حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ میرے والد گرامی تھے‘استاد محترم تھے‘ شیخ و مربی تھے اور ہمارے درمیان دوستی اور بے تکلفی کا وہ رشتہ بھی موجود تھا جو ہر باپ اور اس کے بڑے بیٹے کے مابین ہوتا ہے۔ ۵ مئی کو رات ایک سوا ایک بجے کے لگ بھگ وہ کم و بیش ایک صدی اس دنیا میں گزار کر دارالقضاء کی طرف کوچ کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میں خود ہجری اعتبار سے ۶۳ سال کا ہو چکا ہوں۔ میرے جذبات و تاثرات کا وہی عالم ہے جو حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ کا اپنے والد گرامی حضرت مولانا سید محمد زکریا بنوریؒ کی وفات پر تھا۔ وہ مولانا سید یوسف بنوریؒ کی وفات سے کچھ ہی عرصہ قبل اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تھے۔ اپنے بزرگ باپ کی وفات پر مولانا بنوریؒ رو رہے تھے تو کسی نے دریافت کیا کہ حضرت! آپ کے والد بزرگوار نے ماشاء اللہ خاصی عمر پائی ہے اور بہت اچھی زندگی گزاری ہے‘ آپ روتے کیوں ہیں؟ فرمایا کہ روتا اس لیے ہوں کہ اب مجھے ’’ابے یوسف‘‘ کہہ کر بلانے والا نہیں رہا۔ میری کیفیت بھی کچھ اسی طرح کی ہے اور سوچتا ہوں کہ اب ’’زاہد کو بلاؤ‘‘ کون کہے گا اور ’’زاہد ادھر آؤ‘‘ کہہ کر بلانے والا کون ہوگا؟
وفات کے وقت ان کی عمر ہجری حساب سے اٹھانوے برس تھی کہ وہ اپنا سن ولادت ۱۳۳۲ھ بتایا کرتے تھے۔ ان کے والد محترم جناب نور احمد خان مرحوم شاہراہ ابریشم پر واقع شنکیاری سے چند میل کے فاصلے پر کڑمنگ کے قریب ایک پہاڑی چوٹی ’’چیڑاں ڈھکی‘‘ میں رہتے تھے۔ چھوٹے موٹے زمیندار تھے۔ سوات کے معروف روحانی پیشوا حضرت اخوند زادہ عبدالغفور سواتیؒ سے بیعت و عقیدت کا تعلق تھا۔ ضلع مانسہرہ کے طول و عرض میں آباد سواتی قوم میں سے تھے۔ انہوں نے دینی تعلیم اپنے چھوٹے بھائی مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتیؒ کے ہمراہ‘ جن کا گزشتہ سال اپریل (۲۰۰۸ء) میں انتقال ہوا ہے‘ مانسہرہ‘ گوجرانوالہ‘ جہانیاں منڈی‘ وڈالہ سندھواں اور دوسرے علاقوں کے دینی مدارس میں حاصل کی۔ ۱۹۴۱ء میں دارالعلوم دیوبند پہنچے جہاں دونوں بھائیوں نے دورہ حدیث کیا اور حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے شرف تلمذ کے ساتھ سند فراغت و فضیلت حاصل کی۔ ۱۹۴۳ ء میں وہ گکھڑ آ گئے اور جی ٹی روڈ پر ایک مسجد میں امامت و خطابت کا سلسلہ شروع کیا جو ۲۰۰۰ ء تک مسلسل جاری رہا۔ پانچ وقت نمازوں کی امامت‘ نماز فجر کے بعد بلاناغہ درس قرآن و حدیث اور جمعہ و عیدین کے خطبوں کے علاوہ درس نظامی کے مختلف درجات کی تدریس کم و بیش ساٹھ برس تک ان کا روزمر کا معمول رہی۔
ان کی دو بیویاں تھیں جن سے ہم بارہ بھائی اور تین بہنیں پیدا ہوئے۔ تین بھائی بچپن میں ہی فوت ہو گئے۔ نو بھائی جوان ہوئے جو سب کے سب دینی تعلیم سے آراستہ ہیں‘ عالم ہیں‘ حافظ ہیں۔ تینوں بیٹیوں کو دینی تعلیم سے بہرہ ور کیا‘ تینوں قرآن کریم کی حافظہ ہیں اور درس نظامی کی تعلیم سے بھی فیض یافتہ ہیں اور تینوں دینی علوم کی تدریس میں مصروف ہیں۔ والد محترم خود حافظ قرآن نہیں تھے‘ مگر سب بیٹوں اور بیٹیوں کو قرآن کریم حفظ کرایا۔ ان سے کوئی پوچھتا کہ حضرت! آپ حافظ ہیں؟ تو جواب میں کہتے کہ ’’میں حافظوں کا باپ ہوں‘‘۔
میں نے جب ہوش کے ناخن لینا شروع کیے تو ہم گکھڑ میں جی ٹی روڈ پر بٹ دری فیکٹریوں کے چوبارے میں رہتے تھے۔ ہماری والدہ مرحومہ گوجرانوالہ سے تھیں۔ شیرانوالہ باغ کے سامنے ریلوے پھاٹک سے دوسری طرف واقع پولیس تھانے کے عقب میں رام بستی نامی محلہ کی مسجد میں ہمارے نانا مرحوم مولوی محمد اکبر صاحب امام مسجد تھے جو راجپوت جنجوعہ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ بڑے باذوق بزرگ تھے، قرآن کریم معروف لہجے میں اور اچھے انداز میں پڑھا کرتے تھے جو اس زمانہ میں بہت کمیاب تھا۔ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے، لیکن میں نے بہت سے معیاری علمی جرائد ان کے ہاں ڈاک سے باقاعدہ آتے دیکھے جن میں الفرقان، النجم، برہان، خدام الدین اور درس قرآن جیسے رسالے بھی شامل تھے۔ وہ ان کا مطالعہ کرتے اور اہتمام سے ان کی جلدیں بنواتے تھے۔ یہ منظر اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ وہ مسجد کے صحن میں ٹہلتے ہوئے قرآن کریم کی بلند آواز سے تلاوت کیا کرتے تھے یا عربی، فارسی کی کوئی مناجات ترنم سے پڑھتے تھے۔ حضرت صدیق اکبرؓ سے منسوب مناجات ’’خذ بلطفک یا الہیٰ من لہ زاد قلیل‘‘ سب سے پہلے میں ان سے سنی اور ان کے لہجے کا سوز ابھی تک کانوں میں رس گھول رہا ہے۔
بٹ دری فیکٹری کی وہ پرانی عمارت تھی۔ نیچے کھڈیاں تھیں اور اوپر چوبارہ تھا جس میں ہماری رہایش تھی۔ حاجی اللہ دتہ بٹ مرحوم گکھڑ کے ان تین چار بزرگوں میں سے ہیں جو والد محترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ کو ۱۹۴۳ء میں گکھڑ لانے کا باعث بنے اور ان کے اولین ساتھی اور پشت پناہ ثابت ہوئے۔ دوسرے بزرگوں میں حاجی فخرالدین صاحب مرحوم، ماسٹر کرم دین مرحوم، چودھری غلام حسین چیمہ مرحوم، ملک محمد اقبال مرحوم اور چودھری محمد عبداللہ چیمہ مرحوم کے نام لیے جاتے ہیں۔ حضرت والد محترم ؒ جب دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہو کر گوجرانوالہ آئے اور مدرسہ انوار العلوم میں تدریسی خدمات میں مصروف تھے کہ حاجی اللہ دتہ بٹ صاحب مرحوم اور ان کے رفقا کی فرمایش پر وہ گکھڑ آگئے جہاں جی ٹی روڈ پر بوہڑ والی مسجد میں انہیں امامت و خطابت کے فرائض سپرد کیے گئے جبکہ چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی قدس اللہ سرہ العزیز دارالعلوم دیو بند سے فراغت کے بعد لکھنؤ اور پھر حیدر آباد دکن چلے گئے جہاں انہوں نے امام اہل سنت حضرت مولاناعبدالشکور لکھنوی ؒ سے مناظرہ کا دورہ کیا اور عثمانیہ طبیہ کالج حیدر آباد دکن میں حکیم حاذق کا باقاعدہ کورس کیا۔
حاجی اللہ دتہ بٹ صاحب مرحوم کو ہمارے خاندان کے بزرگ کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی اور وہ بھی ہمارے ساتھ بہت شفقت فرماتے تھے۔ شادی غمی میں خاندانی بزرگ کی طرح شریک ہوتے۔ ان کی اہلیہ مرحومہ کو ہم دادی سمجھا کرتے تھے اور وہ بے جی بٹنی کے نام سے ہمارے ہاں معروف تھی۔ بٹ صاحب مرحوم کے خاندان کے ساتھ ہمارا گھریلو میل جول اس حد تک رہا ہے کہ ہم ان کے بیٹوں کو چچا اور بیٹیوں کو پھوپھی کہا کرتے تھے اور اب بھی انھیں ہمارے خاندانی ماحول میں وہی مقام حاصل ہے۔ اسی طرح ماسٹر بشیر احمد صاحب کشمیری مرحوم کے خاندان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت کچھ اسی طرح کی تھی۔ ان کے بڑے بھائی صوفی نذیر احمد صاحب ہمارے گھر میں تایا جی کہلاتے تھے، ان کی والدہ محترمہ کو بے جی کا مقام حاصل تھا جبکہ ان کی بہنیں ہماری پھوپھیاں کہلاتی ہیں اور انھی میں سے ایک پھوپھی میرے چھوٹے بھائی مولانا عبدالقدوس قارن کی خوش دامن ہیں۔
گکھڑ کی یہ مسجد جس میں والد صاحب تشریف لائے، چیمہ برادری کے ایک پرانے بزرگ مولوی غلام حیدر چیمہ مرحوم نے بنوائی تھی۔ ان کی قبر مسجد کے ایک کونے میں نیچے کمرے میں موجود ہے جہاں مسجد کی شب وروز کی دینی اور تعلیمی سرگرمیوں کی برکات اور اجرو ثواب کا فیضان جاری رہتا ہے۔ حضرت والد صاحب ؒ گکھڑ آئے تو مسجد میں امامت و خطابت کے ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جو گوجرانوالہ میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے قیام اور اس میں ان کی تدریس کے سلسلہ کے آغاز تک جاری رہا۔ پرانے رواج اور طرز کے مطابق مختلف علاقوں سے طلبہ جمع ہو جاتے تھے، ان کا قیام مسجد میں ہوتا تھا، گاؤں کے لوگ کھانا دے دیا کرتے تھے، اس طرح کے طلبہ خود مختلف گھروں سے جا کر کھانا لے آتے تھے اور مسجد میں شب و روز تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ اسباق کی درجہ بندی نہیں ہوتی تھی اور طلبہ اپنی اپنی استعداد اور ذوق کے مطابق اسباق پڑھتے تھے۔ اس دوران صبح سے شام تک اسباق چلتے رہتے تھے۔ حضرت والد صاحب ؒ سے ایک بار سنا کہ بسا اوقات دن میں تیس تیس اسباق بھی پڑھانے میں آ جاتے تھے۔ سیکڑوں علماے کرام نے اس دور میں استفادہ کیا۔ ان کے بہت سے پرانے شاگرد جب ملتے ہیں تو اس زمانے کے واقعات سناتے رہتے ہیں۔
میری ولادت ۲۸؍ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو ہوئی۔ جب بٹ دری فیکٹری کا چوبارہ ہمارا مسکن تھا، وہاں کی کچھ کچھ باتیں ذہن کی سکرین پر جھلملاتی رہتی ہیں۔ والد محترم اور والدہ محترمہ کے علاوہ ایک بزرگ خاتون کا ہیولیٰ سا ذہن میں موجود ہے۔ شکل یاد نہیں، لگتا ہے کہ وہ ہماری دادی مرحومہ تھیں، یعنی حضرت والد محترم ؒ کی سوتیلی والدہ جنہیں گکھڑ میں مقیم ہونے کے بعد وہ ہزارہ سے جاکر لے آئے تھے۔ ان کا انتقال گکھڑ میں ہوا اور بٹ دری فیکٹری کے عقب کے قبرستان میں ان کی قبر موجود ہے۔ جب تک میں عید کی نماز گکھڑ میں حضرت والد صاحب ؒ کے ساتھ پڑھتا رہا، ان کا معمول تھا کہ عید کی نماز کے بعد دادی مرحومہ کی قبر پر جاتے، ان کے لیے دعا کرتے، ، ہمیں بتاتے کہ یہ تمہاری دادی کی قبر ہے اور میں بھی دعا میں شریک ہو جاتا۔ پھر اسی قبرستان میں ہمارے خاندان کے وہ سب افراد مدفون ہوئے جن کا گکھڑ میں انتقال ہوا۔ ان میں ہماری دونوں مرحومہ مائیں، ہمارے چھوٹے بھائی قاری محمد اشرف خان ماجد مرحوم، ہمارے دو چھوٹے بھائی عبدالرشید اور عبدالکریم جن کا بچپن میں انتقال ہو گیا تھا اور قاری ماجد مرحوم کے دو بیٹے محمد اکرم اور محمد اکمل شامل ہیں اور اب خاندان کے سربراہ حضرت والد محترم ؒ کو بھی اسی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
بٹ دری فیکٹری والے مکان سے مجھے حضرت والد محترم ؒ کا جیل جانا یاد ہے۔ یہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کی بات ہے۔ اس کی دوباتیں ذہن میں ہیں۔ ایک یہ کہ ہم چھوٹے چھوٹے بچے گلیوں میں ٹولیوں کی صورت میں مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف ٹھیٹھ پنجابی میں مخصوص نعرے لگایا کرتے تھے ۔ دوسری بات یہ کہ حضرت والد محترم ؒ نے پولیس چوکی خود جا کر گرفتاری پیش کی۔ اس دن صبح والدہ مرحومہ نے حلوہ پکایا تھا اور ایک طالب علم جس کا نام غالباً عزیزالرحمن تھا، والد کا بستر اُٹھا کر ساتھ لے گئے۔ حضرت والد صاحبؒ کا سیڑھیوں سے اترنے کا منظر میرے ذہن میں اب تک محفوظ چلا آرہا ہے ۔
وہ تقریباً دس ماہ تک ملتان جیل میں رہے اور اس دوران ہم نے مکان تبدیل کیا۔ بٹ دری فیکٹری کے چوبارے سے ہم مسجد ٹھیکداراں والی گلی میں ایک مکان میں منتقل ہو گئے جو کرایے کا تھا اور اس میں کئی سال بسر کیے۔ اس سے قبل ہماری چھوٹی والدہ مرحومہ بھی آچکی تھیں اور ہم سب نے نئے مکان میں بسیرا کیا۔ ٹھیکیداروں والی مسجد کی گلی والے مکان سے چند سالوں کے بعد ہم جی ٹی روڈ پر ماسٹر خوشی محمد مرحوم کے مکان میں منتقل ہو گئے جس کا دروازہ عقبی گلی میں تھا اور نیچے اوپر دو منزلیں تھیں۔ ہم رہتے اوپر تھے مگر سامان وغیرہ نیچے ہوتا تھا۔ یہ بھی کرایے کا مکان تھا۔ ایک دفعہ سیلاب آیا تو نچلی منزل میں پڑا سامان جس میں کتابیں بھی تھیں، بھیگ گئے اور انہیں خشک کرنے میں خاصے دن لگ گئے۔
چھوٹی والدہ مرحومہ حضرت والد محترم کے چچا جناب محمد فیروز خان مرحوم کی بیٹی تھیں جن کی رہایش شنکیاری سے آگے حاجی آباد اڈے سے مغرب کی جانب بستی کورے میں تھی اور اب وہاں ان کے ایک فرزند اور ہمارے ماموں قاری سخی سلطان صاحب رہتے ہیں۔ ہماری دونوں ماؤں نے ایک ہی گھر میں اکٹھے زندگی گزاری، دونوں کے مزاج میں نیکی اور خیر کا غلبہ تھا۔ حضرت والد محترم ؒ کے مزاج میں اصول پرستی اور سخت ڈسپلن کا رجحان غالب تھا، اس لیے کبھی کبھار چھوٹے موٹے اختلافات اور ان کے اظہار کے باوجود مجموعی طور پر گھر کا ماحول اتحاد و اتفاق ہی کا تھا۔ گھر کے کاموں میں تقسیم تھی اور نظام بخوبی چلتا رہا۔ کھانا ایک ہی جگہ پکتا تھا اور سب مل کر کھاتے تھے۔ ہم بہن بھائیوں میں بھی سوتیلے پن کا احساس واضح نہ تھا۔ ایک دوسرے کے ساتھ محبت پیار اور اعتماد و سلوک کی فضا میں ہم سب جوان ہوئے اور یہ فضا بحمد اللہ تعالیٰ اب بھی قائم ہے۔ لوگوں کے پوچھنے پر ہمیں بتانا پڑتا ہے کہ دونوں ماؤں سے اولاد کی تقسیم کیا ہے، ورنہ ہمارے ہاں عا م طو رپراس کا تذکرہ نہیں ہوتا۔
ہم سب کی تعلیم کا آغاز گھر سے ہوا۔ مسجد میں بچوں کی دینی تعلیم یعنی قرآن کریم حفظ وناظرہ کا مدرسہ بعد میں قائم ہوا، مگر ہمارے گھرمیں اس سے بہت عرصہ پہلے سے درسگاہ قائم تھی جس کے دوحصے تھے۔ ایک حصے کے استاذ حضرت والد محترم ؒ تھے۔ ان سے گکھڑ کے مختلف گھرانوں کی بچیاں قرآن کریم کاترجمہ، عربی گریمر اور درس نظامی کی کتابیں کسی باقاعدہ درجہ بندی کے بغیر پڑھتی تھیں۔ ہماری بہنوں نے درس نظامی کاکم وبیش پورانصاب ان سے پڑھا ہے۔ ان کے ساتھ بیسیوں دیگر لڑکیوں نے بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ ہماری دونوں ماؤں نے قرآن کریم کاترجمہ ان سے پڑھا ہے۔ میں نے حفظ قرآن کریم کے بعد صرف ونحوکی ابتدائی کتابیں یعنی میزان الصرف، نحو میر، علم ا لصیغہ وغیرہ انھی سے گھر میں پڑھی ہیں، بلکہ مدرسہ نصرۃ العلوم میں ۶۲ء سے ۶۹ء تک تعلیم کے دوران سالانہ چھٹیوں میں وہ گزشتہ سال پڑھی ہوئی کتابوں میں سے ایک دو کا انتخاب کرکے مجھ سے سنتے بھی تھے۔ کم وبیش ہم سب بہن بھائیوں کے ساتھ ان کا اسی طرح کا معاملہ تھا۔ گھر میں ان کا یہ تدریسی سلسلہ اگرچہ دن کے مختلف اوقات میں متفرق ہوتا تھا، مگر یہ پوری ایک درسگاہ کاکام تھا جو وہ خاموشی کے ساتھ کرتے جاتے تھے۔
