مولانا سرفراز خان صفدر کا شمار صاحب تصنیف و تحقیق علما میں ہوتا ہے۔ انہوں نے مختلف عنوانات پر بہت سی کتب تحریر فرمائیں اور اپنے دور کے مسائل کو پیش نظر رکھ کر اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد و نظریات کو قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ فریق ثانی کے باطل نظریات کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کا رد کیا۔ یہاں ہم مولانا کے اسلوب تحریر کی نمایاں خصوصیات کا اختصاراً تذکرہ کریں گے۔
۱۔ مولانا سرفراز خان صفدر کا انداز تحریر آسان، عام فہم، دلچسپ اور مؤثر ہے۔ آپ کی تحریر میں عالم کو علمیت کی چاشنی، ادیب کو ادبی تسکین اور مسائل کے حل کے متلاشی کوان کا حل ملتا ہے۔ مولانا نے اپنی تحقیق کو تحریر کا پیرہن پہناتے وقت اپنے قارئین کی ذہنی وعلمی سطح کو ملحوظ رکھتے ہوئے عام فہم انداز اختیار کیا تاکہ ان کی تحریروں سے زیادہ سے زیادہ لوگ استفاد ہ کر سکیں۔ تحریر کی بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ مشکل مسائل کو اس قدر وضاحت وصراحت سے پیش کرتے ہیں کہ قاری کو سمجھنے میں بالکل دشواری محسوس نہیں ہوتی بلکہ معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی آپ کی بات کو آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔ عالم اور مبتدی دونوں کے قلب وذہن میں حقائق ابھرتے چلے جاتے اور غلط نظریات کے بادل چھٹتے چلے جاتے ہیں۔ آ پ کے انداز تحریر کی اس خوبی کے بارے میں پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالدیان کلیم فرماتے ہیں کہ ’’ آپ پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل وکرم ہے کہ ایک مشکل مضمون کو بھی عالمانہ انداز میں ایک منطقی ربط وتسلسل کے ساتھ شستہ ز بان میں تحریر فرما دیتے ہیں‘‘۔ (۱) اسی طرح مولانا محمد سلطان محمود ’’ احسن الکلام‘‘ کے مطالعہ کے بعد جن تین نکات کی نشاندہی کرتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے ’’اس کتاب کا طرز بیان نہایت ہی سلیس او ر عام فہم ہے۔ صرف اردو خواں بھی اس سے فائد ہ اٹھا سکتے ہیں‘‘۔ (۲)
۲۔ مولانا سرفراز خان صفدر کی تحریر کی خاص بات ان کا تحقیقی، مدلل ومبرہن انداز ہے۔ کسی بھی تحریر کا معیاری واعلیٰ ہونا اس بات کا مقتضی ہے کہ اس کا انداز محققانہ ہو۔ بالخصوص مولانا نے جن جہات پر کام کیاہے، وہ اس بات کی مقتضی تھیں کہ تحریر تحقیقی انداز میں لکھی جائے تاکہ فریق مخالف کے پاس کوئی حجت باقی نہ رہے۔ مولانا کے اس انداز تحریر پر مختلف علما نے اپنے اپنے انداز میں تبصرہ فرمایا ہے۔ مثلاً حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ (مہتمم دارالعلوم دیو بند) ’’تسکین الصدور‘‘ کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’رسالہ کی وقعت وعظمت کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ حضرت مولانا سرفراز خان صفدر کی تالیف ہے جواپنی محققانہ اور معتدلانہ طرز تالیف میں معروف ہیں۔‘‘ (۳) اسی کتاب کے بارے میں مولانا عبدالحق صاحب فرماتے ہیں کہ ’’جس محنت اور عرق ریزی سے آپ نے ان مسائل کوتحقیقی دلائل اور اکابر ملت اور معتمد علما کے اقوال سے مبرہن کیا ہے، و ہ آپ ہی حصہ ہے۔‘‘ (۴) مولانا عبدالرشید نعمانی آپ کے تحقیقی انداز تحریر کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ الکلام المفید ماشاء اللہ حوالوں سے بھرپور ہے اور بڑی محنت وتحقیق سے لکھی گئی ہے۔‘‘ (۵)
