امام اہل سنت تقویٰ کے پیکر مجسم، حلیم ومتواضع، علم وعمل کے بحر بیکراں تھے۔ ان کی اہلیہ آپا سکینہ اور میری اہلیہ، سہیل کی امی سگی بہنیں تھیں۔ یوں ایک کندۂ ناتراش مقدر کے قلم سے امام اہل سنت کا ہم زلف بن گیا۔ مولانا محمد فیروز خان (مہتمم دارالعلوم مدنیہ ڈسکہ) نے میرے رشتہ کی بات چلائی۔ امام اہل سنت نے ان سے فرمایا کہ میری سب سے چھوٹی سالی ہے۔ نہایت شریف النفس، عاجز، منکسر المزاج لڑکی ہے۔ اس کے والد مولوی محمد اکبر مولانا محمد چراغ کے ہم وطن تھے۔ نہایت شریف النفس بزرگ تھے۔ فوت ہو گئے ہیں۔ میری سالی میری حقیقی بیٹیوں کی طرح ہے۔ میرا خیال ہے مولانا، یہ رشتہ آپ کے عزیز کے لیے مناسب رہے گا۔ آپ کا عزیز پڑھا لکھا ہے؟ مولانا فیروز خان نے فرمایا، ہاں وہ ادیب عربی، فاضل عربی کے علاوہ میٹرک اور جامعہ اشرفیہ سے فارغ التحصیل ہے اور اچھا خطیب ہے۔ حضرت نے کہا کہ اچھا پھر آپ ایسا کریں کہ اپنے گھر والوں کو بھیج دیں، وہ آ کر لڑکی کو دیکھ لیں۔ پھر آپ برخوردار کو میرے پاس بھیج دیں، میں اس سے ملاقات کر لوں گا۔ مولانا فیروز خان نے فرمایا کہ حضرت! یہ وہی برخوردار ہے جو ڈسکہ میں ہمارے مدرسے میں پڑھتا رہا ہے اور آپ نے اس کو امتحان بھی لیا تھا۔ امام اہل سنت نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، آپ اسے بھیج دیں۔ پھر ساری کارروائی کے بعد ۲۲ نومبر ۱۹۶۶ء کو مجھے گکھڑ بھیج دیا گیا۔ امام اہل سنت نے میرا انٹرویو لیا:
’’بیٹا، تم نے کیا کچھ پڑھا ہے؟‘‘
میں نے عرض کیا کہ ادیب عربی اور فاضل عربی کے علاوہ دورۂ حدیث جامعہ اشرفیہ سے کیا ہے۔
’’کتاب الطہارۃ پڑھی ہے؟‘‘
میں نے جواب دیا، ہاں۔
’’یہ کتاب کس نے لکھی ہے؟‘‘
عرض کیا کہ یہ تو فقہ اور حدیث کی تمام کتابوں میں بشکل ابواب وفصول ہوتی ہے، مستقل الگ تو کوئی کتاب نہیں۔
’’اچھا یہ بتاؤ کہ نجاست کو دور کرنے کے کتنے طریقے ہیں؟‘‘
میں نے عرض کیا کہ تغسیل، تشمیس، تدلیک اور تفریک۔
’’تشمیس کی کوئی مثال ہے؟‘‘
عرض کیا کہ جی ہاں، جیسے زمین سورج کی تپش سے خشک ہو کر پاک ہو جاتی ہے۔
’’اور تدلیک؟‘‘
عرض کیا کہ جس طرح چھری رگڑ کر صاف کر دی جائے تو پاک ہو جاتی ہے۔
’’فلسفہ بھی پڑھا ہے؟‘‘
میں نے جواب دیا، ہاں۔
’’ہیولیٰ کس کو کہتے ہیں؟‘‘
میں نے کہا کہ حضرت، ہیولیٰ آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا۔ یہ تو بہت مشکل انٹرویو ہے۔
’’ادب بھی پڑھا ہے؟‘‘
عرض کیا جی ہاں۔
’’کیا پڑھا ہے؟‘‘
الطریقۃ الجدیدۃ سے لے کر متنبی، حماسہ، مقامات اور جدید عربی کی کتب سحر لبنان، العبرات، النظرات۔
’اچھا یہ بتاؤ کہ ’’لما اقتعدت غارب الاغتراب‘‘ کس کتاب کی عبارت ہے؟‘‘
میں نے عرض کیا کہ مقامات حریری کی۔
’’اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘
میں کہا کہ ’’جب میں نے سفر کا آغاز کیا‘‘۔
’’چلو، اللہ خیر کرے گا۔ ‘‘
اس کے بعد ۱۸؍ دسمبر ۱۹۶۶ء کو میں حضرت کی خواہر نسبتی کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گیا۔
حضرت کے گھر میں دن بھر مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا۔ ۱۱ بجے سے قبل اگر مہمان آتا تو پرتکلف چائے، اور اگر اس کے بعد آتا تو کھانے کے بغیر ہرگز نہ جانے دیتے۔ میرے بچے، اہلیہ اور میری ہمشیرہ کے بچے، مولانا فیروز خان کی اولاد، اپنی بیٹیوں کی اولاد، کسی مرید کا کوئی بچہ کمرے میں آ جاتا یا لایا جاتا، دم بھی فرماتے اور جیب سے ۵۰، ۱۰۰ اور ۵۰۰ تک کی رقم بھی حسب قرابت عنایت فرماتے۔ ہم کہتے کہ حضرت یہ تکلف نہ کیجیے تو فرماتے مولوی جی، یہ تکلف اسلامی تہذیب کا حصہ ہے۔ آپ اگر جیب بھی ڈھیلی نہ کریں او رکسی کے لیے وقت بھی نہ نکالیں تو لوگ آپ کے نزدیک نہیں آئیں گے۔ بچوں کے ساتھ شفقت، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور مہمانوں کا اکرام ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
ایک موقع پر میری اہلیہ حضرت کی زیارت اور اپنی بہن سے ملاقات کے لیے میری رفاقت میں گکھڑ گئیں۔ دوسرے دن صبح سویرے ہم واپس ڈسکہ جانے کے لیے تیار ہوئے۔ سڑک پر پہنچے تو سفید رنگ کی ایک کار امام اہل سنت کی منتظر تھی۔ حضرت والا آگے آگے سنت نبویہ کے مطابق چل رہے تھے۔ دھیمی، پروقار رفتار، وہی نقشہ جو احادیث میں سرکار کی رفتار کا کھینچا گیا ہے۔ شلوار ٹخنوں سے اونچی، مخصوص قسم کی گورگابی، کرتا، پگڑی، بغل میں کتب، دوہرا جسم، گندم گوں کتابی چہرہ، خندہ زیر لب۔ گاڑی کا دروازہ کھلا۔ حضرت تشریف فرما ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت! گوجرانوالہ تک ہم دونوں بھی پچھلی نشست پر بیٹھ جائیں؟ فرمایا کہ مولوی صاحب! یہ مدرسہ کی گاڑی ہے، رشتہ داروں اور اولاد کے لیے میں اس گاڑی کو استعمال نہیں کرتا۔ پھر جیب میں ہاتھ ڈالا، بیس روپے نکال کر دیے کہ آپ بس میں بیٹھ کر یہاں سے گوجرانوالہ اور وہاں سے ڈسکہ چلے جائیں۔ مجھے عمر بن عبد العزیزؒ یاد آ گئے جنھوں نے مہمان کی آمد پر چراغ بجھا دیا تھا کہ سرکاری چراغ پرائیویٹ گفتگو اور مجلس کے لیے استعمال کرنا حرام ہے۔صدیق اکبر رضی اللہ عنہ یاد آ گئے کہ یہ حلوہ آج کیسے تیار ہو گیا؟ اس کا مطلب ہے کہ ہم بیت المال سے اپنی اصل ضرورت سے زائد رقم وصول کرتے ہیں۔ لہٰذا میری تنخواہ سے آئندہ کٹوتی کی جائے اور اتنی رقم واپس بیت المال میں جمع کی جائے۔
ضلع سیالکوٹ کی عظیم دینی درس گاہ دار العلوم مدنیہ ڈسکہ کے سالانہ جلسے میں، جس کے مہتمم وبانی مولانا فیروز خان حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے شاگرد رشید ہیں اور انھی سے بیعت بھی ہیں، ہمیشہ شرکت فرماتے۔ کیا خوب صورت منظر ہوتا! حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمی خطیب پاکستان، حافظ اللہ داد مرحوم گجرات، مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری مرحوم، شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان مرحوم، خطیب اسلام حضرت قاضی احسان احمد شجاع آبادی مرحوم۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ علم وعمل کی ایک کہکشاں ہے جو دار العلوم کے اسٹیج پر سج گئی ہے۔ جب امام اہل سنت کی تشریف آوری ہوتی اور اسٹیج سے نعرہ بلند ہوتا تو حضرت شیخ القرآن فرماتے، وہ مسلک دیوبند کا کتب خانہ آ گیا۔ حافظ اللہ داد مرحوم فرماتے: ’’لوگو، تمہیں کیا معلوم کہ گکھڑ کا یہ مولوی حدیث کے راویوں کا کتب خانہ اور اسلام کی لائبریری ہے۔ جس جس نے ان کی تقریر غور سے سن لی، وہ جلسے سے اسماء الرجال کا فن سیکھ کر جائے گا۔‘‘ معلوم نہیں، کس عالم دین کا گکھڑ کی مرکزی جامع مسجد میں خطاب تھا۔ انھوں نے کوئی حدیث بیان کی تو خواتین کی گیلری سے ایک چٹ آئی جس پر لکھا تھا کہ اس حدیث میں فلاں راوی ضعیف ہے۔ گویا امام اہل سنت کا درس تسلسل سے سننے والے بھی عالم بن گئے۔
گکھڑ کے نارمل اسکول میں عرصہ دراز تک درس قرآن کا سلسلہ جاری رہا۔ آپ اپنے گھر سے نارمل اسکول تک ہمیشہ پیدل جاتے۔ تمکنت، وقار کی اس چال سے دور سے دیکھنے والے یوں سمجھتے تھے جیسے زمین لپٹتی جا رہی ہے۔ نارمل اسکول میں اردو پڑھانے والے ایک استاد راتھر صاحب تھے۔ ایک دفعہ راقم بھی محض شوقیہ او ٹی کلاس میں شریک ہو گیا۔ ہمارے ایک ساتھی مولانا مطیع الرحمن وہاں اوٹی کلاس میں پڑھ رہے تھے۔ راتھر صاحب نے اردو پڑھاتے ہوئے بال جبریل کی ایک نظم کی شرح فرمانا شروع کی تو اٹک گئے۔ فرمانے لگے، کل پڑھاؤں گا۔ نظم کا بند یہ تھا:
رگ تاک منتظر ہے تری بارش کرم کی
کہ عجم کے مے کدوں میں نہ رہی مے مغانہ
یہ تاک کی رگ کیا ہے؟ دوسرے دن حضرت شیخ سے میں نے خود پوچھا کہ حضرت، یہ تاک تو تانکنے جھانکنے کو کہتے ہیں، رگ کہاں سے آ گئی؟ فرمایا، مولوی صاحب! تاک انگور کی بیل کو کہتے ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ اللہ کے کرم کی بارش ہو تاکہ انگور پھلے پھولے اور مے پیدا ہو، یعنی امت پر اللہ کی رحمت نازل ہو جو کہ انگور کی بیل کی مانند ہے، تاکہ عجم میں حجازی نشہ پیدا ہو کر دین کی سمجھ پیدا ہوا۔ ہم نے موقع غنیمت جانا اور ایک اور نظم اسکول کے گیٹ تک آتے آتے پوچھ لی:
قلب ونظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں
چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں
فرمایا، بھئی صحرا میں چلے جاؤ او رجا کر طلوع آفتاب کا منظر دیکھو۔ اتنا سہانا اور خوب صورت منظر دل کو جو سکوں اور نظر کو جو طراوت بخشتا ہے، یہی تو زندگی کا لطف ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آفتاب کے چشمے سے نور کے دریا بہہ رہے ہوں۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ راہ سنت، تبرید النواظر، ازالۃ الریب، صرف ایک اسلام، تسکین الصدور، شوق حدیث، احسن الکلام اور حضرت کی دیگر تصانیف میں برمحل اشعار کا استعمال اسی ادبی ذوق کا آئینہ دار ہے۔
ایک دن میں نے سوال کیا کہ حضرت، پرویزی اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عروہ کے سوال پر انھیں غسل کر کے دکھایا تو آخر اس کی کیا ضرورت تھی، ویسے ہی بتا دیتیں کہ اتنا پانی کافی ہے۔ فرمایا کہ مولوی جی، انھوں نے صرف اپنے بھانجے عروہ کو مسئلہ نہیں بتانا تھا۔ وہ تو پوری امت کی ماں اور معلمہ تھیں۔ صحابہ کو جب بھی کوئی علمی مشکل پیش آتی تھی، وہ اس کے حل کے لیے حضرت عائشہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ صدیقہ کائنات سے بڑا فقیہ اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کا وارث شاید ہی کوئی اور ہو۔
