیں۔ اس پر مسکراتے اور ساتھ ساتھ ہاتھ سے ناں نا ں کا اشارہ کرتے۔ لیکن یہ طاقت وہمت چھوٹے نانا جا ن کی وفات کے بعد ختم ہونا شروع ہو گئی اور آخر ی ضرب ہمارے محترم خالو جان مولانا قاری خبیب احمد عمر رحمہ اللہ کی وفات ثابت ہوئی جس نے اباجی کی ساری طاقت وہمت نچوڑ لی۔

۲۰ ؍اپریل ۲۰۰۹ء کو میں نے خواب دیکھا کہ میرا دانت ایک دم نیچے گر گیا ہے اور بہت زیا دہ خون نکل رہا ہے۔ میں اپنا دانت اٹھاکر دیکھتی ہوں تو وہ سب دانتوں سے زیادہ چمک دار اور روشن دکھائی دیتا ہے۔اسی طرح ابا جی کی وفات سے تین چار دن پہلے خواب میں دیکھتی ہوں کہ مولانا عبداللطیف جہلمی ؒ اپنی اہلیہ کے ساتھ گکھڑ کے بازار میں آئے ہیں اور کہتے ہیں، ہم خریداری کرنے آئے ہیں۔ میں پوچھتی ہوں، کس چیز کی؟ اتنے میں ایک د م اباجی آتے ہیں اور قاضی صاحب ان کا ہاتھ پکڑتے ہیں اور کہتے ہیں، مولانا سرفراز کی۔ وہ اباجی کو جلدی سے لے جاتے ہیں جبکہ میں ان کے پیچھے بھاگتی ہوں اور کہتی ہوں کہ ہمارے اباجی کونہ لے کر جائیں۔ وہ مڑکر جواب دیتے ہیں کہ میں نے لے کر جاناہے۔

میں نے جب آخری دفعہ ان کو دیکھا تو میری طرف چند سیکنڈ تک بہت غور سے دیکھتے رہے۔ دل نے فوراً دہائی دی کہ یا اللہ، خیر کامعاملہ فرما نا۔ اے اللہ، اباجی ہمارے لیے رحمتوں اور برکتوں کا سا ئبان ہیں، انہیں ہم سے جدانہ کر نا۔

اللہ تعالی کے راضی ہونے کی دلیل بھی یہی ہے کہ اس کی رضا میں خوش رہا جائے۔ یہی سوچ کر صبر کا دامن تھام لیاہے، ور نہ کس کا دل چاہتا ہے کہ اس کا پیا را اس سے جدا ہو۔ خود چاروں ماموں اور ہماری امی اور چھوٹی بہن کہتی ہیں کہ آخری لمحات میں ہم سب اتنے بے بس ہوگئے تھے کہ کو ئی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ ہم میں سے کوئی ایک بھی باوجود ہزار کوششوں کے اپنے مشفق باپ کو دور جانے سے نہیں روک سکتا تھا، کیونکہ یہی قضاکا فیصلہ تھا ۔ 

ابا جی کے بغیر ہم سب بڑے تو پریشان اور اداس ہیں ہی، لیکن گھر کے چھوٹے بچے ارسل،امیمہ، فائز، مبشرہ ، رمشہ، مسفرہ، عبدالرزاق اور رشیقہ بھی سب بہت یاد کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ دادا ابو کہا ں چلے گئے ہیں، ابھی تک واپس کیوں نہیں آئے؟ وہ تو اپنے گھر سے اتنے د ن کبھی دور نہیں رہے۔ اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ جس نے بھی اباجی کی خدمت دل وجان سے کی ہے، چاہے وہ گھر کا فرد ہے یا باہر کا، اس کو بہترین صلہ عطا فرمائے۔ گھر میں سے خصوصاً ہماری امی جان، ماموں جان راشد، میری چھو ٹی بہن ان سب نے اباجی کی خدمت کے لیے دن اور رات میں کوئی فرق نہیں رکھا تھا۔ کسی نے جنت کمانے والے کو دیکھنا ہو تو بلاشک وشبہ ان کو دیکھ لے جنھوں نے اپنی جان سے بڑھ کر خدمت کی ہے ۔

یا اللہ! ہمارے اباجی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرما۔ جس طرح ہمارا ان کا دنیا میں ساتھ رہا ہے، اسی طرح اُخروی زندگی میں بھی اپنے اس ولی کا مل کا ساتھ نصیب فرمانا۔ آمین ثم آمین۔

مشاہدات و تاثرات

(جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء)

جولائی تا اکتوبر ۲۰۰۹ء

جلد ۲۰ ۔ شمارہ ۷ تا ۱۰

گر قبول افتد زہے عز و شرف
محمد عمار خان ناصر

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۱)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح (۲)
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت شیخ الحدیثؒ کے اساتذہ کا اجمالی تعارف
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنتؒ کے چند اساتذہ کا تذکرہ
مولانا قاضی نثار احمد

گکھڑ میں امام اہل سنت کے معمولات و مصروفیات
قاری حماد الزہراوی

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ کا تدریسی ذوق اور خدمات
مولانا عبد القدوس خان قارن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی قرآنی خدمات اور تفسیری ذوق
مولانا محمد یوسف

امام اہل سنت رحمہ اللہ کی تصانیف: ایک اجمالی تعارف
مولانا عبد الحق خان بشیر

امام اہل سنتؒ کی تصانیف اکابر علما کی نظر میں
حافظ عبد الرشید

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ اور دفاعِ حدیث
پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

منکرینِ حدیث کے شبہات کے جواب میں مولانا صفدر رحمہ اللہ کا اسلوبِ استدلال
ڈاکٹر محمد عبد اللہ صالح

’’مقام ابی حنیفہ‘‘ ۔ ایک علمی و تاریخی دستاویز
ڈاکٹر انوار احمد اعجاز

’’عیسائیت کا پس منظر‘‘ ۔ ایک مطالعہ
ڈاکٹر خواجہ حامد بن جمیل

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی تصانیف میں تصوف و سلوک کے بعض مباحث
حافظ محمد سلیمان

سنت اور بدعت ’’راہ سنت‘‘ کی روشنی میں
پروفیسر عبد الواحد سجاد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا انداز تحقیق
ڈاکٹر محفوظ احمد

مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا اسلوب تحریر
نوید الحسن

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا شعری ذوق
مولانا مومن خان عثمانی

حضرت والد محترمؒ سے وابستہ چند یادیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
قاضی محمد رویس خان ایوبی

والد محترم کے ساتھ ایک ماہ جیل میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

پیکر علم و تقویٰ
مولانا شیخ رشید الحق خان عابد

دو مثالی بھائی
مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

حضرت والد محترمؒ کے آخری ایام
مولانا عزیز الرحمٰن خان شاہد

میرے بابا جان
ام عمران شہید

ذَہَبَ الَّذِیْنَ یُعَاشُ فِیْ اَکْنَافِہِمْ
اہلیہ قاری خبیب

اب جن کے دیکھنے کو اکھیاں ترستیاں ہیں
ام عمار راشدی

ابا جیؒ اور صوفی صاحبؒ ۔ شخصیت اور فکر و مزاج کے چند نمایاں نقوش
محمد عمار خان ناصر

قبولیت کا مقام
مولانا محمد عرباض خان سواتی

جامع الصفات شخصیت
مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق

ایک استاد کے دو شاگرد
حافظ ممتاز الحسن خدامی

داداجان رحمہ اللہ ۔ چند یادیں، چند باتیں
حافظ سرفراز حسن خان حمزہ

کچھ یادیں، کچھ باتیں
حافظ محمد علم الدین خان ابوہریرہ

اٹھا سائبان شفقت
حافظ شمس الدین خان طلحہ

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ام عفان خان

نانا جان علیہ الرحمہ کی چند یادیں
ام ریان ظہیر

میرے دادا جی رحمۃ اللہ علیہ
ام حذیفہ خان سواتی

میرے شفیق نانا جان
ام عدی خان سواتی

وہ سب ہیں چل بسے جنہیں عادت تھی مسکرانے کی
بنت قاری خبیب احمد عمر

بھولے گا نہیں ہم کو کبھی ان کا بچھڑنا
بنت حافظ محمد شفیق (۱)

دل سے نزدیک آنکھوں سے اوجھل
اخت داؤد نوید

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
بنت حافظ محمد شفیق (۲)

شیخ الکل حضرت مولانا سرفراز صاحب صفدرؒ
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدی را سخن پایاں
مولانا مفتی محمد عیسی گورمانی

امام اہل سنت کی رحلت
مولانا محمد عیسٰی منصوری

امام اہلِ سنتؒ کے غیر معمولی اوصاف و کمالات
مولانا سعید احمد جلالپوری

حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدرؒ کا سانحۂ ارتحال
مولانا مفتی محمد زاہد

علم و عمل کے سرفراز
مولانا سید عطاء المہیمن بخاری

اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
مولانا محمد جمال فیض آبادی

چند منتشر یادیں
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

اک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی
پروفیسر غلام رسول عدیم

چند یادگار ملاقاتیں
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

امام اہل سنتؒ: چند یادیں، چند تأثرات
حافظ نثار احمد الحسینی

ایک عہد ساز شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر

پروانے جل رہے ہیں اور شمع بجھ گئی ہے
مولانا ظفر احمد قاسم

وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

ہم یتیم ہوگئے ہیں
مولانا محمد احمد لدھیانوی

میرے مہربان مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ڈاکٹر حافظ محمد شریف

