مخدوم العلماء، امام اہل سنت، قطب الاقطاب حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ ان یگانہ روزگار ہستیوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام اوصاف کے ساتھ متصف کیا ہوتا ہے اور جو ظاہر وباطن کی خوبیوں سے مالامال ہوتے ہیں۔ حضرت بے مثال خطیب بھی تھے اور بے نظیر محدث بھی، بہترین ادیب اور مصنف بھی تھے اور تقویٰ وطہارت کے بادشاہ بھی، اعلیٰ پایے کے مدرس بھی تھے اور رہبر کامل بھی۔ انھوں نے ایک صدی کے لگ بھگ ایسی زندگی گزاری کہ اس کے کسی پہلو پر بدنمائی کا دھبہ نہیں ہے۔ تقریر فرماتے تو یوں لگتا تھا کہ علم کا سمندر موج زن ہے۔ تحقیق کے میدان میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کے انھی اوصاف کی وجہ سے میں ان کا معتقد تھا۔
میں کوئی عالم فاضل نہیں ہوں، بلکہ خالص کاروباری آدمی ہوں، اس لیے میں ان کے اوصاف کی صحیح معنی میں عکاسی بھی نہیں کر سکتا۔ میرے سسرال گکھڑ میں ہیں۔ میں وہاں جاتا تو حضرت کے درس میں بیٹھنے کا موقع ملتا۔ حضرت کے کردار کو دیکھ کر میں حضرت سے متاثر ہوا۔ جب کسی مسئلہ میں الجھن ہوتا تو دریافت کرنے کے لیے عام آدمی کی حیثیت سے حضرت کے پاس گکھڑ جاتا اور رہنمائی حاصل کرتا۔ پھر جس طرح فرماتے، اسی طرح کرتا۔
حضرت کے ساتھ قریبی تعلق کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ حضرت کے بڑے صاحب زادے مولانا علامہ زاہد الراشدی کے ساتھ اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے مولانا نے کہا کہ میں حضرت سے بیعت ہونا چاہتا ہوں۔ چنانچہ واپسی پر علامہ صاحب مجھے گکھڑ حضرت کے گھر لے گئے اور مجھے بیٹھک میں بٹھا کر کہا کہ میں حضرت سے پوچھ کر آتا ہوں۔ پھر مجھے حضرت کے پاس لے گئے اور حضرت نے شفقت فرماتے ہوئے اسی وقت بیعت کر لیا۔ حضرت کی شفقت نے مجھے بہت زیادہ قریب کر دیا۔ حضرت کے شاگرد او رمرید مولانا محمد نواز بلوچ صاحب سے بھی وہاں ملاقات ہوتی رہتی تھی۔
ایک دن حضرت نے فرمایا کہ مری میں اکابر کا اجتماع ہے، اس میں شرکت کے لیے جانا ہے۔ میں نے کہا کہ حضرت، اجازت ہو تو میں آپ کو اپنی گاڑی میں لے جاؤں۔ حضرت نے آمادگی کا اظہار فرمایا۔ میں نے کہا کہ حضرت، میں لمبے سفر پر گاڑی نہیں چلا سکتا۔ خصوصاً رات کو مجھے نیند آ جاتی ہے، اس لیے بلوچ صاحب سے کہیں کہ وہ بھی ہمارے ساتھ چلیں اور گاڑی ڈرائیو کریں۔ حضرت کے کہنے پر وہ تیار ہو گئے اور ہم مشائخ کے اجتماع میں حاجی محمد شعیب صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ یہ میرا حضرت کے ساتھ پہلا سفر تھا۔ پھر حضرت کے اتنا قریب ہو گیا کہ ایک آدھ سفر کے سوا تقریباً ہر سفر میں آپ کی خدمت کے لیے ساتھ ہوتا تھا۔ سفر کے دوران میں نے حضرت کو ہر وقت ذکر ہی کرتے دیکھا ہے۔ سفر کے دوران یا اقامت کی صورت میں بھی جب کوئی سوال کرتا تو حضرت بڑا مختصر اور جامع جواب دیتے تھے جس سے آدمی کی تشفی ہو جاتی تھی۔ صر ف مقصد کی بات فرماتے۔ میں نے کبھی حضرت کی زبان سے فضول بات نہیں سنی۔ چترال او رگلگت کے سفر میں، میں کسی وجہ سے حضرت کے ساتھ نہ جا سکا، لیکن واپسی پر استقبال کے لیے گکھڑ پہنچ گیا۔ حضرت گاڑی سے اترے۔ میں نے سلام کیا تو فرمایا حاجی صاحب، اچھا کیا کہ تم سفر پر ساتھ نہیں گئے۔ یہ مفتی جمیل دیو ہے، اس نے ہمیں بہت مشکل مشکل راستوں پر پھرایا ہے۔ یہ جو کہتا ہے، کر گزرتا ہے۔