ہماری گھریلو درس گاہ کا دوسراحصہ وہ تھاجس کی صدرمعلمہ ہماری بڑی والدہ مرحومہ تھیں اور ہماری چھوٹی امی مرحومہ بھی اس میں ا ن کے ساتھ شریک کار رہتی تھیں۔ مختلف گھرانوں کے بچے اور بچیاں ان سے قرآن کریم ناظرہ وحفظ اور قرآن کریم کا ترجمہ پڑھتے تھے۔ والدہ مر حومہ خود حافظہ نہیں تھیں، لیکن بہت سی بچیوں نے ان سے قرآن کریم حفظ کیا۔ ایک بار میں نے ان سے حفظ قرآن کریم کرنے والی طالبات کی مجموعی تعداد پوچھی تو اندازے سے بائیس تیئس کے لگ بھگ بتائی۔ خود میری اہلیہ ام عمار نے، جو چودہ برس کی عمر میں میرے نکاح میں آئیں، قرآن کریم والدہ مرحومہ سے ہی حفظ کیا۔ وقتاً فوقتاً ہم بہن بھائیوں کی منزلیں سننا بھی ہماری دونوں ماؤں کی ڈیوٹی میں شامل تھا، جب کہ بیسیوں بچیوں نے والد ہ مرحومہ سے قرآن کریم کا لفظی ترجمہ پڑھا۔ اس درس گاہ سے گکھڑ کے سیکڑوں بچوں اور بچیوں نے والدہ مرحومہ سے فیض حاصل کیا جن میں سابق صدر پاکستان جناب محمد رفیق تارڑ، سابق آئی جی پنجاب پولیس جناب احمد نسیم چودھری، پاک آرمی ایجوکیشن کور کے سابق بریگیڈئیر جناب محمد علی چغتائی اور وزارت خارجہ کے ایک سابق آفیسر محمد شعبان اپل جیسے نامور حضرات بھی شامل ہیں۔
گکھڑ کی مسجد میں حفظ قرآن کریم کا باقاعدہ مدرسہ محترم الحاج سیٹھی محمد یوسف ؒ کی توجہ سے قائم ہوا ۔ وہ گکھڑ سے تین چار میل کے فاصلہ پر گتہ فیکٹری کے مالک تھے اور ایک نومسلم خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے یہ ذوق عطا فرمایا تھا کہ قرآن کریم حفظ وناظرہ اور تجوید وقراء ت کے باقاعدہ مدارس قائم ہوں اور حفظ کے ساتھ ساتھ تجوید کا ذوق بھی عام ہو۔ انہوں نے اس کے لیے ایک باقاعدہ ٹرسٹ قائم کر رکھا تھا اوراپنی آمدنی کا بڑا حصہ اس پر خرچ کرتے تھے۔ وہ مختلف مقامات پر جا کر خود ترغیب دیتے تھے کہ مسجد میں قرآن کریم کی درس گاہ قائم کرکے استاد رکھا جائے اور استاد کی تنخواہ کا ایک حصہ، کہیں نصف اور کہیں تیسرا حصہ، جیسے طے ہوجائے، اپنی طرف سے دیاکرتے تھے جب تک کہ وہ مدرسہ خود کفیل نہ ہو جاتا۔ میں ایک زمانہ میں گتہ فیکٹری کی کالونی کی مسجد میں جمعہ پڑھایا کرتا تھا۔ اس دور میں اس شعبہ کے انچارج سے میں نے ایسے مدرسوں کی تعداد دریافت کی توجہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، انہوں نے بتایا کہ ملک بھر میں گیارہ سو کے لگ بھگ مدارس ایسے ہیں جنہیں اس طرح امداد دی جاتی ہے، بلکہ یہ اعزاز بھی گکھڑ کے علاقہ کے ایک نومسلم خاندان کے اس فرزند کو حاصل ہوا کہ حجاز مقدس اور سعودی عرب کے بہت سے دیگر علاقوں میں بھی تحفیظ القرآن کے مدارس کا آغاز انہی کی کوشش سے ہوا۔ ا نہوں نے ایک عرصہ تک وہاں ایسے مدارس چلائے۔ بعد میں سعودی حکومت نے ان مدارس کا نظم سنبھال لیااور اب وہ پوری دنیا میں ایک مثال ہیں۔
مجھے وہ منظریا دہے کہ سیٹھی محمد یوسف مرحوم نے حضر ت والد محترم ؒ کی مسجد میں جمعہ کے اجتماع کے موقع پر مختصر خطاب میں حفظ قرآن کریم کا مدرسہ قائم کرنے کی ترغیب دی اورا س میں اپنا حصہ شامل کرنے کی پیش کش کی جس پر مدرسہ تجوید القرآن قائم کرنے کا فیصلہ ہوا اور ہمارے پہلے استادمحترم قاری اعزاز الحق امروہوی ؒ گکھڑ تشریف لائے جنہوں نے اس مسجد میں قرآن کریم کی باقاعدہ کلا س کا آغاز کیا۔ میں اس پہلی کلاس کا طالب علم تھا۔ اس وقت میں پرائمری اسکول میں چوتھی کلا س میں زیر تعلیم تھا اور گھر میں تھوڑی بہت دینی تعلیم کا سلسلہ جاری تھا۔ مدرسہ قائم ہونے کے بعد میری اسکول کی تعلیم چھڑوا دی گئی اور میں حفظ قرآن کریم کے باقاعدہ طلبہ میں شامل ہوگیا۔ اس مدرسہ میں بعد میں فیصل آباد کے محترم قاری محمد اشرف صاحب،جھنگ کے محترم قاری عبدالرزاق صاحب، گکھڑ کے محترم حافظ احمد حسن مرحوم اور دیگر بہت سے اساتذہ نے تحفیظ القرآن کی خدمات سرانجام دیں اور ان سب کے بعد ہمارے استاذ محترم قاری محمدانور صاحب تشریف لائے جنہوں نے ایک عرصہ تک اس درس گاہ کوآباد رکھا اور گکھڑ کے سیکڑوں خاندانوں کے طلبہ اور طالبات کو حفظ قرآن کریم کے زیورسے آراستہ کیا۔ خود میں نے اکتوبر ۱۹۶۰ء میں ان سے قرآن کریم پڑھا۔ اب ربع صدی سے وہ مدینہ منورہ میں مقیم ہیں اور تحفیظ القرآن کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ایک دوروہ تھا جب گکھڑ کی مسجد میں رمضان المبارک کے دوران تراویح میں قرآن کریم سنانے کے لیے حافظ باہر کے علاقوں سے درآمد کیے جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار رمضان المبارک کا آغاز ہونے پر پہلی رات تراویح سے پہلے حضرت والد محترمؒ نے نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے بہت کوشش کی ہے، مگر کہیں سے قرآن کریم سنانے کے لیے حافظ صاحب دستیاب نہیں ہوئے، اس لیے مجبوراً اس سال تراویح آخری دس سورتوں سے پڑھنی پڑے گی۔ یہ کہتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی اور انہوں نے خودہی آخری سورتوں کے ساتھ پورا رمضان المبار ک تراویح پڑھائیں، اس لیے کہ وہ حافظ نہیں تھے۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ ایک دفعہ ہم چند بھائیوں نے اپنے خاندان کے حافظوں کا شمار کیا تو حضرت والد محترمؒ کے بیٹوں، بیٹیوں، نواسوں، نواسیوں، پوتوں اور پوتیوں میں حفاظ کی تعداد چالیس سے متجاوز نکلی جو اسی مذکورہ مدرسہ کا فیضان ہے۔ بعد میں اس کے ساتھ تجوید وقراء ت کامدرسہ بھی ’’قاری کلاس‘‘ کے نام سے قائم ہوا جس کے اولین استاد حضرت مولانا قاری عبدالحلیم سواتی مدظلہ اورحضر ت مولانا غلام علی ؒ تھے۔ یہ دونوں بزرگ میرے اساتذہ میں شامل ہیں اور مولانا قاری عبدالحلیم سواتی اب خلیجی ریاست بحرین میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
حضرت والد محترم ؒ خود حافظ نہیں تھے، مگر ان کے آگے کھڑے ہوکر قرآن کریم سنانا سب سے مشکل کام ہوتا تھا۔ وہ حافظ نہ ہونے کے باوجود چھوٹی سی چھوٹی غلطی کو بھی چھوٹنے نہیں دیتے تھے اور نہ صر ف یہ کہ فوری گرفت کرتے تھے بلکہ بعد میں ڈانٹا بھی کرتے تھے۔ مجھے کئی با ر بحمداللہ تعالیٰ انہیں تراویح میں اور تہجد کے نوافل میں قرآ ن پاک سنانے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اس وقت رعب وخوف کی جو کیفیت مجھ پر طاری ہوتی تھی، اس کی یاد اب تک تازہ ہے۔ دوسرے بھائیوں کو بھی یہ موقع کئی بار ملا ہے،کیوں کہ حضرت والد محترمؒ ، جب تک صحت نے اجازت دی، رمضان المبارک میں سحری کے وقت نوافل میں بھی قرآن کریم سناکرتے تھے۔
ان کی صحت کے زمانہ میں شب وروز کا نظام کچھ اس طرح کا ہوتا تھا کہ سحری کے وقت اٹھ کر بلاناغہ غسل کرتے تھے اور تہجد کی نماز ادا کرتے تھے۔ اس وقت ہماری والدہ مرحومہ بھی بیدار ہو کر تہجد پڑھتی تھیں اور ناشتہ تیار کرتی تھیں۔ اذان فجر کے بعد حضرت والد محترم ؒ ناشتہ کرتے تھے جو پراٹھے اورچائے پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس کے بعد مسجد میں چلے جاتے اور ساتھ ہی ساتھ والدہ مرحومہ بھی مسجد میں چلی جاتی تھیں، اس لیے کی فجر کی نماز اوردرس میں خواتین بھی باقاعدہ شریک ہوا کرتی تھیں اور خواتین کے لیے مسجد میں الگ انتظام موجود تھا، چنانچہ خواتین فجر کی نماز اور درس کے علاوہ جمعہ کے اجتماع اور تراویح میں بھی کثیر تعداد میں شریک ہوا کرتی تھیں۔ نماز فجر پڑھانے کے بعد حضرت والد محترمؒ درس دیتے تھے جو تین د ن قرآن کریم اورتین دن حدیث کا ہوتا تھا۔ درس عام طورپر نصف سے پون گھنٹے پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس کے بعد وہ گوجرانوالہ میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں پڑھانے کے لیے چلے جاتے تھے جہاں سے دوپہر سے کچھ پہلے واپسی ہوتی تھی۔ کھانا کھا کر اور اخبار پڑھ کر سو جاتے تھے۔ ظہر تک آرام ہوتا تھا۔ ظہر سے عصر تک اپنی چارپائی پر بیٹھے لکھنے پڑھنے کا کام کرتے رہتے تھے اور اسی دوران بچیاں مختلف اسباق کی تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ عصرکی نماز کے بعد قرآن کر یم کی منزل پڑھتے تھے جوعام طور پر روزانہ ایک پارہ ہوتا تھا۔ اس کے بعد گھرکے چھوٹے موٹے کام اپنے ہاتھ سے کیا کرتے تھے۔ جس زمانے میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی، لیمپ اور لالٹین کے شیشے صاف کرنا، چارپائی کی ڈھیلی ادوائن کو کسنا، پیڑھی وغیرہ اگر قابل مرمت ہے تو اسے ٹھیک کرنا اور اس طرح کے دیگر چھوٹے موٹے کام کرنا ان کے معمولات میں شامل تھا۔
نماز مغرب کے بعد کھانا کھاتے اور مطالعہ کرتے تھے اور عشا کے بعد سردیوں میں مطالعہ کرتے اور گرمیوں میں جلد سونے کی کوشش کرتے تھے۔ نیند سے پہلے انہیں جسم دبوانے کی عادت تھی۔ عام طورپر ہماری والد ہ محتر مہ دونوں انھیں دبایا کرتی تھیں۔ کبھی کبھی ہم کو بھی بلا لیاکرتے تھے اور ہم سب بھائیوں اور بہنوں کو بھی خدمت کاموقع مل جایا کرتا تھا۔ ہم سے اس دوران قرآن کریم کاکوئی رکوع سن کر اس کے صیغے اور نحوی ترکیبیں پوچھا کرتے تھے۔ سونے سے پہلے چار معمولات مجھے اچھی طرح یاد ہیں جو ایک عرصہ تک جاری رہے۔ ڈائری میں اس دن کی کوئی نہ کوئی یادداشت تحریرکرتے تھے، پین میں سیاہی بھرتے تھے، ٹائم پیس کا الارم سیٹ کرتے تھے اور جیب کی گھڑی کو چابی دیا کرتے تھے۔ اس دوران کا ایک اور مستقل معمول بھی تھاکہ گورنمنٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ یعنی نارمل اسکول میں اساتذہ کی جے وی، ایس وی وغیرہ کی کلاس کے شرکا کو گرمیوں میں عصر اور سردیوں میں عشا کے بعد قرآن کریم کا ترجمہ پڑھاتے تھے۔ یہ اسکول ہمارے گھر سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں روزانہ پیدل آنے جانے کا ان کا معمول تھا۔ ان کورسز کے شرکا کو روزانہ درس کی صورت میں قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر سے بہرہ ور کرنے کا سلسلہ بھی کم و بیش ربع صدی تک جاری رہا۔ ایک بار ہم نے ان اداروں سے تعلیم پانے والے حضرات کے اعداد و شمار کا محتاط اندازے سے حساب لگانا چاہا تو خاصی احتیاط کے ساتھ کئے گئے اندازے میں یہ نتیجہ سامنے آیا کہ حضرت مرحوم کے براہ راست شاگردوں کی تعداد تیس ہزار سے کسی طرح کم نہیں ہو گی جو دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اور کسی نہ کسی شعبے میں دینی اور تعلیمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ مجھے دنیا کے مختلف حصوں میں وقتاً فوقتاً جانے کا موقع ملتا رہتا ہے ‘ امریکہ ‘ یورپ ‘ افریقہ ‘ مشرق بعید ‘ مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا کا کوئی علاقہ ایسا نہیں دیکھا جہاں ان کا کوئی نہ کوئی شاگرد موجود نہ ہو اور دینی خدمات سرانجام نہ دے رہا ہو۔
مجھے یادپڑتا ہے کہ اسی زمانے میں ملک کے بعض حصوں سے کچھ دینی اداروں سے فرمایشیں آنا شروع ہوگئیں کہ حضرت والدمحترمؒ گکھڑ چھوڑ کر کسی بڑے شہر کے تعلیمی ادارے میں منتقل ہو جائیں۔ بڑی تنحواہ اور سہولت کی پیش کش بھی تھی اور ترقی کے ظاہری مواقع بھی موجود تھے مگر حضرت والد محترم ؒ اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ وہ دنیوی ترقی اور مفاد کے لیے جگہ تبدیل کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے اور گکھڑ سے انہیں کچھ ایسا انس ہو گیا تھا کہ آخر دم تک وہ وہاں سے منتقل ہونے پر کبھی آمادہ نہیں ہوئے۔ شاید اس بات کو محسوس کرتے ہوئے بعض دوستوں میں اس بات کی تحریک ہوئی کہ ان کا گکھڑ میں ذاتی مکان ہونا چاہیے اور ۱۹۶۰ء میں یہ مکان تعمیرہوا جہاں حضرت والد محترمؒ آخر وقت تک مقیم رہے۔ اس مکان کے دوحصے تھے اور دونوں کے دروازے الگ الگ رکھے گئے۔ ایک حصہ والد صاحبؒ نے اپنے لیے بنوایا اور دوسرا حصہ چچا محترم حضرت صوفی صاحب ؒ کے لیے مختص کر دیا۔ اس حصے میں صرف ایک بیٹھک اور ڈیوڑھی تعمیر ہوئی اور باقی حصہ چھوڑ دیا گیا کہ جب حضرت صوفی صاحب ؒ کی شادی ہوگی تو اس موقع پر ان کے لیے تعمیرکیا جائے گا۔
صوفی صاحب پر تصوف کا رنگ غالب تھا اور والد صاحب پر ابن تیمیہ کا۔ میں کہا کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں ابن تیمیہ بھی ہیں اور ابن عربی بھی۔ حضرت صوفی صاحب کے وحدت الوجود پر مستقل مقالے بھی ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے پوچھا کہ حضرت مجدد صاحب کے بارے میں سنا ہے کہ وہ وحدت الوجود کے بارے میں مختلف نظریہ رکھتے ہیں۔ صوفی صاحب نے کہا کہ جس کی سمجھ میں نہیں آئے گا، وہ یہی کہے گا۔ تصوف کا عملی رنگ بھی صوفی صاحب پر غالب تھا جس کی ایک جھلک میں نے یہ دیکھی کہ لاہور کے ایک سفر میں، جس میں وہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے، وہ حضرت سید علی ہجویریؒ المعروف حضرت گنج بخشؒ کی قبر پر مراقب ہوئے اور کافی دیر مراقبہ کی کیفیت میں رہے۔ اس کے بعد وہ حضرت شاہ محمد غوث ؒ کے مزار پر گئے اور وہاں بھی ان کی قبر پر مراقبہ کیا۔ پھر ایک بار گجرات گئے۔ میں بھی ساتھ تھا۔ وہاں انہوں نے حضرت شاہ دولہ ؒ کی قبر پر مراقبہ کیا، مگر سب سے دلچسپ صورت حال دیوبند کے سفر میں پیش آئی۔