مولانا اپنے تحقیقی انداز تالیف میں نقلی دلائل بھی پیش کرتے ہیں اور عقلی بھی۔ چونکہ مولانا کی تحریروں کا مقصد دین کی صحیح تعبیر وتشریح کر کے صراط مستقیم کو واضح کرناہے، لہٰذا یہاں جن نقلی دلائل وبراہین کو اہمیت حاصل ہے، وہ قرآن وسنت کے ساتھ ساتھ راسخ فی العلم علما کی تصانیف ہیں اور مولانا کی تحریروں میں ان مستند مصادر سے بیان کردہ نقلی دلائل کثرت سے موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مولانا نے اپنی تحریرمیں استدلال کے جو مختلف طریقے اختیارکیے ہیں، ان میں عقلی اسلوب بھی شامل ہے جس سے مراد یہ ہے کہ عقلی دلائل پیش کرکے اپنے موقف کی خوبی اور مخالف نقطہ نظر کی خامی کو آشکارا کیا جائے۔ اس طرز کو بھی اختیار کیا ہے اور نقلی دلائل کے ساتھ ساتھ بہت سے مقامات پر حسب ضرورت عقلی دلائل بھی پیش کیے ہیں۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے بعض ازواج کی خوشنودی کے لیے شہد کو اپنے آپ پر حرام کر دینے اور اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ نازل ہونے کے واقعہ کا ذکر کر کے اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس نظریے کی نفی پر استدلال کرتے ہیں کہ آپ حاظر وناظر ہیں اور جمیع ماکان ومایکون کا علم رکھتے ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’ہمارا استدلال اس مضمون سے اس طرح ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب یا جمیع ماکان ومایکون کاعلم ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نزول آیات سے قبل ہی معلوم ہوتا کہ میرا یہ فعل اللہ کو پسند نہیں ہوگا، لہٰذا میں ایسانہ کروں۔ کیا فریق مخالف کے نزدیک جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمداً ایساکیا تھا؟ ا س سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر وناظر اور مختار کل نہ ہونے کی بھی صاف وضاحت ہوگئی ہے۔ اگر آپ حاضرو ناظر ہوتے اور حضرات ازواج مطہرات نے جہاں خفیہ مشورہ کیاتھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف فرماہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام قصہ معلوم ہوتا۔ او ر اگر مختار کل ہوتے تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرضی سے صرف اپنی ذات بابرکات کے لیے (لونڈی) یا شہد حرام کر دیا تھا تووہ حرام ہی رہتا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ نازل نہ ہوتی۔‘‘ (۶)
تحریرکے اسلوب میں ایک طریقہ الزامی جواب دینے کا ہے جو کسی نظریہ یا قول کی تردید میں بعض اوقات بہت موثر ثابت ہوتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص یاگروہ کے نظریے کے کسی ایسے پہلو کو اجاگر کر دیا جائے جو خود اس کے نظریے کی تردید کرر ہا ہو۔ یہ اس لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتاہے کہ اس کے بعد فریق مخالف کے پاس فرار کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ مولانا سرفراز خان صفدر نے اس اسلوب کو بھی موقع کی مناسبت سے خوب استعمال کیا ہے۔