مجھے حضرت کے ساتھ تین عمرے اور ایک حج کرنے اور حضرت کی خدمت کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی ہے۔ پہلا عمرہ اس طرح ہوا کہ جب حضرت پر فالج کا حملہ ہوا تو علاج کے دوران شہید ختم نبوت حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان صاحب تشریف لائے اور حضرت سے اصرار کیا کہ علاج کے لیے کراچی تشریف لے چلیں۔ حضرت نے آمادگی ظاہر فرمائی۔ حضرت کے ساتھ بندۂ گنہگار، مولانا محمد نواز بلوچ اور ڈاکٹر فضل الرحمن بھی کراچی گئے۔ ڈاکٹر صاحب تو حضرت کو پہنچا کر واپس آ گئے، جبکہ میں اور بلوچ صاحب حضرت کی خدمت کے لیے وہیں رہے۔ ڈاکٹر حضرات حضرت کا علاج کرتے رہے اور علما وطلبہ اپنی علمی پیاس بجھاتے رہے۔ روزانہ عصر سے مغرب تک مفتی صاحب کے گھر پر علمی مجلس ہوتی جس میں علما اور طلبہ شریک ہوتے۔ اس دوران مفتی صاحب نے حضرت سے عمرہ کا وعدہ لے لیا۔ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہم نے حضرت کے ساتھ حرمین شریفین میں گزارا۔ اس سفر میں ہمارے ساتھ قاری سعید الرحمن صاحب (سابق صوبائی وزیر) بھی تھے۔ اس سفر میں ہم نے حضرت کی بہت سی کرامات کا مشاہدہ کیا جن کو احاطہ تحریر میں لانے کی میں طاقت نہیں رکھتا۔
عمرے کے ایک سفر میں جب ہم جدہ ایئر پورٹ پر پہنچے تو سامان کی چیکنگ پر اتنا وقت لگا کہ حضرت کے پاؤں سوج گئے، کیونکہ حضرت ویل چیئر پر پاؤں لٹکائے بیٹھے تھے۔ جب ہم وہاں سے فارغ ہونے کے بعد حضرت کے پاس پہنچے تو حضرت نے نہایت عجیب انداز میں فرمایا، حاجی صاحب! دنیا کے حساب کتاب میں اتنی پریشانی اور دقت ہوتی ہے تو آخرت کے حساب کتاب کا کیا بنے گا؟ میں نے خوش طبعی کے طو رپر کہا کہ حضرت، یہاں جو واقفیت رکھتا ہو، وہ جلدی فارغ ہو جاتا ہے، لہٰذا آخرت میں ہمیں آپ کی وجہ سے نہایت آسانی ہوگی۔ حضرت یہ بات سن کر خاموش ہو گئے۔
حضرت کی دیانت داری ضرب المثل ہے۔ ایک دفعہ میں نے حضرت سے گزارش کی کہ آپ مجھے اپنی کتابوں کا مکمل سیٹ عنایت فرمائیں اور ان پر کچھ تحریر بھی فرما دیں تاکہ یادگار رہے۔ حضرت نے مجھے کتابیں عنایت فرمائیں، مگر کچھ کتابیں کم تھیں۔ میں نے سیٹ مکمل کرنے کے لیے وہ کتابیں بازار سے خریدیں اور حضرت کے پاس لے گیا۔ عرض کیا کہ ان پر بھی کچھ لکھ دیں تو حضرت نے ان پر ہدیہ نہیں لکھا، بلکہ تحریر کیا کہ یہ کتابیں میر لقمان صاحب کی ملکیت ہیں اور لکھا میں نے ہے۔ اللہ اللہ! کتنی احتیاط ہے۔