دار العلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس میں حضرت والد محترم مدظلہ اور حضرت صوفی صاحبؒ دونو ں بزرگ گئے۔ میں کسی وجہ سے بر وقت نہیں پہنچ سکا اور جب اجلاس کے آخری روز دیوبند پہنچا تو قاری محمد طیب صاحبؒ اختتامی خطاب فرما رہے تھے۔ والد صاحب اور صوفی صاحب مولانا محمد سالم قاسمیؒ کے گھر میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ گوجرانوالہ کے قافلے میں قاری محمد یوسف عثمانی، حاجی عبد المتین چوہان مرحوم، مولانا حکیم محمود سلفیؒ اور مولانا مفتی نعیم اللہ صاحب بھی تھے۔ یہ حضرات باہر برآمدے میں قیام پذیر تھے اور اندر کمرے میں دونوں بزرگوں یعنی والد صاحب او رصوفی صاحب کے بستر لگائے گئے تھے۔ جب میں پہنچا تو میرا بستر دونوں بزرگوں کے درمیان لگا دیا گیا۔ میں نے حال احوال پوچھا تو والد صاحب نے کہا کہ کوئی حال نہیں، صوفی رات کو خراٹے لیتا ہے اور سونے نہیں دیتا۔ صوفی صاحب کہنے لگے کہ خراٹے خود لیتے ہیں اور ذمے دوسروں کے لگا دیتے ہیں۔ اب جب رات ہوئی اور ہم بستر پر لیٹے تو میں نے دیکھا کہ دونوں بزرگ زور زور سے خراٹے لے رہے ہیں۔ میں نے منہ پر ہاتھ رکھا اور بھاگتا ہوا باہر آ گیا اور پھر میری ہنسی چھوٹ گئی۔
صد سالہ اجلاس سے فارغ ہو کر ایک روز دونوں بزرگوں نے میرے بارے میں مشورہ کیا کہ اسے دیوبند کی سیر کرانی چاہیے، چنانچہ مجھے لے کر دونوں حضرات نے دیوبند کا چکر لگایا۔ میں نے ان کے ہمراہ حضرت مدنی ؒ کا مکان اور مسجد دیکھی، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے گھر حاضری دی جہاں ان کے فرزند مولانا محمد ازہر شاہ قیصرؒ اور داماد حضرت مولانا احمد رضابجنوری ؒ سے ملاقات ہوئی، مسجد چھتہ میں انار کا وہ درخت دیکھا جس کے نیچے بیٹھ کر حضرت ملا محمودؒ نے مولانا محمود حسنؒ کو پہلاسبق پڑھایا تھا اور دارالعلوم دیوبند کا آغاز ہوا تھا اور دیگر بہت سے مقامات مجھے دکھائے۔ چلتے چلتے والد صاحب نے پوچھا کہ ’’مڑھیاں‘‘ بھی دیکھنی ہیں (یعنی قبرستان جانا ہے)؟ میں نے کہا کہ جی۔ ہم قبرستان گئے تو بالکل دل کی بات کرتا ہوں کہ واقعتا حضرت شیخ الہند او رحضرت مدنی کی قبروں پر، جو ساتھ ساتھ بنی ہوئی ہیں، عجیب سا سکون محسوس ہو رہا تھا۔ میں تاریخ کا طالب علم ہوں۔ اس عظیم المرتبت استاذ اور جلیل القدر شاگرد کو اکٹھے آرام فرما دیکھ کر تاریخ کے کئی مناظر ایک تیز رفتارفلم کی طرح ذہن کی اسکرین پر گھوم گئے۔ حضرت صوفی صاحبؒ کا شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ کے ساتھ شاگردی کے ساتھ ساتھ بیعت کا تعلق بھی تھا، وہ تو قبر کو دیکھ کر سیدھے وہاں پہنچے اور مراقبہ میں بیٹھ گئے۔ اب منظر یہ تھا کہ حضرت صوفی صاحبؒ مراقبہ میں بیٹھے ہیں، حضرت والد صاحب مدظلہ تھوڑے فاصلے پر کھڑے کچھ پڑھ رہے ہیں اور میں درمیان میں کھڑا ہوں۔ میرا جی چاہ رہا ہے کہ میں بھی چچا جان کے ساتھ مراقبہ میں بیٹھ جاؤں، مگر پیچھے کھڑے والد صاحب سے ڈر بھی رہا ہوں۔ تھوڑی دیر گزری تو حضرت والد صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ ’’اٹھا ایس بدعتی نو، جھنڈ مار کے بہہ گیا اے‘‘۔ (اس بدعتی کواٹھاؤ، یہ کیا چادر میں سر دے کر بیٹھ گیا ہے)۔ اب میں انہیں کیا اٹھاتا کہ میرا تو خود جی ان کے ساتھ بیٹھنے کو چاہ رہا تھا۔ حضرت صوفی صاحبؒ کم و بیش دس بارہ منٹ تسلی سے مراقبہ میں بیٹھے رہے۔ پھر اٹھے اور کہا کہ ’’چلیں، آپ کو ہر کام بدعت نظر آتاہے۔‘‘ اور پھر ہم تینوں کوئی اور بات کیے بغیر اگلی منزل کی طرف چل پڑے۔
دار العلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ دیوبندیت شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ؒ کے الگ الگ ذوقوں کے اجتماع اور امتزاج کا نام ہے دونوں الگ الگ بلکہ بظاہر متضا د ذوق نظر آتے ہیں مگر حضرت قاری صاحبؒ کا ارشاد ہے کہ ان دونوں ذوقوں کو جمع کیا جائے تو دیوبندیت تشکیل پا جاتی ہے،میں ا س پر کہا کرتا تھاکہ ہمارے گھر میں دونوں ذوق موجود ہیں والد محترم شیخ الاسلام حضرت ابن تیمیہؒ کے ذوق کی نمائندگی کرتے ہیں اور حضرت صوفی صاحبؒ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی ؒ کے ذوق کے نمائندہ ہیں اس لیے ہمارا گھرانہ دیوبندیت کی مکمل نمائندگی کرتا ہے،خود میرا حال یہ ہے کہ میں نے کئی بار اپنے دل و دماغ کو ٹٹولا ہے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ میرا دل و دماغ ابن تیمیہؒ اور ابن عربی ؒ میں سے کس کو ترجیح دیتا ہے؟ مگر آج تک فیصلہ نہیں کر پایا، مجھے دونوں سے یکساں دلی محبت ہے اور دونوں کے الگ الگ ذوق کو دین کا اہم اور ضروری حصہ سمجھتا ہوں۔
حضرت والد صاحب ؒ اور حضرت صوفی صاحبؒ دونوں میرے بزرگ تھے، استاد تھے، مربی تھے، مشفق تھے اور دعاگو تھے۔ حضرت والد صاحب ؒ کے مزاج میں سختی تھی، رعب تھا، اور دبدبہ تھا۔ حضرت صوفی صاحبؒ کے انداز میں نرمی، بے پروائی اور چشم پوشی کا عنصر غالب ہوتا تھا۔ ا ن دونوں رویوں کی ضرور ت ہوتی ہے اور اپنے اپنے موقع پر دونوں کام دکھاتے ہیں۔ میں اپنے دورطالب علمی کے چند واقعات یاد کرتا ہوں تو سختی اور نرمی کے یہ دونوں رویے میری شخصیت کی تشکیل میں کار فرما دکھائی دیتے ہیں۔
مجھے لکھنے پڑھنے کی عادت طالب علمی کے زمانہ میں ہی تھی۔ مضامین لکھنا، خبریں بنانا اور اخبارات میں پہنچانا، اور پھر ان کی اشاعت پر خوش ہونا اسی دور سے مزاج کا حصہ بن گیا تھا۔ اس زمانہ میں پاکستان کے قومی اخبارات میں نسیم حجازی مرحوم کا روزنامہ ’’کوہستان‘‘ خاصی اہمیت کا حامل ہوتا تھا۔ ایک بار میرا ایک مضمون روزنامہ کوہستان میں ادار تی صفحہ پر شائع ہوا جس نے میرا دماغ خراب کر دیا اور میں نے دماغ کی اس خرابی میں ایک تعلیمی سال ضائع کیا۔ یہ ۱۹۶۵ء کی بات ہے۔ میرے مضامین ہفت روزہ ترجمان اسلام میں شائع ہوتے تھے اور میں روزنامہ وفاق لاہور کا باقاعدہ نامہ نگار بن گیا تھا۔ ’’کوہستان‘‘ کے ادارتی صفحے پر مضمون کی اشاعت نے میرے ذہن میں یہ بات پیدا کر دی کہ میرا اصل میدان صحافت ہے، ا س لیے تعلیم و تعلم میں میری توجہ کم ہوتی چلی گئی۔ حضرت والد صاحب یہ دیکھ کر مجھے مدرسہ سے اٹھا کر گکھڑ میں گھر لے آئے اور وہاں اپنی نگرانی میں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی زمانے میں گکھڑ کے مدرسہ میں استاذ حضرت مولانا غلام علی صاحبؒ سے میں نے فصول اکبری اور گلستان کا کچھ حصہ پڑھا اور حضرت مولانا قاری عبد الحلیم سواتی مدظلہ سے قرآن کریم کے کچھ حصے کی مشق کی۔ حضرت والد صاحب کا انداز سختی کا ہوتا تھا اور سختی کے سارے حربے وہ اختیار کیا کرتے تھے جس سے میں بے بسی کے عالم میں ایک روبوٹ کی طرح تعمیل حکم تو کر لیا کرتا تھا مگر سوچ سمجھ کے دروازے اکثر بند ہی رہتے تھے، اس لیے یہ سختی مجھ پر کچھ زیادہ اثرانداز نہ ہو سکی۔
اس دوران ایک روز گوجرانوالہ میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں آیا تو حضرت صوفی صاحبؒ نے پاس بٹھا کر مجھے بڑی شفقت سے سمجھایا اور ان کی یہ بات میرے دل ودماغ میں نقش ہوگئی کہ بیٹا! صحافت اورخطابت لوگوں تک کوئی بات پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ یہ ضرورآدمی کے پاس ہونا چاہیے، لیکن پہنچانے کے لیے کوئی چیز بھی پاس موجود ہونا چاہیے۔ اگر اپنے پاس کچھ ہوگا تو دوسروں تک پہنچاؤگے اور اگر اپنا سینہ علم سے خالی ہوگا تو دوسروں کو کیا دو گے؟ ٹونٹی کتنی خوبصورت کیوں نہ ہو، وہی چیز باہر نکالے گی جو ٹینکی میں ہوگی اور اگر ٹینکی میں کچھ نہیں ہوگا تو ’’شاں شاں‘‘ کرے گی۔ حضرت صوفی صاحبؒ کے اس محبت بھرے لہجہ اور ’’شاں شاں‘‘ کی مثال نے ایک لمحے میں دل ودماغ کا کانٹا بدل دیا اور یہ جملے اب بھی میرے کانوں میں ’’شاں شاں‘‘ کرتے رہتے ہیں۔
دوسری طرف سختی کی کار فرمائی بھی دیکھ لیجیے کہ غالباً ہمارا کافیہ کاسال تھا، میرے ایک ہم سبق ذہین ساتھی نے میٹرک کا امتحان دیا اور فرسٹ ڈویژن میں کامیابی حاصل کر لی۔ یہ دیکھ کر مجھے بھی میٹرک کا امتحان دینے کا شوق ہوا۔ میں نے سوچا کہ امتحان دے کر باقی مضامین تو نکال ہی لوں گا ، انگریزی اور حساب میں کمپارٹ آجائے گی تو ان کے لیے تیاری کر کے اگلے سال امتحان دے دوں گا۔ میں نے ذہنی طور پر تیار ہو کر امتحان کے فارم حاصل کیے۔ حضرت والد صاحب ؒ کو کسی ذریعے سے پتہ چل گیا اور انہوں نے مجھے بلا کر سختی سے ڈانٹ دیا، بلکہ امتحان دینے کی صورت میں لاتعلقی کی دھمکی دے دی۔ میں نے امتحان کا ارادہ ترک کر دیا مگر دل میں غصہ ضرورباقی رہا۔ میرے اس ساتھی نے میٹرک کے امتحان میں فرسٹ ڈویژن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد مدرسہ کی لائن چھوڑ دی اور عصری تعلیم کی طرف منتقل ہوگیا اور ایک عرصہ بعد ایک ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے طور پر ملے تو حسرت اور پشیمانی کے ساتھ کہنے لگے کہ کاش! میں نے میڑک کا امتحان نہ دیا ہوتا تو آج آپ کی طرح دینی خدمات سرانجام دے رہا ہوتا۔ ان کی اس حسرت نے میرے اس حساس اور سوچ کو پختگی دی جو میرے ذہن میں پہلے سے آچکی تھی کہ حضرت والد صاحب ؒ کی سختی میرے کام آگئی کہ اگر وہ مجھے میٹرک کے امتحان سے سختی کے ساتھ نہ روکتے تو میں عصری تعلیم میں ضرور آگے نکل چکا ہوتا، مگر دینی تعلیم کی لائن سے نکل جاتا اور دینی علوم کی کچھ نہ کچھ خدمت کرنے کا جو موقع مل رہا ہے، عالم اسباب میں اس سے محروم ہو جاتا۔ میں دینی علم کے ساتھ میٹرک، ایف اے وغیرہ کا مخالف نہیں ہوں بلکہ اس بات کا داعی ہوں۔ دینی علوم کے ساتھ عصری علوم بھی ضروری ہیں، کیونکہ ان کے بغیر آج کے دورمیں دین کی صحیح خدمت ممکن نہیں ہے، لیکن اگر عصری تعلیم دینی تعلیم چھوڑنے کا باعث بن جائے اور ذہانت و صلاحیت کے دوسری طرف منتقل ہو جانے کا ذریعہ بنیں تو اس کے حق میں بہرحال نہیں ہوں۔ اسی وجہ سے حضرت والد صاحب ؒ کی یہ سختی مجھے اچھی لگی اور اس پر ان کے لیے ہمیشہ دعاگو رہوں گا۔
حضرت والد صاحب ؒ کی سختی کا ایک اور واقعہ بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے ۱۹۷۰ ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم سے فراغت حاصل کی۔ اس سے قبل ہی میں مرکزی جامع مسجد میں حضرت مولانا مفتی عبدالواحد ؒ کی نیابت کے لیے منتقل ہو چکا تھا اور اس وقت میرا شمار جمعیت علمائے اسلام کے سرگرم حضرات میں ہوتا تھا۔ ضلعی بلکہ ڈویژنل سطح پر میری سرگرمیاں جاری تھیں۔ حضرت والد صاحب نے ؒ اس کے بعد کچھ عرصہ ( کم وبیش دس سال) تک مجھ پر دو باتوں کی سختی قائم رکھی۔ ایک یہ کہ میں رمضان المبارک میں تراویح میں قرآن پاک سنا رہا ہوں یا نہیں۔ ایک دو ماہ قبل ہی پوچھنا شروع کر دیتے کہ کہاں سنا رہے ہو، منزل دہرا رہے ہو یا نہیں؟ کتنے پارے دہرا ئے ہیں؟ پھر رمضان المبارک کے دوران متعدد بار پوچھتے کہ کتنے پارے ہوئے ہیں؟ کب ختم کر رہے ہو؟ کتنی غلطیاں آتی ہیں؟ یہ اسی سختی کی برکت ہے کہ بحمداللہ تعالیٰ میں نے تیس سال تراویح میں قرآن پاک سنایا ہے اور کم وبیش سات یا آٹھ دفعہ سحری میں حضرت والد صاحب ؒ کو نوافل میں سنانے کی سعادت حاصل کی ہے۔ میں سوچتاہوں کہ اگر یہ سختی نہ ہوتی تو یہ سعادت بھی حاصل نہ ہوتی۔ اس طرح مدرسہ نصرۃ العلوم سے فراغت کے بعد حضرت والد صاحب ؒ کی کوشش تھی کہ میں مدرسہ انوارالعلو م میں، جو ۱۹۲۶ء سے قائم ہے اور حضرت والد صاحب ؒ اور حضرت صوفی صاحب ؒ نے ۱۹۳۷ ء سے ۱۹۴۰ء تک اسی میں تعلیم حاصل کی ہے، کچھ نہ کچھ ضرور پڑھاتا رہوں، چنانچہ ان کی اس خواہش بلکہ اصرار پر میں نے مدرسہ ا نوارالعلوم میں تقریباً بیس سال اس طرح تدریس کی ہے کہ میری یہ ڈیوٹی اعزازی ہوتی تھی اور اپنی مرضی کے دو تین سبق پڑھاتا تھا، مگر حضرت والد صاحب ؒ کی طرف سے یہ لازمی ہوتی تھی اور اس کے بارے میں وقتاً فوقتاً دریافت کرتے رہتے تھے۔ ابتداءً مجھے یہ سختی اچھی نہیں لگتی تھی اور بہت غصہ آتا تھا، مگر آہستہ آہستہ مزاج بنتا گیا اور طبیعت عادی ہو گئی تو یہ بات سمجھ میں آنے لگی کہ سختی ضروری تھی اور آج سوچتا ہوں کہ اگر یہ سختی نہ ہوتی اور میں اپنی آزادی پر قائم رہتا تو آج جو کچھ تھوڑا بہت تدریسی ذوق ومزاج ہے، یہ یقیناًنہ ہوتا۔
اس زمانے میں میرا معمول یہ تھا کہ جامع مسجد میں فجر کی نماز پڑھنے کے بعد مختصر درس دیتا اور اسی مصلے پر بیٹھا دوتین سبق پڑھا دیتا جو عام طو ر پر فقہ، اصول فقہ اور ادب کے ہوتے تھے۔ گھر سے چائے یا قہوہ کا ایک تھرموس آجاتا، میں اسے پیتا رہتا اور پڑھاتا رہتا۔ اس کے بعد میں اپنی جماعتی اور تحریکی سرگرمیوں کے لیے سارا دن فارغ ہوتا تھا۔ اس دور میں الحمدللہ یہ ہمت بھی تھی کہ رات کو کسی دور دراز شہر میں جلسہ میں شریک ہوتا، اس کے بعد سفر کر کے فجر سے قبل گوجرانوالہ پہنچتا، نماز سے قبل مطالعہ کرتا اور نماز کے بعد پڑھانے بیٹھ جاتا۔ ایسا سالہاسال تک ہوتا رہا ہے، مگر اب ہمت نہیں رہی اور را ت کو چار پانچ گھنٹے نیند نہ ملے توصبح پڑھانا مشکل ہو جاتا ہے۔
ہماری تعلیم وتربیت کے حوالہ سے حضرت والد صاحب ؒ کے ذوق کے ایک اور پہلو کا ذکر بھی کردوں تو مناسب رہے گا۔