۳۔ قرآن و سنت کے ٹھوس اور صریح دلائل سے آپ نے مخالفین کے جواب دیتے وقت نرمی و شائستگی، عدل و انصاف اور خلق و تہذیب جیسے اعلیٰ اوصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دیا اور درشتی و سختی، سب وشتم اور گالم گلوچ کی بجائے اعلیٰ اوصاف حمیدہ اختیار کیے اور عالمانہ انداز میں غلط اور باطل نظریات کا ردکیا۔ چنانچہ وہ لو گ بھی جن کے نظریات کے رد میں آپ نے کام کیا ہے، آپ کی تعریف و توصیف پر مجبور نظر آتے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم مولا نا کی تصنیف ’’صرف ایک اسلام بجواب دو اسلام‘‘ کے مطالعہ کے بعد مولانا کے نام اپنے خط میں یوں رقم طراز ہیں:
’’دو اسلام کے جواب میں نصف درجن کے قریب کتابیں نکل چکی ہیں جن میں سے مجھے آپ کی کتاب ’’صرف ایک اسلام‘‘ بوجوہ پسند آئی۔ اول، اس لیے کہ اس میں گالیاں کم تھیں۔ دوم، انداز تحریر ادیبانہ تھا۔ سوم، اور میری اغلاط کی وضاحت عالمانہ تھی۔‘‘ (۷)
ڈاکٹر برق مرحوم ’’دو اسلام‘‘ کی طبع ششم میں اپنے ناقدین کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’ان میں سے چار حضرات کی کتابیں قابل توجہ ہیں۔ ان میں ایک ’’صرف ایک اسلام‘‘ از مولانا سرفراز خان (خطیب گکھڑ) ہے۔ ایک لحاظ سے میں ان حضرات کا مشکور ہوں اور خصوصاً مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا کہ انہوں نے میری بعض اغلاط واضح کیں۔ موجودہ ایڈیشن کو ان اغلاط سے پاک کر دیا گیا ہے اور تحریر کی تلخی کو بھی بڑی حد تک کم کر دیا گیا ہے۔ .... مولانا سرفراز خان صاحب کے سوا، جنہوں نے کتاب میں کافی حد تک سنجیدگی سے کام لیا ہے، با قی حضرات نے سب وشتم کا وہ مظاہرہ کیا ہے کہ شاید کوئی شستہ مذاق انسا ن ان کا ایک صفحہ بھی پڑھ سکے۔‘‘ (۸)
آپ کی تحریر کے اعلیٰ اوصاف کی نشان دہی حضرت مولانا سید مفتی مہدی حسن (سابق مفتی دارالعلوم دیوبند) نے آپ کی کتاب’’ راہ سنت‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ان الفاظ میں کی ہے کہ ’’ زبان شستہ وصاف، لہجہ د ل آویز، جدال ورنگ مناظرانہ سے دور اور مضامین کی جامع کتاب ہے‘‘۔ (۹)
۴۔ تحریر میں اشعار کا برمحل استعمال اس کی خوبصورتی، حلاوت اور تاثیر میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔ بعض اوقات شعر کا ایک مصرعہ ایک پورے پیرا گراف کی ضرورت کو پورا کر دیتا ہے۔ اگرچہ عام طور پر مذہبی مصنفین کے ہاں نثر میں اشعار کااستعمال بہت کم ملتا ہے، لیکن مولانا سرفراز خان صفدر نے اپنی تحریروں میں اشعار کا بھرپور استعمال کیا ہے۔
حوالہ جات
۱۔ محمد سرفراز خان صفدر ، اظہارالغیب فی کتاب اثبات علم الغیب، ص۱
۲۔ محمد سرفراز خان صفدر ، احسن الکلام فی ترک القراء ت خلف الامام، ص۲۶
۳۔ محمد سرفراز خان صفدر ، تسکین الصدور، ص۲۰
۴۔ محمد سرفراز خان صفدر ، تسکین الصدور، ص۲۸
۵۔ محمد سرفراز خان صفدر ، الکلام المفید فی اثبات التقلید، ص(د)
۶۔ محمد سرفراز خان صفدر ، ازالۃ الریب عن عقیدۃ علم الغیب، ص۲۹۸
۷۔ محمد سرفراز خان صفدر : صرف ایک اسلام ، ص۷
۸۔ غلام جیلانی برق: دو اسلام، ص۵۰
۹۔ محمد سرفراز خان صفدر ، را ہ سنت، ص ۱