میری اہلیہ گکھڑ کی رہنے والی ہے۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ حضرت کے گھر گئی ہے۔ جب دروازے پر پہنچی تو حضرت پھلوں کے چھلکے ہاتھ میں پکڑے انھیں پھینکنے کے لیے باہر تشریف لا رہے ہیں۔ میری اہلیہ نے کہا کہ مولوی صاحب، یہ چھلکے مجھے دے دیں۔ (حضرت کو گکھڑ والے مولوی صاحب کہتے تھے)۔ میں نے اہلیہ کا یہ خواب حضرت کو سنایا اور تعبیر پوچھی تو حضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو علم ہمیں دیا ہے، اس میں سے آپ کو بھی حصہ ملے گا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ حضرت کی کوئی تفسیر ہونی چاہیے۔ اس کا تذکرہ میں نے بلوچ صاحب سے کیا تو مولانا محمد نواز بلوچ نے اس خیال کو سراہتے ہوئے کہا کہ حضرت، جو درس جامع مسجد بوہڑ والی میں دیتے تھے، اس کا سراغ لگاتے ہیں کہ آیا کسی نے اس کی ریکارڈنگ کی ہے یا نہیں۔ اگر کی ہے تو اس کو نقل کر کے شائع کرنا چاہیے۔ اس طرح حضرت کی تفسیر معرض وجود میں آ سکتی ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ا س کا پورا ریکارڈ محمد سرور منہاس صاحب کے پاس موجود ہے۔ ہم ان کے پاس گئے تو انھوں نے کہا کہ حضرت صاحب کی اجازت کے بغیر نہیں دے سکتا۔ منہاس صاحب کو ہم حضرت کے پاس لے گئے۔ حضرت نے فرمایا کہ کیسٹیں ان کے حوالے کر دیں، میں نے ان کو اجازت دی ہے۔
جب پہلی جلد چھپی تو کچھ لوگوں نے شکوک وشبہات پیدا کیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حضرت کے بعد کوئی استحقاق کادعویٰ کر دے، لہٰذا حضرت سے کچھ لکھوا لو۔ اس بات کا تذکرہ بلوچ صاحب نے حضرت شیخ صاحب سے کیا تو حضرت نے فرمایا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ روپے لقمان اللہ میر خرچ کرے اور مستحق کوئی اور بن جائے۔ میں نے کہا کہ حضرت، میں تو یہ کام اللہ کی رضا کے لیے کر رہا ہوں، لیکن حضرت نے ایک کاغذ منگوا کر تفسیر کے حقوق میرے نام لکھ دیے۔ تفسیر کا نام بھی حضرت نے خود تجویز فرمایا اور اس کی جلد کے لیے کپڑے کا رنگ بھی حضرت نے خود پسند فرمایا۔ وہ یوں کہ کراچی کے سفر کے دوران اقرا روضۃ الاطفال کی ایک لائبریری میں بیٹھے تھے کہ مختلف کتابیں حضرت کے سامنے پیش کی گئیں تو حضرت نے یہ رنگ پسند فرمایا۔ الحمد للہ اب تک سورۃ التوبہ تک آٹھ جلدیں چھپ چکی ہیں جبکہ نویں جلد، جس میں سورۂ یونس اور سورۂ ہود ہے، صفحہ قرطاس پر منتقل ہو چکی ہے۔
حضرت خواب کی تعبیر کے امام تھے۔ ایک دفعہ مری کے سفر میں، میں نے خواب میں حضرت کو پریشان بیٹھے دیکھا۔ فجر کی نماز کے بعد میں نے آپ کو خواب سنایا تو فرمایا کہ میرے گھر فون کر کے حالات معلوم کرو۔ معلوم کیا تو خیر خیریت تھی، لیکن دو دن کے بعد حضرت کے صاحب زادے قاری ماجد صاحب وفات پا گئے۔
حضرت کی مہمان نوازی مشہور ہے۔ کھانے کے وقت کوئی مہمان آیا ہو اور کھانا کھائے بغیر چلا گیا ہو، یہ ناممکن تھا۔ ایک دفعہ میں حضرت شیخ کے پاس گیا تو حضرت مکئی کی روٹی ساگ کے ساتھ کھا رہے تھے۔ مجھے بھی ساتھ بٹھا کر فرمایا کہ حاجی صاحب، آئیے، آپ بھی کھائیں۔ یہ مکئی گاؤں سے آئی ہے۔ یقین جانیے اس کا ایسا مزہ تھا کہ آج بھی محسوس ہوتا ہے۔ میں نے حضرت کے ساتھ جتنے بھی سفر کیے ہیں، ان سے واپسی پر حضرت بذریعہ فون کھانے کے لیے حاضر ہونے کا حکم دیتے۔ جب ہم پہنچتے تو کھانا تیار ہوتا۔ حضرت کھانا کھلاتے، پھر شکریہ ادا فرماتے اور رخصت کرتے۔
حضرت کے اصل معالج تو ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب تھے جو روزانہ حضرت کی خبر گیری کے لیے گکھڑ جاتے تھے، لیکن کسی دن اگر مجبوری کی وجہ سے نہ جا سکتے تو ڈاکٹر سہیل انجم بٹ صاحب یہ خدمت سرانجام دیتے۔ بعض اوقات ڈاکٹر صاحب روانہ ہوتے وقت یہ خواہش ظاہر کرتے کہ آج حضرت ہمیں کھانا کھلا دیں۔ جب وہاں پہنچتے تو حضرت فرماتے کہ ڈاکٹر صاحب، کھانا کھائے بغیر نہیں جانا، حالانکہ ہم نے زبان سے کبھی اپنی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔
حضرت چونکہ میرے ساتھ بہت محبت رکھتے تھے، اس لیے ادب کے ساتھ کبھی کبھی بے تکلفی کی بات بھی کر لیتا تھا۔ ایک دن میں نے کہا کہ حضرت، شعرا میں سے آپ کس شاعر کو پسند کرتے ہیں؟ فرمایا کہ اقبال اور غالب۔ میرا مقصد مذہبی شعرا کے بارے میں معلوم کرنا تھا۔ میں نے کہا کہ حضرت مذہبی شعرا میں سے؟ تو فرمایا کہ امین گیلانی اچھا شاعر تھا۔ سرائیکی میں کمتر صاحب کا کلام پسند فرماتے تھے۔ ایک دن میں نے کہا کہ حضرت، زندگی کے اچھے اور پیارے دن کون سے گزرے ہیں؟ تو فرمایا کہ حج اور عمرہ کے دن۔
حضرت میں مداہنت بالکل نہیں تھی اور حق گوئی میں کسی کی پروا نہیں کرتے تھے۔ ایک دن ہم حضرت کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ کچھ تبلیغی ساتھی آ گئے۔ کچھ ساتھیوں نے کہا کہ یہ ہر طرح کے بد عقیدہ لوگوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم ایسا جوڑ کے لیے کرتے ہیں تاکہ وہ اس طریقے سے ہدایت پر آ جائیں۔ حضرت نے فرمایا کہ تمہارا کام تبلیغ کرنا ہے، ہدایت دینا نہیں۔ ہدایت دینا اللہ کے پاس ہے۔ یہ اختیار اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں دیا کہ اس کے لیے آپ غلط کام کریں۔
حضرت کے علمی مقام کو تو دوست دشمن سب ہی تسلیم کرتے ہیں۔ بڑے بڑے علما حضرت کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھتے تھے۔ کراچی میں علاج کے دوران حضرت دار العلوم کراچی تشریف لے گئے تو مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے تمام علما وطلبہ کو ایک جگہ، غالباً مسجد میں جمع کیا او رحضرت سے کچھ وعظ اور اجازت حدیث کی درخواست کی۔ حضرت نے فرمایا کہ کوئی طالب علم حدیث شریف پڑھے تو مولانا تقی عثمانی صاحب نے خود حدیث کی کتاب لی اور حدیث پڑھنی شروع کر دی اور مجلس میں یہ بھی فرمایا کہ حضرت، آپ میرے دادا استاد ہیں۔ حضرت اکابر کا کتنا احترام فرماتے تھے، اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ دار العلوم کے دفتر میں بیٹھے تھے تو مولانا تقی عثمانی صاحب نے فرمایا کہ حضرت، یہ ڈیسک جو پڑا ہے، اس پر والد محترم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب لکھا کرتے تھے اور یہ ڈیسک حکیم الامت حضرت تھانویؒ کا تھا۔ حضرت نے احتراماً اور برکت حاصل کرنے کے لیے ہاتھ بڑھا کر ڈیسک کو چھوا۔
