ترتیب: مولانا حافظ محمد یوسف
(بمقام جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ۔)
الحمد للہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی، اما بعد! فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم، الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِیْنَۃُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَالْبٰقِیٰتُ الصَّالِحَاتُ خَیْْرٌ عِندَ رَبِّکَ ثَوَاباً وَخَیْْرٌ أَمَلاً (سورۃ الکہف، آیت ۴۶)۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتابوں میں جو درجہ، شان، رتبہ قرآن کریم کا ہے، اور کسی کتاب کا نہیں۔ ہمارا سب کتابوں پر ایمان ہے۔ ہمیں تفصیلاً اور قطعیت کے ساتھ معلوم نہیں کہ کتنی کتابیں نازل ہوئیں۔ ہمارے ایمان کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں، ہم سب پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان تمام میں آخری کتاب، محکم کتاب، مضبوط کتاب جو تغیر وتبدل سے محفوظ ہے، قرآن کریم ہے۔ قرآن کریم میں جس چیز کا ذکر آ جائے، وہ قطعی اور یقینی ہو جاتی ہے۔
میں نے ایک آیت کریمہ پڑھی ہے جس کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ ہے: الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِیْنَۃُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا۔ مال اور اولاد یہ دنیا کی زینت کا ذریعہ ہیں۔ نیک اولاد ہو، حلال مال ہو، اچھے مقصد میں صرف کیا جائے، عبادت ہی عبادت ہے۔ مال فی نفسہ برا نہیں۔ اگر فی نفسہ مال برا ہو تو اس پر ارکان اسلام موقوف نہ ہوں۔ ارکان اسلام میں ایک رکن ہے زکوٰۃ۔ اسلام کا رکن ہے، مال پر موقوف ہے۔ اگر مال فی نفسہ بری چیز ہوتی تو زکوٰۃ جیسا رکن مال پر موقوف نہ ہوتا۔ اور ان ارکان اسلام میں ایک حج بھی ہے جو مرکب من المال والبدن ہے۔ اگر فی نفسہ مال برا ہو تو اسلام کا رکن اس پر موقوف نہیں ہونا چاہیے۔ یہ باتیں خود واضح کرتی ہیں کہ فی نفسہ مال حلال اللہ کی نعمت ہے۔ اس پر عبادتیں موقوف ہیں۔ یہ تو دو رکن اسلام ہیں۔ فطرانہ وعشر وہ بھی عبادت ہیں، قربانی عبادت ہے۔ مال نہ ہو تو فطرانہ کیسے ادا کرے؟ پیداوار نہ ہو تو عشر کس چیز کا دے گا؟ نصاب نہ ہو تو قربانی کس چیز کی دے گا؟ تو جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام مال کی کلیتاً نفی کرتا ہے، غلط کہتے ہیں۔ حلال مال کمانا، یہ بھی عبادت ہے۔
الترغیب والترہیب حدیث کی کتاب ہے۔ اس میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں۔ (حضرت عبد اللہ بن مسعود چھٹے نمبر کے مسلمان تھے، ان سے پہلے پانچ مسلمان ہوئے تھے۔ چھٹا نمبر اسلام میں ان کا ہے۔ السابقون الاولون میں ہیں اور دو خوبیاں ان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عطا فرمائی تھیں کہ امت میں اور کسی کو نہیں ملیں۔ ساری امت میں پہلے درجے کے مفسر قرآن اور ساری امت میں افقہ الامۃ، امت میں سب سے بڑے فقیہ۔ یہ دو خوبیاں اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمائی تھیں۔) تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کو جو مسلمان، عقیدہ اس کا صحیح ہو، ہو مسلمان، نماز روزہ کا پابند ہو تو اپنے گھر سے حلال کمائی کے لیے قدم باہر رکھتا ہے، وہ قدم بھی فی سبیل اللہ کی مد میں ہے۔ علم طلب کرنے کے لیے قدم تو فی سبیل اللہ ہے ہی، اللہ کے راستے میں تبلیغ کے لیے قدم فی سبیل اللہ ہے، کفار کے مقابلے میں جہاد کے لیے قدم فی سبیل اللہ ہے، سفر حج کے لیے قدم فی سبیل اللہ ہے اور حلال کمائی کے لیے قدم اپنے گھر سے باہر رکھنا، وہ بھی فی سبیل اللہ کی مد میں ہے۔ ایک قدم کی سات سو نیکیاں۔
تو معلوم ہوا کہ مال فی نفسہ بری شے نہیں ہے۔ اگر فی نفسہ مال برا ہو تو اس پر زکوٰۃ، حج، قربانی، فطرانہ، عشر یہ موقوف نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِیْنَۃُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا۔ مال اور اولاد یہ دنیا کی زینت کا ایک ذریعہ ہیں۔ بخاری شریف میں روایت آتی ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک موقع پر استدعا کی کہ حضرت! انس خادکم، یہ انس آپ کے خادم ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ان کے لیے دعا کریں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی عمر دس سال کی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے۔ پورے دس سال آپ کی خدمت کی۔ خادم خاص تھے۔ بیس سال عمر تھی حضرت انس کی کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے۔ صحیح قول کی بنا پر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ۹۳ ہجری میں ہوئی تھی۔ گویا اس لحاظ سے ایک سو تین سال ان کی عمر بنتی ہے۔ آخری دو تین سال بڑھاپے کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے۔ نقاہت اور کمزوری اتنی زیادہ تھی کہ وہ فدیہ دیتے تھے اور روزہ نہیں رکھ سکتے تھے۔ تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ نے آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے کہا کہ حضرت! یہ آپ کے خادم ہیں، ان کے لیے دعا کریں۔ آپ نے دو جملے فرمائے: اللہم اکثر مالہ وولدہ۔ پروردگار! اس کو مال بھی زیادہ دے اور اولاد بھی زیادہ دے۔ اگر مال کوئی بری شے ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے لیے یہ دعا نہ کرتے کہ اللہم اکثر مالہ ووالدہ۔ فرماتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں جو انصار ہیں، ان میں زیادہ مال دار میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا اثر اور نتیجہ یہ تھا کہ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو کھجوروں کا باغ تھا، سال میں دو دفعہ پھل دیتا، حالانکہ دنیا کی تاریخ میں نظیر موجود نہیں کہ کھجور کا درخت سال میں دو دفعہ پھل دے۔ اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا اثر اور نتیجہ تھا کہ پہلے جو درخت پھل دیتے تھے، اس سے کئی گنا زیادہ پھل دیتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی بڑی بیٹی کا نام تھا قمینہ رحمہا اللہ تعالیٰ۔ تابعیہ تھیں۔ ۷۴ھ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، بیٹی میں کمزور ہوں، بڑھاپے میں حافظہ بھی نہیں، تم ہی میری اولاد کا حساب کر کے بتاؤکہ میری اولاد کتنی ہے۔ تو بخاری کی روایت میں آتا ہے، انھوں نے کہا کہ ابا جی، ایک سو بیس کے قریب تو آپ کے بچے فوت ہو گئے ہیں، اور مسلم کی روایت میں ہے کہ سو کے لگ بھگ زندہ چل پھر رہے ہیں۔