۷۶۔۱۹۷۵ء کی بات ہے۔ میرے ایک شاگر د اور ساتھی نے مجھے ورغلایا کہ مسجد کی تنخواہ پر کب تک گزارہ ہوگا، کوئی کاروبار ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کی ترغیب پر میں نے کچھ دوستوں سے قرض لیا اور ہم نے مل کر جی ٹی روڈ پر دین پلازہ کے عقب میں ایک کرایے کی دوکان میں سلور کی تار بنانے کا اڈہ بنا لیا۔ سلور کی موٹی تار لیتے، اس کو باریک کرتے اور دوکانداروں کو فروخت کرتے۔ اس کو ہم نے مدنی اسٹیل ورکس کا نام دیا۔ خیال تھا کہ آگے چل کر اسے ترقی دیں گے، مگر ۱۹۷۵ء کے اواخر میں میری گرفتاری ہوگئی، اس لیے کہ اکتوبر ۱۹۷۵ء میں جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃالعلوم میں جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے ملک گیر کنونشن کے موقع پر تقاریر کی بنیاد پر جمعیت کے اکثر رہنماؤں کے خلاف ۱۶ ایم پی او کے تحت مقدما ت درج ہوگئے جن میں مقامی صرف میں تھا۔ اس وقت میں جمعیت کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھا۔ جمعیت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اس مقدمہ میں قبل از گرفتاری ضمانت نہ کرانے کا فیصلہ کر لیا۔ باقی سب حضرات دور دراز کے تھے اور گرفتار نہ ہوسکے، مگر میں مقامی تھا اس لیے مجھے سب کی طرف سے فرض کفایہ ادا کرنا پڑا اورکم وبیش ڈیڑھ ہفتہ گوجرانوالہ جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا ہوا۔ اسی کنونشن کی پاداش میں مدرسہ نصرۃ العلوم کو محکمہ اوقاف کی تحویل میں لینے کا سرکاری اعلان ہوا تو اس کے خلاف ہم نے مزاحمتی تحریک شروع کی اور میں سیکڑوں دیگر علما اور کارکنوں کے ہمراہ دوبارہ گرفتار ہو کر کم وبیش ساڑھے تین ماہ تک جیل میں رہا۔ بالآخر حکومت کو اپنا نوٹیفکیشن واپس لینا پڑا۔
اس کے بعد ملکی سطح پر پاکستان قومی اتحاد بنا اور انتخابات کی مہم چل پڑی۔ میں قومی اتحاد کی صوبائی قیادت میں تھا۔ الیکشن ہوا۔ اس کے بعد حکومت کے خلاف تحریک چلی۔ اس میں بھی میری گرفتاری ہوگئی ۔ پھر جنرل ضیاء الحق مرحوم نے جب مارشل لاء نافذ کیا تو ہمیں کچھ سانس لینے کا موقع ملا۔ میرا سال ڈیڑھ سال اسی مصروفیت میں گزر گیا۔ فراغت ہوئی تو کاروبار کی طرف دیکھا تو وہ میر ے ساتھی سمیت غائب ہو چکا تھا اور قرض میرے سر پر تھا۔ مجھے بہت پریشانی ہوئی۔ گھر جا کر حضرت والد صاحب ؒ سے بات کی اور صورت حال سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی قدرے شکوہ کے انداز میں عرض کیا کہ کاروبار کے آغاز میں، میں نے آپ کو وہاں تشریف آوری کی زحمت دی تھی اور دعا کی درخواست کی تھی۔ آپ تشریف بھی لائے تھے، مگر میرا خیال ہے کہ آپ نے دعا نہیں کی تھی۔ اگر آپ دعا کرتے تومیرا یہ حشر نہ ہوتا۔ میری یہ بات سن کر فرمانے لگے، ’’ تم ٹھیک سمجھے ہو۔ میں تمہارے کہنے پر آیا تھا اور مٹھائی بھی کھائی تھی، دعا کے لیے ہاتھ بھی اٹھائے تھے، مگر دعا نہیں کی تھی، اس لیے کہ میں نے تمہیں سالہاسال تک تعلیم سلور کی تار بنانے کے لیے نہیں دلائی تھی، بلکہ اس لیے پڑھایا تھا کہ کہیں آرام سے بیٹھ کر روکھی سوکھی کھاؤ اور اللہ کا دین پڑھاؤ۔‘‘ ان کی یہ بات سن کر میرے دل کا سارا بوجھ اتر گیا اور ذہن کو یک سوئی حاصل ہوگئی جو بحمداللہ آج تک کام آ رہی ہے اور آخر دم تک ان شاء اللہ تعالیٰ مشعل راہ رہے گی۔
حضرت والد محترم کی سرگرمیوں کا ایک بڑا دائرہ تصنیف وتالیف کا تھا۔ ان کی پچاس کے لگ بھگ علمی وتحقیقی تصانیف ہیں جو ملک بھر سے نہیں بلکہ عالمی سطح پر خراج تحسین وصول کر چکی ہیں۔ باقی سارے کاموں سے الگ کر کے صرف ان کے تصنیفی کام کو دیکھا جائے تو یہ ایک پورے ادارے اور اکادمی کا کام ہے جو تن تنہا انہوں نے سرانجام دیا ہے۔ ان کی تحقیق کامعیار یہ تھا کہ ایک ایک حوالے کے لیے کئی کئی لائبریریوں کا رخ کرتے اور جب تک خود دیکھ کر تسلی نہ کرلیتے، اس کا اندراج نہیں کرتے تھے۔ ایک ایک بات پر درجنوں حوالے دیتے جو بقیدصفحات ہوتے۔ ان کا ذوق یہ تھا کہ اہل سنت، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، قادیانی، منکرین حدیث اور دیگر مذہبی گروہوں کے درمیان اختلافی مسائل پر انھوں نے پچاس کے لگ بھگ کتابیں لکھی ہیں جن میں سے بعض خاصی ضخیم بھی ہیں، لیکن انداز تحریر علمی، تحقیقی اور شستہ ہے۔ وہ دیوبندی مسلک کے علمی ترجمان تھے، اس لیے مسلکی حوالے سے جو بھی اختلافی مسئلہ انہوں نے دیکھا، اس پر لکھا اور خوب لکھا۔ موقف میں پختگی ہوتی تھی اور اس کا بے لچک اظہار کرتے تھے، لیکن لہجہ اور اسلوب بیان لچک دار اورنرم ہوتا تھا اور اس کی اپنے شاگردوں کو اکثر تلقین کیا کرتے تھے کہ موقف مضبوط رکھو اور اسلوب بیان، الفاظ اور انداز انتہائی نرم ہو۔ اپنے مخالفین کاذکر احترام کے ساتھ کرتے تھے۔ بات کاجواب دلیل سے دیتے تھے اور اس میں ذاتی مخالفت کا انداز پیدا نہیں ہونے دیتے تھے۔ ادیبانہ چھیڑ چھاڑا ور طنز ومزاح ضرورکرتے تھے جو ان کی تحریرو ں میں جابجا جھلکتا ہے، لیکن طعن وتشنیع اور تمسخر،استہزا کے عادی نہیں تھے۔ وہ طنز ومزاح اور تمسخر واستہزا کے درمیا ن فرق کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اس کا لحاظ بھی رکھتے تھے۔
اس پر ایک تاریخی شہادت کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک کے معروف محقق اور دانش ور ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم ایک دور میں منکرین حدیث میں شمار ہوتے تھے اور انھوں نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حجت ہونے کے خلاف ’’دو اسلام‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی تھی جس میں احادیث نبویہ پر اعتراضات کیے گئے ہیں۔ اس کے جواب میں برصغیر کے بہت سے سرکردہ علما نے کتابیں لکھیں اور والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے بھی ۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں گرفتاری کے بعد ملتان سنٹرل جیل میں اسارت کے دوران ’’صرف ایک اسلام‘‘ کے نام سے اس کا جواب تحریر کیا۔ ڈاکٹر برق مرحوم نے حضرت والد صاحبؒ کے نام اپنے خط میں اعتراف کیا کہ ان کی کتاب ’’صرف ایک اسلام‘‘ نے اپنے تحقیقی انداز اور شستگی کے باعث انھیں یعنی ڈاکٹر برق کو اپنی بہت سی باتوں پر ازسرنو غور کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ خیر اس کے بعد تو کایا ہی پلٹ گئی اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم بالآخر اپنے سابقہ موقف سے رجوع کرتے ہوئے حدیث کی تاریخ اور حجیت پر ایک مستقل کتاب ’’تاریخ حدیث‘‘ لکھ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جوار رحمت میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین۔
اس سلسلے میں میرا اپنا واقعہ یوں ہے کہ صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں ایک بار رؤیت ہلال میں شہادت کے مسئلہ پر علماے کرام میں اختلاف پیدا ہو گیا اور اخبارات ورسائل میں مضامین وبیانات شائع ہونے لگے۔ مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ اہل حدیث مکتب فکر کے بڑے علما میں سے تھے۔ بڑے مناظر تھے اور خالص مناظرانہ مزاج رکھتے تھے۔ بعد میں میری ان سے خاصا عرصہ نیازمندی رہی ہے اور ان کی شفقت اور دعاؤں سے مستفید ہوتا رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان کا ایک مضمون غالباً ’’نوائے وقت‘‘ میں شائع ہوا جو ہمارے موقف کے برعکس تھا۔ میں نے اپنے طور پر اس کا جواب لکھا اور تصحیح کے لیے والد صاحب کو دکھایا جس پر مجھے ان کی سخت ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑا اور یوں یاد پڑتا ہے کہ انھوں نے تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ بھی اٹھایا مگر بات صرف ہاتھ اٹھانے تک رہ گئی۔ میں نے اس جوابی مضمون میں مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ کے مضمون کا ایک جملہ اس انداز میں لکھا تھا کہ ’’حافظ عبد القادر لکھتا ہے۔‘‘ والد صاحب نے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ :
’’وہ تمہارا چھوٹا بھائی ہے؟ ہو سکتا ہے عمر میں تمھارے باپ سے بھی بڑا ہو۔ اس لیے اس طرح لکھو کہ مولانا حافظ عبد القادر روپڑی یوں لکھتے ہیں مگر مجھے ان کی اس بات سے اختلاف ہے۔‘‘
اسی طرح یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مسلکی اختلافات زندگی بھر حضرت والد محترم کا موضوع گفتگو رہے ہیں۔ انھوں نے مسلک کے ہر پہلو پر لکھا ہے اور بیان بھی کیا ہے۔ دیوبندی بریلوی اختلافات ہوں، سنی شیعہ کشمکش ہو، حنفی اہل حدیث تنازعات ہوں، حجیت حدیث کا مسئلہ ہو یا حیات وممات اور سماع اموات کا عنوان ہو، ان میں سے شاید ہی کوئی موضوع ایسا باقی رہا ہو جس پر انھوں نے نہ لکھا ہو اور بیان نہ کیا ہو۔ انھوں نے ہر موضوع پر لکھا اور خوب لکھا بلکہ حق ادا کر دیا، لیکن پبلک اجتماعات میں وہ ان موضوعات پر خطاب نہیں کرتے تھے۔ کسی بیان میں ضمناً کوئی بات آ گئی ہو تو مسئلہ کی وضاحت کی حد تک ان کا بیان دوٹوک ہوتا تھا، لیکن کسی اشد مجبوری کے بغیرکسی اختلافی مسئلہ کے موضوع پر عام اجتماعات میں وہ بیان نہیں کیا کرتے تھے۔ اختلافی مسائل پر وہ کتابوں کی صورت میں اظہار خیال کرتے تھے، سبق میں تفصیل سے بحث کرتے تھے اور درس میں بھی مسائل کی وضاحت دلائل کے ساتھ کیا کرتے تھے، لیکن عام اجتماعات میں، پبلک جلسوں میں حتیٰ کہ جمعۃ المبارک کے خطبات میں بھی ان کے گفتگو کے عنوانات اصلاحی ہوتے تھے۔ عقائد کی اصلاح، سنت کی اہمیت، دین کی اہمیت، حلال وحرام کا فرق اور عادات واخلاق کی اصلاح ان کی پبلک تقریروں کے موضوعات ہوتے تھے اور اس دوران ضمناً کوئی اختلافی مسئلہ آ جاتا تو اس کی وضاحت بھی کر دیا کرتے تھے۔
حضرت والد صاحب ؒ کے خلیفہ مجاز اور ہمارے محترم دوست حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری نے حضرت والد صاحب ؒ کی وفات پر ماہنامہ ’’بینات‘‘ کراچی میں اپنے تعزیتی مضمون میں لکھا ہے کہ انہوں نے ایک موقع پر حضرت مولانا محمد سرفرازخان صفدرؒ سے عرض کیا کہ اپنے مسلک کے لیے آدمی کو متعصب ہونا چاہیے۔ انہوں نے جواب میں فرمایا، متعصب نہیں بلکہ متصلب ہونا چاہیے۔ پھر دونوں میں فرق یہ بیان کیا کہ متعصب کے نزدیک دوسری کوئی بات قبول کرنے کی گنجایش نہیں ہوتی جبکہ متصلب اگرچہ اپنے اکابر کے موقف پر مضبوطی سے قائم رہتا ہے، لیکن اگر کوئی دوسری بات دلیل سے سمجھ میں آجائے تو اسے قبول کرنے میں اسے ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔
میرے لکھنے پڑھنے کے ذوق کو دونوں بزرگوں یعنی والد محترم حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی ؒ کی عملی سر پرستی حاصل رہی ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں حضرت والد صاحبؒ نے فاتحہ خلف الامام پر اپنی ضخیم کتاب ’’احسن الکلام‘‘ کی مجھ سے اپنی نگرانی میں تلخیص کرائی جو ’’اطیب الکلام‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ اس پر دو تین صفحات کا پیش لفظ میں نے خود تحریر کیا جو کتابچہ میں موجود ہے اور مجھے یاد ہے کہ میرے لکھے ہوئے پیش لفظ میں حضرت والد صاحب نے صرف ایک جملہ کی اصلاح کی تھی۔ میں نے ایک جگہ ’’بیک بندش چشم‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی جسے انہوں نے ’’چشم زدن‘‘ کے محاورہ سے بدل دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی جس پر مجھے بے حد خوشی ہوئی اور میری خو داعتمادی میں اضافہ ہوا ۔ حضرت صوفی صاحبؒ نے اپنی تصنیف ’’فیوضات حسینی‘‘ کی تسوید و ترتیب کے کام میں مجھے شریک کیا اور اس کا بیشتر حصہ حضرت صوفی صاحبؒ کی نگرانی میں ا ن کی ہدایات کے مطابق میں نے مرتب کیا جس پر مجھے انہوں نے ’’پارکر‘‘ کا ایک خوبصورت قلم انعام میں دیا۔ دونوں بزرگوں کی یہ خواہش اور کوشش رہی کہ میں ان کے تصنیف و تحقیق کے کام میں ان کا معاون اور دست راست بنوں مگر کسی شخص کے لیے اپنے ’’خون کا گروپ‘‘ خود اختیار کرنے کی سہولت اللہ تعالیٰ نے نہیں رکھی، اور میرے خون کے جراثیم قدرے مختلف تھے، اس لیے اس فطری تنوع نے میری تحریر و تقریر کا میدان کسی حد تک ان سے مختلف کر دیا۔ جمعیۃ طلباے اسلام اور جمعیۃ علماے اسلام کے پلیٹ فارم پر سیاسی سرگرمیوں میں متحرک ہو جانے کے بعد میرے فکر ونظر کا زاویہ قدرے مختلف ہو چکا تھا اور میرے لکھنے پڑھنے کے موضوعات میں اسلامی نظام کی اہمیت وضرورت، مغربی فلسفہ وثقافت کی یلغار، اسلام پر مغرب کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات وشبہات، آج کے عالمی تناظر میں اسلامی احکام وقوانین کی تشریح، اسلامائزیشن کے علمی وفکری تقاضے، نفاذ اسلام کے حوالے سے دینی حلقوں کی ضروریات اور ذمہ داریاں، اسلام دشمن لابیوں کی نشان دہی اور تعاقب اور ان حوالوں سے طلبہ، دینی کارکنوں اور باشعور نوجوانوں کی راہ نمائی اور تیاری کو اولین ترجیح کا درجہ حاصل ہو گیا، چنانچہ گزشتہ پینتالیس برس سے انھی موضوعات پر مسلسل لکھتا چلا آ رہا ہوں۔