۱۳؍ مارچ ۱۹۷۷ء کو میں حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے کنگ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ کے شریعہ کالج مکہ مکرمہ میں قانون کی اعلیٰ تعلیم کے لیے روانگی کے لیے تیار ہوا۔ گکھڑ حاضر ہوااور حضرت سے عرض کیا کہ کوئی نصیحت فرمائیے۔ فرمایا کہ مولوی صاحب، وہاں ریالوں اور علم کا مقابلہ ہوگا۔ مجھے تب خوشی ہوگی کہ علم جیت جائے اور ریال ہار جائیں۔ مطلب یہ تھاکہ دولت کے پیچھے نہ بھاگنا، علم حاصل کرنا۔ فرمانے لگے کہ وہاں جا کر بہت سے لوگ حنفیت چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ اگر آپ نے لائبریریوں کو کھنگال لیا تو حنفیت کہیں نہیں جائے گی، اور اگر رٹا ہی لگاتے رہے تو پھر جو کچھ پاس ہے، وہ بھی گنوا کر آئیں گے اور تقلید چھوڑ کر ’’گواچی گاں‘‘ (آوارہ گائے) بن جائیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ کیا لائبریریوں کا سارا مواد حنفیت پر ہے؟ تو فرمایا کہ نہیں، سارا مواد حنفیت پر نہیں۔ لائبریریوں میں علم کا ذخیرہ ہے اور ہر وہ شخص جو علم کے سمندرمیں غوطہ زن ہوگا، اسے اس میں امام ابوحنیفہ کے موتیوں کی لڑیاں ملیں گی۔ علم اور حنفیت کا تعلق ابوت اور بنوت کا ہے۔ جیسے کوئی شخص اولاد کے بغیر باپ نہیں کہلا سکتا اور کوئی شخص باپ کے بغیر بیٹا نہیں کہلا سکتا۔ علم دین کا جو ذخیرہ آپ کو حنفی فقہ میں ملے گا، دوسرے ائمہ کے ہاں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ملے گا۔
بالکل یہی بات مجھ سے مولانا مودودی مرحوم نے فرمائی۔ میں ان سے بھی ملا اور ان سے بھی نصیحت کی درخواست کی تو انھوں نے فرمایا کہ محترم، وہاں اکثر لوگ جا کر ریال کمانے لگ جاتے ہیں۔ آپ جس غرض کے لیے بھیجے جا رہے ہیں، اگر آپ نے اس مقصد کو پورا نہ کیا تو یہ اپنے آپ کے ساتھ بھی اور حکومت آزاد کشمیر کے ساتھ بھی بد دیانتی ہوگی۔ آپ سرکاری ملازم ہیں، قاضی کے منصب پر فائز ہیں۔ اگر آپ نے ریال کمانے شروع کر دیے اور علم سے کنارہ کش ہو گئے تو یہ اپنے منصب سے خیانت ہوگی اور پھر شرعاً آپ قضا کے اہل نہیں رہیں گے۔
مولانا مودودی کے ذکر سے بہت سے احباب چیں بہ جبیں ہوں گے، لیکن میرا موقف یہ ہے کہ خذ ما صفا ودع ما کدر، جہاں سے اچھی بات ملے، لے لو اور جو اختلاف ہے، اسے اپنی جگہ برقرار رکھو۔ مولانا مودودی کی نہ تمام تحریرات غلط ہیں نہ تمام تحریرات سے ہمیں اتفاق ہے۔ نسل نو میں دینی حمیت اور غیرت اور نظام اسلام کو ایک دستوری حیثیت میں متعارف کرانے میں ان کے کردار کا انکار کرنا بھی قرین انصاف نہیں۔ ہم تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول پر عمل پیرا ہیں: لا تنظر الی من قال وانظر الی ما قال۔
مکہ مکرمہ سے ہر سال آتا تو گکھڑ ضرور حاضری ہوتی اور جب روانگی ہوتی تو حضرت فرماتے کہ مولوی جی، میری طرف سے روضہ پاک پر درود شریف پیش کر دینا۔
تاریخ، ادب، ثقافت، نفسیات، فقہ، شاید ہی کوئی ایسا فن ہوگا جس پر آپ کی علمی گرفت نہ ہو۔ ہر فن کی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی کتاب کے مصنف، تاریخ پیدایش، تاریخ وفات، کتاب کے موضوعات، امتیازات اور خصوصیات پر اتنی گہری نظر میں نے دور حاضر میں کسی عالم دین میں نہیں دیکھی۔ ابن حجر عسقلانی، قسطلانی، امام ذہبی، خطیب بغدادی، ملا علی قاری، امام جلال الدین سیوطی کی تصانیف اور دور حاضر میں مولانا حسین علی مرحوم کی تفسیر بلغۃ الحیران، مولانا مدنی کی نقش حیات، علماء ہند کا شاندار ماضی، ملفوظات احمد رضا خان بریلوی، فتاویٰ رضویہ، امداد الفتاویٰ اور حجۃ اللہ البالغہ کے حوالے انھیں ازبر تھے۔
آخری ایام میں پیر طریقت حضرت مولانا سیف اللہ خالد صاحب مہتمم جامعہ منظور الاسلامیہ جن سے میری رفاقت ۴۰ سال پر محیط ہے، مولانا عبد الرؤف فاروقی خطیب مسجد خضریٰ سمن آباد، مولانا منور صاحب خطیب صدر بازار لاہور، ان تینوں حضرات نے فقیر سے رابطہ کیا اور فرمایا کہ آئیے، ہم سب مل کر حضرت کے پاس چلتے ہیں اور ان سے استفسار کرتے ہیں کہ کیا مسئلہ حیات وممات اصولی مسائل میں سے ہے یا افتراق علماے دیوبند کا سبب ہے اور کیا موجودہ حالات میں اس مسئلہ پر رسہ کشی مسلک علماے دیوبند کے لیے سودمند ہے یا ضرر رساں؟ چنانچہ ہم ۲۱؍ اپریل کی ایک تپتی دوپہر کو مولانا کے دولت کدہ پر حاضر ہوئے۔ لاہور سے آئے ہوئے تینوں حضرات پہلے سے موجود تھے۔ انھوں نے فقیر سے فرمایا، آپ پوچھیں۔ امام اہل سنت کے فرزند قاری شاہد صاحب موجود تھے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت! مسئلہ حیات وممات اصولی مسائل میں سے ہے یا فروعی مسائل میں سے؟ آپ نے فرمایا، فروعی مسائل میں سے ہے۔ پوچھا کہ جو شخص حیات کا قائل نہیں، اس کے پیچھے نماز پڑھ لینا درست ہے؟ جواب دیا کہ مکروہ ہے۔ میرا وہی مسلک ہے جو مفتی مہدی حسن مفتی دار العلوم دیوبند کا ہے۔ قاری شاہد سے فرمایا کہ جاؤ، فتاویٰ دار العلوم نکال کر لاؤ، اس میں دیکھ لو۔ میں نے پوچھا کہ ایسا شخص جو حیات النبی کا قائل نہیں، مسلک دیوبند سے تعلق رکھتا ہے؟ فرمایا، نہیں۔ وہ اہل سنت سے نہیں، مگر مسلمان ہے۔ جیسے اور بہت سے مسائل میں اختلاف کے باوجود ہم کسی کو دائرۂ اسلام سے خارج نہیں سمجھتے، اسی طرح اس مسئلہ میں بھی۔ بہرحال اب اس دور میں ایک بجھی ہوئی آگ کو دوبارہ چنگاریاں کرید کر جلانا اچھی بات نہیں۔ میں نے آپ کی یہ گفتگو ریکارڈ کر رکھی ہے۔ ہم سب حیران ہو گئے کہ اس شدید تکلیف میں سوال سنا، کتاب کا نام ایاد، مفتی مہدی حسن کا نام یاد۔ اللہ اللہ کس قدر حافظہ تھا۔
