حضرت دادا جان رحمہ اللہ ایک مایہ ناز مدرس اور قابل فخر معلم تھے۔ ہزاروں تشنگانِ علم نے دور دور سے آکر آپ سے کسبِ فیض کیا۔ بالخصوص آپ کا شعبان رمضان کی سالانہ چھٹیوں میں منعقد ہونے والا چالیس روزہ دورۂ تفسیر تو ایسا مشہور ومقبول ہوا کہ اس کی مثال دیکھنے میں نہیںآتی۔ دارالعلوم دیوبند (ہندوستان)، بنگلہ دیش، ایران، سعودی عرب، انڈونیشیا، جنوبی افریقہ، افغانستان اور برما سمیت دنیا بھر سے طلبہ جوق در جوق آپ کے دورۂ تفسیر میں شریک ہوتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے۔ آپ کے سینکڑوں شاگرد دنیا بھرمیں حدیث پاک کی خدمت میں مصروف ومشغول ہیں۔ کتب احادیث پر آپ کی گہری نظر تھی۔ حافظہ اس قدر غضب کا تھا کہ دورانِ درس پورے اعتماد کے ساتھ ایسی کتب کے حوالے دیتے تھے جن کا مطالعہ آپ رحمہ اللہ نے کئی کئی سال قبل کیا ہوتا تھا۔ اکثر صفحہ نمبر بھی بتا دیتے اور بعض اوقات تو عبارات بھی پڑھ کر سنا دیتے۔ خاص طور پر کتب حدیث اور جلالین شریف کی عبارات تو اکثر زبانی پڑھ دیتے اور پھر بعض اوقات طلبہ کے اطمینان کی خاطرکتاب کھول کر طلبہ کی تسلی بھی کرا دیتے تھے۔ اس کے علاوہ کتب تفاسیر مثلاً قرطبی، روح المعانی، کشاف، مظہری اور دیگر کتب کے حوالے بمع صفحہ نمبر بتا تے تھے۔ خود فرماتے تھے کہ ’’اب تو بوڑھا ہوگیا ہوں، زیادہ مطالعہ نہیں کرسکتا۔ جس زمانہ میں تندرست تھا، الحمدللہ بہت تفسیریں دیکھی ہیں، سب کی باتیں ابھی تک صفحہ نمبرسمیت یاد ہیں‘‘۔ مطالعہ اس قدر وسیع تھا کہ دنیا بھر میں مثال ملنا مشکل ہے۔ بعض اوقات آپ رحمہ اللہ تحدیث نعمت کے طور پر خود فرمایا کرتے تھے کہ ’’برصغیر میں شاید ہی کسی نے اتنامطالعہ کیا ہو جتنا مطالعہ کرنے کی بفضلہ تعالیٰ مجھے توفیق ملی ہے‘‘۔
بات سمجھانے اور اسے اچھی طرح ذہن نشین کرانے کا ملکہ خداوند قدوس نے آپ کو کامل واکمل طور پر عطا کیا تھا۔ الفاظ کو ایسا واضح اور صاف بولتے کہ ایک ایک لفظ دل میں اترتاچلا جاتا اور ہر ہر بات کا مفہوم ذہن نشین ہوتا چلا جاتا تھا۔ خاص طور پر مشکل الفاظ اور عبارات تو ایسے واضح فرماتے کہ سامع کے ذہن میں کئی کئی سال تک وہ لفظ صحیح تلفظ اور درست اعراب کے ساتھ گونجتا رہتاتھا۔ خود احقر نے ان کے دورہ تفسیر کی سی ڈیزسنیں۔ کئی ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک اُن کے الفاظ اور انداز، مشکل الفاظ کو زور دے کر واضح کرنا، نہایت ہی پیارا اور دلنشین آسان ترجمہ کرنا، کتب تفسیروحدیث کے حوالوں پہ حوالے دینا، جن آیات سے اہل باطل استدلال کرتے ہیں، اُن کی نشان دہی کرنا اور ان کے استدلال کا طریقہ اور اس کا ردبتانا، اور جن آیات سے اہل باطل کے خلاف استدلال کیاجاتا ہے، اُن سب کی بھی نشان دہی کرنااور طریق استدلال خوب ذہن نشین کرانا، صرفی نحوی اشکالات اور قابل قدر اعتراضات کا تسلی بخش، باحوالہ، مدلل جواب دینا، طلبہ کرام کو بے حد مشفقانہ انداز سے مخاطب کرنا، سبق میں توجہ رکھنے کی خاطر کوئی کوئی مقام کسی سے سن لینا، دوران سبق دلچسپی کا پورا سامان مہیا کرنا، یہ سب کچھ ذہن میں گھوم رہا ہے اور ان کی دل کش آواز کانوں میں گونجتی محسوس ہو رہی ہے۔ خاص طور پر اُن کا جملہ ’’اے مخاطب‘‘ تو احقر کو بہت ہی بھاتا تھا۔ ابھی تک لہجہ کی حلاوت اور مٹھاس محسو س ہورہی ہے۔ یہ تو سی ڈیز سننے والے کا حال ہے، جن خوش نصیبوں نے آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ کے درس کے مزے لوٹے ہوں گے، ان کی کیا کیفیت ہوگی!