میں بحمد اللہ تعالیٰ راسخ العقیدہ سنی، شعوری حنفی او رمتصلب دیوبندی ہوں اور اپنے دائرۂ کار کو کراس کیے بغیر ان مسائل پر سنجیدہ کام کرنے والوں سے حتی الوسع تعاون اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا رہتا ہوں، مگر میرا اپنا دائرۂ کار وہی ہے جس کا اوپر ذکر کر چکا ہوں اور اسی دائرے میں آخر وقت تک محنت کرتے رہنے کو اپنے لیے باعث سعادت ونجات سمجھتا ہوں۔ میرے لیے یہ بات خوشی کا باعث ہے کہ میرے چھوٹے بھائی اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے استاذ حدیث مولانا عبد القدوس خان قارن سلمہ نے حضرت والد محترم کی معاونت کا میدان سنبھال رکھا ہے اور وہ مسلسل اس خدمت کو پوری محنت اور ذوق کے ساتھ سرانجام دیتے چلے آ رہے ہیں، مگر اس کے باوجود اس بات کی خود مجھے شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ حضرت والد محترم کی تحقیقات وتصنیفات میں مختلف حوالوں سے علمی ابحاث اور معلومات کا جو ذخیرہ بکھرا ہوا ہے، اسے اختلافی مسائل کے تناظر سے ہٹ کر مثبت انداز میں بھی سامنے لایا جائے تاکہ وہ لوگ جو کسی بھی وجہ سے اختلافی مسائل کے حوالے سے مطالعہ کا ذوق نہیں رکھتے، وہ بھی اس سے استفادہ کر سکیں، بلکہ میرے سامنے اس کی افادیت کا ایک اور پہلو بھی ہے جو اس سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ وہ یہ کہ یہ مباحث اگر مثبت انداز میں ازسرنو مرتب ہو جائیں تو نہ صرف دینی مدارس کے مدرسین بلکہ کالجوں میں اسلامیات کے اساتذہ کے لیے بھی بہت مفید ہوں گے بلکہ آج کے عمومی حالات کے تناظر میں دینی مدارس اور عصری کالجوں کے دینیات کے نصاب میں تبدیلی، اصلاح اور ترمیم واضافہ کے لیے جو آواز اٹھائی جا رہی ہے اور اس پر کسی درجے میں کام بھی ہو رہا ہے، اس میں یہ علمی ذخیرہ نئی نصاب سازی کے لیے ایک بہتر بنیاد بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے جب میر ے بڑے بیٹے حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ (فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ وایم اے انگلش پنجاب یونیورسٹی) نے بتایا کہ وہ اپنے دادا محترم کی تصنیفات پر اس حوالے سے کام کر رہا ہے اور اس نے اس سلسلے میں چند مجموعے مرتب بھی کر لیے ہیں تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی، چنانچہ ’’فن حدیث کے اصول ومبادی‘‘ کے عنوان پر ان مباحث کا مسودہ میں خود لے کر حضرت والد محترمؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انھیں اس بات کی اطلاع دیتے ہوئے دعا کی درخواست کی تو انھوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور اس کام کی تکمیل اور کامیابی کے لیے دعا فرمائی۔ بعد میں عزیز عمار خان سلمہ بھی ان کی خدمت میں اس کی باقاعدہ اجازت کی درخواست کے لیے حاضر ہوا تو انھوں نے اجازت کے ساتھ دعاؤں سے نوازا۔
میرے دل میں ایک کسک شروع سے رہی ہے کہ میں اپنی علمی وفکری تگ وتاز کا میدان مختلف ہو جانے کے باعث حضرت والد محترم کا ان کی جدوجہد کے میدان میں معاون نہیں بن سکا۔ اس کسک کے ایک پہلو کی کسی حد تک تسکین برادرم مولانا عبد القدوس قارن سلمہ، عزیزم مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی سلمہ، برادرم مولانا عبد الحق خان بشیر سلمہ اور برادرم مولانا قاری حماد الزہراوی سلمہ کی مسلکی سرگرمیاں دیکھ کر ہوتی رہتی ہے، جبکہ دوسرے پہلو کی تسکین کا سامان عزیز عمار خان سلمہ نے فراہم کر دیا ہے اور میں پورے اطمینان اور خوشی کے ساتھ دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اسے نظر بد سے محفوظ رکھیں، اس کار خیر کی جلد از جلد تکمیل کی توفیق دیں اور اپنی صلاحیتوں کو دین حق کی خدمت کے لیے صرف کرتے رہنے کے مواقع، توفیق، اسباب اور پھر قبولیت ورضا سے بہرہ ور فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت والد محترم فروعی معاملات میں اختلاف کا حق خود بھی استعمال کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کا حق دیتے تھے۔ اس پر ایک پورا مضمون لکھا جا سکتاہے، مگر اس کی چند جھلکیاں ضرور پیش کرنا چاہوں گا۔
ان کا بیعت کا تعلق حضرت مولا نا حسین علی ؒ سے تھا جو تشہد میں رفع سبابہ کے قائل نہیں تھے، مگر حضرت والد صاحب ؒ نے فرمایا کہ ہم ان کے سامنے رفع سبابہ ’’ٹکا کے‘‘ کرتے تھے اور ایک دفعہ انہوں نے اپنے شیخ ؒ سے اس پر بحث بھی کی۔
وہ نماز عید سے قبل تقریر کو بدعت کہتے تھے اور زندگی میں کبھی نہیں کی۔ ان کامعمول تھا کہ عیدگاہ میں جاتے ہی نماز پڑھاتے، پھر خطبہ پڑھتے اور اس کے بعد ٹھیٹھ پنجابی میں گھنٹہ پون گھنٹہ خطاب کرتے تھے۔ نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک ان کا معمول یہی رہا ہے، جب کہ حضرت صوفی صاحب ؒ سمیت ہم سب کا معمول عید سے پہلے تقریر کرنے کا ہے جو حضرت والد صاحب ؒ کے علم میں تھا اور وہ کبھی کبھی ہمیں کہتے بھی تھے کہ یہ بدعت ہے، لیکن بات کبھی اس سے آگے نہیں بڑھی۔ ابھی اسی سال عیدالاضحی کی بات ہے۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو نما ز عید کے وقت کا تذکرہ چھڑ گیا۔ میں نے بتایا کہ میں نے اتنے وقت پرعید پڑھائی ہے۔ فرمایا، بہت دیر سے پڑھائی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ہم نے پہلے تقریر بھی کرنا ہوتی ہے۔ فرمانے لگے، یہ بدعت ہے۔ میں نے عرض کیا کہ نماز کے بعد تقریر سنتا کوئی نہیں ہے۔ فرمایا کہ مروان بن الحکمؒ نے بھی یہی عذر پیش کیا تھا۔ میں نے گزار ش کی، اس نے عربی خطبہ کے با رے میں کہا تھا اور ہم عربی خطبہ نما ز کے بعد ہی پڑھتے ہیں۔ فرمانے لگے، لوگ تقریر کو بھی خطبہ کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔ بس ہمارا اتنی ہی مکالمہ ہوا۔ اس کے بعد گفتگو کا رخ کسی اور طرف ہوگیا۔
حضرت والد صاحبؒ نماز تراویح کے بعد، وتر کے بعد یا نفلوں کے بعد کسی موقع پر بھی اجتماعی دعاکے قائل نہیں تھے اورا سے بدعت کہتے تھے۔ میں بھی جب تک گکھڑ میں رہا، یہی معمول رہا، مگر جب گوجرانوالہ کی جامع مسجد میں قرآن کریم سنانا شرو ع کیا تو وہاں دعا کا معمول تھا۔ حضرت مولانا مفتی عبدالواحدؒ حضرت والد صاحب ؒ کے استاد تھے۔ ان سے پوچھا تو فرمایا کہ آخر میں ایک دعا ضرور ہو جانی چاہیے، تراویح کے بعد یا وتروں کے بعد یا نفلوں کے بعد۔ میں نے تینوں سے فراغت کے بعد یعنی نفلوں کے بعد ایک اجتماعی دعا کا معمول بنا لیا جو حضرت والد صاحب ؒ کے نزدیک صریح بدعت تھی۔ حضرت والد صاحبؒ کو پتہ چلا تو پوچھا۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے آپ کے استاد محترمؒ سے اجازت لے لی ہے۔ اس سلسلے میں لطیفہ یہ ہوا کہ کچھ عرصہ بعد جب میری جگہ عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے قرآن کریم سنانا شروع کیا تو اس نے دادا محترم کے فتویٰ پر عمل شروع کر دیا اور نوافل کے بعد دعا مانگنا ترک کر دی۔ میں ان دنوں عمرے پر گیا ہوا تھا۔ نماز یوں میں خلفشار پیدا ہو گیا اور میری واپسی تک اچھی خاصی گہماگہمی ہوگئی۔ میں نے واپس آکر صورت حال دیکھی تو اس مسئلہ پر نمازیوں سے مستقل خطاب کیا کہ عمار خان ناصر اگر تراویح یا نوافل کے بعد دعا نہیں مانگتا تو یہ اس کے دادا محترمؒ کے فتویٰ کے مطا بق ہے، اور میں مانگتا ہوں تو اپنے دادا استاد کے فتویٰ کے مطا بق مانگتا ہوں، یہ بھی درست ہے۔ اس لیے وہ نماز پڑھائے گا تو دعا نہیں مانگے گا اور میں پڑھاؤں گا تو دعا مانگوں گا۔ اس میں کسی کو اشکال نہیں ہونا چاہیے۔ بعض دوستوں نے کہا آپ عمار خان ناصر کو حکماً کہیں کہ وہ دعا ضرور مانگا کرے۔ میں نے عرض کیا کہ میں ایسے معاملات میں حکم اور جبر کو درست نہیں سمجھتا اور وہ بھی مولانا سرفراز خان کا خون ہے، بات صرف دلیل کی سنے گا۔ حکم کی بات شاید اس پر اثر انداز نہ ہو۔
مجھے بریلوی حضرات کی عمومی تکفیر میں تردد رہا ہے جو اب بھی ہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ علم غیب، حاضر وناظر، نور وبشر وغیرہ مسائل میں جو حضرات ایسی تاویل کر لیتے ہیں جو کفر کے دائرہ سے نکال سکتی ہو تو ان کے عقیدہ کو کفر کے دائرے میں شامل کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ تعبیر کی گمراہی قرار دیا جا سکتا ہے، البتہ جو شخص کسی تاویل کے بغیر صراحتاً شرکیہ عقیدہ کا اظہار کرتا ہے، اس کا معاملہ مختلف ہے۔ حضرت والد محترم رحمۃ اللہ علیہ کو اس کا ایک بار علم ہوا تو انھوں نے مجھ سے اس مسئلہ پر باقاعدہ گفتگو کی، مگر کوئی دباؤ ڈالنے کی بجائے دلیل کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی اور علم غیب کے مسئلہ پر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حضرت مولانا حسین علیؒ کے فتاویٰ مجھے پڑھائے، مگر وہ پڑھنے کے بعد بھی میں نے حضرت والد محترمؒ سے عرض کیا کہ اگر کوئی شخص ایسی تعبیر اختیار کرتا ہے جو اس کو کفر کے دائرہ سے نکالتی ہو تو اس کو کفر کے فتوے سے بچانا ہی زیادہ مناسب ہے۔ ہماری یہ گفتگو اس سے آگے نہیں بڑھی اور اس کے بعد حضرت والد محترمؒ نے اس مسئلہ پر کبھی مجھ سے بات نہیں کی۔
ایک اور پر لطف مکالمہ کا ذکر بھی شاید نامناسب نہ ہو۔ حضرت والد محترمؒ نقشبندی سلسلہ میں حضرت مولانا حسین علیؒ سے بیعت اور مجاز تھے اور میرا بیعت کا تعلق حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ سے تھا جو قادری راشدی سلسلہ کے شیخ تھے۔ ان کے ہاں مجلس ذکر ہوتی تھی اور اس میں ذکر بالجہر بھی ہوتا تھا۔ حضرت والد محترمؒ کے نزدیک اجتماعی طو رپر ذکر بالجہر بدعت شمار ہوتا ہے اور اس مسئلہ پر ان کی مستقل کتاب ھی ہے۔ وہ ذکر میں جہر کو بعض شرائط کے ساتھ تعلیماً تو جائز کہتے تھے، مگر اس کے مستقل معمول کو وہ درست نہیں سمجھتے تھے۔ میرا معمول یہ تھا کہ جب تک حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ حیات رہے، ان کی مجلس ذکر میں شرکت کے لیے شیرانوالہ لاہور بھی جاتا رہا اور وہ گوجرانوالہ میں کبھی تشریف لاتے تو یہاں بھی ان کی مجلس ذکر میں شریک ہوتا تھا۔ ایک بار اتفاق سے گکھڑ کی کسی مسجد میں حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ تشریف لائے اور مجلس ذکر ہوئی تو میں بھی شریک ہوا۔ اس سے ایک روز بعد اس مسئلہ پر حضرت والد محترمؒ سے میرا درج ذیل مکالمہ ہو گیا:
انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ ’’تم بھی ہو ہو کرنے گئے تھے؟‘‘
میں نے ہاں میں جواب دیا تو فرمایا کہ ’’سر بھی ہلاتے رہے ہو؟‘‘
میں نے اس کا جواب بھی اثبات میں دیا تو فرمایا کہ ’’تم نے میری کتاب نہیں پڑھی؟‘‘
میں نے عرض کیا کہ ’’پڑھی ہے‘‘ تو فرمایا کہ پھر تمہارا کیا خیال ہے؟
ظاہر بات ہے کہ میں ان سے کسی مباحثہ یا مناظرہ کی گستاخی نہیں کر سکتا تھا، اس لیے میں نے بات ٹالنے کے لیے یہ عرض کر دیا کہ ’’آپ نقشبندی ہیں، ہم قادری ہیں۔ نقشبندیوں کے ہاں ذکر میں جہر نہیں ہے اور قادری جہر کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔‘‘
فرمایا: ’’بڑے بے وقوف ہو۔ کیا میں نے کتاب اس لیے لکھی ہے؟‘‘
میں نے اس بحث کو آگے نہیں بڑھانا تھا، اس لیے پہلی بات کو ہی دوبارہ عرض کر کے خاموش ہو گیا اور حضرت والد محترم نے بھی خاموشی اختیار فرما لی اور پھر کبھی اس موضوع پر مجھ سے کچھ نہیں فرمایا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ جزوی اور فروعی مسائل میں بھی اپنے موقف کا بے لچک اور دوٹوک اظہار ضرور کرتے تھے، مگر اختلاف کو سنتے تھے، برداشت کرتے تھے، ا س کا حق دیتے تھے اور اپنے موقف کو منوانے میں جبر یا دباؤ کو استعمال کرنے کی بجائے دلیل اور افہام وتفہیم کا لہجہ اختیار کرتے تھے جو ہمیشہ سے اہل علم کا ذوق اور رویہ رہا ہے۔
حضرت والد محترمؒ کی تحریکی زندگی کا آغاز طالب علمی کے دورمیں ہی ہو گیا تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں جب وہ ۱۹۳۱ء سے ۴۱ء تک مختلف مدارس میں پڑھتے رہے ہیں، انہوں نے خود اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ وہ مجلس احرار اسلام کے باقاعدہ رضا کار تھے اور اس کے جلسوں میں بطور رضاکار کے شریک ہوتے اور تحریک آزادی میں اس پلیٹ فارم سے حصہ لیتے رہے ہیں۔ ان کی اس دور کی دو یادگاریں ہمارے گھرمیں ایک عرصہ تک موجود رہی ہیں۔ ایک لوہے کا سرخ ٹوپ جو وہ پریڈ کے وقت پہنا کرتے تھے اور دوسری کلہاڑی۔ لوہے کا سرخ ٹوپ تو اب موجودنہیں ہے، لیکن ان کی کلہاڑی اب بھی موجود ہے اور ان کے احراری ہونے کی یاد دلاتی رہتی ہے۔ اسی دوران وہ جمعیۃ علماے ہند کے کارکن بھی رہے اور جمعیۃ کے متعدد اجلاسوں میں انھوں نے شرکت اورنمائندگی کی۔ وہ ۱۹۴۳ء میں گکھڑ آ گئے تھے اور یہاں مجلس احرار انھوں نے ہی بنائی ہے۔ اس میں ان کے ساتھ حاجی اللہ دتہ بٹ مرحوم اور ملک محمد اقبال مرحوم شامل تھے۔ تحریک پاکستان کے حوالے سے ان کا یہ تذکرہ ان کے ریکارڈ میں ملتا ہے کہ قیام پاکستان کے موقع پر مقامی مسلم لیگی قیادت کی درخواست پر گکھڑ میں پاکستان کا پرچم سب سے پہلے انھوں نے لہرایا تھا۔
ان کے دور طالب علمی کا ایک اہم تحریکی واقعہ یہ ہے کہ ۱۹۴۱ء میں جب وہ دار العلوم دیوبند میں دورۂ حدیث کے طالب علم تھے، دار العلوم کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ انگریزی اقتدار کے خلاف آزادی کی تحریک میں گرفتار ہو گئے جس پر دار العلوم کے طلبہ نے شدید احتجاج کیا، مظاہرے ہوئے، کلاسوں کا بائیکاٹ کیا گیا اور ہنگاموں کی صورت حال پیدا ہو گئی۔اس موقع پر مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے نمائندوں پرمشتمل ایکشن کمیٹی قائم کی گئی جس میں سرحد اور افغانستان کے طلبہ نے اپنا نمائندہ حضرت والد محترم کو چنا اور پھر تمام نمائندوں نے مل کر ایکشن کمیٹی کا سربراہ بھی انھی کومنتخب کر لیا۔ اس طرح حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کی گرفتاری کے خلاف دار العلوم دیوبند کے طلبہ کی پرجوش احتجاجی تحریک کی قیادت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے کی۔ مظاہروں نے اس قدر شدت اختیار کی کہ دار العلوم دیوبند کے معاملات میں حکومت کی مداخلت کے امکانات نظر آنے لگے۔اس پر جمعیۃ علماے ہند کے قائدین حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کی راہ نمائی میں دیوبند تشریف لائے اور طلبہ کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کیے تاکہ دار العلوم کے معاملات اور تعلیمی ماحول کو نقصان سے بچایا جا سکے۔ ان مذاکرات میں بھی طلبہ کے نمائندوں نے مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی قیادت میں اپنے بزرگوں سے بات چیت کی۔ اس طرح پرجوش احتجاجی تحریک ختم کر کے دار العلوم کے طلبہ کلاسوں میں واپس گئے اور دار العلوم دیوبند کا تعلیمی ماحول بحال ہوا، مگر اس کے اثرات اس قدر وسیع تھے کہ اس سال دار العلوم دیوبند کے سالانہ امتحانات نہ ہو سکے۔ یہ پوری تاریخ میں پہلا واقعہ ہے۔ طلبہ درمیان سال میں ہنگاموں میں رہے اور امتحان سے پہلے طلبہ نے مطالبہ کردیا کہ چونکہ ہم ہنگاموں میں رہے ہیں اس لیے ہمیں بغیر امتحان کے پاس کیا جائے۔ دارالعلوم دیوبند کے داخلہ کے امتحان اور سالانہ امتحان کا بہت سخت معیار تھا۔ ارالعلوم دیوبند نے انکار کردیا اور کہا کہ ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند کو بند کردیں لیکن یہ نہیں کرسکتے کہ بغیر امتحان کے کسی کو پاس کردیں۔ چنانچہ اس سال امتحان نہیں ہوئے اور دورۂ حدیث کے شرکا نے اگلے سال ۱۹۴۲ء میں دوبارہ وہاں جا کر امتحان دیا جن میں حضرت والد محترم اور مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی ؒ بھی شامل تھے۔