حضرت کو میرے ساتھ کتنی محبت تھی، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ میری بیٹی کو تکلیف ہو گئی۔ حضرت سے دم کرایا تو وہ ٹھیک ہو گئی۔ ا س کے بعد جب بھی ملتا، بچی کے بارے میں پوچھتے کہ اس کا کیا حال ہے؟ اپنے سب سے چھوٹے فرزند منہاج الحق راشد کی شادی کے موقع پر میرے گھر فون کیا اور فرمایا کہ حاجی صاحب کو بلاؤ، میں نے بات کرنی ہے۔ میں نے کہا کہ حضرت، میں خود بات کر رہا ہوں۔ مجھے حیرانی بھی ہوئی کہ اس سے پہلے حضرت نے کبھی فون نہیں کیا تھا۔ فرمایا کہ حاجی صاحب، راشد کی شادی ہے تو آپ جلدی اپنی گاڑی لے کر آ جائیں۔ میں تو خوشی سے کھل گیا کہ میری تمنا پوری ہو گئی۔ میں چاہتا تھا کہ حضرت شادی میں مجھے بلائیں۔ میں جلدی جلدی خوشی کے ساتھ گکھڑ روانہ ہوا۔ سوء اتفاق سے ابھی راہوالی پہنچا تھا کہ گاڑی کا کچھ اس انداز سے ایکسیڈنٹ ہو گیا کہ گاڑی کا بونٹ ہی اڑ گیا، لیکن بحمد اللہ مجھے خراش تک نہ آئی۔ پریشانی کی حالت میں حضرت کے پاس پہنچا۔ حضرت میری حالت دیکھ کر سمجھ گئے کہ کوئی پریشانی ہے۔ پوچھا تو میں نے حادثہ سے آگاہ کیا۔ چائے پلانے کے بعد فرمایا کہ آپ واپس چلے جائیں اور گاڑی کو ٹھیک کرائیں۔ شادی کے بعد ملاقات کے لیے حاضر ہوا اور شادی کا حال پوچھا تو حضرت نے فرمایا کہ بیٹے کی شادی کی خوشی تھی اور آپ کے نقصان کا غم بھی تھا۔ حضرت کی اس بات سے میرا سارا غم غلط ہو گیا۔
حضرت کا میرے ساتھ ایسا برتاؤ تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اپنی اولاد سے بھی زیادہ عزیز سمجھتے تھے۔ میں نے بھی حضرت کی تکلیف اور دکھ کو اپنی تکلیف اور دکھ سمجھا اور حضرت نے جو فرمایا، اسی وقت کیا، کل پر نہیں ڈالا، چاہے گوجرانوالہ اور گکھڑ کے کتنے ہی چکر لگانے پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود معذوری کے، میرے بیٹوں حافظ عمر اور حافظ اسامہ کی دستار بندی کے لیے حضرت خود تشریف لائے۔ حضرت کو کئی مرتبہ برکت کے لیے اپنے کارخانہ بھی لے گیا۔ ایک دفعہ تانبا پگھلانے والی بھٹی کے پاس لے گیا تو حضرت جتنی دیر وہاں بیٹھے رہے، اللہم اجرنی من النار بار بار پڑھتے رہے۔ اور ہماری بد حالی کا یہ عالم ہے کہ ہم روزانہ بھٹی کے پاس بیٹھے ہوتے ہیں اور کبھی دوزخ یاد نہیں آئی۔ واقعی اللہ والے اللہ والے ہی ہوتے ہیں۔ ان کے ہر فعل میں آخرت نظر آتی ہے۔