تو مال کثیر ہو، ہو حلال، اچھے مصرف میں صرف ہو، نعمت ہے۔ اولاد ہو، نیک ہو، وہ بھی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ تو اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِیْنَۃُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا۔ مال اور ولاد دنیا کی زینت کا ذریعہ ہیں، پر ہو نیک۔
یاد رکھنا، ایک مسئلہ نہ بھولنا۔ اگر کوئی شخص خود نمازی ہے اور اولاد اس کی نماز نہیں پڑھتی، تو اگر پنجابی میں جس کو کہتے ہیں ’’ٹل لگانا‘‘، اس نے ان کے نمازی ہونے پر ٹل نہیں لگایا تو یہ بھی مجرم ہے کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے دو حکم قرآن کریم میں دیے ہیں۔ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً۔ (التحریم آیت ۶) اے ایمان والو! اپنے آپ کو بھی بچاؤ اور اہل وعیال کو بھی بچاؤ دوزخ کے عذاب سے۔ تو خود دین پر قائم رہے، ایک ڈیوٹی تو ادا کی۔ دوسری ڈیوٹی واھلیکم بھی تو ہے نا۔ ہاں اگر اپنا ٹل لگا لے تو پھر انسان کے بس میں نہیں۔ خدائی اختیارات خدا کے پاس ہیں، مخلوق کے پاس نہیں۔ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام پیغمبر ہیں۔ اپنے بیٹے قابیل پر انتہائی زور صرف کیا، لیکن نہیں مانا۔ حضرت نوح علیہ السلام اولو العزم پیغمبروں میں سے ہیں۔ اپنا پورا زور اپنے بیٹے سام ملقب بہ کنعان پر صرف کیا، نہیں مانا۔ نوح علیہ السلام نے بیوی پر قوت صرف کی ہے، ایمان نہیں لائی۔ لوط علیہ السلام نے اپنی بیوی پر پورا زور صرف کیا ہے، نہیں مانی۔ مقلب القلوب صرف پروردگار ہے۔ پیغمبر ہادی ہیں، لیکن کس معنی میں؟ رہنمائی کرنے میں، راستہ حق کا بتانے میں۔ دلوں میں تصرف کرنا صرف خدا کا کام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چچا عبد مناف کے بار ے میں بڑی کوشش کی تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں حکم نازل فرمایا: إِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللَّہَ یَہْدِیْ مَن یَشَاءُ (القصص ۵۶)۔ بے شک تو ہدایت نہیں دے سکتا جس کے ساتھ تیری محبت ہے۔ ہدایت دینا رب کا کام ہے۔ پیش کرنا پیغمبر کا کام ہے، ہدایت دینا رب کا کام ہے۔ تو باپ کا بھی فرض ہے کہ اپنا پورا زور صرف کرے۔ زو رصرف کرنے کے بعد بھی کوئی نہیں مانتا تو لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا۔
تو مال اور اولاد یہ دنیا کی زینت کا ذریعہ ہیں۔ وَالْبٰقِیٰتُ الصَّالِحَاتُ خَیْْرٌ عِندَ رَبِّکَ ثَوَاباً وَخَیْْرٌ أَمَلاً۔ باقی رہنے والی چیزیں وہ تیرے رب کے ہاں بدلے کے لحاظ سے بھی بہتر ہیں اور امید کے لحاظ سے بھی بہتر ہیں۔ باقیات صالحات میں کیا چیزیں شامل ہیں؟ تفسیروں میں بڑا کچھ ذکر ہے۔ ایک تفسیر یہ ہے کہ باقیات صالحات میں نیک اولاد بھی ہے۔ ان کی اولاد، ان کی اولاد، اولاد در اولاد تو باقیات صالحات میں سب داخل ہیں۔ ایک تفسیر یہ ہے کہ باقیات صالحات میں دینی مدرسے، مسجدیں، یتیم خانے، جہاں پانی کی ضرورت ہے، وہاں پانی کا انتظام، جہاں سڑکیں خراب ہوں، وہاں سڑکیں بنا دینا، رفاہ عام کے کام جن سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ ’’باقیات صالحات‘‘ ہیں۔ جب تک وہ چیزیں رہیں گی، اس کو ثواب ملتا رہے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’باقیات صالحات‘‘ میں سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم بھی ہے۔ بعض سطحی ذہن کے لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ کلمات سبحان اللہ جو پڑھے تو ختم ہو گئے۔ یہ کہاں باقی رہے؟ الحمد للہ کہا تو ختم ہو گیا۔ یاد رکھنا آپ ایک دفعہ سبحان اللہ کہیں گے تو دس نیکیاں بھی ملیں گی، ایک درجہ بلند ہوگا، ایک گناہ صغیرہ خود بخود مٹ جائے گا۔ اسی طرح الحمد للہ اور اللہ اکبر کا سمجھ لیں۔ تو وہ سطحی ذہن کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ سبحان اللہ کہا، زبان سے ادا کیا تو وہ فضا میں اڑ گیا تو باقیات صالحات میں یہ کیسے ہوئے؟ مسجد تو سمجھ میں آ سکتی ہے کہ باقیات صالحات میں ہے، مدرسہ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ باقیات صالحات میں ہے، نلکا، کنواں، سڑک یہ تو باقیات صالحات میں آ سکتے ہیں۔ اولاد در اولاد ان کا وجود ہے، وہ تو باقیات صالحات میں سمجھ آ سکتے ہیں۔ یہ کلمات سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر یہ کیسے باقیات صالحات ہیں؟
تو بات سمجھنا۔ معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیغمبروں سے ملاقات ہوئی۔ میں اس وقت معراج کا مسئلہ نہیں بیان کرتا۔ صرف یہ عرض کرتا ہوں کہ معراج آپ کو جسم مبارک کے ساتھ ہوئی، بیداری میں ہوئی، ایک رات میں ہوئی۔ اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجایش نہیں۔ خواب کا قصہ نہیں، کشف نہیں، الہام نہیں۔ تو معراج کی رات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات بھی ہوئی۔ شرح فقہ اکبر وغیرہ علم عقائد کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں پہلا درجہ ہے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا، دوسرا نمبر ہے حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کا، تیسرا نمبر ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا۔ تو حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی بڑی شخصیت ہے۔ معراج کی رات آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملاقات ہوئی تو انھوں نے دو پیغام دیے۔ فرمایا، ایک پیغام میری طرف سے اپنی امت کو یہ دینا کہ ابراہیم علیہ السلام تمہیں سلام کہتے ہیں۔ علیہ وعلیٰ نبینا وعلیٰ جمیع الانبیاء الصلوات والتسلیمات۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں دوسرے نمبر کی شخصیت، اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں پہلے نمبر کی شخصیت کے ذریعے سلام کہلواتی ہے۔ معمولی بات نہیں ہے، بڑی بات ہے۔ تو ایک پیغام میرا یہ دے دینا کہ ابراہیم علیہ السلام تمہیں سلام کہتے ہیں۔ وعلیکم السلام۔ اور دوسرا پیغام میرا یہ دے دینا کہ جنت کی زمین بڑی زرخیر ہے، لیکن ہے چٹیل۔ اپنے لیے وہاں سے درخت اور باغات لے کر آنا۔ ایک دفعہ کہیں گے سبحان اللہ تو دس نیکیاں بھی ملیں گی، ایک درجہ آپ کا نیکیوں میں بلند ہوگا اور ایک صغیرہ گناہ جھڑ جائے گا اور جنت میں ایک درخت لگ جائے گا۔ ایک دفعہ الحمد للہ کہے گا تو تو دس نیکیاں بھی ملیں گی، ایک درجہ بلند ہوگا، ایک صغیرہ گناہ جھڑ جائے گا اور جنت میں ایک درخت لگ جائے گا۔ ایک دفعہ کہے لا الہ الا اللہ تو دس نیکیاں بھی ملیں گی، ایک درجہ بھی بلند ہوگا، ایک گناہ بھی جھڑ جائے گا اور جنت میں درخت لگ جائے گا۔ ایک دفعہ کہے اللہ اکبر، نیکیاں بھی دس ملیں گی، درجہ بھی بلند ہوگا، گناہ بھی صغیرہ جھڑ جائے گا اور جنت میں درخت بھی لگ جائے گا۔