کریما سے لے کر بخاری شریف تک تمام کتب کئی کئی سال آپ کے زیر درس رہیں۔ خاص طور پر بخاری شریف تو تقریباً مسلسل پچاس سال آپ کے زیرِ درس رہی۔ ۲۰۰۱ میں فالج کی بنا پر جب تدریس چھوڑی تو ایک دن مجھے فرمایا کہ ’’بیٹا! سب سے لمبی سروس اس وقت میری ہے۔ میں نے کل ستر سال تدریس کی ہے، لیکن اب کمزور ہوگیا ہوں، ہمت نہیں رہی، اس لیے میں نے نصرۃ العلوم سے استعفا دے دیا ہے۔ وہ بھی پریشان ہیں کہ اُن کو کوئی پرانا آدمی نہیں مل رہا۔ دعا کرنا اللہ خیر کرے‘‘۔ اُس وقت میری عمر تقریباً تیرہ سال تھی۔ میں اس قدر حیران ہوا اور سوچنے لگا کہ داداجان نے مجھے بلا کر یہ بات کیوں بتائی؟ یہ عقدہ تاحال حل نہیں ہو سکا۔
سنا تھا کہ اللہ درس حدیث کے دوران جب امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد زادہ بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے آپ کے سامنے آتے تو آپ احتراماً کھڑے ہو جاتے تھے۔ اس کی عملی صورت بندہ نے یا تو اپنے ناناجی قائد اہل السنۃ وکیل صحابہ حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب نوراللہ مرقدہ کے ہاں دیکھی یا پھر حضرت داداجان رحمہ اللہ کے ہاں نظر آئی۔ استاد زادہ‘ جو ہر لحاظ سے آپ سے چھوٹے شمار ہوتے تھے، ان کا اس قدر ادب کرتے کہ عقل دنگ رہ جاتی۔ ’’شیخ الاسلام سیمینار‘‘ بہاولپور میں، میں نے یہ منظر دیکھا کہ جب فرزند شیخ مدنی رحمہ اللہ حضرت مولانا سید محمد ارشد مدنی دامت برکاتہم آپ کو ملنے کے لیے تشریف لائے تو آپ کی خوشی اور مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ باوجود بڑھاپے، کمزوری اور فالج کے آپ گویا احتراماً بچھے جاتے تھے۔ ملتے ہی پہلے سنت کے مطابق مصافحہ کیا، پھر اپنے استاد زادہ کے ہاتھ چومے، آنکھوں سے لگائے، بڑی ہی عقیدت اور محبت سے بٹھایا اور حال احوال دریافت کیے۔ اس قدرادب دیکھ کر ناظرین حیران وششدر رہ گئے، کیونکہ مولاناارشد مدنی مدظلہ آپ سے ہر لحاظ سے چھوٹے تھے۔ پھر یہی منظر جامعہ مفتاح العلوم سرگودھا کے سالانہ جلسے پر نظر آیا کہ آپ بستر پر لیٹے ہوئے تھے جب حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ آپ سے ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ باوجود یکہ آپ خود اٹھنے سے بالکل قاصر تھے، بار بار اٹھنے کی کوشش کرتے۔ یہاں بھی پہلے مصافحہ کیا، پھر استاد زادہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر ہونٹوں کے قریب لے جانا چاہا تو حضرت مفتی صاحب نے شرمندگی سے پیچھے کھینچا اور عرض کیا کہ حضرت میں اس قابل نہیں، مگر آپ باوجود انتہائی ضعف کے برابر ہاتھ ہونٹوں کے قریب لے جانے کی کوشش کرتے رہے۔ بالآخر مفتی صاحب نے آپ کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئے ہاتھ ڈھیلا کردیا اور آپ نے اس پر بوسہ دیا۔