قیام پاکستان کے بعد ان کی تحریکی زندگی کا اہم واقعہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں ان کی گرفتاری ہے۔وہ تحریک میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں گرفتار ہوئے اور کم وبیش ساڑھے نو ماہ تک ملتان کی جیل میں رہے۔ حضرت مولانا صوفی عبدالحمیدخان سواتی ؒ بھی اس تحریک میں گرفتار ہوئے اور کئی ماہ تک جیل کاٹی۔ جیل میں والد محترم کا تدریسی سلسلہ جاری رہا اور حجیت حدیث پر ایک کتاب انھوں نے اسی دوران ’’صرف ایک اسلام‘‘ کے نام سے لکھی جو ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم کی کتاب ’’دو اسلام‘‘ کے جواب میں ہے اور اسی قید کے دوران انھیں خواب میں سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زیارت ہوئی جس کی تعبیر میں ان کے استاذ محترم حضرت مولانا عبد القدیر صاحبؒ نے فرمایا کہ ہو سکتا ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ کی زندگی میں آ جائیں۔
تحریکی زندگی میں حضرت والد محترم کا تیسرا دور جمعیۃ علماے اسلام میں ان کی شمولیت کا ہے۔ ۱۹۵۶ء میں حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ ، حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ او رحضرت مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں جمعیۃ علماے اسلام کی تشکیل نو ہوئی تو مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بھی اس میں شامل ہو گئے اور کم وبیش پچیس برس تک جمعیۃ کے ضلعی امیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ ان کی ابتدائی جماعتی سرگرمیوں میں سے مجھے دو واقعات یاد ہیں۔ ایک یہ کہ صدر ایوب خان مرحوم کے دورمیں جب ملک میں عائلی قوانین نافذ ہوئے اور اس کی خلاف شریعت دفعات پر علماے کرام نے اعتراض کیا تو قومی اسمبلی کے ارکان کو علماے کرام کے موقف سے آگاہ کرنے کے لیے ان کے پاس وفود بھیجنے کا پروگرام بنایا گیا۔تحصیل وزیر آباد سے اس وقت قومی اسمبلی کے رکن چودھری صلاح الدین چٹھہ مرحوم ہوا کرتے تھے جو چودھری حامد ناصر چٹھہ صاحب کے والد تھے۔ان سے ملاقات کے لیے حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ ، حضرت والد محترم اور مولانا احمد سعید ہزاروی زید مجدہم پر مشتمل وفد گکھڑ سے چودھری صلاح الدین مرحوم سے ملاقات کے لیے ان کے قصبہ احمد نگر گیا۔ یہ حضرات گکھڑ میں اکٹھے ہوئے، جامع مسجد میں باہمی مشاورت کی اور پھر تانگے پر احمد نگر روانہ ہوئے۔ مجھے مسجدمیں ان کے مل بیٹھنے اور تانگے پر احمد نگر روانہ ہونے کا منظر یاد ہے۔
اس دور کی دوسری بات جو میری یادداشت میں محفوظ ہے، یہ ہے کہ صدر محمد ایوب خان مرحوم نے دستور کی تشکیل کے لیے عوام سے سفارشات طلب کیں تو اس وقت جمعیۃ علماے اسلام نے، جو مارشل لا کی وجہ سے نظام العلماء پاکستان کے نام سے کام کر رہی تھی، عوامی سطح پر اسلامی دستور کے لیے محضرنامے بھجوانے کی مہم چلائی۔ یہ محضر نامے گکھڑ سے بھی بھجوائے گئے۔ حضرت والد محترم کی ترغیب پر جن حضرات نے محضرنامے پر کروانے اور بھجوانے کے لیے محنت کی، ان میں ہمارے ایک محترم بزرگ ماسٹر بشیر احمدکشمیریؒ پیش پیش تھے اور ایک کارکن کے طور پر مجھے بھی ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ اس کے بعد حضرت والد محترم کو ایک مرحلہ میں جمعیۃ علماے اسلام ضلع گوجرانوالہ کا امیر منتخب کیا گیا اور وہ کم وبیش ربع صدی تک اس حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ جمعیۃ کے اجلاسوں کی صدارت، جماعتی دورے، تحریکات میں سرپرستی اور جمعیۃ کے زیر اہتمام عام جلسوں سے خطاب کے لیے وہ اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود وقت نکالتے تھے اور جماعتی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ ۷۰ء کے انتخابات میں وزیر آباد کی نشست کے لیے قومی اسمبلی کے امیدوار حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کے لیے انتخابی مہم چلائی جو ان کے استاذ محترم بھی تھے، اور ۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں سرگرم حصہ لیا۔
۷۵ء میں جمعیۃ علماے اسلام کا ملک گیر قومی نظام شریعت کنونشن مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں منعقد ہوا جس میں جمعیۃ کی مجلس شوریٰ کے فیصلے کے مطابق حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے پرائیویٹ سطح پر جمعیۃ علماے اسلام کے تحت شرعی عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا۔ اس کے لیے وفاقی سطح پر شرعی عدالت مولانا مفتی محمودؒ کی سربراہی میں قائم کی گئی جس میں حضرت والد محترم اور حضرت مولانا عبد الکریم قریشیؒ آپ بیر شریف شامل تھے۔ اس کے بعد صوبائی اور ضلعی سطح پر شرعی عدالتیں قائم کی گئیں۔ہمارے حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خان صاحب بھی اسی دور میں قاضی بنے۔ وہ گوجرانوالہ کے ضلعی قاضی مقرر ہوئے جبکہ حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نائب قاضی تھے۔ انھوں نے بعض مقدمات کی سماعت بھی کی اور اس وجہ سے مولانا حمید اللہ خان کے نام کے ساتھ قاضی کے لقب کا اضافہ ہوا۔ ان شرعی عدالتوں کے نظام اور طریق کار کے تعین کے لیے جامعہ مدینہ لاہور اور مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ گیٹ لاہور میں کنونشن منعقد ہوئے جن میں شرعی عدالتوں کا طریق کار اورنظام العمل وضع کیا گیا۔ ان میں سے ایک کنونشن کی صدارت حضرت والد محترم نے کی اور ان کے ساتھ حضرت مولانا مفتی محمودؒ ، حضرت مولانا محمد یوسف خان آف پلندری، حضرت مولانا سید حامد میاںؒ ، حضرت مولانا ایوب جان بنوریؒ ، حضرت مولانا عبد الکریم قریشیؒ ، حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ اور حضرت مولانا مفتی احمد الرحمنؒ جیسے بزرگ اس کارخیر میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر وفاقی اور صوبائی سطح پر عدالتوں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ مقدمات کی سماعت اور فیصلوں کے طریق کار کا بھی تعین کیا گیا، مگر یہ سارا ہوم ورک ۱۹۷۷ء کی سیاسی گہماگہمی کی نذر ہوگیااور عملاً کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
۱۹۷۶ء میں پنجاب کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ اور ا س کے ساتھ ملحقہ جامع مسجد نور کو محکمہ اوقاف کی تحویل میں لینے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا تھا جس کے خلاف احتجاج کے لیے گوجرانوالہ کے معروف وکیل جناب نوید انور نوید ایڈووکیٹ مرحوم کی قیادت میں احتجاجی تحریک چلی جس میں سیکڑوں علما اور کارکنوں نے گرفتاری دی اور ہم تین بھائی یعنی راقم الحروف، مولانا عبد القدوس قارن اور مولانا عبد الحق خان بشیر بھی کئی ماہ تک جیل میں رہے۔ ا س تحریک کے اصل سرپرست مولانا مفتی عبد الواحدؒ ، حضرت والد محترم اور حضرت صوفی صاحبؒ تھے اور والد محترم نے اپنے استاذ محترم حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کے ساتھ مل کر مسجد نور کی واگزاری کی تحریک کی سرپرستی کی اور ضلع بھر کا دورہ کر کے دینی کارکنوں کو اس تحریک میں حصہ لینے کے لیے تیار کیا۔
اس کے بعد انھوں نے جمعیۃ علماے اسلام کے ضلعی امیر کی حیثیت سے ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں سرگرم کردار ادا کیا۔ مختلف جلوسوں کی قیادت کی، جلسوں سے خطاب کیا اور احتجاجی جلوس کی قیادت کرتے ہوئے گرفتار ہو کر کم وبیش ایک ماہ ڈسٹرکٹ جیل گوجرانوالہ میں رہے۔ اسی دوران وہ مشہور واقعہ بھی پیش آیا کہ گکھڑ کی جامع مسجد سے جمعہ کے بعد پاکستان قومی اتحاد کا احتجاجی جلوس نکلنا تھا جس کی قیادت حضرت والدمحترم نے کرنا تھی۔ فیڈرل سیکورٹی فورس کے کمانڈرنے جلوس پر پابندی لگا دی اور ایک لکیر سڑک پرکھینچ کر وارننگ دی کہ جس نے یہ لکیر عبور کی، اسے گولی مار دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی ایف ایس ایف کے جوانوں نے فائرنگ کے لیے پوزیشنیں سنبھال لیں، مگر حضرت والد محترم اپنے رفقا سمیت،جن میں ہمارے حفظ قرآن کریم کے استاذ محترم قاری محمد انور صاحب اور جے یو پی کے راہ نما حاجی سید ڈار مرحوم بھی شامل تھے، یہ کہتے ہوئے وہ لکیر عبور کر گئے کہ ۶۳سال کی مسنون عمر پوری کر چکا ہوں اور اب شہادت کی آرزو رکھتا ہوں۔ ان کا یہ عزم دیکھتے ہوئے فیڈرل سیکورٹی فورسز کے جوانوں کی تنی ہوئی رائفلیں زمین کی طرف جھک گئیں اور احتجاج جلوس پوری آب وتاب کے ساتھ آگے روانہ ہو گیا۔
جمعیۃ علماے اسلام کے ساتھ حضرت والد محترم کے تعلق کے حوالے سے اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ وہ اگرچہ جمعیۃ کی مرکزی مجلس شوریٰ کے باضابطہ رکن نہیں تھے، لیکن اہم اجلاسوں میں خصوصی دعوت پر کبھی کبھار شریک ہوا کرتے تھے۔ دراصل ضلع گوجرانوالہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن تھے جو جمعیۃ کے سینئر راہ نماؤں میں تھے اور حضرت والد محترمؒ کے اساتذہ میں سے تھے۔ پھر جمعیۃ کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات منتخب ہونے کے بعد میں بھی بلحاظ عہدہ مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن بن گیا تو گوجرانوالہ سے مرکزی مجلس شوریٰ میں دو رکن ہو گئے۔ ایک موقع پر قائد جمعیۃ حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے مجھ سے فرمایا کہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کو بھی مرکزی شوریٰ کاممبر ہونا چاہیے۔ میں نے عرض کیا کہ گوجرانوالہ سے ہم دو پہلے سے ممبر ہیں، تیسرا ممبر بنانے پر شاید کچھ علاقوں کو اعتراض ہو۔ حضرت مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ تمہاری بات درست ہے، مگر مولانا جیسی شخصیت کو مرکزی شوریٰ میں کبھی کبھی ضرور آنا چاہیے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ بات آپ ان سے خود فرما دیں۔ اس مقصد کے لیے حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے گکھڑ کا سفر کیا۔ میں بھی ہمراہ تھا۔ انھوں نے جب حضرت والد صاحب سے یہ بات کہی تو والد محترمؒ کا جواب بھی وہی تھا جومیں عرض کر چکا تھا کہ حضرت مولانا عبد الواحد صاحبؒ اور زاہد الراشدی پہلے سے رکن ہیں تو وہ میری نمائندگی ہی کرتے ہیں۔ الگ طور پر مجھے رکن بنانے میں مصلحت نہیں ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے فرمایا کہ یہ ساری باتیں درست ہیں، لیکن آپ جیسے بزرگوں کا مجلس شوریٰ میں آنا جہاں عوام میں ہماے اعتمادمیں اضافے کا باعث بنے گا، وہاں ہمیں بھی حوصلہ ہوگا کہ ہم صحیح کام کر رہے ہیں اور صحیح رخ پر جا رہے ہیں، اس لیے باضابطہ رکنیت کے بغیر بھی اہم اجلاسوں میں آپ کو اگر دعوت دی جائے تو تشریف لے آیا کریں۔ اس پر حضرت والد محترم نے وعدہ کر لیا اور حضرت مفتی صاحبؒ نے بہت سے اہم اجلاسوں کے موقع پر مجھے ہدایت کی کہ مولانا محمد سرفراز خان صفدر کو بھی دعوت دینی ہے اور کئی اجلاسوں میں وہ تشریف بھی لائے۔ اس سے قبل متحدہ پاکستان کے دورمیں بھی مجھے یاد ہے کہ جمعیۃ علماے اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ کا ایک اہم اجلاس ڈھاکہ میں ہو رہا تھا جس کے لیے حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور حضر ت مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے حضرت والد محترمؒ کو خصوصی دعوت دی اور وہ ان بزرگوں کے ساتھ جمعیۃ علماے اسلام کے مرکزی اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ تشریف لے گئے۔
حضرت والد محترم جس عرصہ میں جمعیۃ علماے اسلام کے ضلعی امیر رہے، اس دوران جمعیۃ علماے اسلام دو بار تقسیم ہوئی۔ ایک بار حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے اپنے رفقا سمیت الگ ہو کر ’’ہزاروی گروپ‘‘ کے نام سے الگ جمعیۃ بنا لی اور دوسری بار حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی وفات کے بعد جمعیۃ علماء اسلام درخواستی گروپ اور فضل الرحمن گروپ میں تقسیم ہو گئی۔ دونوں بار حضرت والد محترمؒ جمعیِۃ کے امیر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے ساتھ رہے اور ان کی امارت میں مسلسل جماعتی خدمات سرانجام دیتے رہے، البتہ جب ان دونوں گروپوں کے اتحاد کے بعد ایک نئی تقسیم فضل الرحمن گروپ اور سمیع الحق گروپ کی صورت میں عمل میں آئی تو حضرت والد محترمؒ نے جماعتی زندگی سے کنارہ کشی کر لی اور دونوں گروپوں میں مصالحت کے لیے کئی بار کوشاں ہوئے۔ ایک بار پشاور بھی تشریف لے گئے اور حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا فقیر محمدؒ کے ہاں بعض دیگر اکابر علماے کرام کے ہمراہ چند روز قیام کر کے مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق کے درمیان مصالحت کی کوشش کرتے رہے جبکہ اس کے بعد ایک اور موقع پر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان دامت برکاتہم آف پلندری کے ساتھ مل کر جمعیۃ کے دونوں دھڑوں میں مصالحت کی سعی کی، مگر انھیں اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ جمعیۃ علماے اسلام کے سب دھڑے متحد ہو کر کام کریں۔