مثالی انسان
مولانا ملک عبد الواحد

وہ جسے دیکھ کر خدا یاد آئے
مولانا داؤد احمد میواتی

دو مثالی بھائی
مولانا گلزار احمد آزاد

امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ چند یادیں
مولانا محمد نواز بلوچ

میرے مشفق اور مہربان مرشد
حاجی لقمان اللہ میر

مت سہل ہمیں جانو
ڈاکٹر فضل الرحمٰن

حضرت مولانا سرفراز صفدرؒ اور مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ
مفتی خالد محمود

شیخ کاملؒ
مولانا محمد ایوب صفدر

اولئک آبائی فجئنی بمثلھم
مولانا عبد القیوم طاہر

چند یادیں اور تاثرات
مولانا مشتاق احمد

باتیں ان کی یاد رہیں گی
صوفی محمد عالم

یادوں کے گہرے نقوش
مولانا شمس الحق مشتاق

علمائے حق کے ترجمان
مولانا سید کفایت بخاری

دینی تعلق کی ابتدا تو ہے مگر انتہا نہیں
قاری محمد اظہر عثمان

امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر
مولانا الطاف الرحمٰن

امام اہل سنتؒ اور ان کا پیغام
حافظ محمد عامر جاوید

ایک شخص جو لاکھوں کو یتیم کر گیا
مولانا عبد اللطیف قاسم چلاسی

تفسیر میں امام اہل سنتؒ کی بصیرت : ایک دلچسپ خواب
ڈاکٹر محمد حبیب اللہ قاضی

امام اہل سنتؒ ۔ چند ملاقاتیں
حافظ تنویر احمد شریفی

مجھے بھی فخر ہے شاگردئ داغِؔ سخن داں کا
ادارہ

سماحۃ الشیخ سرفراز خان صفدر علیہ الرّحمۃ ۔ حیاتہ و جہودہ الدینیۃ العلمیّۃ
ڈاکٹر عبد الماجد ندیم

امام اہل السنۃ المحدث الکبیر ۔ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر

العلامۃ المحدث الفقیہ الشیخ محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

محدث العصر، الداعیۃ الکبیر الشیخ محمد سرفراز صفدر رحمہ اللہ
مولانا طارق جمیل

امام اہل سنتؒ کے عقائد و نظریات ۔ تحقیق اور اصول تحقیق کے آئینہ میں
مولانا عبد الحق خان بشیر

حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا منہج فکر اور اس سے وابستگی کے معیارات اور حدود
محمد عمار خان ناصر

درس تفسیر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ۔ سورۂ بنی اسرائیل (آیات ۱ تا ۲۲)
محمد عمار خان ناصر

حضرات شیخین کی چند مجالس کا تذکرہ
سید مشتاق علی شاہ

خطبہ جمعۃ المبارک حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کے دلچسپ واقعات
مولانا محمد فاروق جالندھری

حفظ قرآن اور دورۂ حدیث مکمل کرنے والے طلبہ سے امام اہل سنتؒ کا ایک ایمان افروز تربیتی خطاب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

تعلیم سے متعلق ایک سوال نامہ کا جواب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کی فارسی تحریر کا ایک نمونہ
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام اہل سنتؒ کے منتخب مکاتیب
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

ہمارے پیر و مرشد
محمد جمیل خان

امام اہل سنت کے چند واقعات
سید انصار اللہ شیرازی

تعزیتی پیغامات اور تاثرات ۔ بسلسلہ وفات حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ
ادارہ

حضرت شیخ الحدیثؒ کی وفات پر اظہار تعزیت کرنے والے مذہبی و سیاسی راہ نماؤں کے اسمائے گرامی
ادارہ

مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور متوازن رویہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنتؒ کے علمی مقام اور خدمات کے بارے میں حضرت مولانا محمد حسین نیلویؒ کی رائے گرامی
ادارہ

امام اہل سنت رحمہ اللہ کا دینی فکر ۔ چند منتخب افادات
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ ۔ شجرۂ نسب سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ
ادارہ

سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے خلفاء
ادارہ

آہ! اب رخصت ہوا وہ اہل سنت کا امام
محمد عمار خان ناصر

اے سرفراز صفدر!
مولوی اسامہ سرسری

ان کو ڈھونڈے گا اب تو کہاں راشدی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امام اہل سنت قدس سرہ
مولانا غلام مصطفٰی قاسمی

حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں
مولانا منظور احمد نعمانی

مضی البحران صوفی و صفدر
حافظ فضل الہادی

علم کی دنیا میں تو ہے سربلند و سرفراز
ادارہ

قصیدۃ الترحیب
ادارہ

خطیب حق بیان و راست بازے
محمد رمضان راتھر

تلاش

Flag Counter