شیخ الاسلام سیمینار (بہاولپور) میں شرکت کے لیے جب آپ اسٹیج پر پہنچے تو انتظامیہ کی طرف سے آپ کو ایک بیج لگایا گیا جس پر آپ کا نام درج تھا تاکہ سامنے بیٹھنے والے سامعین کو بزرگوں کی پہچان میں سہولت اور آسانی ہو۔ آپ نے جب بیج لگتے دیکھا تو بڑے ہی دلفریب اورمزاحیانہ انداز سے مسکراتے ہوئے مجھ سے سوال کیا ’’یہ بیج اس لیے لگایا ہے کہ کہیں ’’بابا‘‘ گم نہ ہوجائے؟‘‘ میں نے جواباً عرض کیا کہ نہیں، یہ اس لیے لگا یا ہے کہ ’’باباجی‘‘ بھاگ نہ جائیں۔ یہ سن کر آپ خوب مسکرائے۔ داداجان رحمہ اللہ فرمایا کرتے کہ’’ خدمت تو کرو مگر صرف شوق اور جذبے کو ملحوظ نہ رکھا کرو بلکہ عقل اور سمجھ سے کام لے کر حسبِ ضرورت خدمت کیا کرو۔‘‘ بعض حضرات جو فقط شوق اور جذبے سے سرشار ہو کر آپ کی خدمت کرتے توآپ ان کو ’’مخلص للّے‘‘ کے لقب سے نوازتے اورفرماتے کہ یہ بے چارے ہیں تو مخلص، مگر ہیں للّے۔ کام کا ڈھنگ نہیں آتا۔
فالج کی وجہ سے آپ بالکل حرکت کرنے سے بالکل عاجز تھے، چنانچہ راہوالی (گوجرانوالہ کینٹ) سے ایک ڈاکٹر صاحب روزانہ آپ کی مالش کرنے اور ورزش کرانے کے لیے آتے تھے۔ آپ کو چونکہ جسمانی تکلیف شدید تھی، ورزش تو دور کی بات ہے، اعضا کو چھیڑنے سے ہی درد کی لہریں اٹھنے لگتیں، مگر ’’دورانِ خون‘‘ جاری رکھنے اوراعضا کوجام ہونے سے بچانے کے لیے یہ ورزش بہت ضروری تھی۔ آپ تکلیف کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کو ورزش سے منع کردیتے مگرڈاکٹر صاحب مختلف حیلوں بہانوں سے کچھ نہ کچھ ورزش کرا ہی جاتے۔اس صورت حال کودیکھتے ہوئے آپ نے ڈاکٹر صاحب کو ’’ڈاکٹر جن‘‘ کے لقب سے ملقب فرمایا اور آخر تک اسی نام سے یاد فرماتے۔
خادم کے چھوٹے بھائی عبدالرحمن خان انس نے بچپن میں کہیں دادا جان اور نانا جان رحمہما اللہ کے اسماے گرامی کے ساتھ بڑے بڑے القابات دیکھے تو اسے بھی شوق ہو اکہ میں بھی اپنے نام کے ساتھ مختلف لقب لگاؤں۔ چنانچہ اس نے از خود ایک اشتہار پر ناناجان رحمہ اللہ کے نام کے ساتھ موجود القاب یاد کر لیے اور ان کو اپنے نام کا حصہ بنا لیا۔ ایک روز ہم گکھڑ میں تھے کہ داداجان نے انس کو بلایا اور اتفاقاً ہی نام پوچھاتو انس نے اپنا یاد کردہ نام مع القابات سنا نا شروع کر دیا: ’’پیر طریقت، رہبر شریعت، وکیل صحابہ حضرت مولانا عبدالرحمن خان انس نعمانی صاحب‘‘۔ یہ سنتے ہی داداجان مسکرائے اور والد صاحب کو بلاکر پوچھا کہ ’’اس کو کیا یاد کرایا ہے؟‘‘ والد صاحب اس سے قطعی بے خبر تھے، انہوں نے لاعلمی ظاہر کی۔ داداجان نے دوبارہ نام پوچھا تو حضرت انس صاحب نے اول تا آخر ساری کیسٹ پھر سے چلا دی۔ داداجان رحمہ اللہ نے پوچھا ’’ ابو کا کیا نام ہے؟‘‘ تو جواب ملا: ’’عبدالحق‘‘۔ فوراً دادا جان رحمہ اللہ کا ہلکا سا قہقہہ بلند ہوا۔ اس کے بعد جب بھی انس کو دیکھتے تو بلاتے اور فرماتے ’’نام تو سناؤ!‘‘ اور حضرت صاحب شروع ہوجاتے۔ بعض اوقات جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں جانا ہوتا۔ داداجان رحمہ اللہ مسجد کے برآمدے میں بیٹھ کر سبق پڑھا رہے ہوتے۔ انس سامنے سے گزرتا تو اسے بلاتے اور اسپیکر میں تمام طلبہ کو نام سنواتے۔ چنانچہ انس ’’پیر طریقت‘‘ کے نام سے مشہور ہوگیا، حتیٰ کہ ناناجان رحمہ اللہ بھی اسے ’’پیر طریقت‘‘ کہہ کر ہی بلاتے۔
علم وفضل کے کوہ گراں ہونے کے ساتھ ساتھ آپ دیانت وتقویٰ کے بھی پیکر تھے۔ چنانچہ آپ ان طلبہ کو ’’اجازتِ حدیث‘‘ ہر گز نہ عنایت فرماتے جو ابھی دورۂ حدیث کررہے ہوتے اور ’’بخاری شریف‘‘مکمل نہ کی ہوتی۔ جدید فضلا میں سے عام طور پر آپ سند اُن کودیتے جوکسی صحیح العقیدہ استاذ سے حدیث پڑھنے کے بعد وفاق کا امتحان دے چکے ہوتے، البتہ راے ونڈ کے فضلا کے لیے ’’وفاق‘‘ کے امتحان کی شرط نہ تھی۔بعض اوقات کسی موقع پر اُن حضرات کو بھی سند عنایت فرمادیتے جو بخاری مکمل کرنے کے بعد ’’وفاق‘‘ کے امتحان سے قبل اپنے اساتذہ سمیت جماعت کی شکل میں ’’اجازتِ حدیث‘‘ لینے آپہنچتے۔ اسی طرح اگر کسی جگہ ’’ختم بخاری شریف‘‘ کی تقریب میں جاتے تو ایسے فضلا جنہوں نے ابھی ’’وفاق‘‘ کا امتحان نہ دیا ہوتا، اُن کی اور اُن کے اساتذہ کی خواہش پر سند عنایت فرما دیتے تھے۔ ایک مرتبہ احقر نے آپ سے پوچھا کہ آپ دورانِ سال دورۂ حدیث والوں کو سند عنایت نہیں فرماتے، اس کی کیا وجہ ہے، جبکہ دیگر بعض اکابر تو ابتداے سال میں ’’افتتاحِ بخاری‘‘ کی تقریب میں ہی طلبہ کو ’’اجازتِ حدیث‘‘ اور سند دے دیتے ہیں؟ تو فرمایا: ’’بیٹا! یہ ایک امانت ہے، جسے حق دار تک پہنچانا ضروری ہے۔ غیر حق دار کو سند دینا دیانت کے خلاف ہے، اور نہ معلوم کون دورانِ سال بھاگ جائے، نہ پڑھے، تو اس صورت میں سند غیر حق دار کے پاس چلی جائے گی!‘‘ پھر فرمایا: ’’اگر چہ سب پڑھ بھی جائیں، لیکن ابھی ان میں سند کا استحقاق نہیں ہے، غیر مستحق کی گواہی میں کیوں دوں؟یہ تو جھوٹی گواہی ہوگی!اس لیے میں انہی کو سند دیتا ہوں جو ظاہری لحاظ سے اہلیت اور استحقاق پیدا کر چکے ہوتے ہیں۔ (یعنی دورۂ حدیث مکمل کرچکے ہوتے ہیں)۔‘‘