حضرت مجھے اتنے پیارے انداز میں بلاتے تھے کہ میں دل میں شرمندہ ہو جاتا تھا۔ جب معذوری کی وجہ سے حضرت کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھا سکتے تھے تو جو بھی عالم اور حافظ موجود ہوتا، اس کو فرماتے کہ نماز پڑھاؤ۔ ایک دن اتفاقاً مجلس میں کوئی عالم اور حافظ نہیں تھا تو حضرت نے مجھے فرمایا کہ حاجی صاحب، نماز پڑھاؤ۔ میں تو پانی پانی ہو گیا کیونکہ اس سے پہلے میں نے کبھی نماز نہیں پڑھائی تھی۔ نماز کے بعد ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب نے کہا کہ اب آپ مصلیٰ ہی سنبھال لیں کیونکہ حضرت نے آپ کو امام بنا دیا ہے۔ یہ سب حضرت کی محبت اور شفقت تھی، ورنہ میں اس قابل کہاں تھا کہ حضرت کو نماز پڑھاتا۔
ایک واقعہ جو میں خاص طو رپر ذکر کرنا چاہتا ہوں، وہ بے حد قابل رشک اور سبق آموز ہے۔ حضرت شیخ نے جب مدرسہ نصرۃ العلوم میں تدریس سے معذرت کر لی تو مدرسہ کی انتظامیہ نے باہم مشورہ سے یہ طے کیا کہ حضرت کی خدمات کے پیش نظر حضرت کا وظیفہ جاری رہنا چاہیے اور حضرت سے گزارش کرنی چاہیے کہ وہ اس پیش کش کو قبول فرما لیں۔ چنانچہ ایک دن ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب نے مجھ سے کہا کہ آج نصرۃ العلوم کی انتظامیہ کے صدر میاں محمد عارف ایڈووکیٹ صاحب نے بھی ہمارے ساتھ جانا ہے۔ ان کے حضرت کے پاس جانے کا مقصد میرے علم میں نہیں تھا۔ جب ہم پہنچے تو حضرت سے خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد میاں محمد عارف صاحب نے کہا کہ حضرت، آپ نے ایک عرصہ تک نصرۃ العلوم میں دین کی خدمت انجام دی ہے، لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ آپ کا وظیفہ برقرار رکھا جائے۔ حضرت نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میاں صاحب نے دوبارہ بات کی تو حضرت نے فرمایا کہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ لوگ کہیں کہ مولوی کام کے بغیر پیسے لیتے ہیں۔ میاں صاحب نے کہا کہ سرکاری ملازم بھی تو پنشن لیتے ہیں اور آپ نے تو دین کی خدمت کی ہے۔ حضرت نے غصے سے فرمایا کہ میں کوئی نئی مثال قائم نہیں کرنا چاہتا۔ میں نے ساری زندگی یہ سبق دیا ہے کہ رازق اللہ ہے اور اب تم سے پنشن لوں! ہرگز نہیں۔ میں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتا جسے لوگ اپنے لیے حجت بنا لیں۔ اکابر کی ایسی کوئی مثال میرے سامنے نہیں ہے۔
حضرت جیسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا وجود مسعود ہمارے لیے ایک بڑی نعمت تھا جس سے ہم محروم ہو گئے ہیں۔ مجھے تیرہ چودہ سال حضرت کی خدمت میں رہنے کی سعادت حاصل رہی۔ بہت سی باتیں اور واقعات بھول چکا ہوں۔ جو تھوڑی بہت یاد تھیں، قارئین کی خدمت میں پیش کر دی ہیں۔ یہ بات بھی ذہن میں نہیں تھی کہ کسی وقت مجھے حضرت سے متعلق مضمون لکھنا پڑے گا، ورنہ موقع پر ہی ہر بات لکھ لیتا۔ حضرت کو دنیا سے رخصت ہوئے اتنے دن ہو گئے ہیں، مگر میری طبیعت ابھی تک سنبھل نہیں سکی۔ دماغ میں ایک قسم کی ہلچل سی ہے۔ حضرت کی یادیں تر وتازہ ہی ہیں اور جدائی کا صدمہ ہرا ہے۔ کوئی دن اور کوئی لمحہ ان کی یاد سے خالی نہیں ہے۔ حضرت کی محبت اور شفقت ہر وقت دل پر دستک دیتی رہتی ہے۔