گزشتہ صفحات میں قارئین نے عم مکرم جناب مولانا عبد الحق خان بشیر زید مجدہم کا مقالہ ملاحظہ فرمایا جس میں انھوں نے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے اصول ونظریات کی وضاحت کرتے ہوئے والد گرامی مولانا زاہد الراشدی اور راقم کی بعض آرا کو بھی موضوع بحث بنایا اور ان پر ناقدانہ تبصرہ کیا ہے۔ یہ ایک علمی وتحقیقی موضوع ہے جس میں میرے یا والد گرامی کے نقطہ نظر سے اختلاف کرنا کسی بھی صاحب علم کا حق ہے اور قارئین جانتے ہیں کہ ’الشریعہ‘ کے صفحات پر اس نوعیت کی تنقیدات اور اختلافی بحثیں ایک معمول کی حیثیت رکھتی ہیں، البتہ عم محترم نے اپنے اس مقالے میں خاص طور پر میرے نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہوئے حضرت شیخ الحدیثؒ کے موقف کے ساتھ تقابل کی فضا پیدا کرنے اور اسے اجاگر کرنے کی سعی کی ہے، حالانکہ میں نے بہت سے امور میں ذوق ورجحان اور راے کے اختلاف کے باوجود بحث وتحقیق میں کبھی حضرت رحمہ اللہ کے موقف کے ساتھ تقابل کی صورت پیدا نہیں کی اور نہ کسی بھی رنگ میں اس کو پسند کرتا ہوں۔ خاص طور پر ایک ایسے موقع پر جب ہم ’الشریعہ‘ کی زیر نظر خصوصی اشاعت کی صورت میں حضرت رحمہ اللہ کی حیات وخدمات اور ان کی تحقیقات وافکار کا ایک عقیدت مندانہ مرقع قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں، ہر لحاظ سے یہ مناسب تھا کہ عم محترم اس نزاکت کا لحاظ رکھتے، لیکن انھوں نے نہ صرف یہ کہ اسے ملحوظ نہیں رکھا بلکہ اس تقابل کو نمایاں کرنے اور اسے قبیح وشنیع صورت میں پیش کرنے کی کوشش میں بعض مقامات پر ’’ستم ظریفی‘‘ کی حد تک جانے سے بھی گریز نہیں کیا۔
میں نے حضرت رحمہ اللہ کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں، جو زیر نظر اشاعت میں شامل ہے، یہ عرض کیا ہے کہ حضرت رحمہ اللہ اپنی تحقیقات میں جمہور امت کے موقف کی پابندی کو ضروری تصور کرنے کے ساتھ ساتھ ’’بلند فکری اور ذہنی معیار رکھنے والے اہل علم‘‘ کے لیے عام آرا سے اختلاف کا حق بھی تسلیم کرتے تھے۔‘‘ عم محترم نے اس کو یہ مفہوم پہنایا ہے کہ ’’دادا تو بلندئ فکر اور ذہنی معیار دونوں سے محروم تھا، جب کہ پوتا بلندئ فکر کی دولت سے مالا مال ہے اور ذہنی معیار کی نعمت سے بھی۔‘‘ حالانکہ میری مذکورہ گزارش جمہور اہل علم یا حضرت رحمہ اللہ کے مقابلے میں اپنی علمی حیثیت جتلانے کے سیاق میں ہرگز نہیں کی گئی، بلکہ ان ائمہ اور اکابر کے حوالے سے کی گئی ہے جو حضرت رحمہ اللہ کی نظر میں اپنے علمی مقام ومرتبہ کی وجہ سے ا س کی اہلیت رکھتے ہیں، چنانچہ ’’بلند فکری اور ذہنی معیار رکھنے والے اہل علم‘‘ کے جملے کا روئے سخن اسی تحریر میں آگے چل کر نقل کیے جانے اس اقتباس کی طرف ہے جس میں حضرت رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ’’بلاشبہ ہمارے پیر ومرشد قدس اللہ تعالیٰ سرہ اور حضرت شاہ صاحبؒ اور شیخ الہندؒ اور حضرت نانوتویؒ وغیرہ حضرات نے اپنے علم وتحقیق کی بنا پر اپنے تفردات کو بھی لیا ہے‘‘۔ پھر عم محترم نے تفرد اختیار کرنے والے اہل علم کے اختلاف کی وجہ ان کے ’’بلند فکری اور ذہنی معیار‘‘ کو قرار دینے سے دوسرے اہل علم کو اس سے محروم سمجھنے کا جو مدعا مستنبط کیا ہے، اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص حضرت رحمہ اللہ کے مذکورہ اقتباس سے یہ نتیجہ اخذ کرے کہ چونکہ انھوں نے حضرت مولانا حسین علی، علامہ سید انور شاہ کشمیری، حضرت شیخ الہند اور حضرت نانوتوی رحمہم اللہ کے، اپنے تفردات کو لینے کا باعث ان کے ’’علم وتحقیق‘‘ کو قرار دیا ہے، اس لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جمہور اہل علم کو علم وتحقیق سے عاری سمجھتے ہیں۔ سبحان اللہ!