حضرت اقدس دادا جان رحمہ اللہ کی مسلک اہل السنۃ والجماعۃکے ساتھ گہری اور پختہ وابستگی سب پر عیاں ہے۔ اس سلسلہ میں وہ معمولی لچک کے بھی رودار نہ تھے اورمسلک کے حوالے سے ’’لایخافون لومۃ لائم‘‘ کے مظہر اتم تھے۔ مکہ مکرمہ کے رہنے والے ایک عرب گھرانے کے فرد محمد علوی مالکی صاحب (جو مذہباً بریلوی ہیں) نے ’الذخائر المحمدیہ‘ اور ’حول الاحتفال بذکری المولد النبوی شریف‘ کے نام سے دو کتابیں لکھیں۔ ان کتابوں کے بہت سے مندرجات پر سعودی عرب کے علما بورڈ کے ایک رکن اور مکہ مکرمہ کے قاضی شیخ عبداللہ بن سلیمان بن منیع نے اعتراض کیا اور ان کے رد میں ایک کتاب ۱۴۰۳ھ میں شائع کی جس کانام ’حوار مع المالکی فی رد منکراتہ وضلالاتہ‘ رکھا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد جب علوی صاحب کے حامیوں نے پاکستان میں ’مفاہیم یجب ان تصحح‘ کا اردو ترجمہ ’’اصلاح مفاہیم‘‘ کے نام سے شائع کیاتو اہل حق اسی وقت کھٹکے کہ شرک وبدعات کو اصل دین بتایا جا رہا ہے۔ چنانچہ اکابر اہل علم نے بروقت ان حضرات کی گرفت کی اور اپنے مضامین وفتاویٰ اور رسائل میں عوام الناس کو اس بات سے بخوبی آگاہ کیا کہ ’’اصلاح مفاہیم‘‘ شرک وبدعات پر مبنی عقائد واعمال کا پلندہ ہے جس پر توحید وسنت کا لیبل لگایا گیا ہے۔ حضرت داداجان رحمہ اللہ نے اپنے ذوق اور عادت کے مطابق اس مقام پر بھی ’’حق‘‘ اور ’’اہلِ حق‘‘ کی تائید وتصویب فرمائی اور انہی کا ساتھ دیتے ہوئے ’’اصلاح مفاہیم‘‘ اور علوی صاحب کی دیگر کتب میں موجود باطل نظریات سے برأت کااظہار فرمایا۔ احقر نے حضرت داداجان رحمہ اللہ کے پاس حاضر ہو کر علوی مالکی صاحب کی بابت سوال کیا تو فرمایا کہ ’’میرا وہی نظریہ ہے جو حضرت قاضی صاحب رحمہ اللہ کا تھا‘‘۔ پھر احقر نے مولانا ڈاکٹر مفتی عبدالواحد مدظلہ(مفتی جامعہ مدنیہ لاہور) کاایک رسالہ’’محمد علوی مالکی کے عقائد ان کی تحریرات کے آئینہ میں‘‘ سنایا تو چند عبارتیں سنتے ہی داداجان رحمہ اللہ بول اٹھے کہ ’’یہ تواحمد رضا سے بھی بڑا بدعتی ہے‘‘۔ احقر نے فوراً سوال کیا کہ ’’جو علما ان کی تائید کرتے ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟‘‘ فرمایا’’ کون؟‘‘ میں نے عرض کیاکہ ’’مولانا عبدالحفیظ مکی صاحب وغیرہ‘‘ تو فرمایا: ’’اگر وہ اس کی تائید کرتے ہیں تو وہ اسی جیسے ہیں‘‘۔اللہ اکبر! یہ تھی مسلکی غیرت کہ مسلک کے معاملہ میں اپنے پرایے کی رعایت رکھے بغیر ’’حق‘‘ بیان کیا۔ رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃً واسعۃً۔
آپ کو اپنے اکابر سے والہانہ لگاؤ اور اُن کی تحقیقات پر کلی اعتماد تھا، اسی کی نصیحت اپنے متعلقین کو بھی فرماتے اور یہی نصیحت آپ کے بیعت والے کارڈپر بھی درج ہوتی۔ملاحظہ فرمائیں:
’’عزیزان گرامی قدر!
میں کسی بھی مسئلہ میں اپنی کوئی رائے نہیں رکھتا، بلکہ قرآن وسنت اورفقہ وتاریخ کے تمام افکارومسائل میں اکابرین علماے دیوبند کی اجماعی تحقیق پر اعتماد کرتا ہوں اوران کی تمام اجماعی تعلیمات کو حق جانتے ہوئے ان پر عمل پیراہونے کو اپنے لیے ہدایت اور نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔ لہٰذا میں اپنے تمام تلامذہ، مریدین اور متعلقین کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اکابرعلماے دیوبند کے مسلک پر سختی کے ساتھ عمل پیرا رہیں اور ان کا دامن کسی صورت چھوڑنے نہ پائیں۔ جو اکابر علماے دیوبند کے اجماعی مسلک کو قرآن وسنت کے مطابق سمجھتے ہوئے اس پر پوری طرح قائم رہے، وہ میرے متعلقین میں شامل ہے، اور جس کا اکابر کی اجماعی تحقیق پر اعتماد نہ ہو، میرااُس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔‘‘
مولانا محمد اعظم طارق شہیدؒ کی شہادت کے بعد جب مولانا محمد احمد لدھیانوی مدظلہ سپاہ صحابہ کے صدرمنتخب ہوئے تو داداجان کے پاس گکھڑ حاضری دی۔ اس موقع پر خادم بھی موجود تھا۔ مولانا لدھیانوی نے سلام دعا اور احوال دریافت کرنے کے بعد عرض کیاکہ حضرت! ہمیں اب سمجھ آگئی ہے کہ ہماری سابقہ پالیسی نے جتنا ہمیں نقصان پہنچایا ہے، اتنا نفع نہیں ہوا، لہٰذا اب ہم نے سابقہ پالیسی تبدیل کرنے اور متشددانہ طرز عمل ترک کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ یہ بات سنتے ہی داداجان رحمہ اللہ کا چہرہ خوشی سے تمتمانے لگا۔ مسرت ان کے چہرہ سے ایسے عیاں تھی جیسے نصف النہار کا سورج۔ مولانا لدھیانوی سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’مولانا! ہم تو پہلے ہی یہ سمجھاتے تھے مگر ہماری نہیں سنی گئی۔ اب آپ نے بہت اچھا اور حالات کے مطابق درست فیصلہ کیا ہے۔ آپ تشدد کی پالیسی ترک کردیں، ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو استقامت نصیب فرمائے‘‘۔
فالج کے تیسرے حملے کے بعد جب آپ بالکل ہی معذور ہو چکے تھے، اس دوران خادم نے دو رمضان آپ رحمہ اللہ کی خدمت میں گزارے جو میری زندگی کا قیمتی سرمایہ اور متاع عزیز ہیں۔ ان دنوں آپ کے معمولات کچھ یوں تھے:
چونکہ انتہائی ضعف ونقاہت کی بنا پر آپ روزہ رکھنے سے قاصر تھے، لہٰذا فجر سے قبل بیدار ہوتے اور کچھ کھانے پینے کو طلب فرماتے۔ پھر بعداز نماز فجرخادم کو پاس بٹھا کر قرآن پاک پڑھنے کا حکم دیتے اور خود سنتے رہتے۔ اسی دوران آپ کی آنکھ لگ جاتی۔ پھر کچھ دیر آرام فرماتے۔ تقریباً ایک گھنٹہ بعد بیدار ہوتے اور اخبار کی موٹی موٹی سرخیاں اور اگر کوئی اہم اداریہ یا مضمون ہوتا تو وہ سنتے۔ پھر ناشتہ کرتے اور ناشتہ کے بعد کم وبیش آٹھ بجے سے گیارہ بجے تک ’’فضائل اعمال‘‘ سنتے۔ یہ دورانیہ اس سے کم ہو جاتا تھا، زیادہ نہیں۔ روزہ کی بنا پر خادم میں اتنی ہمت نہ ہوتی۔ گلا خشک ہو جاتا اور آواز بیٹھنے لگتی۔ انتہائی دقت کے ساتھ یہ تین گھنٹے پورے کرتا۔اس دوران مہمانوں وغیرہ کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ۔ کوئی صاحب زیارت یا تعویذکے لیے تشریف لاتے اور آپ ان کی طرف متوجہ ہوتے تو خادم کچھ دیر سانس لے لیتامگر آپ جلد ہی ا ن کو فارغ کر کے پھر حکم فرماتے، پڑھو! پھر تقریباً گیارہ بجے آپ بھی کچھ دیر آرام فرماتے، خادم بھی سوجاتا۔ ظہر سے کچھ پہلے بیدار ہو کر کوئی چیز کھانے کی (دلیہ وغیرہ) یا پینے کی(دودھ سوڈا، انشور،یا یخنی وغیرہ) طلب فرماکر نوش فرماتے اور ظہر بھی کرسی پر بیٹھ کر باجماعت اداکرتے۔ بعد از ظہر خادم منزل یاد کرتا یا گھر کے کام کاج کرتا اور ڈاکٹر مقبول صاحب تشریف لے آتے۔ وہ داداجان کو ورزش وغیرہ کراتے، کچھ جسمانی اعضا کو حرکت دیتے، کچھ مشینوں وغیرہ سے دوران خون برقرا ر رکھنے کے لیے جسم کو حرکت دیتے۔ اس دوران خادم کے چچا مولانا منہاج الحق خان راشد صاحب اور خادم کے بڑے بھائی مولانا ممتازالحسن خان احسن صاحب میں سے ایک داداجان کے پاس موجود رہتے اور ڈاکٹر صاحب کی ہدایت کے مطابق ان کو اٹھاتے، بٹھاتے اور لٹاتے۔ مہمانوں کی آمد ورفت کا سلسلہ اس وقت بھی جاری رہتا۔
عصر کی نماز باجماعت پڑھنے کے بعد ہم تینوں میں سے کوئی ایک آپ کو ویل چیئر پر بٹھا کر گھر کے صحن میں سیر کراتا۔ اسی اثنا میں خادم اپنی منزل بھی دہراتا رہتا۔ دم تعویذ اور ملاقات کے لیے آنے والوں کا سلسلہ اس وقت بھی جاری رہتا۔ مغرب سے کچھ دیر قبل آپ کو کمرے میں بٹھا دیتے۔ ایک بھائی گھر کا سامان وغیرہ لاتااور دوسرا آپ کی خدمت میں موجود رہتا۔ عین افطاری کے وقت آپ بلاتے اور فرماتے، چلو نماز پڑھو۔ ابھی روزہ بھی نہ کھولا ہوتا۔ ہم عرض کرتے کہ ابھی تو ہم نے روزہ ہی نہیں کھولا! تو فرماتے، جلدی کرو۔ جب تک آپ مغرب کی نماز باجماعت ادا نہ کر لیتے، آپ کو تسلی نہ ہوتی۔ پھر عشا کی اذان کے منتظر رہتے۔ جوں ہی اذان ہوتی، ہم نماز شروع کر دیتے اور نماز کے بعد تراویح کا آغاز ہوتا۔ بحمد اللہ دو سال تراویح میں ۱۵پارے خادم نے اور ۱۵ پارے برادر مکرم مولانا احسن صاحب نے سنانے کی سعادت حاصل کی۔ ہم میں سے ہر ایک کی خواہش تھی کہ داداجان کو تراویح میں قرآن میں سناؤں۔ بالآخر ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ نصف نصف تقسیم کر لیتے ہیں۔