اسی طرح ان کی یہ خواہش اور کوشش بھی رہی کہ علماے دیوبند سے تعلق رکھنے والی تمام جماعتوں کا بھی کوئی متحدہ فورم تشکیل پائے اور ایک موقع پر ابن امیر شریعت حضرت مولانا سید عطاء المومن شاہ بخاری کی مساعی سے ’’کل جماعتی مجلس عمل علماے اسلام‘‘ کے نام سے ایک متحدہ محاذ قائم بھی ہوا جس کے لیے جامع مسجد نیلا گنبد لاہور میں ایک ملک گیر نمائندہ کنونشن منعقد ہوا جس میں حضرت والد محترمؒ کو اس متحدہ محاذ کا امیر منتخب کیا گیا اور ملک میں امریکی مداخلت سے آزادی اور نفاذ اسلام کے لیے عوامی تحریک منظم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، لیکن ابن امیر شریعت کی تمام تر مساعی او رخلوص کے باوجود یہ مہم اس لیے آگے نہ بڑھ سکی کہ اس وقت دیوبندی مکتب فکر کی تین بڑی جماعتوں یعنی جمعیۃ علماے اسلام کے دونوں گروپوں اور اس کے ساتھ کالعدم سپاہ صحابہ کی قیادت کو عملاً ساتھ چلنے کے لیے تیار نہ کیا جا سکا اور دو تین اجلاسوں کے بعد معاملہ آگے بڑھنے سے رک گیا۔
زندگی کے آخری ایام میں حضرت والد محترمؒ نے مولانا سمیع الحق کو بطور خاص گکھڑ بلا کر دیوبندی مکتب فکر کی تمام جماعتوں کا مشترکہ اجلاس بلانے اور متفقہ موقف اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، مگر یہ خواہش بھی تشنہ تکمیل رہی۔
حضرت والد محترم ؒ کی سرگرمیوں کا ایک دائرہ دینی جماعتوں اور مدارس کے اجتماعات کابھی تھا۔ وہ ان جلسوں میں جاتے اور خطاب کرتے تھے مگر عام طور پر ان کے پبلک خطابات کے موضوعات اختلافی مسائل سے ہٹ کر ہوتے تھے اور کسی اشد ضرورت کے بغیر اختلافی مسائل پر گفتگو نہیں کرتے تھے۔ ان کے عوامی اجتماعات حدیث وسنت کی اہمیت، اصلاح عوام اور عام لوگوں سے متعلقہ جائز وناجائز، حلال وحرام کے مسائل ہوتے تھے۔ زبان سادہ استعمال کرتے تھے ۔ لہجہ ناصحانہ اور اسلوب افہام وتفہیم کا ہوتا تھا۔ گگھڑ میں خطبہ جمعہ اور درس ٹھیٹھ پنجابی زبان میں ہوتا تھا اور کوئی شخص ان کا بیان سن کر یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ بزرگ پنجابی نہیں پٹھان ہیں۔پنجابی محاورے ، ضرب الامثال اور کہاوتیں انہیں از بر یاد تھیں اورموقع ومحل کے مطابق ان کا استعمال اس خوبی سے کرتے تھے کہ سننے والا محسوس کرتا تھا کہ یہ کہاوت یامحاورہ شاید اسی موقع کے لیے کہا گیاہے ۔
جلسوں میں شرکت کے حوالے سے ایک واقعہ خاص طورپر قابل ذکر ہے کہ وہ جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے جلسہ سے خطاب کے لیے تشریف لے گئے ۔ یہ میرے طالب علمی کے دور کی بات ہے۔ اس وقت جامعہ رشیدیہ کے ناظم حضرت مولانا حافظ مقبول احمدؒ تھے جو بعد میں گلاسکو(برطانیہ) کی مرکزی جامع مسجد کے بانی اور خطیب بنے ۔ واپسی پرانہوں نے حضرت والد محترم ؒ کو حسب معمول کرایہ وغیرہ کے لیے کچھ رقم دی وہ غالباً تیس یا چالیس روپے دینا چاہتے تھے۔ جو اس زمانے میں کرایہ وغیرہ کے لیے کافی تھی لیکن رات رات اندھیرے کی وجہ سے دس دس کی بجائے سو سو کے نوٹ پکڑا دیے ، واپسی پر حضرت والد محترم ؒ نے دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ غلطی سے ہواہے چنانچہ دس دس کے نوٹوں کے حساب سے رقم رکھ کر باقی رقم بذریعہ منی آرڈر واپس بھجوادی۔ بعد میں گلاسکو میں ایک ملاقات کے موقع پر حضرت مولانا مقبول احمدؒ نے اس کا تذکرہ کیا اور فرمایا حضرت مولانا سرفراز خان صفدر نے ٹھیک سمجھا تھا، کہ ہم سے یہ غلطی ہوگئی تھی، لیکن صبح اس کا علم ہونے پر ہم نے ذمہ دار حضرات کے مشورہ سے یہ ساری رقم حضرت والا کو ہدیہ کرنے کی نیت کر لی تھی مگر انہو ں نے واپس بھجوادی۔
انہی جلسوں کے حوالے سے ایک اور واقعہ کا تذکرہ بھی شاید نامناسب نہ ہو کہ ایک دفعہ ضلع گوجرانوالہ کے قصبہ نوشہرہ ورکاں میں سیرت کا جلسہ تھا ۔ حضرت والد محترم ؒ کی تقریر تھی،میں ساتھ تھا تو مجھے بھی تقریر کے لیے کہا گیا اور میں نے بھی مختصر تقریر کی۔ تقریرکے دوران میں نے کوئی واقعہ بیان کیا۔ جو اب یاد نہیں ہے۔ دوسرے دن شام کو میری طلبی ہوگئی۔ پوچھا وہ واقعہ جو تم نے بیان کیا تھاکہاں پڑھا ہے؟ میں نے کہا یاد نہیں ہے۔ فرمانے لگے کہ ویسے ہی بول دیاتھا؟ میں نے عرض کی شاید کہ کسی سے سنا تھا۔ پوچھا کس سے سناتھا؟ میں نے کہا یہ بھی یاد نہیں ہے۔ اس پر مجھے ڈانٹا اور فرمایا کہ جب تک خود کسی مستند کتاب میں نہ پڑھو یا کسی ثقہ بزرگ سے نہ سنو۔ کوئی واقعہ اس طرح بیان نہ کرنا۔ ثقہ بزرگ کے حوالے سے تین چار نام بھی لیے ، جن میں حضرت مولانا مفتی محمدشفیع ؒ ، حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ ، حضرت مولانا شمس الحق افغانیؒ ، اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے نام مجھے یاد ہیں۔ اس کے بعد سے بحمداللہ میرا معمول ہے کہ کوئی روایت یا واقعہ اپنے کسی بیان میں ذکر نہیں کرتا۔ جب تک اس حوالہ ذہن میں نہ ہواور کسی درجہ میں اس کاقابل بیان ہونے کی تسلی نہ ہو۔
حضرت والد محترم ؒ کی دینی سرگرمیوں کاایک دائرہ اصلاح وارشاد کابھی تھا۔ وہ امام الموحدین حضرت مولانا حسین علی ؒ سے بیعت تھے اور نقشبندی سلسلہ میں انہیں حضرت مرحوم ؒ سے خلافت حاصل تھی۔ پہلے وہ عام طورپر بیعت سے گریز کیا کرتے تھے لیکن اگر کوئی اصرار کرتا تو نقشبندی سلسلہ میں اسے بیعت کرکے کچھ ذکر واذکار کی تلقین کرتے تھے۔ مگر آخری سالوں میں انہوں نے عام طور پر بیعت لینا شروع کر دی تھی۔ انکی زیادہ تلقین سنت کی پیروی اوربدعات سے اجتناب تھا۔ اس کے ساتھ قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کاکہتے تھے اور روز مرہ کچھ اذکار کی تلقین کیاکرتے تھے۔ بس اس سے زیادہ اس سلسلہ میں ان کا کوئی باقاعدہ معمول نہیں تھا۔ اس سلسلہ میں انکے متعلقین کی تعداد سیکڑوں میں ہوگی۔ جن میں علماے کرام بھی ہیں اور عام مسلمان بھی ہیں۔ اور انہوں نے چند حضرات کو اپنی طرف سے خلافت بھی عطا کی ہے۔ جس میں انہوں نے مجھے بھی شامل کر رکھا ہے۔
حضرت والد محترم ؒ بیعت کے ساتھ جن اعمال واذکار کی تلقین کرتے تھے وہ کچھ اس طرح ہیں کہ ’’ توحید وسنت پر قائم رہتے ہوئے اور شرک و بدعت سے سختی کے ساتھ نفرت کرتے ہوئے اپنی ہمت کے مطابق نیکی کے دیگر اعمال کے ساتھ ۲۴گھنٹے میں جب وقت ملے( وضوہوتو نورعلی نور) اور بہتر ہوگا کہ ایک جگہ بیٹھ کر پڑھے ورنہ چلتے پھرتے بھی پڑھ سکتاہے‘‘
۱۔ سبحان اللہ — ۲۰۰ بار
۲۔ الحمدللہ — ۲۰۰بار
۳۔ لا الہ الا اللہ — ۲۰۰بار
۴۔ اللہ اکبر — ۲۰۰بار
۵۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم — ۲۰۰ بار
۶۔ نماز والا درود شریف — ۲۰۰ بار
۷۔ استغفراللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ — ۲۰۰ بار
۸۔ ناظرہ خواں کے لیے قرآن پاک کی تلاوت روزانہ ایک پاؤ اور حافظ کے لیے کم از کم ایک پارہ
میرا بیعت کا تعلق سلسلہ قادریہ میں حضرت مولانا عبیداللہ انورؒ سے تھا ۔ ان کے بعد میں نے حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ سے بیعت کاتعلق قائم کیا ۔ لیکن یہ بیعت محض نسبت اور تعلق ہی کے درجہ میں تھی۔ اس سلسلہ میں سلوک کے منازل طے کرنے کی نوبت نہیںآئی۔ حضرت مولانا عبیداللہ انور ؒ سے ایک بار سلوک کے اسباق کا تذکرہ کیا تو انہوں نے سرسر ی انداز میں فرمایا کہ تم جو دینی جدوجہد کر رہے ہو۔ یہی تمہارے اسبا ق ہیں۔ میں نے اسے غنیمت سمجھا اور اس کے بعد کبھی دریافت ہی نہیں کیا۔ اب حضرت والد محترم ؒ نے مجھے اپنے خلفاء کی فہرست میں شامل کیا ہے تو مجھے حجاب سا محسوس ہو رہاہے کہ نہ میں اس لائن کا آدمی ہوں او رنہ ہی اس کی اہلیت رکھتا ہوں۔ حضرت والد محترم ؒ کی وفات کے بعد بہت سے دوستوں نے تجدید بیعت کے لیے مجھ سے رجوع کیا ہے مگر میں مسلسل ٹالنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
حضرت والد محترم ؒ نے بیماری کے دنوں ایک بار مجھے بطور خاص فرمایا کہ میں تصوف وسلوک کے موضوع پر کوئی کتاب نہیں لکھ سکا۔ اب اس پر تم نے لکھنا ہے اور اس سلسلہ میں حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ اور حضرت مولانا محمد منظور نعمانی ؒ کی کتابیں ضرور پڑھ لینا۔ میں نے ان سے وعدہ تو کر لیا مگر وہی حجاب آڑے آرہاہے کہ میں اس دنیا کا شخص نہیں ہوں۔ میری سرگرمیوں کامیدان اور ہے۔ ایک رکاوٹ اور بھی ہے کہ کسی موضوع پر باقاعدہ کتاب لکھنے کا میرا ذوق نہیں ہے۔ گزشتہ چالیس برس سے مضامین ہی لکھ رہا ہوں اور مزاج یہ پختہ ہوگیاہے کہ کوئی بھی موضوع ہو، اختصار کے ساتھ زیادہ سے زیادہ دو تین قسطوں میں اسے نمٹا دیتا ہوں۔ اس سے زیادہ کسی موضوع پر میں لکھ ہی نہیں سکتا۔ ادھر حضرت والد محترم ؒ کے ساتھ وعدہ بھی یاد ہے۔ اس لیے سوچ رہا ہوں کہ تصوف وسلوک کے بار ے میں کسی بہانے آٹھ دس محاضرات کاسلسلہ کسی جگہ ہوجائے اورانہیں پھر کتابی شکل دے دی جائے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ وہ میرے لیے خصوصی طورپر اس بات کی دعافرمائیں کہ میں اس وعدہ کی جلد از جلد تکمیل کرسکوں ۔ آمین یا رب العالمین۔
حضرت والد محترم ؒ کا دم اور تعویذکا سلسلہ بھی تھا۔ گگھڑ اورگوجرانوالہ میں دم کرانے اور تعویذ لینے والوں کے لیے لوگ ان سے رجوع کیاکرتے تھے ۔ وہ اس کا معاوضہ نہیں لیتے تھے، البتہ کوئی اپنی خوشی سے تنگی محسوس کیے بغیر کچھ دے دیتا تو انکار پر اصرار نہیں کرتے تھے۔ بہت سے لوگ ان سے دم اور تعویذات کی اجازت مانگتے تھے جس پر انہوں نے وہ تین روزے رکھنے کی شرط پر اجازت دے دیتے تھے اوراپنے تجربات بھی لکھ کر دیتے تھے۔
والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ گزشتہ آٹھ نو برس سے صاحب فراش تھے، مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان کی یادداشت آخر وقت تک قائم رہی اور علمی دلچسپی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ نظر کمزور ہو گئی تھی اور کسی کو ویسے نہیں پہچانتے تھے، لیکن تعارف کرا دیا جاتا تو پھر ساری باتیں ان کو یاد آ جاتیں اور وہ جزئیات تک دریافت کرتے تھے۔
مجھے جمعہ کے دن شام کو تھوڑی دیر کے لیے حاضری کا موقع ملتا ‘ جب بھی طبیعت کچھ بحال ہوتی تو کسی نہ کسی کتاب سے کچھ سنانے کی فرمائش کرتے اور احادیث کی کسی کتاب میں سے چند احادیث سنا دیتا ‘ ان کے سامنے پڑھتے ہوئے ڈر بھی رہتا تھا کہ چھوٹی سے چھوٹی غلطی بھی ان کی گرفت سے نہیں بچ پاتی تھی۔ ایک بار ایک حدیث سناتے ہوئے ایک لفظ پر میں اٹک گیا بعد میں حیرت بھی ہوئی کہ کئی دفعہ یہ حدیث پڑھنے پڑھانے میں آئی ہے یہ اٹک درمیان میں کیسے آ گئی؟ بہرحال میں جب اٹک گیا تو لفظ بھی بتایا اور اس کا مفہوم بھی بتایا۔ متعدد بار ایسا ہوا کہ کسی حدیث کی تلاش میں ذہن کام نہیں کر رہا اور تلاش کے باوجود نہیں مل رہی تو وہ بتاتے کہ فلاں کتاب کے فلاں باب میں دیکھو اور وہ حدیث وہیں مل جاتی۔ یہ باتیں ان کی صحت کے دور کی نہیں بلکہ اس بیماری کے دور کی ہیں جبکہ وہ اپنی مرضی سے کروٹ بھی نہیں بدل سکتے تھے۔ لیکن ذہنی استحضار کا یہ عالم تھا کہ ہمیں رشک آتا تھا۔
ایک موقع پر ہم تین چار بھائی حسب معمول جمعہ کی شام کو ان کے پاس موجود تھے تو طبیعت میں بشاشت تھی۔ مجھ سے قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ کے بارے میں پوچھا کہ وہ کون سی سورت میں ہے، میں نے بتادیا۔ خیال تھا کہ کسی مسئلہ کے حوالہ سے پوچھ رہے ہیں، لیکن جب اسی آیت کے بارے میں دوسرا سوال کیا تو اندازہ ہوا کہ ویسے نہیں پوچھ رہے، امتحان لے رہے ہیں۔ چھوٹے بھائی قاری عزیز الرحمن شاہد بھی موجود تھے جو جدہ میں رہتے ہیں اور ان دنوں گکھڑ آئے ہوئے ہیں۔ میں انہیں آگے کر کے ان کی اوٹ میں ہو گیا اور پھر ان کا امتحان شروع ہو گیا۔ ان سے متعدد آیات کے بارے میں پوچھا اور جو آیت پوچھتے، اس کے ساتھ یہ کہتے کہ اس سے پہلے والی آیت بھی سناؤ۔ ہمیں اس بات پر خوشی تھی کہ آج طبیعت ہشاش بشاش ہے اور بابا جی موڈ میں ہیں۔
میری حاضری پر وہ زیادہ تر ملکی حالات کے بارے میں دریافت کرتے۔ ان دنوں سوات کی صورت حال کے بارے میں سخت پریشان تھے۔ اخبارات سننے کا معمول تھا‘ حالات سے واقف رہتے تھے اور سوال و جواب بھی کرتے تھے۔ میرے کالم بھی اہتمام سے سنتے تھے اور ان کے بعض مندرجات کے بارے میں بات بھی کرتے تھے۔ میں نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے امتیوں کے لیے ’’آئیڈیل‘‘ ہیں۔ اس کے بعد حاضری ہوئی تو پوچھنے لگے کہ یہ آئیڈیل کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ اسوہ حسنہ کا آزاد ترجمہ ہے۔
