مولانا قاری عبدالباری جامعہ اسلامیہ دارالعلوم سرحد پشاور سے فارغ التحصیل ہیں۔ راقم کے ہم سبق رہ چکے ہیں۔ ۱۹۸۷ء میں مدرسہ سے فراغت کے بعد علم کے ساتھ عمل کے میدان کو منور کرنے کے لیے حضرت مولانا قاری شیر محمد بونیری کی معیت میں سال کی جماعت کے ساتھ تبلیغ پر چلے گئے۔ اس کے بعد ان کا زیادہ تر وقت درس وتدریس اور تبلیغ میں گزرتا ہے۔ انتہائی ملنسار، پرہیزگار اور سیدھے سادے آدمی ہیں۔ آج کل پشاور یونیورسٹی میں فارسٹ کالج کی مسجد میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ نماز عشا کے وقت قرآن پاک کادرس بھی دیتے ہیں۔ خوش آواز بھی ہیں، اس لیے لوگ ان کے درس میں شوق وذوق سے بیٹھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں راقم الحروف یونیورسٹی جاتے ہوئے چند منٹ کے لیے ان کی ملاقات کے لیے ان کے دولت کدہ پر گیا تو انھوں نے امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ سے متعلق اپنا خوب صورت خواب سنایا جسے قلم بند کر کے میں قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
قاری صاحب نے کہا کہ ۲۰۰۶ء کی بات ہے کہ میں درس قرآن دے رہا تھا۔ پہلے دن میں نے سورۂ مائدۃ کی آیت نمبر ۵ ’’الْیَوْمَ أُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حِلٌّ لَّکُمْ‘‘ کا درس دیا۔ دوسرے دن جب آیت نمبر ۶ ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلاۃِ فاغْسِلُواْ وُجُوہَکُمْ وَأَیْْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ‘‘ کا درس دیا تو ایک صاحب نے سوال کیاکہ اس آیت مبارکہ کاماقبل آیت سے کیا تعلق ہے؟ وہاں نکاح سے متعلق احکام ہیں اور یہاں وضو کے مسائل کی تفصیل ہے۔ میں نے اپنی کم علمی اور طالبانہ سطح کے مطابق جواب تو دے دیا، لیکن گھر آکر سوچ میں پڑ گیا کہ معلوم نہیں، میرا جواب صحیح تھا یا غلط؟ اگر جواب غلط دیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں پکڑ ہوگی۔ ابھی تو جان چھڑالی ہے، لیکن کل قیامت کے دن کیا جواب دوں گا؟
عشا کا وقت تھا۔ اسی فکر میں جواب کی تلاش کے لیے گھر میں موجود تفاسیر دیکھنے لگا۔ جلالین اٹھائی، ربط نظر نہیں آیا۔ معارف القرآن میں دیکھا، جواب نہ ملا۔ مواہب الرحمن اٹھائی، تسلی نہیں ہوئی۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے اور اوراق پلٹتے پلٹتے تکیے کا سہارا لیا تو آنکھ لگ گئی۔ نیند کی وادی میں چلا گیا تو دیکھتاہوں کہ اپنی ہی مسجد میں اسی جگہ درس دے رہا ہوں۔ یہی آیات ہیں اور لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اتنے میں ایک آدمی دوڑتاہو ا اند رداخل ہوا اور مجھے مخاطب کرکے کہاکہ باہر دروازے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں۔ آپ کے ساتھ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی ہیں اور اندر آنا چاہتے ہیں۔ میں درس چھوڑ کر دروازے کی طرف لپکا تورحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کوساتھ لے کر صحن مسجد میں پہنچ چکے تھے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فقیر وحقیر کو اپنے سینہ مبارک کے ساتھ لگایا۔ اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق نے بھی معانقہ کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت سے متعلق مجھے سمجھا نے لگے اور ساتھ ساتھ فرمایا کہ تم پریشان کیوں ہوتے ہو؟ اتنی آسان بات ہے اور تم حد سے زیادہ پریشان ہو گئے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے سمجھا رہے تھے اور تسلی دے رہے تھے جبکہ حضر ت ابوبکر صدیق مسکرا رہے تھے۔ انہوں نے بھی کہا کہ آسان بات تھی، تمہاری پریشانی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تشریف لائے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو درس کے لیے اپنی نشست پر بٹھاؤں تو آپ نے فرمایا کہ اگر ترجمہ وتفسیر میں کوئی مشکل پیش آجائے تو پریشان نہ ہونا، بلکہ مولانا سرفرازخان صفدر سے پوچھ لینا، وہ پیچیدگی حل کر دیں گے۔ یہ کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضوبنا نے کے لیے تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ تھے اور میں بھی ان کی معیت میں وضو کرنے کے لیے وضو خانہ کی طرف چل پڑا۔
(یہ یادر ہے کہ قاری صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت ان کے ذہن میں دور دور تک حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ؒ کا خیال نہیں تھا۔ زندگی میں صرف ایک مرتبہ ۱۹۸۷ء میں انھیں مولانا کی زیارت ہوئی تھی۔ وہ یوں کہ دورہ حدیث کے بعد وہ سال کی جماعت کے ساتھ گئے ہوئے تھے اور رائے ونڈ میں عربوں کی جماعت کے ساتھ ان کی تشکیل ہوئی تھی۔ اس سفر میں تین دن انھوں نے حضرت کی مسجد میں گزارے۔ حضرت کا صبح کا درس سنا، زیارت کا شرف حاصل ہوا، خیریت دریافت کی اور حضرت نے دعاؤں سے نوازا۔ زندگی میں یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔)
میرا دل چاہ رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سے سوالات پوچھوں اور مسائل دریافت کروں۔ میں وضو بنا کر جونہی درس گاہ کی طرف آیا تو کیا دیکھتاہوں کہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ میری جگہ پر بیٹھ کر انہی آیات کا درس دے رہے ہیں۔ میں نے مولانا صفدر کو دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ تو وہی شیخ صفدر ہیں جن کو میں نے ۱۷سال قبل گکھڑ کی مسجد میں دیکھا تھا اور ملاقات کا شرف حاصل کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی وضو بناکر واپس نہیں آئے تھے۔ میں حضرت شیخؒ کے قریب ہو کر بیٹھ گیا تو حضرت نے مجھے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ تم پریشان ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آئندہ ایسی فکر میں مبتلا نہ ہونا۔ دیکھومیں تمہیں ان آیات میں ربط سمجھا تا ہوں۔ فرمایا کہ طہارت دوقسم کی ہے۔ ایک طہارت باطنی اور دوسرے طہارت ظاہری۔ آیت نمبر ۵ میں طہارت باطنی کا بیان تھا اور آیت نمبر ۶ میں طہارت ظاہری کا ذکر ہے۔ پھرمجھ سے فرمایا کہ اب بتاؤ، میں نے کیاکہا؟ میں نے ان کے بتائے ہوئے الفاظ کو دہرایا تو پھرمجھے مزید سمجھایا۔ اس کے بعد ہم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جانے لگے جہاں آ پ وضو بنا رہے تھے۔ ابھی راستے ہی میں تھے کہ میر ی بچی نے مجھے جگا دیا۔
جب میں اٹھا تو ایک طرف خوشی ومسرت کی انتہا نہ تھی، اور دوسری طرف خفا بھی تھا کہ اگر بچی مجھے نہ جگاتی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرصدیقؓ کی مزید ملاقا ت وزیارت کا شر ف حاصل کرتا اور حضرت شیخ صفدرؒ کی رفاقت میں کچھ مزید استفادہ کرتا۔ انھی خیالات میں تھا کہ تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ آنکھ لگ گئی۔ اب خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں انہی آیات کادرس دے رہا ہوں اور خواب کی حالت میں اپنا خواب بیان کرتے ہوئے یہ پورا واقعہ درس میں موجود لوگوں کوسنار ہا ہوں۔ میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرصدیقؓ یہاں تشریف لائے تھے اور انہوں نے مجھے فرمایا کہ اگر ترجمہ وتفسیر میں کوئی مشکل پیش آئے تو مولانا سرفراز صفدرؒ سے دریافت کر لینا۔ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مولانا سرفراز صفدرؒ بھی تشریف لائے تھے اور انہوں نے ان آیات کے باہمی ربط سے متعلق یہ فرمایا ہے۔
خواب سے بیداری کے بعد نیند تو چلی گئی اور اب آنکھوں میں نیند کے بجائے خوشی اور مسرت کے آنسو رواں تھے۔ مچھلی جس طرح بغیر پانی کے تڑپتی ہے، میرا حال بھی وہی تھا کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیقؓ سے زندگی میں دوبارہ ملاقات کیونکر ہوگی۔ یہ خیال بھی آیا کہ شیخ صفدرؒ سے، جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی پسند کرتے ہیں اور جو آپ کی علمی وراثت کے صحیح جانشین اور امین ہیں، ان سے ملاقات کیسے کی جائے، کیونکہ اگر ان کی طرف نکلتا ہوں تو سال کی جماعت کے ساتھ جانے سے رہ جاؤں گا جس کا مجھے د وتین دنوں میں انتظام کرنا ہے۔ اسی دوران ذہن میں یہ بات آئی کہ قصہ خوانی جاکر حضرت شیخؒ کی تفسیر کہیں سے تلاش کرتا ہوں تاکہ اس تفسیر میں ربط دیکھوں جو آپ نے خواب میں سمجھایا ہے۔ قصہ خوانی میں تلاش بسیار کے باوجود آپ کی تفسیر تو نہیں ملی، البتہ سورۃ مائدہ کا درس کیسٹ میں دستیاب ہو گیا۔ میں نے وہ لے لیا۔ پھر ٹیپ ریکارڈر کی ضرورت تھی، وہ بھی خرید کرگھر آیا اور ان دونوں آیات کاربط سنا۔ ہو بہو وہی تفسیر تھی جو آپ ؒ نے خواب میں مجھے سمجھائی تھی۔