تراویح کی بھی عجیب مگر دلچسپ ترتیب ہوتی تھی۔ آپ اپنی طبیعت وصحت کے مطابق بعد نماز مغرب بتا دیتے کہ آج اتنا پڑھنا ہے۔ اس وقت چونکہ خادم نے تازہ تازہ قرآن یاد کیا تھا بلکہ استاد مکرم مولانا قاری عبدالرحمن ضیاء دامت برکاتہم نے زبر دستی یاد کرایا تھا۔ (اللہ تعالیٰ انہیں جزاے خیر دے اور دنیا وآخرت کی تمام بھلائیاں نصیب فرمائے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم ودائم رکھے۔ آمین)اس لیے منزل یاد تھی، کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔ خادم نے دادا جان کی طبیعت کے مطابق، ایک دن میں تین پارے بھی پڑھے اور ایک پاؤ بھی۔ پھر تمام تراویح اکٹھی نہ پڑھتے بلکہ تقریباً دس تراویح تک تو کوشش اور ہمت کر کے دادا جان بیٹھے رہتے مگر جب ہمت بالکل جواب دے جاتی تو فرماتے، مجھے لٹا دو! پھر رات کو جس وقت بھی آنکھ کھل جاتی، بقیہ تراویح شروع کرا دیتے، حتیٰ کہ بعض اوقات سحری کے وقت تراویح ختم ہوتیں۔ تراویح میں آپ سے کسی غلطی کا بچ جانا محال وناممکن تھا۔ معمولی سے معمولی غلطی پر بھی پکڑ کرتے ۔ حالانکہ آپ حافظ نہ تھے، مگر ترجمہ ایسا ذہن نشین تھا کہ آپ کو مستحضر ہوتا کہ یہاں ’اولئک ہم الفائزون‘ ہے اور یہاں ’ھم المفلحون‘ ہے۔ اس کے علاوہ بھی کبھی ’’واؤ ‘‘چھوٹ جاتی یا اس قسم کی کوئی ذرا سی بھی غلطی ہوتی، وہ آپ سے چھوٹ نہ پاتی تھی۔ اگر تراویح جلد مکمل ہوجاتیں تو رات بھر عم مکرم مولانا منہاج الحق راشد صاحب داداجان کی خدمت میں رہتے اور ہم آرام سے سو جاتے اور پھر صبح سحری کے وقت چاچو کی آواز’’حمزہ میاں داد‘‘، ’’احسن میاں داد‘‘ سے بیدار ہوتے۔
یہ معمولات اکثری تھے، کلی نہیں۔ آپ اپنی صحت وطبیعت کے مطابق ان میں ردو بدل بھی فرمالیا کرتے تھے، مثلاً ’’فضائل اعمال‘‘ کبھی صرف ایک گھنٹہ سماعت فرماتے، مگر ناغہ نہ کرتے تھے۔ کبھی کیسٹ کے ذریعے سید امین گیلانی مرحوم، سلمان گیلانی صاحب،رانا عثمان صاحب اور دیگر حضرات کی نظمیں بھی سنتے۔کبھی دوسری کتابیں بھی سن لیتے، خاص طور پر جن کتابوں میں حوالوں کی بھر مار ہویا ائمہ کرام کا تذکرہ ہو، وہ تو بہت شوق سے سنتے تھے۔
علالت کے سارے عرصے میں دادا جان رحمہ اللہ کی صحیح معنوں میں خدمت ہمارے سب سے چھوٹے چچا مولانا منہاج الحق راشد اور آپ کی بڑی ہمشیرہ (مولانا داؤد خان نوید کی والدہ) اوران کے گھرانے کو نصیب ہوئی۔ ان دونوں گھرانوں نے واقعی داداجان کی خدمت کا حق اد ا کر دیا ہے۔ اللہ رب العزت انہیں دنیا وآخرت کی خوشیوں، کامیابیوں، کامرانیوں اور ہر طرح کی راحتوں سے مالا مال فرمائے اور ہم سب کو جنت میں بھی دادا جان کی رفاقت نصیب فرمائے۔ آمین