۴؍ مئی کی شب کو فقیر دینہ میں ایک عزیز کے ہاں قیام پذیر تھا۔ صبح سویرے راول پنڈی کے لیے روانہ ہوا۔ ابھی روات پہنچا تھا کہ فرزندم محمد اویس خان (تحصیل قاضی پلندری) کا ایس ایم ایس ملا جس میں تحریر تھا کہ عالم اسلام کی عظیم شخصیت، امام اہل سنت گزشتہ شب ڈیڑھ بجے انتقال فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ چار بج کر پچپن منٹ پر ہم گکھڑ پہنچے تو گکھڑ کا جی ٹی روڈ میدان عرفات کا منظر پیش کر رہا تھا۔ وزیر آباد سے کامونکی تک ٹریفک جام تھی۔ گکھڑ میں امام اہل سنت کے گھر کو جانے والی گلی کے قریب بریلوی حضرات کی مسجد میں لوگوں کا جم غفیر وضو کر رہا تھا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ بریلوی حضرات نے مسجد کے دروازے وضو کرنے والوں کے لیے وا کر دیے تھے، اگرچہ بعد میں معلوم ہوا کہ کچھ لوگ ہمارے چلے جانے کے بعد مسجد کو دھو رہے تھے۔ یہ معلوم نہ ہو سکا کہ دیوبندیوں کے داخلے کی وجہ سے دھو رہے تھے یا ویسے ہی صفائی کر رہے تھے۔ واللہ اعلم
گورنمنٹ ڈی سی اسکول کا گراؤنڈ بھرا ہوا تھا۔ جی ٹی روڈ مکمل طو رپر جام تھی۔ تاحد نگاہ انسانوں کا سیل رواں تھا۔ اس عظیم اجتماع کی نظیر گوجرانوالہ کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پاکستان بھر سے مدارس کے طلبہ، علما، پیران طریقت، محدثین وفقہا، خطبا ووعاظ، سیاست دان، غرضیکہ معاشرے کے صالح اور نیکو کار افراد کا گویا گلستاں سج گیا۔ مشتاقان دید کے جم غفیر کے سامنے سرکاری انتظامی مشینری بے بس ہو گئی۔ اسٹیج سے بار بار کی جانے والی درخواست کے باوجود لوگ دیوانہ وار دیدار کے لیے چارپائی کی طرف لپکتے تھے۔ بالآخر آپ کے فرزند اکبر شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی نے اللہ اکبر کہہ کر نماز جنازہ کا آغاز کر دیا۔ اسلام کے نظام صلوٰۃ کا معجزہ ہے کہ تکبیر کے بعد ایسا سکوت طاری ہوا کہ سوئی تک گرنے کی آواز سنائی دے۔ سلام کے بعد فور ی طور پر جنازہ وین میں رکھا گیا اور تقریباً ۶ بجے آسمان علم کا یہ آفتاب عالم برزخ میں ضوفشانی کے لیے لحد میں اتار دیا گیا۔
کچھ ایسے بھی اٹھ جائیں گے اس بزم سے جن کو
تم ڈھونڈنے نکلو گے مگر پا نہ سکو گے
پون صدی پہلے دو بھائی، محمد سرفراز خان اور عبد الحمید ولد نور احمد خان مانسہرہ سے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کر کے لاہور، مرہانہ تحصیل ڈسکہ، وڈالہ سندھواں، فیصل آباد، ملتان، گوجرانوالہ اور دیوبند سے ہوتے ہوئے جب گکھڑ اور گوجرانوالہ پہنچے تو تنہا تھے، لیکن عروج وسربلندی، سرفرازی ودل نوازی دونوں بھائیوں کے ماتھے کا جھومر بنی اور پھر ۶؍ اپریل ۲۰۰۸ء اور ۵؍ مئی ۲۰۰۹ء کو چشم فلک نے دیکھا کہ ان کے سفر آخرت کے موقع پر عقیدت مندوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ دلوں پر حکمرانی کرنے والوں کے اقتدار کو بندوقوں، ہتھکڑیوں، جیل کی سلاخوں کے زور پر کوئی آمر نہیں چھین سکتا۔ دل کی دنیا اور ہے، من کی دنیا کا رنگ ڈھنگ الگ ہے۔ وہ مر کر بھی امر ہیں۔ احمد علی لاہوری سے لے کر حق نواز شہید، ضیاء الرحمن فاروقی شہید، اعظم طارق شہید، محمد یوسف لدھیانوی شہید، حضرت بنوری، شیخ القرآن غلام اللہ خان، پیر نصیر الدین نصیر مرحوم، اللہ ان سب کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