چند ماہ قبل فرمانے لگے کہ لغت کی کوئی مستند کتاب تمہارے پاس ہو تو مجھے لا دو۔ میں نے عرض کیا کہ آپ اسے اس حالت میں کیا کریں گے؟ فرمایا کہ کسی وقت ضرورت پڑ جاتی ہے۔ میں نے بازار سے ایک کتاب خرید کر پیش خدمت کر دی، بہت خوش ہوئے۔ پھر ایک دن فرمایا کہ اللولو والمرجان مل جائے گی؟ میں نے عرض کیا کہ مل جائے گی۔ وہ بھی میں نے بازار سے لا کر پیش کر دی۔ گزشتہ ماہ میں برطانیہ کے سفر پر جانے لگا اور عرض کیا کہ واپسی پر عمرہ کا ارادہ بھی ہے تو خوش ہوئے، دعا دی اور فرمایا کہ سنا ہے کہ ’’مسند ابی یعلی‘‘ چھپ گئی ہے۔ اگر مل جائے تو میرے لیے لیتے آنا۔ میں نے اسے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے متعدد کتب خانوں میں تلاش کیا، مگر نہ ملی۔ واپسی پر جدہ میں اپنے میزبان قاری محمد اسلم شہزاد صاحب سے، جو میرے ہم زلف ہیں، عرض کیا کہ کتاب لیے بغیر واپس جانے کو جی نہیں چاہتا۔ حضرت والد صاحب نے فرمایش کی ہے اور وہ مل نہیں رہی۔ ہم نے ایک راؤنڈ جدہ کے کتب خانوں کا لگایا تو دو تین کتاب خانوں کی چھان بین کے بعد ایک مکتبہ میں وہ مل گئی اور مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ مجھ سے زیادہ قاری صاحب خوش ہوئے‘ قیمت بھی مجھے ادا نہیں کرنے دی اور کہا کہ یہ ہدیہ میری طرف سے پیش کر دیں۔
۱۴ ؍اپریل سے ۲۶؍اپریل تک میں برطانیہ میں تھا اور اس کے بعد حرمین شریفین حاضری دے کر وطن واپس آنے کا ارادہ تھا۔ جاتے ہوئے حضرت والد محترمؒ سے مل کر اور ان کی دعا لے کر گیا تھا، مگر برطانیہ میں قیام کے دوران اس اطلاع نے پریشان کر دیا کہ ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے اور خون کی قے آئی ہے۔ اضطراب کی وجہ واضح تھی اور میں اس سے قبل یہ صدمہ دیکھ چکا تھا کہ ہماری چھوٹی والدہ مرحومہ کا جب انتقال ہوا تو میں شکاگو میں تھا اور آخری زیارت اور جنازے سے محرومی نے زندگی میں پہلی بار شدت کے ساتھ اس بات کا احساس دلایا تھا کہ بے بسی کسے کہتے ہیں۔ پریشانی اور بے چینی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ حضرت والد صاحبؒ نے مجھے کہہ رکھا تھا کہ میرا جنازہ تم نے خود پڑھانا ہے۔ گھر فون کر کے معلوم کیا تو بتایا گیا کہ طبیعت کچھ سنبھل گئی ہے۔ قدرے اطمینان ہوا مگر سفر کے اختتام تک پریشانی دل و دماغ پر سوار رہی۔ یکم مئی بروز جمعرات گھر واپس پہنچا تو حسب معمول اگلے روز جمعہ کی شام کو حضرت والد صاحب کی خدمت میں حاضری دی۔ طبیعت زیادہ خراب تھی۔ حضرت کے معالج ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب اور خادم خصوصی حاجی محمد لقمان میر اور مولانا محمد نواز بلوچ موجود تھے۔ میں نے کتاب دکھائی تو دیکھ کر اشارہ کیا کہ وہاں رکھ دو۔
کچھ دنوں سے مسلسل خاموشی تھی۔ کچھ کھا پی بھی نہیں رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ کوشش کریں، کچھ کھا پی لیں اور باتیں بھی کریں۔ میں نے گزارش کی تو ایک آدھ گھونٹ پانی پیا اور پھر انکار کر دیا۔ میں نے سفر کے حالات کا تذکرہ شروع کر دیا تو ہلکا ہلکا اشارہ کرتے رہے۔ ہماری کوشش تھی کہ کچھ بولیں مگر کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے ان کی نواسیوں کا ذکر کیا جو برطانیہ میں رہتی ہیں۔ میں نے ان کا نام لیا اور بتایا کہ میں ان کے پاس بھی گیا تھا تو ہلکی سی توجہ کی اور اشارے سے ان کا حال پوچھا۔ بس میری یہ آخری ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد ہم تین چار بھائی تھوڑی دیر کے لیے پھر ان کے پاس بیٹھے اور کچھ آپس کا حساب کتاب ان کے سامنے کیا۔ اس موقع پر ہم سب گھر والے یعنی میری اہلیہ‘ محمد عمار خان ناصر، اس کی اہلیہ اور دونوں بچے صحت کا حال معلوم کرنے کے لیے گکھڑ گئے تھے اور یہ آخری ملاقات ہم سب کی اکٹھی ہوئی۔
۴؍ مئی کو رات ڈیڑھ بجے کے لگ بھگ فون کی گھنٹی بجی۔ فون اٹھایا تو دوسری طرف برادر عزیز قاری حماد الزہراوی صاحب تھے۔ دل دھڑکا کہ خدا خیر کرے۔ انہوں نے گلو گیر لہجے میں بتایا کہ حضرت والد صاحب کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے اور اب بظاہر کوئی امید دکھائی نہیں دے رہی۔ زبان پر بے ساختہ دعا جاری ہوئی۔ ابھی اسی شش و پنج میں تھا کہ برادرم قاری راشد خان کا فون آیا اور انہوں نے روتے ہوئے انا للہ وانا الیہ راجعون کہا تو امید کی آخری کرن بھی گل ہو گئی اور انا للہ وانا الیہ راجعون کہتے ہوئے اہلیہ کو جگایا۔ وہ یہ اچانک خبر سن کر رونے لگ گئیں۔ تھوڑی دیر میں حاجی محمد فیاض خان سواتی صاحب کا فون آیا۔ ہم نے ایک دوسرے سے تعزیت کی اور پھر گکھڑ جانے کی تیاری میں لگ گئے۔ اس سے چند گھنٹے پہلے میں نے عشا کی نماز تلونڈی موسیٰ خان کے قریب گاؤں پیروچک میں پڑھائی اور اس کے بعد درس دیا تھا۔ درس کے دوران گفتگو اس مسئلہ پر آ گئی کہ اخبارات میں ’’آپ کا ہفتہ کیسے گزرے گا؟‘‘ کے عنوان سے کہانت کا جو کاروبار چل رہا ہے، یہ وہی کہانت ہے جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں موجود تھی اور آپ نے جاہلیت کی دیگر بہت سی اقدار و روایات کے ساتھ اس کا بھی خاتمہ کر دیا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ تمہیں آنے والے کل کی خبر نہیں کہ تم کیا کرو گے اور آنے والا کل تو بہت دور ہے، آج رات کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ ہم کیا کریں گے یا ہمارے ساتھ کیا ہو گا؟ اس کے صرف چند گھنٹے کے بعد ہمارے ساتھ یہ کچھ ہو گیا جس کا صدمہ رہتی زندگی تک ہمارے ساتھ رہے گا۔
سچی بات ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کی تعزیت کے مستحق ہیں۔ ان کا کوئی عقیدت مند تعزیت کے لیے آتا ہے تو میری کوشش ہوتی ہے کہ اس سے تعزیت کروں، اس لیے کہ یہ اجتماعی صدمہ ہے‘ ملی صدمہ ہے اور عظیم دینی صدمہ ہے۔ مگر میں اس موقع پر حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کے ان خدام کو سب سے زیاد تعزیت کا مستحق سمجھتا ہوں جنہوں نے ان کے صاحب فراش ہونے کے دوراں سالہا سال تک ان کی خدمت کی۔ بالخصوص برادر عزیز قاری راشد صاحب جو ہمارے سب سے چھوٹے بھائی ہیں اور ان کے ساتھ ڈاکٹر فضل الرحمن ‘ حاجی محمد لقمان میر، ‘ مولانا محمد نواز بلوچ ‘ نعیم بٹ‘ ہمارے بھانجے مولانا داؤد خان نوید اور گھر کی وہ بچیاں جو مسلسل خدمت میں مصروف رہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزاے خیرسے نوازیں۔
اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانیوں میں سے ایک یہ بھی ہوئی کہ ان کی وفات پر ہم سب بھائی خلاف معمول یہاں موجود تھے۔ میں سفر سے واپس پہنچ گیا تھا۔ ہمارے چھوٹے بھائی قاری عزیز الرحمن خان شاہد کئی سالوں سے جدہ میں مقیم ہیں اور تحفیظ القرآن کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، وہ گزشتہ ماہ بچوں سمیت آ گئے تھے۔ ہمارے ایک بھائی مولانا رشید الحق عابد سلمہ جنہیں ہم پیر عابد صاحب کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ وہ بھی دو روز پہلے گکھڑ آ چکے تھے۔ بقیہ برادران مولانا عبدالقدوس قارن‘ مولانا عبدالحق خان بشیر‘ مولانا قاری حماد الزہراوی‘ قاری عنایت الوہاب خان ساجد‘ قاری منہاج الحق خان راشد اور ہمارے مرحوم بھائی قاری محمد اشرف خان ماجدؒ کے فرزند حافظ انصر خان اپنے اپنے گھروں میں موجود تھے۔ اس طرح ہم سب بھائی حضرت والد محترمؒ کے سفر آخرت کے وقت حاضر تھے۔ ہمشیرگان میں سے ایک مجھ سے بڑی ہیں جو آبائی علاقے اچھڑیاں شنکیاری میں ہیں، وہ اور ہمارے بڑے بہنوئی حاجی سلطان محمود خان بھی وقت پر پہنچ گئے۔ چھوٹی ہمشیرہ گوجرانوالہ میں ہیں۔ وہ بھی اپنے خاوند حافظ محمد شفیق صاحب‘ فرزند مولانا محمد داؤد خان نوید اور بچیوں کے ہمراہ موجود تھیں۔ ہماری منجھلی ہمشیرہ جو جہلم میں ہیں اور ان کے خاوند مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ کا گزشتہ ماہ انتقال ہوا ہے، ان کے لیے یہ صدمہ دہرا ہو گیا کہ خاوند کی وفات کے بعد والد محترم کی وفات کے صدمہ سے دوچار ہونا پڑا۔ وہ بھی جنازے کے دن پہنچ گئیں۔
حضرت والد صاحبؒ کی وفات کے روز ہم سب بھائی گکھڑ میں جمع ہوئے تو جنازے کے لیے موزوں جگہ اور تدفین کے مقام کے بارے میں باہمی مشورہ ہوا۔ گکھڑ میں سب سے بڑی گراؤنڈ ڈی سی ہائی سکول کی ہے۔ ہم نے صبح اسے ایک بار دیکھا۔ اندازہ تھا کہ اس میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد نماز جنازہ ادا کر سکیں گے۔ ہمارا خیال اسی کے لگ بھگ تھا، مگر شام کو جنازے کے وقت دیکھا کہ ہمارا اندازہ درست نہیں تھا۔ گراؤنڈ اس قدر بھری ہوئی تھی کہ اندر مزید لوگوں کے آنے کی گنجایش نہیں تھی، جبکہ باہر جی ٹی روڈ اور اس کے ساتھ ملحقہ دو روڈوں پر عوام کا بے پناہ ہجوم تھا اور جی ٹی روڈ، ٹریفک کے رش کی وجہ سے خاصی دیر تک جام رہی۔ ایک دوست نے بتایا کہ وہ ایک کلومیٹر کا فاصلہ تین گھنٹے میں طے کر پائے۔ عوام کا ہجوم ہماری توقعات سے کئی گنا زیادہ تھا اور ہم اس کے مطابق انتظام نہیں کر پائے تھے۔ اس لیے ہوا یہ کہ جتنے حضرات نے نماز جنازہ پڑھی، کم و بیش اتنے ہی لوگ نماز جنازہ نہ پڑھ سکے اور ٹریفک کے ہجوم میں پھنسے رہے۔ رحیم یار خان سے پشاور تک کے شہروں سے قافلے آئے جن میں سے بہت سے راستہ میں ہی رہ گئے اور جنازہ تک نہ پہنچ سکے۔
حضرت والد محترمؒ کی زندگی بھر یہ روایت رہی ہے کہ وقت کی پابندی میں ضرب المثل تھے۔ ان کے بارے میں اور مولانا ظفر علی خان مرحومؒ کے بارے میں واقف حال لوگوں کا کہنا ہے کہ لوگ ان کے معمولات دیکھ کر اپنی گھڑیاں ٹھیک کیا کرتے تھے۔ ہم نے جناز ے کا اعلان یہ کر رکھا تھا کہ سوا پانچ بجے عصر کی نمازیں ارد گرد کی مساجد میں ہو جاتی ہیں، اس لیے نماز پڑھتے ہی ساڑھے پانچ بجے نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔ برادرم قاری حماد الزہراوی صاحب نے، جو حضرت والد محترمؒ کی جگہ گکھڑ میں مسجد و مدرسہ کے معاملات ان کی علالت کے بعد سے بحسن و خوبی چلا رہے ہیں‘ یہ کہا کہ نماز جنازہ میں تھوڑی تاخیر کر لی جائے۔ میں نے عرض کیا کہ ہم کم از کم ان کی ایک روایت کو تو قائم رکھیں کہ وہ جس وقت کا اعلان کرتے تھے، اس سے ایک منٹ بھی آگے پیچھے نہیں ہوتے تھے۔ چنانچہ جنازے سے پہلے تشریف لانے والے ممتاز راہنماؤں کے خطاب کا سلسلہ جاری تھا۔ علامہ ڈاکٹر خالد محمود‘ حافظ حسین احمد‘ مولانا سمیع الحق‘ مولانا محمد احمد لدھیانوی‘ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری‘ مولانا قاضی محمدرویس خان ایوبی، مولانا پیر عبدالرحیم نقشبندی اور دیگر بہت سے علما خطاب کر چکے تھے اور بہت سے راہنما باقی تھے کہ عین وقت پر میں نے مائیک سنبھال لیا اور ٹھیک ساڑھے پانچ بجے اعلان کے مطابق اور حضرت والد محترمؒ کی روایت کے مطابق نماز جنازہ کے لیے اللہ اکبر کی صدا بلند کر دی۔ بہت سے دوستوں نے بعد میں شکوہ کیا کہ اگر بیس تیس منٹ نماز جنازہ میں تاخیر کر دی جاتی تو بے شمار مزید حضرات بھی جنازے میں شریک ہو سکتے تھے، مگر میں مطمئن ہوں کہ ہم نے حضرت والد محترمؒ کی کسی ایک روایت پر تو عمل کر لیا‘ فالحمد للہ علیٰ ذلک۔
تدفین کے بارے میں بات چلی تو میں نے عرض کیا کہ حضرت والد محترم اس بارے میں کسی تخصیص کو پسند نہیں کرتے تھے، اس لیے عام قبرستان ہی بہتر ہے۔ گکھڑ میں آپ جی ٹی روڈ پر آ جا رہے ہوں تو شہر کے وسط میں مشرق کی جانب بٹ دری فیکٹری کے عقب میں ایک قبرستان ہے جو جی ٹی روڈ سے صرف چند گز کے فاصلے پر ہے۔ اس قبرستان میں ہماری دادی مرحومہ‘ پھوپھی مرحومہ‘ ہماری دونوں مرحومہ مائیں‘ ہمارے بھائی قاری محمد اشرف خان ماجد مرحوم اور ان کے دو فرزند محمد اکرم اور محمد اکمل مدفون ہیں۔ طے ہوا کہ اسی میں تدفین ہوگی۔ کوشش کی گئی کہ دادی مرحومہ کے قریب جگہ مل جائے تو بیٹے کو ماں کی گود میں ہی سلا دیا جائے، مگر اس کے اردگرد کوئی جگہ نہ ملی تو قبرستان کی عام گزرگاہ کے ساتھ پہلی لائن میں موجود ایک خالی جگہ کو غنیمت سمجھا گیا اور وہیں قبر کی کھدائی کا فیصلہ کر لیا گیا۔
میں نے کچھ عرصہ قبل ایک خواب دیکھا تھا کہ گکھڑ میں حضرت والد محترمؒ کی مسجد کے دروازے سے باہر نکلتے ہوئے بائیں جانب جی ٹی روڈ کے ساتھ جو کھلی جگہ ہے، وہاں صاف ستھرے پانی کا ایک بڑا تالاب ہے۔ اس تالاب میں سے ایک بہت بڑی مچھلی اچھلی ہے اور فضا میں تھوڑی دیر نظر آ کر دوبارہ اسی تالاب میں ڈبکی لگا کر غائب ہو گئی ہے۔ اس پر خواب میں، میں نے یا میرے ساتھ کھڑے ایک صاحب نے تعجب کا اظہار کیا کہ سمندر کی مچھلی تالاب میں کیسے آ گئی ہے؟ اس خواب کے بعد میرے دل میں یہ دھڑکا مسلسل لگا رہتا تھا کہ علم کے سمندر کی یہ بڑی مچھلی گکھڑ کے تالاب میں کسی بھی وقت ڈبکی لگا کر نظروں سے اوجھل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ ۵؍ مئی بروز منگل عین اس وقت جب ادھر سورج غروب ہو رہا تھا، آسمان علم و معرفت کے اس سورج کو بھی لحد میں اتارا جا رہا تھا۔ میں نے اس موقع پر ساتھیوں سے عرض کیا کہ ہم ایک پوری لائبریری کو زمین میں دفن کر رہے ہیں۔
حضرت والد محترم سے وابستہ یادوں کا یہ سلسلہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر پھیلا ہوا ہے۔ ان کے پرت یکے بعد دیگرے کھلتے ہی چلے جائیں گے اور ہر موقع پر کوئی نہ کوئی یاد تازہ ہوتی رہے گی۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی وفات پر لوگوں کو روتے ہوئے دیکھ کر مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے کہا تھا کہ تم کیوں روتے ہو؟ تمہارے لیے تو ہم ہیں۔ رونے کا حق تو ہمارا ہے کہ ہمارے لیے کوئی نہیں رہا۔ آج اہل علم یتیم ہو گئے ہیں کہ مشکل وقت میں راہنمائی کے لیے جن سے رجوع کیا کرتے تھے‘ وہ ہم سے رخصت ہو گئے ہیں۔ اب ان کا یہ حق ہے کہ ان کی زندگی سے سبق حاصل کیا جائے، ان کی جدوجہد سے استفادہ کیا جائے، ان کے مشن کو زندہ رکھا جائے، ان کی حسنات کے تسلسل کو قائم رکھاجائے، ان کے لیے دعاے مغفرت کی جائے اور ان کے صدقات جاریہ کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات کو بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