بہرحال، یہ افتاد طبع کے مسائل ہیں جن میں زیادہ گلے شکوے کی گنجایش غالباً نہیں ہوتی۔ جہاں تک اہل علم کے لیے اجماعی آرا کی پابندی لازم ہونے یا اختلاف راے کا حق حاصل ہونے کی بحث کا تعلق ہے تو چونکہ عم محترم نے اپنا نقطہ نظر حضرت رحمہ اللہ کے حوالے سے بیان کیا ہے جس کے جواب میں کسی باقاعدہ استدلالی مناقشے کو میں ادب واحترام کے منافی سمجھتا ہوں، اس لیے یہاں میں صرف اتنی بات واضح کرنے پر اکتفا کروں گا کہ ان کے اختیار کردہ موقف اور رجحان سے مختلف رجحان بھی امت کی مستند علمی روایت کا حصہ ہے اور اکابر اہل علم نے موقع بموقع اس رجحان کی نمائندگی فرمائی ہے۔ میں یہاں اس کے صرف چند پہلووں کی طرف اختصاراً اشارہ کروں گا:
الف۔ یہ بات محتاج وضاحت نہیں کہ علمی وفقہی تعبیرات میں جس چیز کو ’’اجماع‘‘ کہا جاتا ہے، وہ دراصل ’’اجماع سکوتی‘‘ ہوتا ہے جس میں ایک دور کے بعض اہل علم کی طرف سے اپنی رائے ظاہر کرنے اور باقی اہل علم کی طرف سے کوئی اختلاف سامنے نہ آنے کو ان کی طرف سے اتفاق اور تائید پر محمول کر لیا جاتا ہے۔ اصولیین کا ایک بڑا گروہ اجماع سکوتی کو یا تو سرے سے اجماع اور حجت ہی تسلیم نہیں کرتا اور یا اسے دلیل تو سمجھتا ہے لیکن قطعی حجت کے بجائے صرف ظنی دلیل کا درجہ دیتا ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر اجماع کے حوالے سے لکھی جانے والی تحریروں میں اس بنیادی اصولی بحث سے صرف نظر کر لیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے عم محترم نے اس نقطہ نظر کی نمائندگی میں امام شافعی، ابن تیمیہ اور رازی رحمہم اللہ کی تصریحات کو اپنی معلومات کے مطابق ’’شاذ اقوال‘‘ کہہ کر نمٹا دیا ہے۔ تاہم جس شخص کو بھی اصول فقہ کی درسی کتابوں سے ہٹ کر اس فن کی امہات کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہے، وہ اس ضمن میں اصولیین کے مختلف مسالک سے بخوبی واقف ہے۔ حال ہی میں ’’اجماع اور اس کی شرعی حیثیت‘‘ کے زیر عنوان جامعہ مدینۃ العلوم کراچی کے استاذ مولانا مفتی عبد الغفار ارکانی کی فاضلانہ تصنیف مولانا محمد تقی عثمانی زید مجدہم کی تقریظ کے ساتھ شائع ہوئی ہے جس میں مصنف نے بحث کے ا س پہلو کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اردو خواں حضرات اس کتاب سے زیر بحث نقطہ نظر کا ایک اچھا تعارف حاصل کر سکتے ہیں۔
ب۔ امت کے کم وبیش تمام اکابر اہل علم کے ہاں معروف ومانوس آرا پر علمی اطمینان نہ ہونے کے تناظر میں نئی آرا اور تعبیرات پیش کرنے کی مثالیں کثرت کے ساتھ موجود ہیں اور کسی مبالغے کے بغیر اس طرز کو اہل علم کا ’’متواتر ومتوارث‘‘ طریقہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ اس طرز سے اتفاق نہیں رکھتے، بلکہ ایسی تمام آرا کو کمزور اور مرجوح سمجھتے ہیں، لیکن تمام اکابر اہل علم کے ہاں اس کی مثالیں پائے جانے کو انھوں نے غیر مبہم الفاظ میں تسلیم کیا ہے، چنانچہ طلقات ثلاثہ کے مسئلے میں شاذ رائے پر فتواے کفر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اگر یہی وتیرہ رہا تو ائمہ دین میں سے کسی کی خیر نہیں کیونکہ انھوں نے کسی نہ کسی اجتہادی خطا کا شکار ہو کر کہیں نہ کہیں مرجوح اور کمزور پہلو کو بھی اختیار کیا ہے۔‘‘ (عمدۃ الاثاث ص ۴۶) خود اکابر علماے دیوبند کے ہاں منفرد آرا کی صورت حال یہ ہے کہ والد گرامی مولانا زاہد الراشدی کے بقول ’’اگر کوئی صاحب صرف انھی کو جمع کرنے اور ان پر نقد کرنے میں لگ جائیں تو زندگی بھر کسی اور کام کے لیے انھیں فرصت نہیں ملے گی۔‘‘ (عصر حاضر میں اجتہاد، ص ۳۲۸)