تو یہاں اگرچہ یہ چیزیں بظاہر باقی نہیں رہتیں، لیکن سبحان اللہ کا نتیجہ جنت کے درختوں کی شکل میں باقی ہے۔ باقیات صالحات میں ہی ہے۔ اب تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ سبحان اللہ کہا، زبان سے الفاظ ختم ہوئے اور فضا میں اڑ گئے، لیکن نہیں، یہ باقی ہیں۔ یہ صحیح حدیث میں ہے جو ترمذی شریف میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: حدیث حسن صحیح۔ او ر ایک روایت مجمع الزوائد میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سبحان اللہ کہو گے تو جنت میں ایک پودا لگ جائے گا۔ الحمدللہ کہو گے، پودا لگ جائے گا۔ لا الہ الا اللہ کہو گے، ایک درخت لگ جائے گا۔ اللہ اکبر کہو گے، درخت لگ جائے گا۔ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: رجال موثقون۔ سارے کے سارے ثقہ راوی ہیں۔ تو اب اگرچہ ہمیں یہ الفاظ پڑھنے کے بعد نظر نہیں آتے لیکن ان کا نتیجہ باقی ہے۔ تو باقیات صالحات میں یہ ساری چیزیں ہیں۔
اسی مناسبت سے ایک بات اور عرض کروں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوں جوں قیامت قریب آئے گی، فتنے زیادہ ہوں گے۔ جو نیا سال آئے گا، اس میں کوئی نہ کوئی بدعت نئی گھڑ لی جائے گی۔ کراچی میں ایک نیا فرقہ پیدا ہوا ہے، اس کا یہ دعویٰ ہے کہ کوئی کسی کو ثواب پہنچائے، نہیں پہنچتا۔ صدقہ وخیرات کرے، وہ اس کو ثواب نہیں پہنچتا اور ا س پر انھوں نے دھڑا دھڑ رسالے لکھے ہیں۔ یہ ان کی نادانی ہے۔ قرآن کریم کی ایک آیت سے وہ دھوکہ کھاتے ہیں اور دیتے ہیں۔ قرآن کریم میں آتا ہے: وَأَن لَّیْْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی (النجم آیت ۳۹)۔ یہ کہ انسان کے لیے نہیں مگر وہی کچھ جو انسان نے کوشش کی۔ یہ ان کی دلیل ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جو انسان نے کوشش کی۔ تو اپنی کوشش ہی ملے گی، دوسرے کا ایصال ثواب ودعا کیا ملے گا؟ بہت مغالطے کا شکار ہیں۔ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ صرف دو باتیں عرض کرتا ہوں۔
عرض یہ ہے کہ اگر دعا دوسروں کی نہ پہنچتی تو قرآن کریم سے محکم کتاب تو کوئی بھی نہیں۔ حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا ہے، پروردگار، مجھے بھی بخش دے، وللمومنین۔ اور مومنین ومومنات کو بھی۔ اگر مومنین کو دعا نہیں پہنچی تو یہ مہمل کام خدا کے پیغمبر نے کیوں کیا؟ ابراہیم علیہ السلام کہتے ہیں: رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسَابُ (ابراہیم آیت ۴۱)۔ اگر مومنوں کو دعا نہیں پہنچتی تو قرآن کریم میں معاذ اللہ ایسی مہمل دعاؤں کا کیا مقام؟ قرآن کریم میں مومنوں کی دعاؤں میں ذکر ہے: رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالْإِیْمَانِ۔ (الحشر آیت ۱۰) پڑھتے ہو یا نہیں؟ اے رب ہمیں بھی بخش دے اور مومنین کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔ اگر دعائیں نہیں پہنچتیں تو قرآن کریم میں معاذ اللہ یہ مہمل اور بے کار طریقہ کیوں بتایا اور اگر دوسرے کی دعا نہیں پہنچتی تو جنازہ کیوں ہے؟ جنازہ میں بھی تو دوسرے کے لیے اللہم اغفر لحینا ومیتنا وشاہدنا وغائبنا پڑھا جاتا ہے۔ پھر تو جنازہ بھی چھوڑ دو، یہ بھی دوسرا دعا کرتا ہے۔ جو بات میں کہنا چاہتا ہوں، وہ یاد رکھنا۔ وان لیس للانسان الا ما سعی، ان کی دلیل نہیں، ہماری دلیل ہے۔ وہ غلطی سے اس کو اپنی دلیل سمجھتے ہیں۔ کیوں؟ ظاہری لفظ یہ ہے کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہوگا جو اس نے کوشش کی۔ دیکھیے، انسان شادی کرتا ہے۔ شادی کے بعد اولاد پیدا ہوتی ہے، اولاد کی تربیت کرتا ہے۔ ان کو نماز روزہ دین کی باتیں سکھلاتا ہے۔ اب اگر باپ مر گیا اور اولاد اس کے لیے دعا کرتی ہے تو اس کی محنت کا نتیجہ ہی تو ہے۔ استاد نے شاگردوں کو پڑھایا، وہ مستفیض ہوئے۔ استاد مر گیا، انھوں نے اپنے استاد کے لیے مغفرت کی دعا کی تو استاد کی سعی کا نتیجہ ہی تو ہے نا۔ اچھے اخلاق سے برتاؤ کیا، لوگوں کے ساتھ رواداری کی، ہم دردی کی، خیر خواہی کی، دوست پیدا ہوئے، احباب پیدا ہوئے۔ جب یہ فوت ہوا، انھوں نے کہا کہ پروردگار، ہمارے ساتھی کو معاف کر دے تو اس کی اپنی اس کوشش کا نتیجہ ہی تو ہے۔ اسے ضرور ملنا چاہیے۔
أَن لَّیْْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی یہ ان کی دلیل نہیں، ہماری دلیل ہے۔ انسان کو اس کی کوشش کا نتیجہ ضرور ملنا چاہیے۔ اولاد پر محنت اس نے کی۔ اب مرنے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ اے پروردگار، ہمارے ابو کوبخش دے، ماں کو بخش دے تو یہ اس کا نتیجہ ہے۔ شاگرد استاد کے لیے دعا کرتے ہیں تو یہ اس کی محنت کا نتیجہ ہے۔ احباب دوست اس کے حسن اخلاق کی وجہ سے دعا کرتے ہیں تو اس کی محنت کا نتیجہ ہے تو اس کو اس کی محنت کا نتیجہ ضرور ملنا چاہیے۔ یہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ لیکن یاد رکھنا! ایام کی تعیین، وقت کی تعیین ایسی کوئی شے نہ ہو۔ جس وقت آپ چاہیں، بخشیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے جو حدیث کی کتابوں میں بھی ہے اور الادب المفرد للبخاری میں بھی ہے کہ آدمی جب فوت ہو جاتا ہے تو کچھ دن وہ نچلی منزلوں میں ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کچھ دنوں کے بعد اس کو اوپر کی منزلیں دے دیتے ہیں۔ وہ کہتا ہے، پروردگار، میں جب آیا تھا تھرڈ کلاس میں تھا، اب میں انٹر میں اور سیکنڈ میں چلا گیا، اس کی وجہ؟ رب تعالیٰ فرماتے ہیں، تیری اولاد اور تیرے احباب کی دعاؤں کا نتیجہ یہ تجھے ملا ہے۔
الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِیْنَۃُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا۔ مال اور اولاد دنیا کی زینت کا ذریعہ ہیں۔ وَالْبٰقِیٰتُ الصَّالِحَاتُ خَیْْرٌ عِندَ رَبِّکَ ثَوَاباً۔ باقی رہنے والی چیزیں تیرے رب کے ہاں بہتر ہیں بدلے کے لحاظ سے۔ وَخَیْْرٌ أَمَلاً، اور بہتر ہے کہ امید رکھی جائے۔
اللہ تعالیٰ مجبور نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت بڑی وسیع ہے۔ اپنے فضل وکرم سے ہمیں اس نیکی کا صلہ ضرور دے گا۔ اللہ تعالیٰ سب کو سمجھنے کی عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