ج۔ اہل علم کا اجماعی آرا سے اختلاف کا یہ حق صرف انفرادی سطح پر رائے رکھنے تک محدود نہیں، بلکہ فقہاے احناف یہ تصریح کرتے ہیں کہ اگر اجتہادی صلاحیت رکھنے والا کوئی صاحب علم منصب قضا پر فائز ہو اور اپنے اجتہاد کی بنا پر فقہا کے کسی اجماعی موقف کے برخلاف فیصلہ کر دے تو محض اجماع کے خلاف ہونے کی بنا پر اس کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دیا جائے گا، بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ نصوص میں علمی طور پر اس کی گنجایش موجود ہے یا نہیں۔ اگر گنجایش موجود ہو تو اس کا فیصلہ نافذ ہو جائے گا، حتیٰ کہ اگر وہی مقدمہ نظر ثانی کے لیے اس سے اوپر کسی دوسرے قاضی کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ محض اس بنیاد پر اس کے فیصلے کو منسوخ کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ (دیکھیے المحیط البرہانی ۹/۴۸۵)
د۔ خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں مرتب کیے جانے والے ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حدود، قصاص ودیت اور شہادت سے متعلق وضع کیے جانے والے متعدد قوانین میں اجتہادی زاویہ نگاہ اختیار کرتے ہوئے نہ صرف فقہاے اربعہ کی متفقہ راے اور امت کے عام تعامل کے برعکس بعض شاذ اور مرجوح فقہی اقوال کو قبول کیا گیا ہے، بلکہ بعض امور میں ماضی کی پوری فقہی روایت سے اختلاف کرتے ہوئے بالکل نیا موقف بھی اپنایا گیا ہے۔ (میں نے اس کی درجن بھر مثالیں ’الشریعہ‘ کے مئی/جون ۲۰۰۹ء کے شمارے میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں جمع کر دی ہیں۔) مثال کے طور پر دیت کی مقدار سے متعلق جس موقف کو ناقدین میری یا بعض اہل علم کی انفرادی راے قرار دے رہے ہیں، وہ اس وقت پاکستان میں قانون کے طور پر رائج ہے اور اسلامائزیشن کے عمل سے وابستہ اہل علم اور مذہبی جماعتوں نے اسے ’’اسلامی قانون‘‘ کے طو رپر قبول کر رکھا ہے۔
جہاں تک اس اشکال کا تعلق ہے کہ اگر علمی وفقہی تعبیرات کے دائرے میں ’’اجماع‘‘ کا تحقق یا ثبوت ناممکن ہے یا اس کی پابندی ہر حال میں ضروری نہیں تو پھر ’لا یجمع اللہ امتی علی ضلالۃ‘ اور اس مفہوم کی احادیث کا کیا محل ہے تو اس نوعیت کے تمام ارشادات کو ان کے درست سیاق وسباق میں دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ ان میں ہر جگہ دین کے وہ اساسی تصورات واعمال زیربحث ہیں جو اسلام کی معنوی حقیقت اور اس کے ظاہری قالب کو تشکیل دیتے ہیں اور جن میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی دین کے بنیادی تصور کو مسخ کر دیتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گزشتہ امتوں کے من حیث الجماعت گمراہی اور ضلالت کا شکار ہو جانے کے تناظر میں یہ فرما رہے ہیں کہ اس امت کو اللہ نے اس سے محفوظ رکھنے کا اہتمام فرمایا ہے او رکبھی ایسا نہیں ہوگا کہ پوری مسلمان قوم اصل دین سے منحرف ہو کر من حیث الامت کسی گمراہی پر مجتمع ہو جائے۔ جہاں تک نصوص کے فہم واستنباط اور علمی وفقہی اور فروعی نوعیت کے امور میں اہل علم کے اختلاف کا تعلق ہے تو وہ سرے سے ان ارشادات کا موضوع ہی نہیں اور نہ یہ کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر ہے کہ اگر ایک دو رمیں امت کے اہل علم کسی علمی یا فقہی مسئلے میں ایک نتیجہ اخذ کر لیں تو ان کے بعد آنے والوں کے لیے نصوص کے فہم اور تعبیر کے فطری اور مسلمہ اصولوں کے دائرے میں بھی ان سے اختلاف کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہے گی۔ مثال کے طو رپر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعات ومحدثات کے مقابلے میں اپنی سنت کے ساتھ ’سنۃ الخلفاء الراشدین‘ کی پیروی کرنے اور اس کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے۔ بدیہی طور پر یہاں ’محدثات الامور‘ سے مراد وہی چیزیں ہیں جو شارع کے مقرر کردہ تصور دین اور اس کے ظاہری ڈھانچے سے مختلف اور اس کو منہدم کر دینے والی ہوں۔ اس ارشاد کو علمی وفقہی امور سے متعلق قرار دے کر خلفاے راشدین کی آرا سے علمی اختلاف کو کسی مجتہد یا فقیہ نے ممنوع قرار نہیں دیا، چنانچہ نہ صرف صحابہ نے علمی مسائل میں خلفاے راشدین سے اختلاف کیا ہے بلکہ بعد کے فقہا نے بھی ایسے مسائل میں خلفاے راشدین کی آرا کی پابندی کو لازم نہیں سمجھا۔ خود فقہاے احناف کے ہاں بہت سے امور میں سیدنا عمر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کی آرا کے مقابلے میں دوسرے فقہاے صحابہ کی آرا کو ترجیح دینے کی مثالیں موجود ہیں جنھیں امام شافعیؒ نے بڑے اہتمام سے اپنی کتاب ’’الام‘‘ میں جمع کر دیا ہے۔ جصاصؓ اور دیگر محقق حنفی اصولیین یہ باقاعدہ موقف رکھتے ہیں کہ چاروں خلفاے راشدین اگر کسی مسئلے پر متفق ہوں تو بھی اسے ’’اجماع‘‘ کا درجہ نہیں دیا جا سکتا اور نہ صرف دوسرے صحابہ ان سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں بلکہ بعد کے اہل علم کو بھی خلفاے راشدین کے مقابلے میں دوسرے فقہاے صحابہ کی آرا کو ترجیح دینے کا حق حاصل ہے۔ والد گرامی مولانا زاہدالراشدی نے اسی تناظر میں بجا طور پر یہ لکھا ہے کہ:
’’اسلام جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا یہ مقام تسلیم نہیں کرتا کہ اس کی بات حرف آخر ہے۔ وہ خلفاے راشدین کو بھی مجتہد کے درجے میں تسلیم کرتا ہے جن کی ہر بات میں خطا اور صواب دونوں کا احتمال موجود ہے اور ان کے کسی بھی فیصلے اور رائے سے اختلاف کی نہ صرف گنجایش موجود ہے، بلکہ بے شمار لوگوں نے ان کی بہت سی آرا سے عملاً اختلاف کیا ہے اور علمی اختلاف سے اسلامی کتب بھری پڑی ہیں۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ، جولائی ۲۰۰۸، ص ۱۷)
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ارشاد میں دین کے معاملے میں نت نئی باتیں پیش کرنے والوں کو دجال وکذاب قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد بھی وہ باتیں ہیں جن سے دین کا بنیادی تصور مسخ ہوتا ہو (جیسے مثلاً تقدیر یا ختم نبوت یا معجزات وغیرہ کا انکار یا خلق قرآن وغیرہ جیسے نظریات کو بطور ایمان واعتقاد پیش کرنا) جبکہ علمی، فقہی اور فروعی نوعیت کے امور اس وعید کے دائرے میں ہرگز نہیں آتے۔ مثال کے طو رپر حضرت شاہ ولی اللہؒ نے مصارف زکوٰۃ سے متعلق آیت کی تشریح اس انداز سے کی ہے کہ اس کے نتیجے میں مصارف زکوٰۃ آٹھ اقسام میں منحصر نہیں رہ جاتے، بلکہ ہر قسم کے مصرف پر زکوٰۃ خرچ کی جا سکتی ہے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے حدیث: ’لن یفلح قوم ولوا امرہم امراۃ‘ کی ایسی تاویل پیش کی ہے جس کے نتیجے میں خود حکم کی علت کی رو سے جمہوری طرز حکومت میں عورت کا حکمرانی کے منصب پر فائز ہونا جائز قرار پاتا ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے سیدنا مسیح علیہ السلام کے نزول کے بعد اسلام کے غلبے کو پوری دنیا تک وسیع ماننے کے بجائے صرف شام کے علاقے تک محدود قرار دیا ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے قرآن مجید کی آیت ’فاتباع بالمعروف‘ کی روشنی میں یہ راے پیش کی ہے کہ دیت کی مقدار وغیرہ سے متعلق احکام اصلاً کسی بھی معاشرے کے عرف پر مبنی ہیں اور ہر معاشرہ اپنی ضروریات کے لحاظ سے مناسب قانون سازی کا اختیار رکھتا ہے۔ یہ تمام آرا ایسی ہیں جو ظاہری لحاظ سے اس سے پہلے ’’نہ تم نے سنیں اور نہ تمہارے آباواجداد نے‘‘ کا مصداق ہیں، لیکن کوئی بھی ہوش مند شخص ان آرا پر مذکورہ وعید کو منطبق کر کے مذکورہ اہل علم کو ’دجالون کذابون‘ کے زمرے میں شمار کرنے کی جسارت نہیں کرے گا۔
مذکورہ امور کی روشنی میں، میں سمجھتا ہوں کہ علمی وفقہی تعبیرات کے دائرے میں ماضی کے اہل علم کے ظاہری اتفاق کو عمومی طور پر ایک علمی دلیل کے طو رپر قبول کرنے کے باوجود اسے دین کی کوئی قطعی حجت نہ سمجھنے اور کسی علمی اشکال یا درپیش عملی ضرورت کی بنیاد پر نصوص کے براہ راست مطالعہ کی روشنی میں اس سے مختلف موقف اختیار کرنے کا طریقہ امت کی مستند علمی روایت سے انحراف نہیں، بلکہ اسی روایت کا ایک تسلسل کے ساتھ چلا آنے والا حصہ ہے، اس لیے حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا اختیار اور پسند کردہ طریقہ اپنے تمام تر استناد، علمی وزن اور ثقاہت کے باوصف امت کی علمی روایت کے مختلف رجحانات میں سے بہرحال ’’ایک‘‘ رجحان کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کی قدر وقیمت کو متعین کرتے ہوئے یہ پہلو کسی حال میں نظروں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے۔
عم مکرم نے اپنے مقالے میں ایک نہایت خوب صورت بات یہ لکھی ہے کہ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے اپنے تمام تر علم وفضل اور عملی مواقع کے باوجود کبھی ’’فرقہ صفدریہ‘‘ کی بنیاد رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ بات بالکل درست ہے، لیکن اس کا یہ پہلو بھی سامنے رہنا چاہیے کہ اپنی ذات یا بعض مخصوص نتائج فکر کو عنوان بنا کر کوئی فرقہ قائم کرنے کا طریقہ اہل حق کے ائمہ اور اکابر کا نہیں، بلکہ اہل ہویٰ کا طریقہ ہے۔ جہاں تک اہل حق کا تعلق ہے تو کسی مخصوص شخصیت کے ساتھ عقیدت یا اس کے بعض مخصوص رجحانات اور نتائج فکر سے وابستگی کی بنیاد پر فرقہ تشکیل دینے کی خدمت عام طور پر اس کے معتقدین انجام دیا کرتے ہیں جس کی ایک قریبی مثال ہم کسی حد تک تبلیغی جماعت کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ بحمد اللہ حضرت رحمہ اللہ کے خاندان، تلامذہ اور حلقہ اثر میں اس رجحان کے آثار نہ ہونے کے برابر ہیں اور نہ صرف عمومی طور علمی اختلاف کی بلکہ حضرت رحمہ اللہ کے مطالعہ وتحقیق کے خصوصی دائرے میں بھی ان کے نتائج تحقیق سے اختلاف کی مثالیں خود ان کے نہایت قریبی حلقہ فکر میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اہل تشیع کی تکفیر کرتے تھے، جبکہ حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ اس سے متفق نہیں تھے۔ وہ نزول مسیح کو ایک اعتقادی مسئلہ قرار دے کر اس کا انکار کرنے والے کو کافر کہتے تھے، جبکہ حضرت صوفی صاحب کی رائے اس سے مختلف تھی۔ وہ ’المہند‘ میں درج تشریح کے مطابق حیات انبیاء علیہم السلام کے نظریے سے اختلاف رکھنے والے کو اہل سنت والجماعت سے خارج قرار دیتے تھے، جبکہ استاذ گرامی مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کی راے یہ ہے کہ یہ ایک فروعی مسئلہ ہے جسے علما کی اجتماعی راے کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ تو کہا جا سکتا ہے، لیکن اس سے اہل سنت والجماعت سے خروج لازم نہیں آتا۔ حضرت رحمہ اللہ نے اپنی کتابوں میں امام زہری کا بھرپور دفاع کیا اور ان کے مناقب بیان کیے ہیں، جبکہ استاذ مکرم مولانا عبد القیوم ہزاروی مدظلہ ابن شہاب کی بیان کردہ بعض روایات کی روشنی میں انھیں اہل تشیع کا کارندہ سمجھتے اور درس حدیث کے دوران میں برملا اس کا اظہار کیا کرتے تھے۔ حضرت رحمہ اللہ بریلوی علما کو ان کے مخصوص عقائد کی بنیاد پر دائرۂ اسلام سے خارج سمجھتے تھے، لیکن والد گرامی مولانا زاہد الراشدی نے ان کا یہ موقف ان کی طرف سے قائل کرنے کی کوشش کے باوجود قبول نہیں کیا۔ متعدد امور کے بدعت ہونے یا نہ ہونے کے ضمن میں بھی ان کی راے سے اختلاف کی مثالیں والد گرامی نے اپنے مضمون میں ذکر فرمائی ہیں۔
چند ماہ قبل والد گرامی نے ڈیجیٹل کیمرے کی تصویر اور ٹی وی وغیرہ کے جواز سے متعلق اپنے نقطہ نظر کا اظہار کیا تو انھیں ایک تحریری اعتراض موصول ہوا کہ ان کا یہ نقطہ نظر حضرت شیخ الحدیثؒ کے موقف کے برعکس ہے، جبکہ خود انھوں نے مدرسہ نصرۃ العلوم میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ہم حضرات شیخین کے نظریات کو ہی اپنا مشن بنا کر اس کے مطابق کام کریں گے۔ والد گرامی نے اس کے جواب میں لکھا کہ:
’’مدرسہ نصرۃ العلوم کے اس سال کے افتتاحی سبق میں حضرات شیخین کے حوالے سے میں نے جو گفتگو کی تھی، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ فروعات وجزئیات میں بھی ہر ہر بات میں ہم ان کی رائے کے پابند ہوں گے۔ اگر ایسا ہے تو پھر کسی مسئلہ پر نہ مطالعہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی تحقیق کی کوئی گنجایش باقی رہ جاتی ہے۔ حضرات شیخین میں بھی بعض مسائل میں آپس میں رائے کا اختلاف رہا ہے اور اس کا اظہار بھی ہوتا رہا ہے، جبکہ فقہ حنفی کی تو بنیاد ہی باہمی بحث ومباحثہ، اختلاف رائے اور کھلے ماحول میں اپنی رائے کے اظہار پر ہے۔‘‘
خود عم مکرم مولانا عبد الحق خان بشیر کی بعض گفتگوئیں اس بات کی شاہد ہیں کہ وہ عملی ضروریات کے تناظر میں نہ صرف اسلامی بینکاری بلکہ اسلامی ٹی وی چینل کے قیام سے متعلق بھی مولانا تقی عثمانی وغیرہ کے موقف کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔
اس تناظر میں، میں یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب اجماعی آرا کی حیثیت واہمیت کے ضمن میں حضرت رحمہ اللہ کے پسندیدہ رجحان سے مختلف ایک مستند علمی رجحان ہمیشہ سے اکابر اہل علم کے ہاں چلا آ رہا ہے تو اس کے ساتھ ذوقی اور فکری مناسبت رکھنے والے افراد کے لیے اختلاف راے کا حق تسلیم نہ کرنا علمی واخلاقی حدود سے تجاوز کے ہم معنی ہے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ بالخصوص پیش نظر رہنا چاہیے کہ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ جیسی وسیع المطالعہ اور بحث کے جملہ اطراف سے کماحقہ واقفیت رکھنے والی شخصیت اگر امت کی علمی روایت میں چلے آنے والے مختلف رجحانات میں سے کسی ایک رجحان کو اپنی تحقیق کی بنیاد پر اختیار کرتی اور اس سے مختلف رجحانات سے اختلاف بلکہ شدید اختلاف رکھتی ہے تو یہ ان کا مسلمہ علمی حق ہے، لیکن اگر ان کے دامن علم وتحقیق سے وابستہ حضرات امت کی وسیع تر علمی روایت، اس کے مختلف ومتنوع رجحانات اور گوناگوں اصولی علمی بحثوں سے براہ راست واقفیت بہم پہنچائے بغیر محض ان کے اختیار کردہ ذوق اور رجحان کی بنیاد پر کوئی کلی نوعیت کا معیار وضع کر کے چودہ سو سال کی پوری علمی روایت کو اس پر پرکھنا اور ماضی وحال کے اہل علم کو یہ سمجھانا شروع کر دیں کہ اس دائرے میں تو آپ کا حق راے ہم تسلیم کرتے ہیں اور اس دائرے میں نہیں کرتے اور پھر اس سے آگے بڑھ کر اپنے ذہن کے لیے نامانوس کسی بھی علمی رجحان یا موقف کے بارے میں ’’شاذ اقوال‘‘ کے تحکمانہ فیصلے کرنے کا منصب بھی سنبھال لیں تو یقینی طور پر ایک مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ حیرت ہے کہ عم محترم کو، جمہور اہل علم کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی راے سے علمی اختلاف کرنا تو ان کی توہین وتنقیص دکھائی دیتا ہے، لیکن وہ ماضی وحال کے تمام اکابر اہل علم کے مسلمہ اور ’’متواتر ومتوارث‘‘ طو رپر برتے جانے والے حق اختلاف کی یہ کہہ کر نفی فرما دیتے ہیں کہ ’’چونکہ ہم اور ہمارے شیخ اس رجحان کو درست نہیں سمجھتے، اس لیے ہم کسی صاحب علم کا یہ حق ہی سرے سے تسلیم نہیں کرتے‘‘ اور اپنے اس طرز عمل میں انھیں ان تمام اہل علم کی توہین وتنقیص کا کوئی پہلو دکھائی نہیں دیتا۔ ع
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
بہرحال یہ انھی کا حوصلہ ہے۔ ہم بحمد اللہ اس معاملے میں توازن اور اعتدال کو پوری طرح ملحوظ رکھتے اور اپنے دامن کو اس غلو سے بچائے رکھتے ہیں کہ امت کے اہل علم کے ہاں پائے جانے والے متنوع اور مختلف رجحانات کو کسی ایک شخصیت کے ذوق ورجحان کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے، چاہے اس شخصیت سے ہمارے قرابت، تلمذ واستفادہ ، محبت وعقیدت اور احترام کے کتنے ہی رشتے کیوں نہ استوار ہوں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توازن اور اعتدال کے ساتھ امت کے تمام اہل علم اور خدام کا احترام کرنے، دین کے فہم اور اس کی تعبیر میں فطری طور پر اختلاف اور تنوع کی جو گنجایش خود شارع نے رکھی ہے، اسے قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کرنے اور مستند علمی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی تعصب اور امتیاز کے بغیر تمام اہل علم اور حلقہ ہاے فکر کی آرا اور تحقیقات سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین